اتنے بدقسمت کیوں ؟
ت، الف جگہ نامعلوم لکھتی ہیں ”میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر دنیا میں کچھ لوگ لا علاج کیوں ہوتے ہیں، ان کے ساتھ اتنے مسائل کیوں ہوتے ہیں، آخر ہم جیسے مایوس لوگ اپنی آخری سانسوں تک زندگی کا مقابلہ کیوں کرتے رہتے ہیں؟ میں بہت پریشان اور مایوس ہوں ہمارے ساتھ پیدائش کے بعد سے ہی نا معلوم کون کون سے مسئلے ہیں جو کہ تمام تر کوششوں کے باوجود حل ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں اور شاید حل بھی نہ ہوں، یہ زندگی تمام ہوجائے۔گناہ تو سب سے ہوتے ہیں مگر معاف بھی ہوجاتے ہیں، ہم سے نامعلوم کون سی غلطی یا گناہ ہوگیا ہے کہ ابھی تک ہم تمام گھر والے گرفت میں ہیں، سب بہن بھائیوں کی قسمت آخر ایک جیسی کیوں ہوتی ہے ؟میرا بھائی ابھی تک شادی جیسی سعادت سے محروم ہے اور میرا مسئلہ بھی یہی ہے، بھائی کی تعلیم میٹرک ہے، گورنمنٹ کی ملازمت ہے، پانچ وقت کا نمازی ہے،عادت کا بھی بہت اچھا ہے، ہر کسی کا خیال رکھنے والا مگر جس جگہ بھی اس کا رشتہ لے کر جاتے ہیں، مایوسی ملتی ہے۔حد یہ کہ ان گھروں سے بھی انکار ہوجاتا ہے جہاں لڑکی پڑھی لکھی نہیں ہوتی۔میرے بھائی میں کوئی برائی نہیں ہے، میں جھوٹ نہیں لکھ رہی ہوں، یہ بالکل سچ ہے ، جو بھائی اپنی بہنوں کی کفایت کرنے والا ہو، ایک بیوہ ماں اور دو بھانجیوں کا سرپرست ہو وہ آخر کیوں ہر چیز سے محروم ہو ، اس کے ساتھ والے تمام دوست و احباب جوان بچوں کے باپ بن چکے ہیں ، میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ آپ بتایئے بھائی کی شادی ہوجائے گی یا نہیں ؟ کب تک ہوگی اور کس سے ہوگی ؟پلیز میں اس وقت بہت ٹینشن میں آپ کو یہ خط لکھ رہی ہوں کیوں کہ کل شام کو ہی ایک جگہ سے انکار ہوا ہے حالاں کہ لڑکی کی تعلیم بھی کچھ نہیں ہے وہ لوگ بھی بس واجبی سے ہیں مگر افسوس ! ہم اور ہماری قسمت ۔خدا ایسی قسمت کسی کی بھی نہ بنائے، آپ کو میرے الفاظ شاید بہت ناگوار لگیں مگر آپ بتایئے آخر ہم ہر معاملے میں کیوں اتنے بد قسمت ہیں ؟ محاورہ ہے کہ کوشش سے ہر چیز مل جاتی ہے مگر ہمارے ساتھ معاملہ کچھ الگ ہے، جتنی کوشش کرو اتنے ہی محروم بن جاتے ہیں“
جواب : عزیزم ! ضروری ہے کہ آپ کو بہت صاف اور کھرے انداز میں جواب دیا جائے، اس صورت میں اگر ہماری کوئی بات ناگوار گزرے تو ہم پہلے سے معذرت خواہ ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے اپنے بھائی کی جو خوبیاں بیان کی ہیں وہ آج کے زمانے میں خوبیاں نہیں بلکہ خامیاں ہیں، آج کل لوگ دوسرے کی مالی پوزیشن پہلے دیکھتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں، صورت،شکل ،سیرت وغیرہ کوئی نہیںدیکھتا، آپ کا بھائی زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہے، میٹرک تو کیا آج کل گریجویٹ کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے، گورنمنٹ ملازمت یقیناً ایک اچھی بات ہے مگر تعلیم کی کمی کے سبب میٹرک پاس اگر چپراسی بھرتی ہوگا تو زندگی بھر چپراسی ہی رہے گا،وقت کے ساتھ ساتھ اُس کی تنخواہ ضرور بڑھے گی مگر کس حد تک؟ یہ آپ بھی جانتی ہیں اور وہ لوگ بھی جانتے ہوں گے جہاں رشتے کی بات شروع ہوگی پھر اسی تنخواہ میں وہ بقول آپ کے اپنی والدہ ، بہنوں اور دو بھانجیوں کا بھی سرپرست ہے، اس کے بعد اُس کی تنخواہ میں سے بیوی کے لیے کیا بچے گا ؟عزت سے دو وقت کی روٹی تو وہ اپنے ماں باپ کے گھر میں بھی کھا رہی ہے۔آخر ہر لڑکی اور اس کے ماں باپ کے کچھ خواب ہوتے ہیں کہ وہ اپنے شوہر کے گھر جاکر زیادہ عیش و آرام کی زندگی گزارے گی اس کا ہاتھ مالی طور پر تنگ نہیں رہے گا،وہ اپنی مرضی سے خرچ کرسکے گی اور یہ خواب ناجائز بھی نہیں ہےں،ہمارا خیال ہے کہ رشتوں میں انکار کی پہلی وجہ تو یہی صورت حال ہے اور دوسری وجہ آپ کے بھائی کی عمر ہوسکتی ہے کیوں کہ بہر حال بقول آپ کے ان کے دوست احباب اب جوان بچوں کے باپ بن چکے ہیں اور آپ اب بھی ان کے لیے شاید کم عمر کنواری لڑکیاں دیکھتی پھر رہی ہیں، خدا ترسی اور نیکی تو یہ ہوگی کہ آپ کسی بیوہ یا مطلقہ عورت کے سر پر ہاتھ رکھیں، اگر اس کے ایک دو بچے بھی ہوں تو انہیں بھی دل سے قبول کریں پھر دیکھیں اللہ ان کے نصیب سے اور آپ کے اس کار خیر کے صلے میں آپ کے خاندان پر کیسی نوازشیں کرتا ہے، وہ کسی کا ادھار رکھنے کا کائل ہی نہیں ہے مگر یہ سوچ پیدا کرنا بڑا مشکل کام ہے،یہاں تو اپنی انا اور عزت کے مسائل کھڑے ہوجائیں گے کہ ہم اپنے کنوارے بھائی کے لیے کوئی بچوں والی ، مطلقہ یا بیوہ کیوں لے کر آئےں؟ دنیا اور خاندان والوں کو کیا منہ دکھائیں گے؟
جب بات پوری سچائی کے ساتھ ہورہی ہے تو ایک حقیقت اور بھی بیان کرتے چلیں جو ظاہر ہے آپ تو شاید نہ سمجھ سکیں مگر ہمارا تجربہ یہ ہے کہ بڑے بڑے تجربہ کار اور بزعم خود دانش مند بھی نہیںسمجھتے یا اسے نظر انداز کردیتے ہیں کیوں کہ اس حقیقت کا تعلق میڈیکل کے علم سے بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کے بھائی عمر کی جس منزل میں ہیں ، ضروری نہیں ہے کہ شادی کے بعد ان کے ہاں اولاد کی پیدائش یقینی ہو، خدا نخواستہ اگر شادی کے بعد ایسی کوئی پرابلم پیدا ہوتی ہے تو بھی پہلے سے موجود بچوں کی وجہ سے کوئی کمی محسوس نہیں ہوگی، یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ اگر آپ زیادہ عمر کی کوئی کنواری لڑکی بیاہ کرلاتی ہیں تو اس صورت میں بھی اولاد کے حوالے سے مسائل سامنے آسکتے ہیں، میڈیکل کا علم رکھنے والے افراد ان باریکیوں کو سمجھتے ہیں، ہمارا خیال ہے کہ ہم نے آپ کے ایک مسئلے پر درست روشنی ڈال دی ہے،اب اسے حل کرنا یا نہ کرنا، آپ کے اور آپ کے گھر والوں کے اختیار میں ہے، بظاہر یہ بڑی کڑوی گولی ہے مگر اس کی حقیقی مٹھاس کا اندازہ اسے نگلنے کے بعد ہوسکے گا۔
