مرض کے بنیادی سبب کا سدباب ضروری ہے
امراض کا بنیادی سبب مریض کے ماضی میں پوشیدہ ہوتا ہے
ہومیو پیتھک سائنس نے مکمل شفایابی کے حصول کے لیے جو اصول مقرر کیے ہیں ان میں سے ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ مرض کی اصل وجہ کا سراغ لگاکر اس وجہ کو ختم کیا جائے یعنی مرض خواہ نظام جسمانی کی ناقص کارکردگی کے سبب پیدا ہورہا ہو یا دیگر بیرونی عوامل اس کی پیدائش کا سبب بن رہے ہوں۔ ہر صورت میں زیادہ زور اسی بنیادی نکتے پر دینا چاہیے۔
ہمارے معاشرے میں اسی بنیادی نکتے کو فراموش کر دیا گیا ہے اور سارا زور دواوں اور معالجین پر ڈال دیا گیا ہے۔ مثلا نظام ہضم کی خرابی کا مستقل شکار رہنے والے حضرات اپنی زندگی کے اس پہلو پر قطعی توجہ نہیں دیتے کہ وہ کیا کھارے ہیں اور انہیں کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں کھانا چاہیے۔ کب کھانا چاہیے اور کب نہیں کھانا چاہیے۔
ان کے نزدیک تو بس ایک ہی بات ہے کہ کھانا ہماری بنیادی ضروریات ہے اور اس ضرورت کو دستیاب وسائل کے مطابق جس طرح چاہیں پورا کریں اور کھانے کے نتیجے میں اگر کچھ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں تو ان کے لیے دوائیں موجود ہیں لہٰذا دوائیں بھی کھاتے رہیں۔
ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ جب ہمارے کسی سوال کے جواب میں بعض مریض یہ جواب دیتے ہیں کہ ہاں فلاح شکایت ہمیں پہلے تھی لیکن جب سے فلاں دوا لے رہا ہوں وہ شکایت نہیں ہوئی مثلاً اکثر دائمی قبض کے مریض اس مرض کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے، وہ اپنی غذا میں مناسب توازن پیدا کرنے کے بجائے اس مسئلے کا حل قبض کشا ادویہ کا مستقل استعمال تجویز کرلیتے ہیں، بالکل اسی طرح ہائی بلڈ پریشر یا لو بلڈ پریشر، سر درد، پیٹ کے درد یا جسم کے مختلف حصوں کے درد، ایسیڈیٹی یعنی تیزابیت، بے خوابی، ماہانہ نظام کی خرابیاں وغیرہ کے سلسلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ سالہا سال تک مختلف دوائیں پابندی سے استعمال کرتے رہتے ہیں مگر یہ غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ آخر ان بیماریوں اور تکلیفات کے بنیادی اسباب کیا ہیں۔ان کا زندگی گزارنے کا اسٹائل کیا ہے، وہ کون سی فطری اصول و قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جن کی وجہ سے یہ شکایات انہیں مستقل رہتی ہیں۔
عزیزان من! اگر ہم اس حوالے سے تھوڑے سے غوروفکر کی عادت ڈال لیں اور ساتھ ہی خوراک اور دواوں کے بارے میں بھی اپنی معلومات بڑھائیں تو یقینا اپنی بہت سی مشکلات اور مسائل کو خود حل کرنے کے قابل ہوسکیں گے اور کم از کم یہ معلومات امراض کی شدت میں اضافے کو روکنے کا ایک اہم ذریعہ بن سکیں گی۔
