مارچ کی سیاروی گردش ، ایک نئے سیاسی منظرنامے کا آغاز
انسانی دماغ اور شعور و لاشعور ، ہمارے خوابوں کی حقیقت
8 فروری کو ملک میں عام انتخابات کا انعقاد کیا گیا جن کے نتائج پوری دنیا میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔جیتنے والے بھی ناخوش ہیں اور ہارنے والے بھی۔کہا جارہا ہے کہ انتخابات صاف و شفاف نہیں ہوسکے ، اس کی ذمے داری الیکشن کمیشن پر عائد کی جارہی ہے۔قومی اسمبلی میں آزاد امیدوار وں نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں لیکن وہ حکومت بنانے کے بجائے اپوزیشن میں بیٹھنا چاہتے ہیں جب کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی باہمی تعاون سے حکومت سازی کر رہی ہےں، 29 فروری کو کامیاب امیدواروں نے حلف لیا اور غالباً 3 مارچ تک جناب شہباز شریف وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے، پنجاب میں مریم نواز شریف، سندھ میں مراد علی شاہ اور کے پی کے میں علی امین گنڈا پور وزیراعلیٰ ہوں گے۔
عزیزان من! فروری سے سیاروی گردش نہایت معنی خیز رہی ہے یعنی سیارہ زحل اور عطارد غروب حالت میں ہیں ۔جو زائچہ پاکستان میں حکومت اور پارلیمنٹ کے لیے اہم حیثیت رکھتے ہیں۔سیارہ زہرہ اور مریخ بھی اس عرصے میں حالت قران میں رہے ہیں۔مریخ اور زہرہ دونوں ہی مقتدر حلقوں کی نمائندگی کرتے ہیں مریخ چوں کہ زائچے کے بارھویں اور ساتویںگھر کا حاکم ہے لہٰذا زہرہ سے قران کا نتیجہ مقتدر حلقوں کے لیے اطمینان بخش نہیں رہا۔ شمس کی طاقت ور پوزیشن نے عوامی قوت کو بے دار کیا اور نتائج سب کے لیے حیران کن ثابت ہوئے۔جناب نواز شریف جو چوتھی بار وزیراعظم بننے کا خواب لے کر پاکستان آئے تھے ، وہ بھی چور چور ہوگیا۔ کوئی پارٹی خوش دلی سے حکومت سازی کے لیے رضا مند نظر نہیں آرہی تھی۔ چناں چہ بحالت مجبوری یہ کڑوا گھونٹ ن لیگ کو پینا پڑا۔ تقریباً تمام سیاسی پنڈت اور تجزیہ کار یہ کہہ رہے ہیں کہ نئی حکومت کمزور ہوگی اور زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گی۔
ایسی ناموافق سیاروی صورت حال میں یقینا جو حکومت بھی قائم ہوگی اس کے بارے میں کوئی اچھی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔جیسا کہ توقع کی جارہی ہے کہ نئے وزیراعظم جناب شہباز شریف 3 مارچ کو حلف اٹھائیں گے اور اس روز قمر بہ حساب یونانی برج عقرب میں ہوگا۔ اس منحوس وقت میں حلف اٹھانے کا نتیجہ یقینا اچھا نہیں نکلے گا۔ان کی حکومت اور ملک کے لیے یہ کوئی نیک فال نہیں ہوگی۔
مارچ کے مہینے میں نیا چاند زائچہ پاکستان کے مطابق دسویںگھر برج دلو میں ہوگا اور سیارہ زہرہ بھی برج دلو میں آچکا ہوگا۔کسی نئے منظر نامے کا آغاز مارچ کے تیسرے ہفتے سے ہوسکتا ہے، نیا منظر نامہ نہایت چونکا دینے والا ہوگا۔اس امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اب مقتدر حلقے تیسری بڑی اور مقبول سیاسی جماعت تحریک انصاف سے رابطہ کرنے پر مجبور ہوجائیں جس کے نتیجے میں عمران خان کو رعایات ملنا شروع ہوجائیں۔مارچ ہی میں سیارہ زحل طلوع ہوجائے گااور تقریباً 23 مارچ سے سیارہ مشتری اور یورینس کے قران کا آغاز ہوگا جو اپریل تک جاری رہے گا۔25مارچ کو اس سال کا پہلا چاند گہن ہوگا اور اس وقت سیارہ مریخ کی نحس نظر قمر پر ہوگی چناں چہ توقع رکھنی چاہیے کہ مارچ کے آخری ہفتے سے ملکی اور سیاسی صورت حال میں غیر معمولی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی(واللہ اعلم بالصواب)
