زندگی میں کامیابی یا ناکامی کی وجوہات کا جائزہ
ہمارے ملک میں لوگ ایسٹرولوجی کا درست شعور نہیں رکھتے،شاید وہ ابھی تک اس علم کو ایک سائنس کے بجائے غیب دانی وغیرہ خیال کرتے ہیں،حالاں کہ یہ غلط ہے۔علم نجوم ایک سائنس ہے جس کے تحت کسی شخص کی تاریخ پیدائش ، وقت پیدائش اور پیدائش کے مقام کو بنیاد بناکر اس کا زائچہ پیدائش تیار کیا جاتا ہے جو اس کی اچھی یا بری خصوصیات کو ظاہر کرتا ہے،اسی لیے کہا جاتا ہے کہ علم نجوم کسی بھی شخص کے شخصیت و کردار ، فطرت اور وقت کو جاننے اور سمجھنے کا علم ہے مگر لوگ خدا معلوم کیا کیا توقعات وابستہ کرلیتے ہیں۔
برسوں گزر گئے لوگوں کو سمجھاتے ہوئے کہ آپ کی درست تاریخ پیدائش اور وقت پیدائش ہی سب سے زیادہ اہم ہیں کیوں کہ یہ اللہ نے مقرر کی ہیں، لوگ اس کے باوجود بھی اپنے نام کے پہلے حرف سے اپنا برج معلوم کرنے اور اس کے مطابق اپنے حالات کا جائزہ لینے میں مصروف نظر آتے ہیں، ان سے پوچھا جائے کہ اگر آپ اپنا تبدیل کرلیں تو کیا آپ کا برج تبدیل ہوجائے گا ؟اور اگر تبدیل ہوجائے گا تو یقینا حالات میں بھی تبدیلی آنا چاہیے۔اس کے علاوہ ایک اور غلطی وہ یہ کرتے ہیں کہ اپنے شمسی برج کو ہی سب کچھ سمجھ لیتے ہیں اور اکثر ہم سے یہ سوال کرتے ہیں کہ میرا برج جدی ہے یا اسد ہے، آپ بتائیے ، میری شادی کب ہوگی؟ مجھے دولت کب ملے گی وغیرہ وغیرہ۔یہ انتہائی احمقانہ اور گمراہ کن سوال ہے، ایسے لوگوں کو ہم یہی جواب دیتے ہیں کہ جناب آپ کا برج اگر جدی ہے تو دنیا میں لاکھوں افراد کا برج جدی ہے،کیا سب کے حالات زندگی ایک جیسے ہوں گے؟ بعض لوگ جو عقل و فہم رکھتے ہیں ، بات سمجھ لیتے ہیں اور بعض نہیں سمجھتے ۔حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی شخص کا انفرادی زائچہ ہی اس کی زندگی کے حالات و واقعات پر روشنی ڈال سکتا ہے اور یہ کام اتنا آسان نہیں ہے کہ ایک ٹیلی فون کال پر ہوجائے۔ ہمارے ملک میں اکثر لوگوں کا وقت پیدائش بھی درست نہیں ہوتا، چناں چہ درست زائچہ بنانے میں بھی کافی دشواریاں پیش آتی ہیں۔
زائچہ پیدائش زندگی کے ہر شعبے میں معقول رہنمائی مہیا کرتا ہے لیکن کوئی بھی سمجھ دار ایسٹرولوجر اتنی ہی رہنمائی کرنا مناسب سمجھتا ہے جتنی صاحب زائچہ ہضم کرسکے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ کسی شخص کا درست زائچہ اس کی الٹراساونڈ رپورٹ پیش کردیتا ہے جس میں بے شمار باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا اظہار نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ لوگ صرف اپنی تعریف سننا پسند کرتے ہیں، اپنی خامیوں کو عموماً تسلیم نہیں کرتے،ایسی صورت میں ان کی خامیوں کے حوالے سے نرم الفاظ میں رہنمائی کردینا مناسب ہوتا ہے لیکن ہمیں یہ حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے کہ صاحب زائچہ ہماری رہنمائی کو کوئی اہمیت نہیں دے گا اور وہ وہی کچھ کرتا رہے گا جو آج تک کرتا آیا ہے اور نتیجے کے طور پر ناکامیوں کا شکار رہا ہے۔
