ذاتی مشاہدات و تجربات کی روشنی میں ایک فکر انگیز تحریر
زندگی مسائل سے عبارت ہے ، ہر شخص کسی نہ کسی مسئلے کی وجہ سے الجھن کا شکار رہتا ہے اور قدم قدم پر زحمتیں اٹھاتا ہے ، ہم روزانہ اپنے آفس میں ایسے لوگوں سے ملتے رہتے ہیں جو مختلف قسم کے مسائل کا شکار ہوتے ہیں ، خطوط اور ای میلز کے ذریعے بھی لو گوں کے مسائل اور مشکلات ہمارے علم میں آتے رہتے ہیں ، مناسب تدبیر اور کوشش سے یہ مسئلے حل بھی ہوجاتے ہیں اور لوگ مشکلات سے نجات پالیتے ہیں لیکن کچھ لوگ ہمارے مشاہدے میں ایسے بھی آتے ہیں جن کے مسئلے کبھی حل نہیں ہوتے اور مشکلات کبھی ختم نہیں ہوتیں ، ہم ایک طویل عرصے سے ایسے لوگوں کا ریکارڈ مرتب کر رہے ہیں کیوں کہ ہمارے بہترین مشورے ، ہدایات ، روحانی امداد ایسے لوگوں پر ہمیشہ غیر موثر رہے لہٰذا ایسے کیسوں میں ہماری خصوصی دلچسپی ہونا ایک لازمی امر ہے ، ہماری اس بات کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ ان لوگوں کے مسائل اور مشکلات کا کوئی حل ہی نہیں تھا یا ہم ان کے مسائل کو سمجھ ہی نہ سکے تھے ، ایک علم نجوم سے معقول واقفیت رکھنے والا اس حوالے سے کبھی ناکام نہیں ہوتا ، وہ پے چیدہ سے پے چیدہ مسئلے کی تہہ میں پہنچ جاتا ہے لیکن اوِل تو مسئلے کے بنیادی اسباب پر کھل کر اظہار خیال نہیں کرسکتا ، کیوں کہ یہ اظہار خیال سائل کے لےے ناقابل برداشت بھی ہوسکتا ہے ، دوسری بات یہ کہ ایسے لوگ ہدایت پر پوری طرح عمل پیرا نہیں ہوتے یا ان کے پاس کسی مشورے اور ہدایت پر عمل نہ کرنے کے سو جواز اور بہانے ہوتے ہیں ، درحقیقت یہ لوگ اپنے حالات کو بدلنا تو چاہتے ہیں لیکن خود کو بدلنا نہیں چاہتے یا شاید خود کو بدلنے کی اہلیت نہیں رکھتے ، روحانی طورپر خود انہیں بدلنے کی کوشش اول تو خاصی مہنگی پڑتی ہے اور اگر ہمت کرکے یہ کوشش کرلی جائے تو یہ لوگ اس کوشش کو بھی ناکام بنا دیتے ہیں ، صرف ایک مثال سے ہماری اس بات کا اندازہ لگایئے ۔
بہت پہلے کی بات ہے ، شاید 1999ءمیں جب ہم روزنامہ جرات کے آفس میں اتوارکے روز دو تین گھنٹے کے لےے بیٹھا کرتے تھے ، ملاقات یا مشورے کی کوئی فیس نہیں تھی ، ایک صاحب کے الم ناک حالات اور مسائل سن کر ہم نے ان کا اسم اعظم ترتیب دیا اور انہیں پابندی سے پڑھنے کی ہدایت کی ، تقریباًدو تین ماہ بعد وہ دوبارہ تشریف لائے اور پھر اپنی پریشانیاں بیان کرنا شروع کیں تو ہم نے پوچھا کہ آپ اپنا اسم اعظم پڑھ رہے ہیں؟ انہوں نے چونک کر جواب دیا ” ہاں اچھا یاد دلایا آپ نے ، آپ کے دیے ہوئے اسم اعظم سے تو میرے حالات اور بھی خراب ہوگئے ہیں ، ایک ہفتے میں میری طبیعت خراب ہوگئی پھر میں ایک بزرگ کے پاس گیا تو انہوں نے بتایا کہ تم جو اسمائے الٰہی پڑھ رہے ہو وہ نہایت جلالی ہےں ، انہی کی وجہ سے تم بیمار ہوئے ہو “