مارچ کی سیاروی گردش
سیارہ شمس برج دلو میں حرکت کر رہا ہے۔ 14 مارچ کو برج حوت میں داخل ہوگا۔سیارہ عطارد بھی برج دلو میں ہے۔7 مارچ کو اپنے برج ہبوط حوت میں داخل ہوگا۔ جب کہ 26 مارچ کو برج حمل میں داخل ہوجائے گا اور 2 اپریل کو اسے رجعت ہوگی، 9 اپریل کو بحالت رجعت دوبارہ برج حوت میں آجائے گا۔سیارہ شمس سے قریب ہونے کی وجہ سے غروب ہے۔
سیارہ زہرہ برج جدی میں حرکت کر رہا ہے۔ 7 مارچ کو برج دلو میں داخل ہوگا اور 31 مارچ کو اپنے شرف کے برج حوت میں ہوگا۔ سیارہ مریخ اپنے شرف کے برج جدی میں ہے۔ 15 مارچ کو برج دلو میں داخل ہوگا، سیارہ مشتری برج حمل میں حرکت کر رہا ہے اور پورا مہینہ اسی برج میں رہے گا۔ سیارہ زحل برج دلو میں ہے اور پورا مہینہ اسی برج میں رہے گا۔ سیارہ یورینس برج حمل میں جب کہ نیپچون برج حوت میں اور پلوٹو برج جدی میں حرکت کر رہے ہیں۔راس و ذنب بالترتیب برج حوت اور سنبلہ میں ہیں۔ یہ رفتار سیارگان ویدک سسٹم کے مطابق دی جارہی ہیں۔
قمر در عقرب ( ویدک سسٹم کے مطابق)
قمر اپنے ہبوط کے برج عقرب میں پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 2 مارچ کو صبح 07:47 پر داخل ہوگا اور 4 مارچ سہ پہر 03:51 تک ہبوط زدہ رہے گا۔یہ نحس وقت سمجھا جاتا ہے، اس وقت کوئی نیا کام کرنا مناسب نہیں ہوتا۔ البتہ بندش سے متعلق عملیات کیے جاسکتے ہیں۔ علاج معالجے کے لیے بھی یہ موافق وقت ہے۔روایتی طور پر قمر کو 3 درجہ برج عقرب پر ہبوط ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے قمر اپنے درجہ ہبوط پر دو مارچ کو صبح 11:36 سے دوپہر 01:31 تک درجہ ءہبوط پر رہے گا لیکن ہمارے نزدیک قمر کی ہبوط یافتہ پوزیشن پورے برج عقرب میں موثر ہوتی ہے لہٰذا اوپر دیے گئے اوقات میں کسی وقت بھی ضرورت کے مطابق عمل کیا جاسکتا ہے۔
قمر در عقرب (بہ حساب یونانی)
یونانی سسٹم کے مطابق قمر اپنے درجہ ہبوط پر 29 فروری کو دوپہر 12:06 پر پہنچے گا اور دوپہر 02:06 درجہ ہبوط پر رہے گا۔
شرف قمر
سیارہ قمر پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق اپنے شرف کے برج ثور میں 14 مارچ کو شب 10:09 پر داخل ہوگا اور 17 مارچ کو شب 03:50 تک برج ثور میں رہے گا۔اپنے درجہ شرف پر 15 مارچ کو شب 01:35 سے 03:19 تک ہوگا۔یہ سعد وقت ہے۔ اس وقت اپنے جائز مقاصد کے لیے عمل و وظائف کیے جاسکتے ہیں۔
دماغ کی شعوری اور لاشعوری تقسیم کا مسئلہ
