ہومیو پیتھی ایک نہایت لطیف اور مؤثر طریق علاج ہے،لطیف اس قدر کہ روحی یا روحانی امراض بھی اس کے زیر اثر آتے ہیں،ہومیو پیتھی کے طالب علم خوب جانتے ہیں کہ ہومیوپیتھی دواؤں کی پروونگ کے دوران میں ایسی علامات بھی ظاہر ہوئیں جن کا تعلق جسمانی تکالیف کے بجائے روحانی یا روحی تکالیف سے تھا، مثلاً اشراقیت کے مسائل، شیزوفرینیا، عاداتِ بد، شک و وہم وغیرہ، یہ ایسے مسائل ہیں جن کا دیگر طریق علاج میں کوئی علاج نہیں خصوصاً ایلوپیتھی علاج بالضد ہے،اس حوالے سے قطعی ناکام رہی ہے۔
موجودہ کتاب کا مقصد ہی ہومیوپیتھی کی اصل حقیقت کو سامنے لانا ہے کیوں کہ فی زمانہ اس کی شدید ضرورت محسوس ہورہی ہے،کاروباری حضرات ہومیوپیتھی کو بھی ایلوپیتھی کے انداز میں چلانے کی کوشش کر رہے ہیں،اس طرح ہومیو پیتھی کی اصل لطافت اور گہرائی و گیرائی ناپید ہورہی ہے۔
سب جانتے ہیں کہ ہومیوپیتھی انسانی نظامِ زندگی کو متوازن کرنے کا نام ہے یعنی ہماری زندگی میں جو کچھ بھی ایب نارمل ہے، اسے نارمل کیا جائے،اس طرح مختصر الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہومیوپیتھی درحقیقت نارملائزیشن (Normalization) کا نام ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ مریض کی ایب نارملٹی کا مشاہدہ کیا جائے،وہ کون سی باتیں اور حرکتیں ہیں جو اس کی زندگی میں فطری تقاضوں کے مطابق نہیں ہیں،اس کی بھوک پیاس کا کیا حال ہے؟ بات چیت، چال، ڈھال، نیند، بول و بزاز کے مسائل کس نوعیت کے ہیں، تمام علامات کا بغور جائزہ لینے کے بعد اس کے لیے دوا تجویز کی جاتی ہے جو حقیقی شفا بخشی کے عمل کو مکمل کرتی ہے،اس طرح یہ طریق علاج طب یونانی ، آیورویدک، ایلوپیتھی وغیرہ کے مقابلے میں نہایت منفرد اور نادر طریق علاج ہے لیکن فی زمانہ اس کی بنیادی روح کو ختم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں،ورلڈ ڈرگ مافیا اس معاملے میں سب سے آگے ہے اور ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ہومیو پیتھی کے بہت سے نادان دوست بھی ان کا آلہ ء کار بن رہے ہیں۔
گزشتہ دس پندرہ سال سے ہومیو پیتھی نے بھی ایلوپیتھک طریق کار کے مطابق کمپاؤنڈز کو فروغ دیا جارہا ہے،ایسا نہیں ہے کہ مختلف دواؤں کے کمبی نیشنز پہلے مروج نہ تھے لیکن اب یہ وبا زیادہ پھیلتی جارہی ہے،بڑے بڑے ڈرگ ڈیلرز سنگل ریمیڈیز کے بجائے کمپاؤنڈز پر زور دے رہے ہیں، بڑے پیمانے پر اس کی پبلسٹی کی جارہی ہے،ان کے سیلز مین عام ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کو نئے نئے سبز باغ دکھاکر ان کمپاؤنڈز کے استعمال پر آمادہ کر رہے ہیں اور نئے ہومیوپیتھک ڈاکٹر بھی زیادہ محنت اور مطالعے سے بچنے کے لیے اس آسانی کو قبول کر رہے ہیں،حالاں کہ اس طرح امراض کے خلاف حقیقی ہومیوپیتھک جنگ نہیں لڑی جاسکتی کیوں کہ یہ ہومیوپیتھی کے بنیادی فلسفے کے ہی خلاف ہے،اس کی مثال بالکل اسٹیورائڈز کی سی ہے جو ایلوپیتھی میں مروج ہے،اسی اصول پر مختلف بیماریوں کے لیے مختلف کمپاؤنڈز تیار کرکے مارکیٹ میں لائے جارہے ہیں اور ڈاکٹروں کو ان کے زیادہ سے زیادہ استعمال کی ترغیب دی جارہی ہے۔