ممکن ہے آپ کا جوابی سوال اور اعتراض یہ ہو کہ آخر ہم نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے یا ہم سے کیا غلطی ہوئی ہے کہ ہم اگر بھائی کی شادی بھی کریں تو اس طرح کریں کہ ہمارے دل کے ارمان دل ہی میں رہ جائیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ پوری ایمانداری سے یہ یاد کرنے کی کوشش کریں کہ آپ کو یا آپ کے بھائی کو شادی کا خیال پہلی بار کب آیا اور اس کے لیے آپ نے سنجیدہ کوششیں کب شروع کی تھیں ؟ ہمارا اندازہ ہے کہ خاندانی مسائل اور پریشانیوںکی وجہ سے آپ کے بھائی کو گھر کے سرپرست کی حیثیت سے جو ذمہ داریاں اٹھانا پڑی ہوں گی ان میں شادی کے مسئلے کو ہمیشہ دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہوگا اور جب یہ احساس ہوا ہوگا کہ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے، عمر کی ڈور تیزی کے ساتھ ہاتھ سے نکل رہی ہے تو پھر حسب منشا رشتے ملنا مشکل ہوگئے ہوں گے،آخری بات یہی ہے کہ اگر آپ کے گھر میں دولت کی ریل پیل ہو تو بھائی کے لیے پسندیدہ رشتوں کی لائن لگ جائے گی،یہ بڑی سیدھی سچی اور سامنے کی بات ہے لہٰذا اپنی بدقسمتی کا رونا رو کر اللہ کو (معاذ اللہ) موردِ الزام نہ ٹھہرائیں ، سمجھ لیں کہ آپ نے اور آپ کے اہل خانہ نے خدا معلوم کن مجبوریوں اور مصلحتوں کی وجہ سے زندگی کے اہم فیصلوں میں تاخیر کی ہے تو اب اس تاخیر کا خمیازہ تو سامنے آئے گا۔
آپ کا ذاتی مسئلہ بھی تقریباً بھائی کے مسئلے سے ملتا جلتا ہے اور وقت آپ کے ہاتھ سے نکل چکا ہے،پچھلے چند سال سے آپ زحل کی نحوست کا شکار بھی ہیں لہٰذا غلط جگہ امید لگائے بیٹھی ہیں، اس سلسلے میں کامیابی اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب آپ اور فریق ثانی کوئی بولڈ اسٹیپ لیں یعنی کورٹ میرج وغیرہ کرلیں،دوسری کوئی صورت نارمل انداز میں ممکن نہیں ہوگی، اگر آپ یا وہ صاحب یہ سوچتے ہوں کہ کبھی نہ کبھی تو گھر والے مان جائیں گے تو اس کا امکان نہیں ہے،آپ لوگوں کو اگر کچھ کرنا ہے تو کر ڈالیں ورنہ اس سلسلے کو ختم کردیں تاکہ اللہ آپ کے لیے کوئی دوسرا راستہ کھول دے،آخری بات آپ کے لیے یہ ہے کہ فریق ثانی آپ سے شادی کے سلسلے میں ہمیں مخلص نظر نہیں آتے، آپ کو چاہیے کہ مرجان اور سفید پکھراج کے نگینے پہن لیں ، مزید کوئی بات وضاحت طلب ہو تو فون پر رابطہ کرسکتی ہیں۔
عورت ، عورت کی دشمن
پہلا خط کراچی سے ک ، ش انصاری کا ہے جو یقینا قابل عبرت بھی ہے اور سبق آموز بھی ۔ ہمارے معاشرے میں ہم ہی جیسے لوگ مذہب ، انسانیت اور ہر قسم کی اخلاقیات کو فراموش کرکے ظلم کے کیسے کیسے راستے ایجاد کرتے ہیں ، اس پر حیرت ہوتی ہے ، حالانکہ دنیا کے سامنے یہی لوگ مسلمان بھی ہیں اور انسان بھی ہیں ، شرافت اور اخلاقیات کے علم بردار بھی ہیں ۔ خط کے کچھ اقتباسات ملاحظہ کیجئے ۔