انسانی جسم پر حکمران دماغ کے بارے میں جدید سائنس اور نفسیات کا علم اب تک انتہائی نا مکمل ہے اور دماغ کے ”لاشعوری حصے“ کے بارے میں معلومات تو بہت ہی کم ہیں کیوں کہ لاشعور کے بارے میں عملی تحقیق کا سلسلہ مغرب میں سو سال سے زیادہ پرانا نہیں البتہ مشرق اس معاملے میں بھی ہمیشہ آگے رہا ہے۔
سائنس دان اس بات پر مکمل طور پر متفق ہیں کہ شعور اور لاشعور باہمی طور پر مل جل کر کام کرتے ہیں اور ان کے اشتراک سے ہی تمام افعال انجام پاتے ہیں۔ ان دونوں حصوں کا باہمی عمل جتنا زیادہ طاقت ور اور مکمل ہوگا، انسان کے اعمال اتنے ہی زیادہ کامیاب ہوتے جائیں گے اور وہ آگے سے آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ اپنی ہر مشکل اور بیماری پر قابو پانے میں اسے آسانی ہوگی، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ان دونوں حصوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ رابطہ بڑھایا جائے اور ان کے باہمی تعلق کو موثر سے موثر تر بنایا جائے۔
اگر آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اکثر مسائل زدہ پریشانیوں کا شکار افراد کے ہاں یہ خرابی پائی جاتی ہے یعنی ان کا شعور اور لاشعور باہمی طور پر مکمل ہم آہنگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہوتے۔ وہ سوچتے اور چاہتے کچھ اور ہیں جب کہ شعوری کوششوں کا حال کچھ اور ہوتا ہے۔ یہی صورت اکثر پے چیدہ بیماریوں میں مبتلا مریضوں میں موجود ہوتی ہے اور جب یہ صورت بہت زیادہ شدت اختیار کر لیتی ہے تو حافظے کی خرابی، فالج، ہاتھ پاو¿ں یا جسم کے دیگر حصوں میں لرزہ ور عشہ کی کیفیات بھی ظہور میں آتی ہیں۔ نظام انہضام کی خرابیاں، منشیات کی عادات اور دیگر اخلاقی و معاشرتی خرابیاں بھی ایسی صورت میں نمودار ہوتی ہیں اور مریض لاشعوری طور پر جس کام کو برا سمجھتا ہے شعوری طور پر وہی کر رہا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی اپنی اس کمزوری کا اظہار بھی کرتا ہے ، اس پر ندامت و پشیمانی بھی ظاہر کرتا ہے مگر کرتا وہی ہے جس کی طرف اس کا شعور اسے راغب کرتا ہے۔ شعور اور لاشعور میں تضاد کے یہ نمونے ہمیں اکثر نظر آتے ہیں اور ایلو پیتھک طریقہ علاج میں اس کمزوری پر قابو پانے کے لیے کوئی دوا موجود نہیں ہے، البتہ ہومیو پیتھی اس حوالے سے بھی زرخیز ہے۔
وہ دماغ جسے آپ اپنے سر میںسجائے رکھتے ہیں، دوسری چیزوں کے علاوہ آٹھ ارب برقی خلیوں سے مل کر بنا ہوتا ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ قدت کی صنّاعی کا اس سے اعلیٰ نمونہ اور کیا ہوگا۔ اس کی تازگی اور نفاست کا خیال کیجیے تو یقین نہیں آتا کہ ایسا ممکن بھی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تمام سائنسی ترقی کے باوجود اب تک ایک انسانی دماغ تخلیق نہیں کیا جاسکا ہے۔ یہ برقی خلیے ایک دوسرے سے باہم متصل ہوتے ہیں اور ان کے درمیان رابطے سے ہی زندگی کا سارا کاروبار چلتا ہے۔ یہ بات اگرچہ مبالغہ آرائی سی لگتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان برقی خلیوں کے ذریعے ہمارے دماغ میں برقی رو بھی دوڑتی ہے اور اسی برقی رو کی بدولت ہم یاد رکھتے، معلومات وصول کرتے اور دیگر کام انجام دیتے ہیں۔
دماغ کے ان آٹھ ارب خلیوں میں وہ سب کچھ بند ہے جس کی کوئی فرد تمنا کرسکتا ہے۔ قدرت نے اسے اتنا پے چیدہ بنایا ہے تو اس کی وجہ بھی یقینا ہوگی۔ دماغ کی اس پے چیدگی کی توجیہہ یہ پیش کی جاسکتی ہے کہ قدرت نے انسان کو ہر لحاظ سے مکمل بنایا ہے اور اس میں کوئی سقم یا خامی نہیں رکھی۔
شاید اسی بنا پر اسے اپنی تمام ضروریات پوری کرنے کے لیے ہر قسم کی صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے اور وہ سب کچھ دے دیا گیا ہے جس کی اسے زندگی کے کسی نہ کسی موقع پر طلب ہوسکتی ہے۔ یہ سب کچھ دماغ کے سوا اور کہاں ہوسکتا ہے؟ ہر گز نہیں ہوسکتا۔ چناں چہ ہر انسان اس دولت سے مالا مال ہے، آپ بھی اور ہم بھی۔ اپنے بدن کی سلطنت کے اس تاج کی قدر کیجیے تو آپ وہ سب کچھ پاسکتے ہیں جس کی زندگی میں طلب محسوس ہو۔ آپ اپنے دماغ سے وہ چیزیں بھی کشید کرسکتے ہیں جنہیں محض تصور، کرامت یا معجزہ مانا جاتا ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ آپ کے اندر اپنے دماغ کو قابو میں کرنے کی صلاحیت موجود ہو اور آپ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہوں۔
موجودہ دور مقابلے کا دور ہے۔ دنیا کی ہر شے کو مسابقت کا سامنا ہے۔ لوگ آگے بڑھ رہے ہیں، ترقی کر رہے ہیں، ہر صورت میں دوسروں کو نیچا دکھا کر اوپر پہنچنے کی فکر میں ہیں۔ غرض ایک افرا تفری کا عالم ہے جس میں کم تر کے لیے کوئی جگہ نہیں اور گھٹیا کو یہ دنیا خود مٹا دیتی ہے۔ فنا اور بقا کی جنگ جتنی شدت سے اس زمانے میں جاری ہے شاید ہی زمین کے سینے نے کبھی دیکھی ہوگی۔ ایسے موقع پر انسان کے لیے ناگزیر ہوگیا ہے کہ وہ ترقی کے لیے اپنی صلاحیتوں کو ابھارے اورخوش و خرم زندگی گزارنے کے لیے ان میں زیادہ سے زیادہ نکھار پیدا کرے۔ آج کا انسان لا علمی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اسے اپنے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات کی ضرورت ہے وہ جتنا زیادہ اپنے بارے میں با خبر ہوگا، اتنا ہی اس کی بقا کے مواقع میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
ہمارے معاشرے میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ تعلیمی میدان میں خاطر خواہ ترقی نہ ہونے کے سبب ہم اپنے آپ اور اپنے ارد گرد سے بے خبر ہیں۔ ایک بیمار اور اس کے تیمار داروں کو نہیں معلوم کہ اس کی بیماری کی نوعیت کیا ہے اور اس میں پر ہیز کیا ہونا چاہیے؟ طریقہ علاج کے تقاضے کیا ہیں؟ حفظان صحت کے اصول کون سے ہیں، زندگی کے فطری تقاضے کیا ہیں؟ کون سے شعبہ ہائے زندگی میں رفتار دنیا کیا ہوچکی ہے اور ہم اس حوالے سے کیا کر رہے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایسی معلومات ہیں جو ہر شخص کے لیے لازمی ہیں کہ اسی میں فنا اور بقا کے مسائل پوشیدہ ہیں۔