امراض کے بنیادی اسباب و عوامل پر توجہ دینے کی ضرورت خصوصاً نفسیاتی، اعصابی یا روحانی امراض میں بہت زیادہ اہمیت اختیار کرجاتی ہے کیوں کہ ان امراض کے بنیادی اسباب ہمارے ماضی میں کہیں پوشیدہ ہوتے ہیں جن کی طرف ہمارا خیال ہی نہیں جاتا۔ اس کے علاوہ ان امراض کے بنیادی اسباب کا تعلق ہمارے حال سے بھی جڑا رہتا ہے۔
ہماری کم علمی اور ناواقفیت ہمیں اس کا احساس ہی نہیں ہونے دیتی کہ ہم جس حال میں اور جس انداز میں زندگی گزار رہے ہیں یہی تو ان امراض کی شاندار ” نرسری“ ہے۔ اکثر مریضوں کے حال احوال سے واقفیت کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا کہ وہ جس ماحول میں رہ رہے ہوتے ہیں اس میں رہتے ہوئے مکمل شفایابی کا عمل ناممکن نہیں تو دشوار ترین ضرور ہوجاتا ہے۔ مثلاً ایک بچہ یا نوجوان اپنے ماں باپ کے باہمی تنازعات اور ہر روز کے جھگڑوں کے سبب اگر ذہنی مریض بنا ہے تو اسے مکمل صحت یابی اسی صورت میں حاصل ہوسکتی ہے جب سب سے پہلے اس بنیادی سبب کو ختم کیا جائے یعنی گھر کا ماحول درست کیا جائے
اکثر نفسیاتی امراض کا سبب بعض محرومیاں ہوتی ہیں لہٰذا ان محرومیوں کا کسی نہ کسی صورت ازالہ کرنے پر توجہ دی جائے۔ اس طریقے سے مریض کے حال میں یقینا خوشگوار تبدیلی آئے گی لیکن افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ہمارا معاشرتی مسائل میں جکڑا ہوا معاشرہ اکثر نفسیاتی مسائل میں مبتلا مریضوں کو وہ ماحول فراہم کرنے سے قاصر رہتا ہے جو ان کے لیے ضروری ہے یا ان بنیادی مسائل اور اسباب سے چھٹکارا پانے کی کوئی سبیل نکالنا بھی مریضوں کے لواحقین کے لیے مشکل ہوتا ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اس علاج کو بہتر سمجھتے ہیں جس میں ایسے مریضوں کو مسکن ادویات کے ذریعے عضو معطل بناکر گھر کے ایک کونے میں بٹھادیا جائے تاکہ وہ ان کی روز مرہ مصروفیات اور مشاغل میں حارج نہ ہوسکیں۔ نتیجے کے طور پر ایسے مریض لاعلاج قرار پاتے ہیں یا پھر ان کا علاج ہی یہ تسلیم کرلیا جاتا ہے کہ انھیں پابندی سے ایسی ادویات استعمال کرائی جاتی رہیں جن سے وہ نارمل رہیں اور نارمل سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ وہ دوسروں کو پریشان نہ کریں۔ دیکھا جائے کہ یہ خواہش اتنی غلط بھی نہیں ہے، معاشی مسائل اور زندگی کے دیگر فرائض یقینا فی زمانہ ہر خاندان کے لیے نہایت اہم ہیں۔
اب تو یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ان سے غفلت برت کر گھر کا ہر فرد کسی ایک شخص کو سنبھالنے یا قابو میں رکھنے کی مہم میں چوبیس گھنٹے مصروف رہے۔ عموماً اس قسم کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے اسپتال نہایت آئیڈیل مقام ہیں مگر کیا ہمارے ملک میں یہ سہولت عام اور ارزاں میسر ہے؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ پرائیویٹ سطح پر جو اسپتال موجود ہیں ان کے اخراجات چند دن تو لوگ برداشت کرلیتے ہیں اور وہ مریض کے مرض کی شدت کو کنٹرول کرکے مستقل بنیادوں پر ایسی دوائیں تجویز کردیتے ہیں جن کے زیر اثر اسے ساری زندگی گزارنا ہے لہٰذا مکمل شفایابی کا خواب ادھورا ہی رہتا ہے۔