اب آپ سوچئے کہ ہمارا کیا حال ہوا ہوگا ؟ ہم نے ان سے پوچھا کہ اب ہمارے پاس کیوں آئے ہو ؟ تو فرمانے لگے کہ آپ کوئی دوسرا اچھا سا اسم اعظم نکال دیں ، ہم نے عرض کیا کہ تمام اسمائے الٰہی اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ اللہ کے نام آپ کو راس نہیں آرہے ، اگرآپ کہیں تو کچھ شیاطین کے نام نکال دوں ۔ وہ ہماری شکل دیکھنے لگے ، حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگوں میں ایمان کی سخت کم زوری ہوتی ہے اور وہ کسی چیز سے بھی مطمئن نہیں ہوتے البتہ اپنے طور پر کچھ تصورات قائم کرکے بیٹھ جاتے ہیں، ہمارے مشاہدے اور تجربے میں ایسے بے شمار لوگ ہیں اور بعض تو سال ہا سال ہمارے پاس آتے رہے اوراب بھی آتے ہیں، برسوں پہلے جیسے تھے ،آج بھی ویسے ہی ہیں ۔ایسے لوگوں کے زائچے اُن کی بنیادی کمزوریوں اور خرابیوں کی نشان دہی کرتے ہیں لیکن یہ خرابیاں یا کمزوریاں اگر انہیں بتا بھی دی جائیں تووہ انہیں تسلیم نہیں کرتے کیوں کہ وہ تو اپنے طور پر اپنے مسائل کی وجوہات خود طے کیے بیٹھے ہوتے ہیں مثلاً اکثر کا خیال یہ ہوتا ہے کہ اُن پر کسی قسم کے بداثرات ہیں، کسی نے دشمنی میں بندش کرادی ہے یا اُن کے کچھ دشمن مستقل اُن کے خلاف جادو ٹونا کرتے رہتے ہیں،حد یہ کہ اپنی جسمانی بیماریوں کے بارے میں بھی وہ یہی سمجھتے ہیں کہ کسی نے کچھ کرادیا ہے،اُن کے ان تصورات کو نام نہاد جعلی عامل اور کم علم مولوی حضرات مزید تقویت دینے کا باعث بنتے ہیں،ایسے لوگوں میں بھی کئی اقسام پائی جاتی ہیں لیکن اکثریت نفسیاتی مریضوں کی ہوتی ہے۔
چند روز قبل ایک خاتون اور ایک صاحب ہمارے پاس آئے اور ایک زائچہ بنانے کی فرمائش کی، ہم نے زائچہ بنانے کے بعد حسبِ معمول دریافت کیا کہ آپ کیا معلوم کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ شادی کے بارے میں دریافت کرنا ہے کہ کب ہوگی؟ زائچہ کسی اور صاحب کا تھا جو ساتھ نہیں آئے تھے،اُن کے قریبی عزیز تھے،صاحبِ زائچہ کی عمر تقریباً 35 یا 36 سال ہوچکی تھی مگر ابھی تک شادی نہیں ہوئی تھی،زائچے میں روایتی طور پر ایسی کوئی بات نہیں تھی جسے شادی میں رُکاوٹ کی وجہ قرار دیا جاسکے،مادّی طور پر کافی خوش حال ، تعلیم یافتہ شخص تھے،کسی بینک میں اعلیٰ عہدے پر کام کر رہے تھے،ہم نے خاتون سے پوچھا کہ یہ صاحب شادی کرنا بھی چاہتے ہیں یا نہیں؟
وہ ہماری شکل دیکھنے لگیں پھر پوچھا ”آپ کی بات کا کیا مطلب ہے؟“
ہم نے جواب دیا کہ ہمارے خیال کے مطابق اپنی شادی میں رُکاوٹ کا باعث یہ صاحب خود ہیں،انہوں نے بتایا کہ وہ ایک خاص جگہ شادی کرنا چاہتے تھے لیکن وہاں اُن کی شادی نہیں ہوسکی اور اُس لڑکی کی شادی کسی اور جگہ ہوگئی لہٰذا اب وہ بھی کسی دوسری جگہ شادی کے لیے آمادہ ہوگئے ہیں لیکن کوئی رشتہ طے نہیں ہوپاتا۔
درحقیقت اپنے زائچے کے اعتبار سے وہ کافی پیچیدہ نفسیات کے مالک تھے،شادی کے لیے انہوں نے جو معیارات طے کر رکھے تھے وہ پورے ہونا خاصا مشکل نظر آتا تھا لہٰذا جو رشتہ اُن کی سمجھ میں آتا تھا، وہ نہیں ہوپاتا تھا،ہم نے اُن خاتون سے کہا کہ ان کی شادی یقیناً ہوجائے گی لیکن کسی غلط جگہ ہوگی اور پھر ناکام ہوگی کیوں کہ ایسے لوگ عموماً غلط فیصلے کرتے ہیں اور اپنے طور پر جو کچھ دُرست سمجھ رہے ہوتے ہیں،وہ بالآخر غلط ثابت ہوتا ہے۔
