مجھی سے میری صدا ہم کلام ہوتی رہی (سانس کی مشق)

سانس کی مشقوں کے اثرات ِمابعد کا جائزہ

گزشتہ مضمون میں ہم نے سانس کی مشق، مراقبہ اور دیگر ارتکاز توجہ کی مشقیں کرنے والے افراد کی ایسی کیفیات کی کچھ جھلکیاں قارئین کے مطالعے کے لیے پیش کی تھیں جو دوران مشق عموماً پیش آتی ہیں اور ان کا تعلق مزاحمتی کیفیات سے ہوتا ہے، اب ایک خط سے ایسا اقتباس دیکھیے جو اس مزاحمت کے خلاف کامیابی کی نشان دہی کرتا ہے۔
پہلے سانس روکنے کا وقفہ ایک منٹ تھا، اب بڑھ کر دو منٹ ہوچکا ہے۔ سانس روکنے کے بعد پہلے ذہن میں کوئی خیال نہیں رکتا تھا، لیکن اب تصور کچھ دیر کے لیے رک جاتا ہے۔ اب پہلے کی نسبت بہت فریش ہوں، محسوس کرتا ہوں کہ طبیعت پر کسی قسم کا بوجھ بھی محسوس نہیں ہوتا ہے، طبیعت بالکل ہلکی پھلکی محسوس ہوتی ہے، ہر قسم کا ” ٹینشن“ ہر قسم کے دباو سے آزاد محسوس کرتا ہوں، قوت ارادی مضبوط ہوگئی ہے۔ ایک دفعہ آپ نے لکھا تھا کہ جب آدمی مشق سے اپنی قوت ارادی میں مضبوط ہوجاتا ہے تو اہ اپنی ہر عادت اور جذبہ ختم کرسکتا ہے اور ابھار سکتا ہے۔ اب میں بھی آپ کی دعا سے اور اللہ کی مہربانی سے اس پوزیشن میں آچکا ہوں کہ اپنی کوئی سی عادت یا کوئی بھی جذبہ حد یہ کہ اپنے محبت کے جذبات پر بھی قابو پاچکا ہوں۔ پہلے مجھ پر محبت حاوی تھی لیکن اب میرا ارادہ حاوی ہے۔ ہر طرف سے میرا ذہن سکون محسوس کر رہا ہے۔ میرا اصل مقصد ٹیلی پیتھی ہے۔ ان شاءاللہ اس ہدف پر بھی کسی دن پہنچ جاوں گا۔ میں آپ کا جتنا بھی شکریہ ادا کروں کم ہے۔ میں آپ کا احسان مند ہوں
یہ ہے اس محبت اور ریاضت کا صلہ جو تقریباً پانچ ماہ صرف سانس کی مشق نمبر ایک مسلسل کرنے کے بعد حاصل ہوا۔ اب آئیے ایک اور کیفیت کی طرف۔
آپ کے کہنے پر مشق نمبر ایک اور مشق نمبر دو شروع کردی ہے۔ ایک ماہ چار دن ہوگئے ہیں۔ تنفس نور کی مشق کرنے سے میرے کندھوں پر بوجھ رہتا ہے، کبھی رات کو مشق کے دوران میں سر ہلنے لگتا تھا مگر اب نہیں ہلتا ہے۔ یہ مشق کرنے سے میرا تمام جسم گرم ہوجاتا ہے، کبھی صرف ہاتھ اور آنکھ سیدھی طرف کی گرم ہوجاتی ہے، کبھی صرف پیٹ اور ہاتھ بہت گرم ہوتے ہیں۔ یہ مشق کرنے سے پیٹ میں بہت درد ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس میں گڑھا بن گیا ہے جس میں کھولتا ہوا گرم پانی ہے جس کی تپش سے پیٹ گرم ہورہا ہو اور درد کر رہا ہو لیکن مشق نمبر ایک کرنے سے سکون ملتا ہے، شروع شروع میں روضہ ءمبارک ﷺ کا تصور قائم نہیں ہوتا تھا، خیالوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا، اب بھی تصور تو جلدی قائم ہوجاتا ہے مگر خیال آتے ہیں تو انھیں جھٹک دیتی ہوں، پھر تصور قائم ہوجاتا ہے۔