اس طرف سے مایوس ہوکر لوگ عموماً روحانی علاج کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور دعا تعویذ، جھاڑ پھونک کا سلسلہ شروع ہوتا ہے مگر ساتھ ساتھ دوائیں بھی چل رہی ہوتی ہیں۔ درمیان میں اگر اتفاقیہ طور پر مریض کو صحت بخش ماحول میسر آجائے تو وہ بہت بہتر دکھائی دینے لگتا ہے لہٰذا خیال یہ کیا جاتا ہے کہ جھاڑ پھونک کے نتیجے میں بہتری آئی ہے۔ الغرض یہی اتار چڑھاو بالآخر مریض کو اس مقام پر لے جاتا ہے جہاں سے واپسی صرف ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے۔ ہر طرف سے تھک ہار کر لوگ ہومیو پیتھک علاج کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے پہلی بات تو یہی ہے کہ ہر ہومیو پیتھک ڈاکٹر ایسے علاج معالجے کے لیے مناسب اور موزوں نہیں ہوتا۔ صرف وہی ہومیو پیتھک ڈاکٹر ایسے امراض کا علاج کرسکتے ہیں جنہیں علم نفسیات سے واقفیت ہو اور وہ انسانی نفسیات کی پے چیدگی سے بھرپور واقفیت رکھتے ہو ں بلکہ ہم تو یہاں تک کہیں گے کہ صرف نفسیات ہی نہیں مابعد الفنسیات کے حقیقی مسائل کا بھی علم ہو۔
ہومیو پیتھک دواوں میں نفسیاتی امراض کے علاج کے لیے بڑا وسیع میدان موجود ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر نے ان دواوں کو صرف پڑھا ہی نہ ہو بلکہ ان کی مختلف پوٹینسیوں( طاقتوں) کو استعمال بھی کیا ہو تب ہی وہ ایسے مریضوں کے ساتھ انصاف کرسکے گا مگر ان تمام باتوں سے قطع نظر اولیت بہر حال اس حقیقت کو حاصل ہے کہ مرض کے بنیادی اسباب سے آگاہی حاصل کرکے سب سے پہلے اس کے خاتمے پر توجہ دی جائے اور دیکھا یہ گیا ہے کہ یہی کام سب سے مشکل بلکہ بعض جگہ تو تقریباً نا ممکن محسوس ہوتا ہے۔
مریض جن حالات یا وجوہات کے سبب کسی ذہنی اور نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہوا ہے وہ حالات و وجوہات اس کے اردگرد موجود رہتی ہیں مثلاً کچھ عرصہ پہلے ہمارے پاس ایک شادی شدہ لڑکی کو لایا گیا جو کئی سال سے ایک عجیب و غریب بیماری میں مبتلا تھی۔ اچانک بیٹھے بیٹھے اس پر تشنج کے دورے پڑتے تھے۔ دم گھنٹے لگتا، منہ ٹیڑھا ہوجاتا یا ہاتھ پاوں اکڑنے لگتے مگر تھوڑی ہی دیر میں وہ پھر ٹھیک ہوجاتی۔ ذہنی طور پر وہ چاق و چوبند تھی کیوں کہ اس نے خود نہایت تفصیل سے اپنی بیماری اور اس وقت تک ہونے والے تمام علاج معالجے کی تفصیل بتائی۔