مثل مشہور ہے کہ انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے یا خود بگاڑتا ہے یہی بات زائچے سے بھی ظاہر ہوجاتی ہے۔ اگر زائچے میں اعلیٰ خصوصیات موجود ہیں تو ایسا شخص خواہ کسی غریب فیملی میں ہی کیوں نہ پیدا ہوا ہو بالآخر مستقبل میں کسی بلند مقام تک پہنچ جاتا ہے، اس کے برعکس اگر زائچے میں کمتر درجے کی خصوصیات اور کمزوریاں موجود ہوں تو ایسے شخص کو لازماً ایک سخت اور مشکل ، ناکامیوں سے بھرپور زندگی کا سامنا رہتا ہے۔خواہ وہ منہ میں سونے کا چمچا لے کر پیدا ہوا ہو۔
گزشتہ دنوں ایک ایسا ہی زائچہ ہمارے سامنے آیا جسے دیکھ کر بہت افسوس ہوااورخیال ہوا کہ کاش یہ شخص 15یا 20 سال پہلے ہمارے پاس آیا ہوتا اور ہم سے رہنمائی لی ہوتی تو شاید زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی آجاتی ، ہم صاحب زائچہ کی خوبیوں اور خامیوں پر نظر ڈالیں گے اور ان کی مدد سے زندگی کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لیں گے۔
زائچے میں برج سنبلہ طلوع ہے، اس کا حاکم سیارہ عطارد زائچے کے دوسرے گھر میں بحالت رجعت اور حالت غروب میں ہے یعنی سیارہ شمس سے قریبی قران رکھتا ہے۔
بے شک سنبلہ افراد نہایت محنتی ، خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والے، اپنی محنت سے دنیا میں کوئی مقام حاصل کرنے والے ہوتے ہیں لیکن یہ خوبیاں اس وقت خامیوں اور کمزوریوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں جب برج سنبلہ کا حاکم سیارہ عطارد خراب اور کمزور پوزیشن رکھتا ہو۔ سنبلہ افراد عام طور سے شادی کے معاملے میں تاخیر کرتے ہیں، ان کا نظریہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے اپنی پوزیشن کو مضبوط بنائیں اس کے بعد شادی کریں۔ اس نظریے کے تحت اگر پوزیشن مضبوط ہونے میں کچھ زیادہ ہی تاخیر ہوجائے تو وہ شادی سے بھاگتے رہتے ہیں،اس حوالے سے بعض عجیب و غریب دلیلیں اور جواز ان کے پاس ہوتے ہیں۔ہمارے پاس آنے والے صاحب زائچہ بھی پچا س سال سے زیادہ عمر ہونے کے باوجود غیر شادی شدہ تھے اور اپنے شادی نہ کرنے کے حوالے سے ان کے پاس بھی دلیل و جواز موجود تھے۔صرف ہماری ایک دلیل کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، ہم نے ان سے کہا کہ جناب آنے والی اپنا رزق ساتھ لے کر آتی ہے، یہ اللہ کا فرمان ہے تو کیا آپ اللہ پر یقین نہیں رکھتے، وہ خاموش ہوگئے اور حالات کا رونا رونے لگے کہ میں کبھی اس قابل ہو ہی نہیں سکا کہ شادی کے اخراجات اٹھاسکوں، ہم نے ان سے کہا کہ شادی تو بغیر اخراجات کے بھی ہوسکتی ہے۔ اگر آپ کسی غریب ، بے سہارا ، مطلقہ یا بیوہ کا ہاتھ پکڑ تے تو ممکن ہے کہ صرف ایک جوڑے میں رخصت ہوکر وہ آپ کے گھر آجاتی۔
زائچے کا دوسرا گھر برج میزان ہے اور اس کا حاکم سیارہ زہرہ جو شادی اور ازدواجی زندگی کا نمائندہ بھی ہے وہ بارھویں گھر میں خراب اور کمزور پوزیشن میں ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شادی ہی نہ ہوسکے، تعلیم کا سیارہ مشتری بھی بارھویں گھر میں ہے جس پر راہو کی نظر اور راہو آٹھویں گھر میں ہے لہٰذا معقول تعلیم و تربیت سے بھی محروم رہے اور کوئی معقول ہنر بھی نہیں سیکھا۔سیارہ زحل چھٹے اور پانچویں کا مالک ہوکر ساتویں گھر میں ہے اور سیارہ مریخ آٹھویں کا مالک ہوکر چوتھے گھر میں ، اگر شادی ہو بھی جاتی تو کامیاب نہ ہوتی لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ انسان شادی ہی نہ کرے۔زندگی کے اونچے نیچے راستوں پر فطری تقاضوں کے مطابق سفر جاری رہنا چاہیے اور جیسے بھی حالات کا سامنا ہو اس کا مقابلہ کرنا چاہیے تب ہی زندگی کسی مناسب منزل تک پہنچتی ہے۔
کسی بھی زائچے میں سیارہ قمر بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے، صاحب زائچہ چاند کی آخری تاریخوں میں پیدا ہوئے۔زائچے میں قمر بھی سیارہ شمس سے قریبی قران رکھتا ہے اور خیال رہے کہ شمس زائچے کے بارھویں گھر کا حاکم ہونے کی وجہ سے ایک فعلی منحوس سیارہ ہے لہٰذا قمر اور عطارد دونوں کو بری طرح نقصان پہنچا رہا ہے۔دونوں برج میزان میں ہیں گویا شمس اپنے برج ہبوط میں ہے ۔قمر کا تعلق دماغ سے ہے ، ماں سے ہے ، زائچے میں کاروباری مفادات سے ہے لہٰذا وہ کسی بھی کام میں کبھی کامیاب نہ رہے اور ہمیشہ دوسروں کے دست نگر ہی رہے اور آج بھی ہیں۔
اب آپ بتائیے کہ ایسے شخص کو اس کی زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی لانے کے لیے ہم کیا مشورہ دیتے؟ عموماً لوگ زائچے دیکھ کر پتھر ، لوح وغیرہ تجویز کرتے ہیں اور ہم بھی کرتے ہیں لیکن کیا زندگی کے پچاس سال جو ضائع ہوگئے وہ کسی پتھر یا لوح سے واپس آسکتے ہیں، ہر گز نہیں۔
ہم نے انھیں مشورہ دیا کہ آپ جیسے بھی ممکن ہو شادی کرلیں تو وہ ہماری شکل دیکھنے لگے، بولے ” کیا کہہ رہے ہیں آپ!اب مجھے کون لڑکی دے گا؟“
ہم نے مسکراتے ہوئے کہا ” شادی کسی کنواری لڑکی سے کرنا ضروری ہے کیا؟ خدا کے بندے کوئی بے سہارا طلاق یافتہ یا بیوہ ڈھونڈو اور اس سے شادی کرلو ، بے شمار غریب خاندانوں میں ایسی خواتین موجود ہیں ، آپ ابھی ان سے کوئی فرمائش نہ کریں اور امید ہے کہ وہ بھی آپ سے مطالبات نہیں کریں گیں ۔
ہم نے انھیں مشورہ دیا کہ خاندانوں میں اپنے لیے رشتہ تلاش کرنے کے بجائے ایدھی سینٹر سے رجوع کریں پھر انھیں سمجھایا کہ دیکھو اگر آپ ہمارے مشورے پر عمل کروگے تو حقیقی معنوں میں اللہ کو راضی کروگے اور جب اللہ راضی ہوجائے گا تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا لیکن آخری شرط ہماری یہ ہے کہ نکاح کی تاریخ اور وقت نکاح جو ہم بتائیں اس کی پابندی کریں، وہ صاحب چلے گئے ، ہمیں نہیں معلوم کہ وہ ہمارے مشورے پر کس حد تک عمل کریں گے یا نہیں کریں گے ، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کیوں کہ ایسے معاملات میں کچھ دوسرے لوگ بھی اپنی دانش مندی کے چراغ جلانے سے باز نہیں آتے، ان کی والدہ بھی حیات ہیں اور دیگر بہن بھائی بھی ہیں۔اگر انھوں نے ہمارے مشورے پر عمل کرنے کی کوشش بھی کی تو ہمارا اندازہ ہے کہ ان کے گھر والے انھیں اس طرح شادی کرنے سے روکیں گے ۔