صاحبِ زائچہ کسی ایسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتے تھے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ خوبصورت ، نیک سیرت اور صاحبِ حیثیت ہو،تعلیم ، شکل صورت اور حیثیت چوں کہ ظاہری چیزیں ہیں لہٰذا ان کے بارے میں تو اندازہ کیا جاسکتا ہے لیکن سیرت کا اندازہ تو تجربے کے بعد ہی ہوسکتا ہے اور یہی اندازہ اکثر غلط ثابت ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں شادی کے بعد ازدواجی زندگی جہنم کا نمونہ بن سکتی ہے ، ایسے لوگوں کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے میں کہ خود اپنے مذاقِ طرب آگیں کا شکار
آیئے مندرجہ بالا گفتگو کی روشنی میں ایک اور خط کا مطالعہ کیجیے:
اب رہائی ملی بھی تو مرجائیں گے
یہ طویل ای میل بیرونِ ملک سے ایک صاحب نے بھیجی ہے،نام وغیرہ ہم ظاہر نہیں کرنا چاہتے، وہ لکھتے ہیں ”میں تقریباً 20 سال سے جادو کے اثرات کے تحت بندشِ رزق اور شوگر کے مرض میں مبتلا ہوں اور یہ بات تسلیم شدہ ہے،(گویا انہوں نے اپنے مسئلے کی وجہ طے کر رکھی ہے)اس کا انکشاف مجھے 1985 ءمیں ہوا،میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یہ جادو کی کون سی قسم ہے؟آپ کے کوری ٹھیکری والے طریقے سے یہ جاننا چاہوں گا، اب تک 50,55 مختلف لوگوں نے، انڈیا، پاکستان، جنوبی افریقہ کے لوگوں نے جن کا اخبار میں کوئی اشتہار نہیں آتا،سب نے ہی کہا کہ جادو ہے،کسی نے پیسے نہیں مانگے کہ مجھے اتنے پیسے دو تو میں پھر کام کروں گا، ہر ایک نے مختلف قسم کا وظیفہ بتایا ، 40 دن کا۔مگر کچھ فرق نہیں پڑا،تقریباً 6 ماہ قبل اسلام آباد میں کسی کو 48 گھنٹے کی پہنی ہوئی قمیض بھیجی تھی،ان صاحب نے یہی کہا ، جادو کے اثرات ہیں،1994 ءمیں ایک آدمی سے ملاقات ہوئی جن کا اخبار میں اشتہار چھپتا تھا،اُس نے بتایا بندشِ رزق میں باندھا گیا ہے اور جب تک اس کا علاج مکمل عالم یا عامل سے نہیں کراوگے، ہمیشہ صفر ہی رہوگے،اس آدمی نے نہ فیس لی اور نہ ہی علاج کرنے کی حامی بھری،میری چھوٹی بہنوں کی شادی نہیں ہورہی تھی، میں نے سوچا کہ اُن کا بھی کہیں ایسا کیس نہ ہو ،بات کرنے پر اُس نے بتایا کہ اُن کے کپڑے بھی کٹتے ہیں اور کپڑوں کے اوپر خون کے چھینٹے بھی پڑتے ہیں،پاکستان میں ایک بزرگ کے بارے میں معلوم ہوا ، وہ ملتان کے قریب رہتے تھے،وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ اُن کا انتقال ہوچکا ہے پھر ایک دوست کی معرفت ایک عامل سے ملا ، اُس نے قرآنی فال کے ذریعے بتایا کہ دو عورتیں اور ایک مرد شامل ہے،اُن کی فیس بہت زیادہ تھی پھر راولپنڈی میں ایک دوست سے ملاقات ہوئی وہ حافظِ قرآن تھا،اُس کے ایک حافظِ قرآن دوست کسی مسجد کے امام بن گئے تھے،اس نے میری ملاقات اُن سے کرادی،مسجد امام کے پاس کوئی موکل تو نہیں مگر اُن کے پاس علم ہے،انہوں نے دھاگے کو پاوں سے ماتھے تک ناپا پھر اس دھاگے پر پڑھائی کی ، اس دھاگے کو دوبارہ ناپا تو وہ بڑا ہوگیا تھا،اگر دھاگا بڑا ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آسیبی اثرات موجود ہیں، اگر دھاگا برابر رہے تو آسیبی اثرات نہیں ہیں، اس کے بعد انہوں نے علاج کیا اور دوبارہ دھاگا ناپا تو وہ برابر آیا مگر کچھ عرصے بعد پھر بد اثرات محسوس ہونے لگے،دوبارہ دھاگے کے ذریعے چیک کیا تو دھاگا چھوٹا ہوگیا،مسجد امام کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ جہاں پر میں رہتا ہوں، وہاں پر آسیبی اثرات موجود ہیں،انہوں نے مجھے پڑھنے کے لیے بھی بتایا تھا مگر اس سے کچھ فرق نہیں پڑا،انہوں نے کہا کہ مکمل علاج کے لیے پڑھائی کرنا پڑے گی لیکن یہ کام نہیں ہوسکا،اس طرح علاج ادھورا رہ گیا،مسجد امام کے ماموں بھی بڑے عالمِ دین تھے اور میرے دوست نے بتایا تھا کہ جب کوئی سخت قسم کے آسیبی اثرات ہوتے ہیں تو دونوں ماموں بھانجے مل کے اس کا علاج کرتے ہیں،اُن سے بھی علاج کرایا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا،ایک سال قبل گجرات انڈیا سے ایک خاتون آئیں تھیں،وہ نارمل حالت میں گجراتی زبان بولتی تھیں مگر جب موکل حاضر ہو تو پھر اُردو میں بات کرتی تھیں،اُس سے بندشِ رزق سے متعلق پوچھا تو اُس نے بتایا کہ دو عورتیں اور ایک مرد ہے،اُس خاتون نے وہی الفاظ دہرائے جو اس قرآنی فال کے ذریعے معلوم ہوئے تھے،اُس نے بتایا کہ مجھے نیچرل شوگر ہے اور بیماری کی شکل میں ڈالی گئی ہے،جب سے بندشِ رزق کا مسئلہ ہوا،اُس وقت سے شوگر شروع ہوئی،شوگر کے ساتھ پیشاب میں پروٹین یعنی البیومن آتی ہے جو کہ گردوں کو نقصان پہنچا رہی ہے،شوگر کنٹرول میں نہیں ہے،انڈین گجراتی خاتون نے کہا کہ جب بندشِ رزق ٹھیک ہوگا تو شوگر بھی ٹھیک ہوجائے گی“
عزیزان من! آپ نے دیکھا کہ پورے خط میں سارا زور یہ ثابت کرنے پر لگایا گیا ہے کہ جادو کے اثرات ہیں اور دلیل کے طور پر جو حوالے دیے گئے ہیں، اُن کے نزدیک وہ بڑے معتبر حوالے ہیں یعنی ایسے لوگوں نے تصدیق کی جو پیسے نہیں لیتے، جو حافظِ قرآن اور مسجد کے پیش امام ہیں یا عالمِ دین ہیں ، قرآنی فال سے بھی ثابت ہوا یعنی اپنے خیال اور نظریے کو دُرست ثابت کرنے کے لیے قرآن کا حوالہ بھی دے دیا گیا،اس سے قطع نظر کہ فال کی حیثیت کیا ہے اور فال نکالنے والے کتنے قابلِ بھروسا ہوتے ہیں۔
انڈیا کی کسی خاتون نے بھی تصدیق کی جو کسی موکل وغیرہ کو بھی حاضر کرتی تھی اور ایسے وقت میں اُردو بولنے لگتی تھی،ہماری نظر میں تو وہ خود شیزوفرینیا کی مریضہ تھی، وغیرہ وغیرہ۔
صاحبِ خط کو یہ تمام تفصیل اس لیے بیان کرنا پڑی کہ ہم نے انہیں جواب دیا تھا کہ آپ کا مسئلہ جادو کے اثرات کا نہیں ہے بلکہ جسمانی بیماری اور نفسیاتی معاملہ ہے،جوابی ای میل میں انہوں نے یہ تمام تفصیل لکھ ڈالی، ہمارے نزدیک یہ ساری دلیلیں انتہائی کمزور ہیں،جن لوگوں سے انہوں نے ملاقات کی یا علاج کرایا وہ مذہبی عالم تو ہوسکتے ہیں لیکن روحانیات یا انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں سے ناواقف تھے، رہا سوال یہ کہ دھاگا بڑا چھوٹا کیوں ہوتا ہے تو ہم دعوے کے ساتھ یہ کہیں گے کہ کسی بھی نفسیاتی مریض پر یہ طریقہ آزمایا جائے تو دھاگا بڑا یا چھوٹا ہوجائے گا کیوں کہ نفسیاتی امراض بھی آسیبی اثرات کی طرح ہی ہوتے ہیں،فرق صرف اتنا ہے کہ اس میں آسیب اپنی ہی ذات کا ملوث ہوتا ہے اگر کسی ہسٹیریا ، شیزوفرینیا ، مالیخولیا یا فوبیا کے مریض کی قمیض مروجہ طریقے کے مطابق چیک کی جائے یا مذکورہ بالا دھاگے والا عمل کیا جائے تو ایسے ہی نتائج سامنے آتے ہیں،اکثر ایسے مریضوں کو دم دُرود یا نقش و تعویذ وغیرہ سے عارضی آرام بھی ملتا ہے جس کی وجہ سے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ یقیناً یہ مریض کسی بیرونی آسیب ، جنات یا سحری اثرات کا شکار ہیں حالاں کہ ایسا نہیں ہوتا لہٰذا یہ بھی کوئی معقول جواز نہیں ہے۔ہمارے بے شمار سادہ لوح مولوی اور عامل حضرات برسوں ایسے مریضوں کا روحانی علاج کرتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی تھک ہار کر یہ بھی کہہ بیٹھتے ہیں کہ یہ معاملہ ہمارے بس سے باہر ہے،درحقیقت ایسی صورتِ حال میں مقابلہ مریض کے اپنے ذاتی آسیب اور مولانا یا عامل کے درمیان ہورہا ہوتا ہے اور مریض اُن پر حاوی ہوتا ہے۔ایسے مریض لاشعوری طور پر ٹھیک ہونا ہی نہیں چاہتے،اُنہیں اپنی بیماری بہت عزیز ہوتی ہے،ہمارا بارہا کا یہ مشاہدہ ہے کہ بعض خواتین سے جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ پر کسی نے کچھ نہیں کرایا،نہ کوئی آسیبی اثر ہے تو ہم نے محسوس کیا کہ وہ بہت مایوس ہوتی ہیں،اکثر خواتین مادّی علاج کے بجائے روحانی علاج سے خوش ہوتی ہیں،مادّی علاج اتنے تواتر اور پابندی سے نہیںکراتیں جتنے تواتر اور پابندی سے روحانی علاج کراتی ہیں، اکثر تو زندگی بھر یہ مشغلہ جاری رکھتی ہیں۔ایسے اکثر مریضوں پر یہ مشہور مصرع صادق آتا ہے اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے۔اب رہائی ملی بھی تو مرجائیں گے۔
ان صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اپنے علاج کے لیے کھلے ذہن کے ساتھ تیار نہیں ہےں،ان کے دماغ کی سوئی صرف ایک پوائنٹ پر اٹک کر رہ گئی ہے اور وہ ہے جادو یا آسیب۔حقیقت یہ ہے کہ یہ جادو کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے اور جن لوگوں سے یہ ملے ہیں وہ بھی جادو کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے،ہمارے خیال میں یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے حالات تو بدلنا چاہتے ہیں مگر خود نہیں بدلتے،خود کو بدلنے کے لیے اپنے ذہن کو بدلنا پڑتا ہے،اپنی سوچ کو بدلنا پڑتا ہے۔تب کہیں جاکے کوئی نیا راستہ سامنے آتا ہے جو انسان کو اُس کی دُرست منزل تک پہنچادیتا ہے۔