اس کا حال یہ تھا کہ اس قسم کے دوروں کی وجہ سے نہ اسے دن میں آرام تھا اور نہ رات میں اور بقول اس کے رات تو اس کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھی، وہ سو بھی نہیں سکتی تھی، بچے چھوٹے چھوٹے تھے، غالباً دو یا تین بچے تھے، اس کی زبانی اور اس کے شوہر کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ گزشہ کئی سال سے روحانی علاج معالجے پر زور دے رہے ہیں کیوں کہ معالجین کی اکثریت کا خیال یہی تھا کہ کوئی جن یا آسیب یا ماورائی قوت اس پر مسلط ہے جو اس کے پیٹ میں بھی گھس جاتی ہے اور اس کے بعد پیٹ میں ایک رسولی سی محسوس ہوتی ہے۔ ہاتھ سے دبا کر دیکھنے پر وہ رسولی صاف محسوس ہوتی ہے مگر صرف دورے کی حالت میں۔ بعد میں وہ رسولی خود بخود غائب ہوجاتی ہے۔ ہر قسم کے ٹیسٹ بھی کراکر دیکھ لیے، سب کلیئر تھے۔ اس شکایت کے علاوہ جسمانی طور پر کوئی خرابی نہ تھی، البتہ ماہانہ نظام کی خرابیاں موجود تھیں۔
دونوں میاں بیوی کو ہمارے ایک واقف ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہمارے پاس لے کر آئے تھے کیوں کہ وہ خود اس الجھن میں تھے کہ اس صورت حال کو کیا نام دیں، کیا واقعی کسی ماورائی مخلوق کی مداخلت سمجھیں یا بیماری؟ ہر چند کہ وہ جانتے تھے کہ مریضہ کی تمام علامات ہومیو پیتھی کی ایک شہرہ آفاق دوا ” لیکے سس“ کے عین مطابق ہے مگر اپنے ذاتی کنفیوژن کی وجہ سے دوا دینے کے لیے پر اعتماد نہ تھے۔ ہم نے جب مرض کی مکمل ہسٹری لی تو بنیادی اسباب کی تحقیق بھی شروع کردی اور بالآخر مریضہ کی اس نفسیاتی بیماری کا بنیادی سبب سامنے آگیا۔
صورت حال کچھ یوں تھی کہ مریضہ تعلیم یافتہ ایک معقول گھرانے سے تعلق رکھتی تھی، اس کی شادی ایک نہایت نامعقول نکمے، بے ہودہ، جاہل اور ظالم شخص سے کردی گئی تھی، شادی کے بعد شوہر کا رویہ جس میں گالی گلوچ کے ساتھ مار پیٹ بھی شامل تھی، ظاہر ہے اس کے لیے ذہنی اذیت کا باعث بنا اور اس کے ساتھ ہی اس کا نکما پن معاشی بدحالی کا سبب بنا، ایک کے بعد دوسرا بچہ اخراجات میں اضافے کا سبب بنتا چلا گیا۔
مریضہ اپنے زائچے کے مطابق اپنی عزت نفس کے حوالے سے نہایت حساس تھی لہٰذا یہ صورت حال رفتہ رفتہ اس کے لیے ناقابل برداشت ہوتی چلی گئی۔ نہایت توہین آمیز سلوک اور وہ بھی ایک ایسے شخص کا جو اس کی اور اس کے بچوں کی جائز ضروریات بھی پوری نہ کرتا ہو، خود اس کے ماں باپ کی پوزیشن ایسی نہ تھی کہ وہ اس کی کوئی مدد کرتے۔ انھوں نے تو گویا اپنے سر سے ایک بوجھ اتار کر سوچ لیا تھا کہ اب ہمارا مزید کوئی فریضہ نہیں ہے۔
ذرا سوچیے، یہ ساری صورت حال اسے ہسٹیریا یا شیزوفرینیا کی طرف لے جانے کے لیے کیا کافی نہ تھی؟ شوہر روحانی علاج پر اسی لیے زور دیتا تھا کہ اس میں کوئی پائی پیسہ خرچ کرنے کی اکثر ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ جب شدید دورہ پڑا، قریب کی مسجد کے مولانا صاحب کو بلوالیا۔ انھوں نے دم کیا، فی سبیل اللہ پانی پڑھ کر دیا یا کچھ نقوش وغیرہ لکھ کر دیے، بس گزارا ہوگیا۔