جب میں تصور کرتی ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ میں روضہ ءمبارک کی جالیوں کو پکڑ کر بہت روتی ہوں، یہ خیال اکثر خود بخود آتا ہے، کبھی نماز پڑھنے کے دوران میں جب میں سجدے میں جاتی ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اور بھی بہت ساری عورتیں میرے ساتھ سجدے میں ہوں اور میں ان کے ساتھ با جماعت نماز پڑھ رہی ہوں۔ ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ تمام عورتیں سفید لباس میں ہوتی ہیں اور میں کالے لباس میں، مگر کبھی سب کالے لباس میں اور صرف میں سفید لباس میں ہوتی ہوں مگر صرف سجدے تک ہی محدود ہوتا ہے جب بیٹھتی ہوں تو تمام عورتیں غائب ہوتی ہیں۔
”فراز صاحب! آپ کی بغیر اجازت میں نے متبادل طرز تنفس کی مشق شروع کردی جس کے کرنے سے میری نیندیں غائب ہوگئی ہیں اور بے چینی سی رہتی ہے، ڈر بہت لگتا ہے، دل کبھی زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے، جب میرا انگوٹھا سیدھے ہاتھ کا ناک کے سیدھے سوراخ پر رکھا ہوتا ہے اور آخری دونوں انگلیوں سے دوسرا سوراخ پر سے سانس لے کر جب میں نتھنے بند کرلیتی ہوں تو تین چکروں میں تو کچھ نہیں ہوتا مگر چوتھے اور پانچویں چکر میں زور سے سیدھے کان کا پردہ کھلتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی مائیک اسٹارٹ ہوگیا ہے اور اب کوئی بولنے والا ہے جیسے ہم کوئی گانا سنتے ہیں، شروع میں اسپیکر سے گھوں گھوں کی سی آواز آتی ہے، ایسی ہی آواز کان میں آنا شروع ہوجاتی ہے۔ متبادل طرز تنفس کی مشق کرنے سے شروع میں تین چار دن گندے اور خراب خواب نظر آئے تھے۔ کبھی میں کسی اجنبی منزل کی طرف ہوتی تھی، کبھی بہت سارے اجنبی چہروں میں ، جنھیں میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ ایک بار خواب میں نظر آیا کہ میں کسی سنسان جگہ پر ہوں اور کہیں جارہی ہوں، ایک آدمی بری سی حالت میں آتا ہے، میرے کندھے پکڑتا ہے، بد تمیزی کرتا ہے،میں زور سے ایک طمانچہ مار دیتی ہوں، کہتی ہوں ” تو بہت بری موت مرے گا، تیرا بیڑا غرق ہوگا ،میں اسے گھورتی ہوں تو میری آنکھوں میں ایک روشنی مجھے محسوس ہوئی جو باہر تو نہیں آئی مگر اس شخص کو بھی محسوس ہوئی اور وہ خوف زدہ ہوگیا، وہ خوف سے میری طرف دیکھتا جاتا اور کہتا جاتا ” تو نے مجھے بد دعا دی، میں مرجاوں گا۔
فراز صاحب! مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔ کیا میں یہ مشق نہیں کرسکتی، چھورڈوں؟ اور وہ دونوں مشقیں جو میں کر رہی ہوں، کتنی مدت تک کرنی ضروری ہوتی ہےں؟ پہلے جو خوشبو آتی تھی وہ آنی بند ہوگئی ہے