ایسے ہی زائچوں میں ہم نے اکثر شادی شدہ افراد کو بھی سخت اور ناکام زندگی گزارتے دیکھا ہے، لڑکا یا لڑکی کے زائچے انتہائی ناقص اثرات کے حامل دیکھے ہیں، اب ایسی صورت میں انھیں کتنے پتھر پہنائے جائیں اور کتنی لوحیں تیار کرکے دی جائیں اس حوالے سے ہمارا مجرب طریقہ یہی ہے کہ ہم ایسے شادی شدہ جوڑوں کو تجدید نکاح کا مشورہ دیتے ہیںتاکہ وہ کسی سعد اور مبارک وقت پر دوبارہ نکاح کریںاور ہمارا یہ طریقہ نہایت آزمودہ ہے، جن لوگوں نے ہمارے مشورے پر عمل کیا ہم نے ان کی زندگی تبدیل ہوتے دیکھی ہے بلکہ بعض ایسے بھی کیس مشاہدے میں آئے کہ شادی سے پہلے شوہر صاحب جائیداد اور اچھے کاروبار کا حامل تھا مگر شادی کے بعد سب کچھ برباد ہوگیا اور فاقوں کی نوبت آگئی، اس کی بیوی ہمارا کالم روزنامہ جرات میں پڑھا کرتی تھیں، اس نے ہمیں خط لکھا کہ میں پیدائشی منحوس ہوں کیوں کہ شادی کے بعد میں جس گھر میں آئی وہاں دنیا کی ہر نعمت موجود تھی لیکن آہستہ آہستہ سب کچھ چھن گیا اور آج ہم کرائے کے مکان میں انتہائی تنگی اور افلاس کی زندگی گزار رے ہیں ۔ ہم نے اس سے شادی کی تاریخ اور نکاح کا وقت معلوم کیا اور نکاح کا زائچہ تیار کیا تو معلوم ہوا کہ نکاح کے وقت قمر در عقرب تھا اور دیگر خرابیاں بھی زائچے میں موجود تھیں۔ چناں چہ ہم نے انھیں بذریعہ خط ہی جواب دیا کہ آپ کم از کم تین ماہ کے لیے اپنے میکے واپس چلی جائیں اور اس دوران میں شوہر سے کوئی میل ملاقات نہ رکھیں، فون پر بات کرنے کی آزادی ہے، تین ماہ بعد جو وقت اور تاریخ ہم لکھ رہے ہیں اس روز اپنے گھر ہی میں تجدیدنکاح کا اہتمام کریں ۔شادی کا نیا جوڑا پہنیں اور تمام تیاری اسی طرح کریں جیسے شادی کے لیے کی جاتی ہے، بعد ازاں دیے گئے وقت پر رخصت ہوکر اپنی رہائش گاہ پر واپس آجائیں۔
تقریباً ڈیڑھ سال بعد دو نوں میاں بیوی ہم سے ملنے آئے ، ان کے ہاتھ میں مٹھائی کا ایک ڈبا تھا، دونوں نے سلام کیا اور بیٹھ گئے ۔ بیوی نے بتایا کہ میں نے آپ کو خط لکھا تھا جس کا آپ نے یہ جواب دیا تھا ، اس نے ہمارا لکھا ہوا خط نکال کر ہمارے سامنے رکھ دیا تو ہمیں ہر بات یاد آگئی، انھوں نے بتایا کہ ہم نے آپ کے بتائے گئے طریقے پر عمل کیا اور اب جب کہ کافی عرصہ گزر چکا ہے ، ہمارے حالات میں کافی بہتری آچکی ہے ، میرے شوہر برسر روزگار ہیں، ابھی وہ پہلے جیسی خوشحالی تو نہیں ہے ، مکان بھی کرائے کا ہی ہے لیکن امید ہے کہ حالات آئندہ مزید بہتر ہوجائیں گے، ہمیں یہ جان کر دلی خوشی ہوئی کہ خود کو منحوس سمجھنے والی خاتون اب زندگی کے ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے، ایسے کئی تجربات و مشاہدات ہیں جنھیں پھر کسی وقت بیان کیا جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر زائچہ پیدائش میں یا زائچہ نکاح میں یا کسی غلط وقت میں کاروبار شروع کیا گیا ہے، اس کے زائچے میں وقت کی نحوست موجود ہے تووقت کے سائیکل کوبدلنے کے لیے کسی نئے سعد وقت میں اسی کام کا آغاز کیا جائے جو پہلے کیا گیا تھا ۔