اس قسم کے امراض میں دورے کی مدت گزرنے کے بعد تو مریض خود بخود ٹھیک ہوجاتا ہے لہٰذا یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ مولانا یا عامل صاحب کے دم و درود یا نقش و تعویذ سے فائدہ ہوا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ وہ ایک بار دوا لے کر گئے تو پھر واپس نہ آئے بلکہ ایک بار شوہر صاحب آئے تو فرمانے لگے۔ آپ کی دوا سے کوئی فائدہ نہ ہوا، مجبوراً مجھے ان ہی عامل صاحب کوبلانا پڑا جن کا پہلے علاج چل رہا تھا تو ہم نے پوچھا جب ان کے علاج سے اتنا فائدہ تھا تو ہمارے پاس کیوں آئے تھے؟ تو کہنے لگے، ان کے علاج سے فوری طور پر آرام تو آجاتا ہے اور دوسری بات یہ کہ آپ سے تو ہم یہ معلوم کرنے آئے تھے کہ یہ معاملہ کیا ہے؟
آپ زائچہ بناکر اس پر روشنی ڈالیں۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ بات تو ہم نے پہلے دن ہی بتادی تھی کہ آپ کی بیوی نفسیاتی مریضہ ہے ۔ جواباً بولے مگر ہم تو جہاں بھی جاتے ہیں سب یہی کہتے ہیں کہ آسیب کا اثر ہے، اب اس سوال کا ہم کیا جواب دیتے؟ ہم نے پوچھا کہ اب کس لیے آئے ہیں آپ؟ کہنے لگے کہ آپ نے جو ان کا زائچہ بنایا تھا اس کے مطابق یہ بتائیں کہ وہ ٹھیک ہوسکتی ہیں یا نہیں؟
ہم نے دو ٹوک انداز میں کہہ دیا کہ وہ ٹھیک نہیں ہوسکتیں۔ حیرت سے ہماری طرف دیکھنے لگے ، پھر بولے، آج کل جو صاحب علاج کر رہے ہیں انھوں نے یقین دلایا ہے کہ وہ ٹھیک ہوجائیں گی اور وہ بے لوث آدمی ہیں، کوئی ہدیہ اور نذرانہ بھی نہیں لیتے بلکہ روزانہ خود ہی گھر آتے ہیں دم کرنے کے لیے۔
ہم نے پوچھا کہ انھیں علاج کرتے ہوئے کتنا عرصہ گزر گیا؟ کہنے لگے ابھی ایک مہینہ ہوا ہے، تو ہم نے کہا کہ اس طرح کے علاج تو آپ نے پہلے بھی بہت کرائے ہیں، اب پھر کرالیں۔
قصہ مختصر یہ کہ وہ چلے گئے، دراصل یہ بات وہ ماننے کے لیے تیار ہی نہ تھے کہ ان کی بیوی نفسیاتی مریضہ ہے اور اسے اس حال کو پہنچانے میں بنیادی کردار خود ان کا ہے۔
ان کے اس کردار کے بارے میں ہمارے واقف ڈاکٹر صاحب ہمیں علیحدگی میں بتاچکے تھے، اس کے علاوہ ان کی بیوی سے علیحدگی میں ہم نے جو بات چیت کی تو اس نے خود یہ بات ہمیں بتائی کہ اس کا شوہر نہیں چاہتا کہ جھاڑ پھونک کے علاوہ کوئی اور علاج کروایا جائے۔ اس کے علاوہ شوہر سے جو بھی شکایات اور تکالیف تھیں ان کا بھی اس نے دبے دبے الفاظ میں ذکر کیا تھا۔
ہمارے خیال میں اس مریضہ کے حقیقی علاج کے لیے پہلی شرط یہی ہونی چاہیے تھی کہ اسے شوہر سے الگ کردیا جائے یعنی اس کے بنیادی مسائل کے حل پر توجہ دی جائے جو بہ ظاہر ایک ناممکن کام نظر آرہا تھا کیوں کہ ماں باپ اس حوالے سے اس کی کوئی مدد کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ ان کے اپنے گھر میں مفلسی اور تنگ دستی کا راج تھا، ساتھ ہی ساتھ بیٹوں کی بیویاں بھی اسے زیادہ دن اپنے گھر میں برداشت نہ کرتیں۔
عزیزان من! ایسی نامعلوم کتنی مثالیں ہمارے معاشرے میں بکھری پڑی ہیں اور مرض کے بنیادی اسباب کا سدباب نہ ہونے کی وجہ سے کتنے مریض لا علاج ہوچکے ہیں کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں