لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

سانس کی مشقوں کے دوران میں پیش آنے والی کیفیات

گزشتہ کالموں میں سانس کی مشقوں کے حوالے سے اظہار خیال تھا تو ضروری ہوگیا کہ کچھ ان لوگوں کے بارے میں بھی آپ کو بتایا جائے جو ماضی میں یہ مشقیں کرتے رہے ہیں، ایسے ہی کچھ قارئین کے خطوط پیش خدمت ہیں۔
” میں آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں، امید ہے کہ رہنمائی فرمائیں گے۔ پچھلے دو سال سے سانس کی مشقیں باقاعدگی سے اور مراقبہ بے قاعدگی سے کر رہا ہوں اور اب مراقبہ بھی شروع کر رہا ہوں۔ مشقوں کی ابتدا جناب رئیس امروہوی مرحوم کی کتابیں پڑھ کر کی تھی۔ اس دوران کئی کیفیات سے گزرا۔ قدرت کے کئی مناظر دیکھے جو ان جاگتی آنکھوں سے نہیں دیکھے جاسکتے۔ ان حالتوں سے گزرا جو صرف محسوس کی جاسکتی ہیں۔ واضح رہے کہ میں سانس کی مشقوں میں ” متبادل طرز تنفس“ 2-4-1کی مشق کرتا ہوں۔ اس طرح میں سانس کے 7چکر لگاتا ہوں۔ سانس کی مشق چھت پر کھلی فضا میں شمال کی جانب رخ کرکے کیا کرتا ہوں۔ پہلے ایک سال تو مختلف کیفیات سے گزرتا رہا، پھر سب کچھ رک گیا اور اب دو مہینے سے مجھے کچھ عجیب کیفیات کا سامنا ہے۔ بعض اوقات دماغ پر، سر کے پچھلے حصے پر، کندھوں پر، ریڑھ کی ہڈی پر چونٹیاں سی رینگنے لگتی ہیں۔ بعض اوقات ان حصوں میں عجیب لہریں سی اٹھتی ہیں۔ بعض اوقات ناف کے زیریں حصے میں عجیب لہر اٹھتی ہے جو دل سے ہوتی ہوئی دماغ تک پہنچتی ہے اور عجیب بے چینی دل اور دماغ پر سوار ہوجاتی ہے۔ لگتا ہے کہ جیسے کسی چیز کی طلب ہو۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کس چیز کی طلب ہے۔ ایک عجیب کرب کیفیت سے گزرتا ہوں ۔
ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے، اسی مہینے کی تیرھویں شب مراقبہ ءنور کرکے سویا، رات کے پچھلے پہر تین چار بجے کے قریب آنکھ کھلی تو چھت پر جاکر لیٹ گیا۔ آنکھیں بند تھیں کہ مراقبے کی کیفیت طارقی ہوگئی۔ سارے جسم میں جیسے برقی لہریں دوڑنے لگیں، دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسی ہوئی تھیں۔ میں نے انھیں الگ کرنا چاہا تو محسوس ہوا جیسے میگنٹ سے لوہا چپک جاتا ہے، یہ اسی طرح ایک دوسرے سے چپک گئی تھیں۔جسم کو حرکت دینی چاہی تو ایسا معلوم ہوا کہ جیسے سارا جسم جام ہوگیا ہو۔ پھر مجھے محسوس ہوا کہ کوئی میرے سرہانے کھڑا ہے اور مجھے صرف اس کے سانس لینے کی آواز سنائی دے رہی تھی اور صرف ایک مرتبہ مجھے ایک سائے کی جھلک دکھائی دی۔ مجھ پر ایک انجانا سا خوف طاری ہوگیا۔ اسی خوف کے زیر اثر میری زبان سے صرف ایک لفظ نکلا ” اللہ اکبر“ اور میں اس سحر سے نکل آیا کہ جس کی وجہ سے میرا سارا جسم عضو معطل بن کر رہ گیا تھا۔ حضرت! میں آپ سے معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ یہ سب کیا تھا؟ اس کا سبب کیا تھا تاکہ آئندہ میں ان باتوں یا ان چیزوں سے ڈر نہ سکوں۔ مزید میں اپنے بارے میں کچھ تحریر کردوں کہ میں نے کن وجوہات کی وجہ سے اس راہ پرخار میں قدم رکھا۔ عرصہ پندرہ سال سے الرجی کا مریض ہوں۔ پچھلے سات سال سے ڈپریشن کا مریض ہوں اور یہی وجہ ہے کہ میں نے یہ مشقیں شروع کیں تاکہ اپنی قوت ارادی کے ذریعے ان پر قابو پاسکوں۔“
عزیزم! یہی وہ صورت حال ہے جس کی وجہ سے ہدایت کی جاتی ہے کہ بغیر استاد کے اس کوچہ ءہزار رنگ میں قدم نہ رکھا جائے کہ اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں اور انہی مقامات پر رہنمائی اور دست گیری کی ضرورت پڑتی ہے۔ بہ صورت دیگر نا واقفیت کے سبب معاملہ الٹا ہوجاتا ہے۔
آپ نے محترم رئیس امروہوی کی تجویز کردہ متبادل طرز تنفس کی مشقیں منتخب کرکے کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ مراقبہ نور شروع کرنا بھی غلط نہیں تھا۔ بات صرف اتنی ہے کہ کون سی دوا مریض کب لے اور کتنی مقدار میں لے، دوا کے استعمال سے جو ری ایکشن ہورہے ہوں، ان پر نظر رکھی جائے اور پھر ضرورت کے مطابق ٹریٹمنٹ میں ردوبدل کیا جائے یا مریض کو ضروری ہدایت دی جائے، ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ خود مریض نہیں کرسکتا، نہ ان مسائل کو سمجھ سکتا ہے۔
آپ دو سال سے متبادل طرز تنفس کی مشق کر رہے ہیں۔ اس مشق کے اثرات ہونا لازمی تھے مگر ان اثرات کے مثبت فوائد سے آپ کی بے خبری اور کم علمی نے آپ کو مستفید نہ ہونے دیا بلکہ آپ نے بے قاعدگی سے مراقبہ کرکے معاملے کو مزید بگاڑ لیا۔ ان مشقوں کے نتیجے میں آپ کے باطنی حواس نے کام کرنا شروع کردیا لیکن آپ اپنی اس پیدا شدہ خوبی سے بھی بے خبر ہی رہے۔ آپ کے ساتھ جو واقعہ تیرہویں کی شب کو پیش آیا وہ آپ کے اپنے باطنی حواس ہی کا کرشمہ تھا، کوئی دوسری نادیدہ قوت وہاں موجود نہیں تھی لہٰذا ایسی صورت حال سے ڈرنے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اس کے علاوہ آپ سے گزارش یہ ہے کہ آپ رئیس صاحب ہی کی کتاب میں”قبض و بسط“ کا موضوع بھی ضرور مطالعہ فرمائیں۔ یہ وہ مسئلہ ہے جو اس راستے پر چلنے والوں کو اکثر پریشان کرتا ہے، یعنی اچانک ترقی تو رک جاتی ہے اور کچھ نئے مسائل یا تکالیف شروع ہوجاتی ہیں۔ رئیس صاحب لکھتے ہیں ” نصاب تعمیر و تنظیم شخصیت کے دوران میں کبھی طبیعت کا بحال و بشاش ہوجانا اور کبھی پھر وہی افسردگی و بے زاری کے دورے پڑنے لگنا کوئی حیرت انگیز معاملہ نہیں۔ ہمیں علم ہے کہ انسانی ذہن کس قدر چنچل، کتناچوکنا اور کیسا چاق و چوبند واقع ہوا ہے۔ جوں ہی انسانی ارادے کی گرفت مضبوط ہونے لگتی ہے وہ پھڑ پھڑانے اور رسی تڑانے لگتا ہے لیکن یہ کیفیت ہمیشہ نہیں رہتی، آخر کار ارادے کی قوت اس سرکش گھوڑے کو رام کر ہی لیتی ہے اور انسان کی انا جذبات کے پر شور طوفان پر سوار ہو ہی جاتی ہے۔ آگے چل کر اس معاملے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں”طریقت کی وادی میں ہر قطب، ابدال، ولی ، عارف اور صوفی کو قبض و بسط کے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ سینہ کھل گیا، تجلیات الٰہی کی بارش ہونے لگی اور سارے حجابات اٹھ گئے۔ اس کیفیت کو صوفیائے کرام انبساط( یعنی دل کا کھل جانا) کے نام سے یاد کرتے ہیں اور کبھی قبض طاری ہوجاتا ہے، یعنی گھٹن، روحانی بندش اور تاریکی کا احساس۔ یہ کیفیت صوفیوں پر ہی نہیں شاعروں، عاشقوں، موجدوں، فلسفیوں، فن کاروں اور موسیقاروں پر بھی گزرتی ہے۔“
امید ہے کہ اب آپ اپنے مسئلے سے بخوبی آگاہ ہوگئے ہوں گے۔ ہمارا مشور ہے کہ سانس کی مشق جاری رکھیں لیکن مراقبہ نور کے بجائے نیلی روشنیوں کا مراقبہ کریں۔ کھانے میں نمک بالکل بند کردیں یا برائے نام مقدار میں لیں۔ اپنی خوراک کے چارٹ میں میٹھی چیزوں کا استعمال بڑھا دیں۔ بہترین بات یہ ہوگی کہ صبح نہار منہ آدھا کپ عرق گلاب میں ایک بڑا چمچہ شہد کا ملاکر پی لیا کریں۔ ان شاءاللہ آپ بہت جلد اپنی موجودہ کیفیت سے چھٹکارا پاکر اصل منزل کی طرف بڑھنے لگیں گے۔ بہتر ہوگا کہ آئندہ بھی رابطے میں رہیں۔

ایک دوسرا خط ملاحظہ فرمائیے۔

” اس وقت میری عمر 58 سال چھ ماہ کے قریب ہے۔ تقریباً 20سال پیشتر محترم رئیس امروہوی کی کتب کے مطالعے کے بعد میں نے تنفس نور کی مشقیں کی تھیں۔ مشقوں میں یہ بتایا گیا تھا کہ دوران مشق گلے کے اندر کرنٹ سا لگتا ہے۔ میں نے اپنے کمرے میں تنہائی میں رات کو صرف 6یا 7دن مشق کی تو ایک دن اچانک میرے حلق میں کرنٹ لگا جس کی وجہ سے میں ڈر گیا اور اپنے کمرے سے نکل کر نیچے آگیا۔ پھر اس کے بعد آج تک کسی قسم کی ورزش یا مشق نہ کرسکا۔ دیگر وجوہ کے علاوہ ایک اہم وجہ یہ تھی کہ غم روزگار اور مسائل روزگار میں پھنس گیا۔ آپ کا کالم پڑھا تو دل چاہا کہ آپ کو خط لکھوں۔ دراصل مجھے روحانی مدارج میں تجربات حاصل کرنے کا ازحد شوق بھی ہے اور میں بنیادی طور پر مذہبی جذبات کا حامل شخص ہوں لیکن صد افسوس یہ کہ اس کے برعکس میں دیگر اخلاقی برائیوں میں بھی مبتلا ہوں جس میں سب سے زیادہ تکلیف دہ برائی جھوٹ ہے، ناجانے کیا وجہ ہے کہ ہر وقت جھوٹ ہی بولتا رہتا ہوں۔ اسی طرح میں جنسی کجروی میں بھی شدید طریقے سے مبتلا ہوں، یعنی خود لذتی، میری شادی کو دس سال کا عرصہ ہوگیا لیکن آج بھی اس لعنت میں مبتلا ہوں، بہر حال آپ سے گزارش ہے کہ مجھے ایسی مشق عطا فرمادیں جس کو انجام دے کر میں روحانی اور جسمانی سکون اور قوت حاصل کرسکوں، نیز میں ان مشقوں کے ذریعے درجہ بہ درجہ روحانی مدارج طے کرتا رہوں“
عزیزم! آپ نے بیس سال پہلے تنفس نور کی مشق کی تھی اور جو تجربہ آپ کو ہوا اس کے حوالے سے ہم بیان کرچکے ہیں کہ اس راہ میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ مشق چھوڑ کر آپ نے غلطی کی تھی۔ آپ کو اپنی کیفیت سے رئیس صاحب کو آگاہ کرنا چاہیے تھا۔ اب آپ کے لیے ہم ایک مشق تجویز کر رہے ہیں اسے پابندی سے کیجیے اور ذہن سے وسوسے اور وہم نکال دیجیے۔
رات کو سونے کے لیے جب بستر پر لیٹ جائیں تو تھوڑی دیر کے لیے ذہن سے ہر خیال کو جھٹک کر چند گہری گہری سانس لیں اور اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیں۔ اس کے بعد آنکھیں بند کرلیں اور ناک کے نتھنوں سے آہستہ آہستہ سانس اندر کھینچیں اور زبان سے آہستگی کے ساتھ یہ کہتے رہیں کہ میں سانس اندر کھینچ رہا ہوں۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ سانس کو ناک سے خارج کریں اور ساتھ ہی یہ فقہ دہرائیں” میں سانس کو باہر خارج کر رہاہوں“
بس یہ عمل پانچ منٹ تک کریں مگر خیال رہے کہ جب آپ سانس اندر کھینچ رہے ہوں اور یہ فقرہ ادا کر رہے ہوں کہ میں سانس اندر کھینچ رہا ہوں تو آپ کی پوری ذہنی توجہ اس فقرے پر ہو اور بالکل اسی طرح سانس باہر خارج کرتے وقت بھی پوری توجہ فقرے پر مرکوز رکھیں۔ بعد ازاں سوجائیں، یہ مشق مکمل پابندی سے ایک ماہ کرنی ہے۔

مادی بندش اور آزادی، لطافت اور کثافت کا افتراق

اس مضمون میں ہم پیراسائیکولوجی کی ایک طالبہ کے خطوط سے چند اقتباسات پیش کر رہے ہیں جن میں انھوں نے دوران مشق پیش آنے والی کفیات کے بارے میں لکھا ہے۔
”دوران مشق آنکھوں کے سامنے سفید چمکیلی روشنی نمودار ہوئی، اس روشنی سے مزید روشنیاں ادھر ادھر بکھرتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ میرا جسم ہلکا ہوگیا، دماغ نارمل تھا۔
آج صبح بے دار ہونے سے پہلے ایسا لگا جیسے میرے دماغ سے یا پھر میرے بالکل قریب سے ایک سریلی آواز میں سیٹی بج رہی ہے۔ یہ آواز کانوں کو بہت بھلی لگی،ا ٓج حسب معمول مشق کی ، نور آنکھوں کے سامنے آگیا، دماغ کے دائیں حصے میں معمولی تکلیف محسوس ہوئی، ایسا لگا کہ کچھ دیر بعد میں اوپر کی طرف اٹھ جاوں گی۔“
ایک اور خط میں لکھا”تنفس نور کی مشق کے دوران میں جب سانس خارج کرتی ہوں تو یوں لگتا ہے سانس کے بجائے ناک سے آگ نکل رہی ہے، آنکھیں گرم ہوجاتی ہیں، پیٹ میں جیسے شگاف پڑ گیا، ایک سوال معلوم کرنا چاہتی ہوں، مشق کے دوران میں پیٹ میں شگاف کیوں پڑتا ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟“
پیٹ میں شگاف پڑنے کا معاملہ ہو یا جسم کے کسی اور حصے کے بارے میں کوئی غیر معمولی تبدیلی محسوس ہو تو ہم اسے محض باطنی حواس کی بے داری کی علامت ہی قرار دیں گے کیوں کہ ان مشقوں کے دوران انسان یا اس کا روحانی وجود کثافت سے دور ہوکر لطافت کی جانب بڑھ رہا ہوتا ہے، اس صورت میں مادی وجود ایک بے حقیقت شے ہوکر رہ جاتا ہے۔ا یسے ہی عالم میں اکثر لوگ اپنے وجود کے ساتھ وقت، فاصلے، تمام مادی اشیا کی قید سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ بزرگان دین کے ایسے واقعات ریکارڈ پر موجود ہیں کہ جب وہ ایک ہی وقت میں کئی مقامات پر پائے گئے یا کسی بند مکان یا کمرے سے باہر نکل گئے، یعنی مادی دیواریں ان کا راستہ نہیں روک سکیں، اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ مادی بندشوں، قید سے آزاد ہوگئے تھے مگر اس کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں ہے کہ ان پر موت وارد ہوگئی کیوں کہ موت کے بعد بھی انسان تمام مادی بندشوں سے آزاد ہوجاتا ہے۔ زمان و مکان کے مسئلے کی جو تشریح ہمارے ہاں اہل تصوف نے کی ہے اس کا مطالعہ اس مسئلے کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ ہم پہلے بھی اپنے پیراسائیکولوجی کے مضامین کے حوالے سے اس مسئلے پر اظہار خیال کرچکے ہیں۔
انھوں نے ایک اور خط میں لکھا کہ دوران مشق میں ناف سے لہریں اٹھ رہی تھیں۔ میں نے دیکھا نور کی لہر کافی دور سے قریب آرہی تھی اور میں سکون محسوس کر رہی تھی، پیٹ میں شگاف پڑ گیا۔ رات مراقبہ نور کی مشق کی۔ کچھ دیر بعد ایسا لگا، گول دائرے کی شکل میں نور آنکھوں سے میرے جسم میں جذب ہورہا تھا۔ تقریباً تیس یا 35سیکنڈ بعد یہ محسوس کرنے لگی کہ جسم کا درمیانی حصہ ساکن ہے، میرا جسم بالکل ہلکا ہوگیا ہے۔ جب صبح ہلکا ہوا تو یوں لگا کہ جسم کے ساکن حصے میں جس طرح چرخی میں دھاگا لپیٹتے رہیں، بالکل اسی طرح میرے جسم کا یہ ساکت حصہ گول دائرے کی شکل میں گھوم رہا ہے۔ جب میں اس کیفیت سے گزر رہی تھی تو مجھے ایک مردانہ آواز سنائی دی، مبارک ہو۔ جب مشق ختم کرکے اٹھی تو میرے دونوں ہاتھوں میں پسینے آرہے تھے۔ا ٓواز کے متعلق میں یہ اندازہ نہیں لگا سکی کہ یہ کس سمت سے آئی یا پھر یہ میرے قریب سے آئی۔ کیا یہ آواز نادیدہ مخلوق کی تھی“؟
ایسے مرحلے پر کسی نادیدہ مخلوق کا کیا کام! یہ تو وہ منزل تھی جہاں کوئی نادیدہ مخلوق مداخلت کی ہمت بھی نہیں کرسکتی۔ ایسے موقع پر صرف اعلیٰ روحانی نگران قوتیں ہی حوصلہ افزائی کرسکتی ہیں۔ کوئی بھی نادیدہ قوت ایسے مرحلے پر مداخلت کی مرتکب ہوکر خود نقصان اٹھاسکتی تھی۔
ایک اور خط کا اقتباس ” دوران مشق ناف سے لہریں اٹھیں، دماغ اور جسم ہلکا ہوگیا۔ دو یا تین منٹ بعد ایسا لگا جیسے کوئی دماغ یا دائیں حصے پر زور لگا رہا ہوں، پھر یوں لگا دو چیزیں یا دماغ کے دو حصے چپک گئے ہوں، جب ایسا محسوس ہوا تو تھوڑی دیر بعد یوں لگا جیسے دماغ کا بایاں حصہ بھی مزاحمت کر رہا ہے یعنی پہلی والی صورت دماغ کے دائیں اور بائیں حصے میں بھی محسوس ہوئی۔ چند سیکنڈ بعد دماغ کے دائیں اور بائیں حصے ایک دوسرے سے بڑھ کر مزاحمت کر رہے تھے۔ دایاں حصہ جب اوپر ہوجاتا، دماغ کا بایاں حصہ نیچے، جب بایاں حصہ اوپر ہوجاتا تو دایاں نیچے۔ اس طرح کچھ دیر ہوتا رہا، پھر آہستہ آہستہ دماغ نارمل ہوگیا۔ میرا سر پھر چکرا رہا تھا“
آپ نے دیکھا کہ ان مشقوں کے دوران انسان کیسی کیسی عجیب کیفیات سے گزرتا ہے اور انسان کی خفیہ صلاحیتوں یعنی دوسرے معنوں میں باطنی حواس کی بے داری کا عمل کن مرحلوں سے گزرتا ہے۔ یہاں ہمیں میر تقی میر کا ایک شعر یاد آرہا ہے، کیسی عجیب بات کی تھی اس خدائے سخن نے

یہ توَ ہُم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

ایک اور خط میں وہ لکھتی ہیں کہ ایک روز دن کے وقت میں لیٹی ہوئی تھی تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے اندر کوئی زبردست قوت ہے، میری آنکھیں بند تھیں، مجھے یوں لگا جیسے میرے جسم سے ایک اور جسم الگ ہوکر بیٹھ گیا ہے، اس کیفیت کو میں اس طرح بیان کرسکتی ہوں کہ میںلیٹی ہوئی تھی مجھے یوں محسوس ہوا، میرے اندر ایک زبردست قوت ہے، میں شاید اسی قوت سے لڑ رہی ہوں، پھر مجھے لگا کہ میں اس قوت سے لڑ کر اٹھ بیٹھی ہوں مگر میں محسوس کر رہی تھی کہ میں بیک وقت لیٹی ہوئی بھی ہوں اور اٹھ کر بیٹھ بھی گئی ہوں، جب میں نے آنکھیں کھولیں تو مجھے عجیب سا احساس ہوا ، میں بدستور لیٹی ہوئی تھی۔
اہل نظر اس کیفیت کے متعلق اندازہ کرسکتے ہیں، ہم صرف اتنا ہی عرض کریں گے کہ اس کیفیت کا طاری ہونا روح میں لطافت کی فراوانی کا اظہار ہے اور باطنی حواس کی بے داری کا ثبوت بھی ہے۔ واضح رہے کہ اب یہ محترمہ اس اسٹیج میں ہیں جہاں وہ با آسانی نا صرف دوسروں کو ہپناٹائز کرسکتی ہیں بلکہ ٹیلی پیتھی،مستقبل بینی، آنے والے واقعات و حادثات سے آگہی کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں،ا س کے علاوہ پی کے، یعنی تصرف برائے مادہ کے مظاہرے بھی ان کے ہاں اختیاری یا غیر اختیاری طور پر نظر آتے ہیں مثلاً ایک بار انھوں نے اپنے خیال کی قوت سے گھر کی منڈیر پر بیٹھے ہوئے کووے کو گھر کے صحن میں اترنے پر مجبور کردیا، ایک بلی کو دیوار سے دوسری دیوار تک چھلانگ لگانے سے روک دیا، نا صرف روک دیا بلکہ واپس پلٹ جانے پر مجبور کردیا۔ ایسے بہت سے واقعات سے وہ ہمیں آگاہ کرتی رہتی ہیں
ہماری دعا ہے کہ پروردگار انھیں مزید باطنی قوتوں سے سرفراز کرے اور ان کے علمی مدارج بلند فرمائے۔ آمین۔