دماغ کو کھنگالنے کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی فنا اور بقا کا فلسفہ ہے۔ آپ میں صلاحیتیں ہیں۔ آپ کو اپنے اوپر اعتماد ہے اور آپ کامیابی سے اپنی ذات کو دنیا کی امتحان گاہ میں پیش کرسکتے ہیں تو پھر آپ زندہ بھی ہیں اور پائندہ بھی۔ دوسری صورت میں آپ میں صلاحیتیں تو ہیں، آپ خود ہر چیز کا اہل بھی سمجھتے ہیں لیکن اپنے آپ کو دوسروں کے سامنے پیش نہیں کرسکتے تو پھر یہ ساری صلاحیتیں بے کار ہیں۔ کیچڑ میں پڑے ہوئے ہیرے کی قدر بھلا کون کرتا ہے؟
خوابوں کی دنیا
ثمینہ رحمان۔ جگہ نامعلوم، لکھتی ہیں ” پہلی بار آپ کو خط لکھنے کی جسارت کر رہی ہوں، جواب دے کر ممنون فرمائیے گا، میں نے رات ایک عجیب اور حیرت انگیز خواب دیکھا جس نے مجھے آپ کو خط لکھنے پر مجبور کردیا لیکن اپنا خواب لکھنے سے پہلے کچھ اپنے بارے میں واضح کرنا چاہتی ہوں۔ میری عمر 35 سال ہے۔ چودہ سال کی عمر میں مجھے نفسیاتی بیماری ہوگئی تھی۔ وہ اس طرح کہ میں امتحان کا بہت ٹینشن لیتی تھی۔ بیماری کے باعث بی اے کا امتحان بھی پاس نہ کرسکی پھر میں ایک مشہور کھلاڑی کی بے حد فین ہوں اس لیے بھی ایک الگ خیالی دنیا میں رہنے لگی تھی۔ ڈاکٹروں کے مطابق مجھے شیزوفرینیا ہوگیا ہے۔ میرا کافی علاج ہوا ہے ، کئی مرتبہ شاک بھی لگائے گئے۔ اب خدا کے فضل سے میں بالکل ٹھیک ہوگئی ہوں۔ امی نے تین ماہ قبل علاج کے لیے تعویذ کروایا تھا جو کہ میں ہر وقت گلے میں ڈالے رکھتی ہوں۔
میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک چھوٹا سا گھر ہے، ساٹھ گز کا ڈبل منزلہ۔ میں اوپر کی منزل میں گئی، دیکھا کہ وہاں کمرے کے ایک کونے میں زیورات کا ڈبا رکھا ہوا تھا جس میں کئی ناک کی لونگیں اور کانوں کے بندے رکھے ہوئے تھے۔ میں نے زیور دیکھتے ہی پانچ چھ لونگیں اٹھالیں، بندے بھی دو سیٹ اٹھالیے لیکن باقی چیزیں مجھے زیادہ نہیں بھائیں۔ پھر میں نے دیکھا کہ ایک خاتون نیچے باورچی خانے میں کھانا پکارہی تھیں۔ انھوں نے کھانے کے لیے بلایا۔ میں باورچی خانے ہی میں بیٹھ گئی۔ ایک پتیلی کا ڈھکنا کھولا تو دیکھا، اس میں مچھلیاں پکی ہوئی تھیں۔ میں نے جونہی چمچہ چلایا، معلوم ہوا کہ مچھلیاں زندہ ہیں پھر میں نے گھبرا کر دوسری پتیلی کا ڈھکنا کھول کر دیکھا تو مرغی کا گوشت بھنا ہوا پکا تھا۔ جب چمچہ چلایا تو پتا چلا کہ کھال اتری ہوئی ثابت مرغیاں تھیں۔
پھر میں نے دیکھا کہ ہم نے گھر بدل لیا ہے۔ وہ ہمارے گھر سے بھی بڑا اور صاف ستھرا گھر تھا اور اس گھر میں کمرے بہت سارے تھے۔ اچانک منظر پھر بدل جاتا ہے۔ میں نے پھر وہی پرانا گھر دیکھا، بتایا گیا کہ یہ انہی صاحب کا گھر تھا جنہوں نے تمہیں تعویذ دیا تھا اور وہ خاتون جو باورچی خانے میں تھیں، مولوی صاحب کی بیوی تھیں، جب میں گھر سے باہر نکلنے کے لیے باہر کے دروازے سے قدم باہر نکالتی ہوں تو تین سیڑھیوں کی اترائی پر ایک چھ ماہ کی بچی پڑی ہوئی رو رہی ہوتی ہے۔ ایک آواز آتی ہے کہ یہ تیری چوتھی اولاد ہے، تین ضائع ہونے کے بعد۔ اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل جاتی ہے۔
جواب: خوابوں کی دنیا ایک الگ ہی دنیا ہے۔ ماہرین نفسیات اس حوالے سے مستقل تحقیقات میں مصروف عمل ہیں۔ اس حوالے سے علم نفسیات کے باوا آدم سگمنڈ فرائڈ سے لے کر آج تک بے شمار ماہرین نفسیات اس پر اسرار دنیا کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف رہے ہیں اور ان کے درمیان اختلاف رائے بھی پایا جاتا ہے۔
فرائڈ نے کہا تھا ” انسانی خواہشات خوابوں میں نت نئے روپ دھار کر سامنے آتی ہیں “ مگر وہ یہ بھی تسلیم کرتا تھا کہ خواب بہر حال معنی رکھتے ہیں۔ ان کے ذریعے امراض کی تشخیص کی جاسکتی ہے۔ اس کے مخالفین نے فرائڈ کے نظریات کو غیر سائنٹیفک قرار دیا۔ اس اختلاف رائے کے باوجود علم نفسیات کے ماہرین فرائڈ کے نظریات کو یک لخت مسترد نہیں کرتے۔ فرائڈ کے نظرئیے کے مطابق انسان کا دماغ دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک شعور اور دوسرا لاشعور ۔ ہمارے شعوری تجربات و مشاہدات ہمارے لاشعور میں ریکارڈ ہوتے رہتے ہیں لہٰذا ہمارا لاشعور ایک ایسا ریکارڈ روم ہے جس میں ہماری زندگی سے متعلق یادوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود رہتا ہے۔ بقول فرائڈ یہی لاشعور ہمارے شعور کی بے خبری میں ہم پر حکم چلاتا ہے اور ہم اپنی لاشعوری حالت میں خیالات، تہذیب اور تمدن کی قید سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ فرائڈ کی تحقیق کے مطابق ہماری تشنہ خواہشات اور بچپن کی نا آسودہ خواہشیں ہمارے لاشعور میں مسلسل سرگرم عمل رہتی ہیں اور وہ ہر اس موقع کی تلاش میں رہتی ہیں جب خود کو سیراب کرسکیں لہٰذا لاشعور میں رہائش پذیر یہ تشنگیاں اور نا آسودہ خواہشیں نیند کی حالت میں شعور کی سطح پر آجاتی ہیں۔
اس وضاحت کی روشنی میں ضروری ہوجاتا ہے کہ خواب کی تعبیر بیان کرنے والے کے سامنے خواب دیکھنے والے کا کردار واضح ہو۔
علم نفسیات کے بعد ماہرین مابعد الفنسیات کی تحقیق کے حوالے سے مختصراً عرض کرتے چلیں۔ وہ خوابوں کو کئی اقسام میں بانٹ دیتے ہیں اور یہ تقسیم بھی خواب دیکھنے والے کے ظاہری و باطنی کردار و کیفیات کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ انسان دو رخوں سے مرکب ہے۔ ایک رخ اس کے ظاہری حواس ہیں اور دوسرا رخ اس کے باطنی حواس کا ہے۔ ( علم نفسیات کی اصطلاح میں ظاہری حواس کو شعور اور باطنی حواس کو لاشعور ہی کہا جائے گا) نیند کی حالت میں ظاہری حواس معطل ہوجاتے ہیں اور باطنی حواس حرکت میں آجاتے ہیں۔ باطنی حواس کی حرکت ہی خوابوں کا سبب بنتی ہے۔ اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ کون سا انسان کس قسم کے خواب دیکھے گا اور اس کے خوابوں کو کیا تعبیر دی جائے گی۔ایک جنرل اصول یہ ہے کہ ہما را لاشعور، پیراسائیکولوجی کی زبان میں جسم مثالی جس قدر عمدہ حالت میں ہوگا، ہمارے خواب بھی اتنے ہی روشن اور صاف ستھرے ہوں گے جب کہ اس کے برعکس جسم مثالی یا ہمزاد کی حالت جس قدر تباہ و گمراہ ہوگی، خواب بھی اسی قدر پے چیدہ اور بے ربط و عجیب و غریب ہوں گے۔ ہمارے خیال سے اس طویل وضاحت کے بعد آپ اور بہت سی دوسری بہنیں خوابوں کے مسئلے سے کسی حد تک آگاہ ہوگئی ہوں گی۔