جواب: آپ پہلی فرصت میں متبادل طرز تنفس کی مشق بند کردیں، باقی دو مشقیں آپ جاری رکھیں۔ متبادل طرز تنفس کی مشق دیتے ہوئے ہم نے سخت تاکید کی تھی کہ اسے ہماری اجازت کے بغیر شروع نہ کیا جائے، آپ نے غلطی کی، انسان اتنا ہی بوجھ اٹھائے جتنا سہار سکے۔ استاد یا نگران کی ضرورت اس حوالے سے اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور یہی عاقبت نا اندیشی اور جلد بازی کے وہ مظاہرے ہیں جو اس راستے پر چلنے والے بے صبر طالب علم کر بیٹھتے ہیں، نتیجتاً فوائد حاصل ہونے کے بجائے نقصانات کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ہم پہلے بھی کئی بار یہ بات سمجھا چکے ہیں کہ پہلی جماعت کے طالب علم کو دسویں جماعت میں داخل ہونے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے، زینہ بہ زینہ منزل کی طرف قدم اٹھانا ہی بہترین اور بے خطر طریقہ ہے۔
آپ نے دیکھا بے ترتیبی اور جلد بازی کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔ مشق تنفس نور اور سانس کی مشق نمبر ایک سے جو نتائج ظاہر ہورہے تھے اس حد تک بات ٹھیک تھی مگر تیسری مشق شروع کرنے سے لاشعوری تحریکات میں بے انتہا تیزی آگئی، ایسی تیزی جو اسی رفتار سے اگر جاری رہی تو اندیشہ ہے کہ ص، ن اس کا بوجھ اور اس کی شدت برداشت ہی نہ کرسکیں اور نتیجے کے طور پر دماغی اور اعصابی نظام فائدے کے بجائے کسی شدید نقصان کا شکار ہوجائے۔ اکثر لوگ ان مشقوں کو شروع کرنے کے بعد مہینے دو مہینے کے اندر بے چینی کا شکار ہونے لگتے ہیں اور یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں، ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔ حالاں کہ سانس کی ترتیب و تنظیم اور شعور و لاشعور کی اصلاح کا عمل جاری و ساری ہوتا ہے۔ برسوں کا بگڑا ہوا اور خرافات سے اٹا ہوا لا شعور مزاحمت پر آمادہ ہوتا ہے، اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی برسوں پرانا منشیات کا عادی جب اپنی عادت بد سے تائب ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے منشیات کے عادی جسمانی اعضا شدید بے چینی اور اضطراب کا اظہار کرتے ہیں، اس کا پورا بدن طرح طرح کی تکالیف اور اذیتوں میں مبتلا ہوجاتا ہے لیکن اس دوران میں معقول علاج معالجہ،بہتر نگرانی اور اس شخص کی مستقل مزاجی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس شخص کے دل میں جاگنے والا اپنی اصلاح کا جذبہ بالآخر اسے کامل صحت کی جانب لے جاتا ہے جب کہ اس کے برعکس اگر وہ حوصلہ ہار بیٹھے تو بات پھر وہیں رہتی ہے جہاں روز اول تھی اور ایسے مریض در در چکراتے اور ٹھوکریں کھاتے نظر آتے ہیں۔

باطنی حواس کی بے داری اور انسان نفس کی کرشمہ کاری

ذہنی اور روحانی خفیہ صلاحیتوں کی بے داری کے لیے کی جانے والی پیرا سائیکولوجی کی مشقوں میں پیش آنے والی کیفیات کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم اپنی ایک نہایت لائق،مستقل مزاج اور بے حد عزیز شاگردہ کے خطوط سے کچھ اقتباس پیش کرنا چاہتے ہیں۔ وہ گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے ہماری نگرانی میں یہ مشقیں کر رہی ہیں اور اب خدا کے فضل و کرم سے اس راستے پر کامیابی سے سفر کرنے کے قابل ہوچکی ہیں۔ یہاں ہم ان کے ابتدائی، درمیانی اور تازہ ترین خطوط سے چیدہ چیدہ باتیں اور واقعات بیان کر رہے ہیں۔
ایک خط میں وہ لکھتی ہیں ” آج صبح پانچ بجے مشق کی۔ آج بھی تصور قائم نہیں ہورہا تھا۔ گہری سانس لینے کے بعد تقریباً چالیس سیکنڈ تک سانس سینے میں روک سکی۔ آج میرا سر پہلے کی نسبت کم بھاری تھا، میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہورہی تھیں،میں گھبراہٹ محسوس کر رہی تھی، خیالات بھی آتے رہے۔ آج سارا دن طبیعت بوجھل رہی“
دوسرے خط کا اقتباس” آج میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ میں صبح سویرے اٹھتی ہوں جب کہ مشق شروع کرنے سے پہلے نماز فجر کی ادائیگی میں کاہلی سے کام لیتی تھی۔ صبح کے وقت خود بخود میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ آج بھی سویرے میری آنکھ کھلی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ نماز پڑھنے اور مشق کرنے میں کافی وقت ہے۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ میں بے دار ہوچکی تھی، صرف میری آنکھیں بند تھیں کہ اچانک مجھے کسی نے آواز دی کہ اٹھو، آج تم پر بوجھ نہیں پڑے گا۔( کچھ دن سے مجھے خود پر بوجھ پڑنے کی شکایت پیدا ہوگئی تھی) یہ آواز اتنی صاف اور واضح تھی کہ میں آسانی سے سن اور سمجھ سکتی تھی ۔آواز سنتے ہی میں نے آنکھیں کھولیں مگر اندھیرے کی وجہ سے کچھ نظر نہ آیا۔ میں اس دوران اپنی کیفیات کو شاید ٹھیک طور سے بیان نہ کرسکوں لیکن مجھے امید ہے آپ میری کیفیات کو سمجھ جائیں گے۔ جو آواز میں نے سنی تھی، وہ مردانہ تھی، لیکن یہ میرے گھر والوں میں سے کسی کی آواز نہ تھی۔ یہ آواز شمال کی طرف سے آئی۔ زیادہ دور سے نہیں بلکہ بیس یا پچیس انچ کے فاصلے سے آتی محسوس ہوئی۔ یہ آواز سن کر مجھے بالکل بھی ڈر نہیں لگا۔ جمعہ کے روز فون پر آپ نے مجھے سمجھایا تھا کہ میں بالکل بھی نہ ڈروں۔ مجھے کسی سے نہیں ڈرنا لہٰذا اس آواز کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوا، یعنی ڈر یا خوف وغیرہ۔ اب جسمانی کیفیات کے بارے میں بتادوں۔ یہ آواز سننے کے بعد مجھے کچھ محسوس نہیں ہورہا تھا۔ جب میں نے قریب سوئے اپنے بھتیجے کو چھوا تو مجھے محسوس ہوا کہ میرا دایاں ہاتھ بھاری ہے یا سن ہے۔ بہت مشکل سے میں نے ہاتھ اپنی طرف کھینچا۔ پھر میں نے بائیں ہاتھ کو حرکت دی۔ یہ ہاتھ اس قدر وزنی تھا کہ حرکت دیتے ہی وہ زمین کی طرچ کھنچ گیا( جیسے کسی نے پکڑ کر کھینچا ہو) اسی لمحے میں نے اپنے جسم کو حرکت دینی چاہی تو اپنے جسم کو ساکت حالت میں پایا( یعنی حرکت کرنے کے ناقابل) میرے جسم کا وزن دگنا ہوگیا تھا جب کہ عام حالت میں دبلی پتلی لڑکی ہوں۔ میرا ذہن بالکل نارمل تھا، سر بھاری نہیں تھا، اس کیفیت کے وقت میرا سر مغرب کی طرف، پاوں مشرق کی طرچ، چہرہ شمال کی طرف یعنی میں دائیں کروٹ پر لیٹی تھی“