امراض اور طریقہ ء علاج
جسمانی امراض اور تکالیف کے بارے میں جدید میڈیکل سائنس کے تجربات اور تحقیق سے نت نئے انکشافات سامنے آتے رہتے ہیں اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی نئی تحقیق یا نیا تجربہ کسی پرانے تجربے سے قائم ہونے والے نظریے کو باطل کردیتا ہے اسی طرح نت نئی دوائیں بھی منظر عام پر آتی رہتی ہیں اور پرانی دوائیں یا تو غیر تسلی بخش قرار دی جاتی ہیں یا اپنے مضر اثرات کی وجہ سے ممنوع ٹھہرائی جاتی ہیں۔ یہ سلسلہ جدید میڈیکل سائنس میں جاری وساری ہے اور اس دعوے کے باوجود کہ میڈیکل سائنس یعنی ایلوپیتھی نہایت ترقی یافتہ اور زود اثر ہے، پیچیدہ تو کیا عام جسمانی امراض میں بھی ناکافی اور غیر تسلی بخش ثابت ہوتا ہے۔ معمولی نزلہ زکام‘ جگرکی خرابیاں‘ معدے کی خرابیاں‘ گلے کے غدود کی خرابیاں‘ جلدی امراض‘ جسم کے کسی بھی حصے میں رسولیوں کی نمود‘ گردوں سے متعلق خرابیاں‘ بے اولادی‘ بانجھ پن(زنانہ ومردانہ) ہڈیوں اور جوڑوں کے دردیعنی گٹھیاوی تکالیف‘ الغرض کون سی جسمانی بیماری ایسی ہے جس کا ایلوپیتھک دواؤں سے کافی وشافی علاج ممکن ہے؟
ورلڈ ڈرگز مافیا
دنیا بھرکی ایلوپیتھک دوائیں بنانے والی کمپنیاں صرف ایسی دوائیں منظر عام پر لارہی ہیں جن سے مریض کو فوری طور پر آرام مل جائے۔ یقیناً ان جدید ترین دواؤں کے استعمال سے مریض فوری طور پر آرام محسوس کرتاہے اور پھر یہ دوائیں مستقلاً اس کی ضرورت بن جاتی ہیں ان دواؤں کے استعمال سے مرض مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا لیکن مریض زندگی کا کچھ عرصہ ان دواؤں کے سہارے گزارلیتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دواؤں کے سہارے زندگی گزارنا ایک اطمینان بخش بات ہے خصوصاً اس صورت میں جب وہ دوائیں اپنے کچھ مضر اثرات بھی رکھتی ہوں ؟
حقیقت یہ ہے کہ دولت کمانے کی کاروباری دوڑمیں بین الاقوامی سطح پر اسی طریقۂ کار کو منافع بخش تسلیم کرلیا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پروڈکٹس کی کھپت اسی وقت ممکن ہے جب وہ لوگوں کی مستقل ضرورت بن جائے لہٰذا ایسی دواؤں کی ایجاد اور ان کے رواج پر توجہ دی جائے جو زود اثر ہوں‘لوگ ان کے فوری فائدے کو محسوس کریں اور ان کی طرف زیادہ سے زیادہ راغب ہوں۔ علاج کو یا دوسرے الفاظ میں شفا بخشی کے مکمل عمل کو زیادہ اہمیت نہ دی جائے غالباً اس نظریے کے پیچھے یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ انسان جتنے دن بھی دنیا میں زندہ رہتا ہے، آرام وسکون سے زندہ رہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بیماریوں کو جڑ سے ختم کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا اتنا کافی نہیں کہ دواؤں کے ذریعے اسے درد وتکلیف سے نجات مل جائے؟
معاملہ جب دواؤں کی رینج سے باہر نکل جائے تو پھر سرجری کا متبادل راستہ موجود ہے جسم کا جو عضو زیادہ پریشان کرنے لگے یا باقی جسم کے لیے خطرناک صورت اختیار کرجائے تو اسے جسم سے علیحدہ کردیا جائے یا پھر ممکن ہوسکے تو اسے تبدیل کردیا جائے جیسا کہ دل ‘گردے‘آنکھ وغیرہ کی تبدیلی فی زمانہ کوئی حیرت کی بات نہیں رہی ہے۔
ہومیو پیتھی کے خلاف سازش
جب سے ہومیو پیتھی کا نظریہ اور طریقہء علاج سامنے آیا ہے،ایلو پیتھی کے کرتا دھرتا اس کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں،ان سازشوں کا آغاز ہومیو پیتھی کے بانی ڈاکٹر سموئل ہنی مین کے زمانے ہی سے ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں اُس ’’محسن زماں ‘‘ کو اپنا وطن جرمنی چھوڑ کر فرانس میں جلا وطنی اختیار کرنا پڑی ، سازشوں کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے،مختلف قسم کے جاہلانہ اعتراضات ہومیو پیتھی کے حوالے سے کیے جاتے ہیں اور اسے باقاعدہ علاج ہی تسلیم نہیں کیا جاتا،پاکستان میں بھی یہ سلسلہ ابتدا ہی سے جاری رہا، اب ایک نیا قانون بنایا جارہا ہے جس کے تحت ہومیو پیتھک دواؤں پر بھی ایکسپائری ڈیٹ کا اطلاق کیا جائے گا حالاں کہ ہومیو پیتھی سے واقفیت رکھنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئی بھی ہومیو پیتھک دوا کبھی ایکسپائر نہیں ہوتی کیوں کہ مصفّا الکوحل میں تیار کی جاتی ہے لہٰذا دوا کے خراب ہونے ، متاثر ہونے یا اس میں کسی بھی نوعیت کی کوئی تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،یہ بھی اسی لیے کیا جارہا ہے کہ مال کی کھپت بڑھائی جائے اور اس سازش میں اب ہومیو پیتھک دوا ساز کمپنیاں بھی شامل ہوگئی ہیں،بعض دواؤں کی تیاری پر پابندی لگائی جارہی ہے، مزید ہومیوپیتھک نوسوڈز پر بھی پابندی لگائی جارہی ہے اور انہیں خطرناک قرار دیا جارہا ہے،خیال رہے کہ نوسوڈز ایسی ادویات کو کہا جاتا ہے جو کسی بیماری کے جراثیم یا متاثرہ عضوبدن سے تیار کی جاتی ہے،یہ تقریباً ایک طرح کا ویکسی نیشن ہے جو خود ایلوپیتھی میں رائج ہے، نوسوڈز ہومیوپیتھی میں حفظ ماتقدم کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں، کجا یہ کہ انہیں خطرناک اور مضر صحت قرار دیا جائے،نامور ہومیوپیتھک ڈاکٹر ایلن صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے گزشتہ 25 سال کے دوران میں جن خاندانوں میں نوسوڈز کا استعمال کرایا انہیں وہ بیماریاں کبھی نہیں ہوئیں جن سے تحفظ مقصود تھا، ہومیوپیتھی کے بنیادی اصولوں میں ’’میازم‘‘ کو اولین حیثیت ہے اور یہ نوسوڈز عموماً میازمیٹک مسائل کو کنٹرول کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، ہمیں نہیں معلوم وہ کون سے ڈاکٹر صاحبان ہیں جو ان پر پابندی کی سفارش کر رہے ہیں اور مزید دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہومیوپیتھک حلقے اس سلسلے میں کوئی صدائے احتجاج بھی بلند نہیں کر رہے۔
نفسیاتی اور روحانی امراض
جسمانی امراض کی حد تک یہ صورت حال لوگوں نے قبول کرلی ہے اور وہ اکثر پیچیدہ بیماریوں میں مبتلاہونے کے بعد زندگی دواؤں کے سہارے گزارنے اور پھر آخر میں خود کو آپریشن تھیٹر تک پہنچانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اپنے طور پر انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ علاج معالجہ بس اسی کا نام ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے لیکن بدترین صورت حال نفسیاتی اور روحانی مریضوں کی ہے۔
یہاں ہم یہ واضح کردیں کہ نفس کے معنی بھی روح کے ہی ہیں۔ لہٰذا ہم نفسیاتی امراض کو بھی روحی یا روحانی امراض ہی سمجھتے ہیں۔ ان امراض کی وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں وہ انسانی شخصیت کے بگاڑ کی وجہ سے پیدا ہوئے ہوں یا کسی سحری یا ماورائی اثر کی وجہ سے۔ ہر صورت میں بنیادی خرابی کا تعلق انسانی روح یا نفس سے ہی ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مختلف طریقہ علاج کے ماہرین اس قسم کی بیماریوں کے بارے میں مختلف نقطہء نظر رکھنے کی وجہ سے علاج کے بھی اپنے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں مثلاً ماہرین نفسیات شخصیت کے بگاڑ سے پیدا ہونے والے امراض یا سحرزدگی یا آسیب وجنات کے امراض کا علاج اپنے مخصوص طریقوں سے کرتے ہیں جبکہ ان ہی امراض کا علاج روحانی معالجین اپنے طریقے سے کرتے ہیں۔ دونوں کو کامیابی بھی ہوتی ہے اور ناکامی بھی۔ البتہ ہم اپنے ذاتی مشاہدے اور تجربے کی بناء پر یہ ضرور کہیں گے کہ دونوں مکمل کامیابی سے یعنی کلی شفاء بخشی سے کبھی ہم کنار نہیں ہوتے۔ ایسے مریض سال ہا سال مختلف معالجین وروحانی عاملین کے زیر علاج رہتے ہیں اور تختہ مشق بنے رہنے کے باوجودان کا مرض مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا۔
ممکن ہے کہ بعض مریضوں کو مکمل طور پر صحت یابی حاصل ہوگئی ہو لیکن ایسی مثالیں خال خال ہی نظر آئیں گی۔ ہماری نظر میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں اور ہم نے اس امر کی تحقیق بھی کی ہے کہ ان کی مکمل طور پر صحت یابی کا رازکیا تھا؟ تو ثابت یہ ہوا ہے کہ وہ نہ دواؤں سے ٹھیک ہوسکے اور نہ کسی روحانی علاج سے بلکہ اس کی اصل وجوہات کچھ اور ہی تھیں جن کی تفصیل میں جانا بیکار ہے لیکن صرف ایک بنیادی نکتہ ہم ضرور واضح کریں گے اور وہ یہ کہ ان کی مکمل صحت مندی میں ان کی ذاتی قوت ارادی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ قوت ارادی انہیں کس طرح حاصل ہوئی‘ اس کے بے شمار اسباب ہوسکتے ہیں مثلاً ہمیں ایک نوجوان لڑکے کا کیس یاد آرہا ہے۔
برسوں پہلے جب ہم نے روزنامہ جرأت کراچی میں ذہنی اور روحانی علاج کے سلسلے میں ’’سانس کی مشقوں ‘‘کو متعارف کرایا تھا تو اس نے بذریعہ خط ہم سے رابطہ کرکے ہمیں اپنے حال سے آگاہ کیا تھا۔ وہ ڈپریشن اور احساس کمتری کا مریض تھا اور کئی سال سے ایلوپیتھک دوائیں استعمال کررہا تھا لیکن اس حقیقت سے بھی واقف تھا کہ یہ دوائیں روز بروز اس کی ذہنی صلاحیتوں کو ختم کررہی ہیں اور ان کے سہارے وہ ایک نارمل زندگی گزارنے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ ڈاکٹر اس سے یہی کہتے تھے کہ یہ دوائیں ہمیشہ استعمال کرنا پڑیں گی۔ ہمارے مشورے پر اس نے سانس کی مشق شروع کی اور اپنی دواؤں کو آہستہ آہستہ کم کرنا شروع کیا اور اس کی قوت ارادی مضبوط ہوتی چلی گئی بالآخر اس نے تمام دواؤں سے نجات حاصل کرلی لیکن دیگر طریقہ علاج میں ایسی مثالیں جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا‘ بہت کم ہیں۔
دراصل مسکن ادویات کا مستقل استعمال انسان کی ذہنی توانائیوں کو اس قدر کمزور کردیتا ہے کہ پھر اس میں قوت ارادی نام کی کوئی شے باقی ہی نہیں رہ جاتی بالکل اسی طرح جیسے منشیات کے عادی افراد کا حال ہوتا ہے کہ ان میں ارادے کی مضبوطی کا فقدان ہوتا ہے، نفسیاتی یا روحانی مریضوں کی سب سے مشکل قسم وہ ہے جس میں وہ ڈاکٹر تو کیا، اپنے گھر والوں سے بھی کوئی تعاون نہیں کرتے بلکہ گھر والوں کے لئے ایک مصیبت بن جاتے ہیں۔ ناچار گھر والوں کو انہیں کسی نفسیاتی اسپتال کے حوالے کرنا پڑتا ہے اور ماہر سے ماہرنفسیاتی ڈاکٹر کے پاس بھی اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا کہ وہ ان کے ذہنی جنون کو ختم کرنے کے لیے طاقت ور مسکن ادویات استعمال کرائیں جب یہ جنون ان دواؤں کے ذریعے کنٹرول ہوجاتاہے تو پھر ڈاکٹر یا گھر والے ان دواؤں کو روکنے کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور اس طرح ان دواؤں کا طویل عرصے تک استعمال مریض کو ایک نارمل زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہنے دیتا۔
ایک تیسری صورت اور بھی پیچیدہ ہوتی ہے جس میں مریض اپنی بیماری کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔ اس کے تمام طور طریقے بہ ظاہر نارمل ہوتے ہیں، بس کوئی ایک حرکت وہ ایسی کرتا ہے جو تمام اہل خانہ کے لیے پریشانی یا مصیبت کا باعث بن جاتی ہے مثلاً کسی عجیب شوق میں مبتلا ہوجانا یا کسی عادت بد میں خود کو ڈال لینا۔ کسی ڈر یا خوف کا شکار ہونا یا اپنے بارے میں کوئی عجیب وغریب دعویٰ کرنا‘ شادی سے بھاگنا جس کی وجہ لڑکیوں سے نفرت ہوتی ہے یا ان سے خوف محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح لڑکیوں کا شادی سے گریز‘ بہت زیادہ مذہب اور روحانیت کی طرف راغب ہوجانا اور دنیاداری سے شدید بے زاری کا اظہار کرنا،تمام حقوق وفرائض سے غافل ہوکر صرف عبادات کے لیے خود کو مخصوص کرلینا بلکہ یہ ظاہر کرنا کہ وہ خود کوئی روحانی شخصیت ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ ذہنی و جسمانی امراض کی ایک طویل فہرست ہے جو کسی طرح بھی ایلو پیتھک طریقہء علاج کے ذریعے قابو میں نہیں آتی بلکہ ایلوپیتھک دوائیں اپنے سائیڈ افیکٹ کی وجہ سے کچھ دوسرے مسائل بھی پیدا کرتی رہتی ہیں،البتہ ایمرجنسی کو کنٹرول کرنے میں ضرور معاون ثابت ہوتی ہیں۔
ہم ذاتی طور پر اس صورت حال میں ہومیو پیتھک طریقہء علاج کو ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ گہری بیماریوں کے لیے اس طریقہ ء علاج میں شفاء بخشی کا عمل زیادہ اطمینان بخش بھی ہے اور بے ضرر بھی اور اس کے ساتھ اگر پیراسائیکولوجی کے طریقوں سے بھی مدد لی جائے تو نتائج زیادہ تیز رفتار ہوجاتے ہیں۔
عزیزان من! گفتگو کی ابتدا ہومیوپیتھی کے حوالے سے ہوئی تھی لیکن بات سے بات نکلتی چلی گئی ، ہمارا اس تمام گفتگو سے بنیادی مقصد یہ ہے کہ موجودہ اور مروجہ طریقہء علاج کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور زیادہ بہتر طریقہء علاج کی طرف رہنمائی کی جائے جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ ہم ذاتی طور پر ہومیوپیتھی اور پیراسائیکولوجی کے طریقہء کار کو زیادہ مفید اور مؤثر سمجھتے ہیں کیوں کہ ہم اس نظریے پر یقین رکھتے ہیں کہ کوئی بھی بیماری پہلے روح پر اثر انداز ہوتی ہے اور پھر اس کی نمود انسانی جسم پر ہوتی ہے، ایلوپیتھی یا طب یونانی یا کوئی اور طریق علاج چوں کہ علاج بالضد ہیں لہٰذا روح تک رسائی نہیں رکھتے لیکن ہومیوپیتھک دوا کی تیاری کے مراحل پر اگر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس کی پوٹنٹائزیشن کی تھیوری جسے بعض لوگ اٹامک تھیوری بھی کہتے ہیں ، درحقیقت اپنی لطافت کے سبب ایک روحانی تھیوری ہے جس میں اونچی پوٹینسیوں میں دوا اپنا وجود کھوبیٹھتی ہے اور پھر مصفّا الکوحل میں صرف دوا کی روح ہی باقی رہ جاتی ہے چناں چہ ہومیوپیتھک دوا روحی یا روحانی امراض تک رسائی کے قابل ہوجاتی ہے لیکن اس کے لیے سنگل ریمیڈی کا قانون ہی قابل تقلید ہے،موجودہ کمپاؤنڈز سسٹم جسے ہمارے محترم استاد ڈاکٹر اعجاز حسین صاحب ’’گھپلوپیتھی‘‘ کہا کرتے تھے، کسی صورت بھی مؤثر نہیں ہے، یہ صرف کاروباری اداروں کا زیادہ سے زیادہ پیسا کمانے کا ذریعہ ہے۔
برصغیر کے نامور عالم اور مؤرخ علامہ سید سلیمان ندوی یقیناً بہت سے قابل اور کامیاب ہومیوپیتھک ڈاکٹروں سے زیادہ ہومیوپیتھی کا عرفان رکھتے تھے ، آپ نے فرمایا ’’ہومیوپیتھی طب کا تصوف ہے‘‘
زیرنظر کتاب ہمارے ایسے احباب کے تجربے اور علم کا نچوڑ ہے جنہوں نے ہومیوپیتھک کلاسیکل اصولوں کو اپنایا اور اپنی پریکٹس کے دوران میں شاندار نتائج حاصل کرکے حقیقی شفا بخشی کے عمل کو فروغ دیا، یقیناً ہومیوپیتھک کے نئے طالب علم اس کتاب سے نئی توانائی اور روشنی حاصل کریں گے۔