ایک اور خط سے اقتباس دیکھیے، یہ پہلے خط کے کچھ عرصے بعد کا ہے، وہ لکھتی ہیں ” واقعی آپ نے بجا ارشاد فرمایا تھا کہ جو اس ثمر شیریں کی طرف ہاتھ بڑھائے گا وہی اس کی لذتوں سے بھی آشنا ہوگا۔ مجھے سب سے بڑا اور اہم فائدہ یہ پہنچا ہے کہ اب میں فجر کی نماز پابندی سے پڑھ رہی ہوں جب کہ اس سے پہلے فجر کے وقت میری آنکھ نہیں کھلتی تھی۔ اگر امی یا بھابھی جگاتیں تب بھی نہیں اٹھتی تھی۔ اس کے علاوہ اب میں گھڑی دیکھے بغیر وقت بتا سکتی ہوں، البتہ فون کے اندازے غلط ثابت ہوجاتے ہیں۔ ویسے میں مشق کے دوران میں ہونے والی کیفیات ایک ڈائری میں نوٹ کر رہی ہوں۔ آج صبح ساڑھے پانچ بجے بے دار ہوئی ۔ میں جس کمرے میں مشق کرتی ہوں، اس کمرے کا نائٹ بلب جلا کر منہ ہاتھ دھونے گئی تو نہ جانے کیوں میرے ذہن میں یہ خیال تیزی سے آیا کہ نائٹ بلب فیوز ہوجائے گا۔ یہ خیال میرے ذہن میں گردش کر رہا تھا اور میں اسی دوران کمرے میں ٹائم دیکھ رہی تھی کہ واقعی نائٹ بلب فیوز ہوگیا۔ آج کل دوران مشق میرا سر بھاری ہوجاتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب وہ کنٹرول نہیں ہو پائے گا۔ کبھی کبھار مشق کے دوران میں نیند بھی آتی ہے۔ تصور بھی فوراً قائم ہوجاتا ہے۔ مجھے مشق کے دوران طرح طرح کے خیالات پریشان کردیتے ہیں۔ شروع میں تو تصور بالکل بھی قائم نہیں ہوتا تھا،ا ٓہستہ آہستہ تصور قائم ہونا شروع ہوگیا۔ آج مجھے یوں محسوس ہورہا ہے کہ اب میں زیادہ دیر مشق کا سلسلہ قائم نہیں رکھ سکوں گی، مطلب یہ ہے کہ پہلے اچھا خاصا تصور قائم ہوجاتا تھا لیکن پچھلے دو ہفتوں سے تصور بالکل بھی قائم نہیں ہورہا۔ دماغ مشق ترک کرنے پر زور دے رہا ہے۔ یہ بات یا پھر یہ کیفیت میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ پلیز آپ مجھے بتائیے کہ یہ سب میرے ساتھ کیوں ہورہا ہے، میں مایوسی کو گناہ سمجھتی ہوں۔ اس کے باوجود میں آسانی سے ہار نہیں مانوں گی۔ ایک خاص بات جو میں آپ کو بتانا بھول گئی، وہ یہ ہے کہ مشق کے دوران مجھے اکثر سردی لگتی ہے، حالاں کہ گرمی کا موسم ہے۔ جب سردی لگتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میرے جسم میں برقی رو گزر رہی ہو“
آپ نے دیکھا، مثبت ذہنی صلاحیتوں کی بے داری کی علامات! گرمی میں سردی کا لگنا ، جسم میں برقی رو کا احساس، اپنے مقررہ وقت پر پابندی سے اٹھنا، بغیر گھڑی دیکھے درست وقت کا اندازہ کرنا، ساتھ ہی پیش بینی کی یہ صلاحیتوں کہ بلب کے فیوز ہونے کی اطلاع بے دار باطنی حواس نے پہلے ہی فراہم کردی تھی، مگر اس کے ساتھ ہی منفی قوتوں کی کار گزاری بھی جاری تھی۔ یہ انہی کی مزاحمت تھی کہ دماغ مشق ترک کرنے پر اکسا رہا تھا۔ یہی دوسرا مرحلہ ہوتا ہے کہ جہاں کسی ماہر استاد یا نگران کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