” شادی کے دن سے ہی میری ازدواجی زندگی میں پریشانیاں ہیں ، سسرال والوں نے اپنی سازشوں اور چغل خوریوں کے ذریعے میرے شوہر کے دل میں میرا مقام نہ بننے دیا ۔ میرے شوہر کے دل میں نہ تو میری محبت ہے نہ عزت ہے اور نہ ہی میری کوئی قدر ہے اور میرے بچے کے لئے بھی دل میں باپ والی محبت ہے ، چار شادی شدہ نندیں ہیں اور سب سے چھوٹی اپنے بچے سمیت یہیں رہتی ہے باقی نندیں بھی تقریباً روز ہی یہاں ڈیرہ جمائے رہتی ہیں اور اپنا حکم چلاتی ہیں ، میرے شوہر سب بہن بھائیوں میں چھوٹے ہیں ، سب سے ڈرتے ہیں ، ان لوگوں کی باتوں میں آکر مجھے صبح شام ذلیل کرتے رہتے ہیں ، میرے اور میرے بچے کے حقوق اور ضروریات کا خیال بھی نہیں رکھتے ، مجھ سے بات نہیں کرتے اور مہینوں میرے کمرے میں بھی نہیں آتے ، ان کے موبائل پر بات کرکے بہت منت سماجت کرکے میں نے بلایا بھی تو میری نند جو رات کو بھی ہماری جاسوسی کرنے سے باز نہیں آتیں ، رات ڈیڑھ بجے کمرے میں آگئیں اور شور مچا دیا ۔ اس کے بعد شوہر کو ڈرائنگ روم میں لے جا کر ایک پنچائت شروع کردی کہ تو اس کے کمرے میں گیا کیوں تھا ۔ آپ بتایئے کہ یہ کتنی شرم ناک بات ہے کہ میاں بیوی کے رشتے کے درمیان اس طرح حائل ہو رہے ہیں ۔ تمام تر حالات و واقعات بیان کرنے کے لئے تو درجنوں صفحات چاہئے ہوں گے مختصر یہ کہ میں ایک سال 4 ماہ سے اپنے میکے میں ہوں اس عرصے میں نہ شوہر صاحب یہاں آئے نہ کبھی بچے کی خیریت دریافت کی ، سسرال والے اب طلاق پر زور دے رہے ہیں اور بچے کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ براہ مہربانی میری زندگی کا اور شادی کا زائچہ بنا دیں ۔ مستقبل سے متعلق بہت سے اندیشے لاحق ہوگئے ہیں ، آیا میرا طلاق لینا صحیح ہے ؟ میرا بچہ میرے پاس ہی رہے گا ہمیشہ اور ا س کا مستقبل کیا ہو گا ؟ کیا میری دوسری شادی ہوگی ؟ آ یا د وسرا شوہر میرے اور بچے کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا ؟ “
جواب :عزیزم ! پہلی بات تو یہی ہے کہ آپ کا نکاح کسی اچھے دن نہیں ہوا ، انتہائی خراب وقت چل رہا تھا ، محترمہ بے نظیر بھٹو کا سانحہ بالکل تازہ تھا ، سیارہ مریخ اپنی الٹی چال پر تھا لہٰذا اس شادی کا یہی انجام ہونا تھا ، دوسری بات یہ کہ آپ کے اور شوہر کے زائچے بھی ایک دوسرے سے نہیں ملتے ، آپ کا شمسی برج دلو اور شوہر کا شمسی برج جدی ہے ، ایک ہوائی برج ہے اور ایک خاکی ہوا اور مٹی میں موافقت نہیں ہے ، پھر اس گھر کا ماحول بھی آپ کے لئے مناسب ثابت نہیں ہوا ، اب اگر وہ لوگ طلاق پر زور دے رہے ہیں تو آپ صبر و سکون کے ساتھ انتظار کریں لیکن اپنے لئے کچھ دفاعی انتظامات ضرور کرلیں تاکہ آئندہ وہ جو بھی کارروائی کریں آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچ سکے ۔
اس سلسلے میں اکثر لڑکی والے مصلحتوں اور مجبوریوں کے پیش نظر ضروری کارروائی سے اجتناب کرتے ہیں کیونکہ وہ ہر حال میں لڑکی کا گھر بسانا چاہتے ہیں لہٰذا نہیں چاہتے کہ ان کی طرف سے کوئی ایسا اقدام ہو جس پر بات زیادہ بگڑ جائے ، لیکن ہمارے خیال میں یہ ایک غلط سوچ ہے ، کیونکہ اب معاشرے کی شریفانہ اور مہذب اقدار ختم ہوچکی ہیں ، لوگ بزرگوں کی بات کا بھی پاس نہیں کرتے ، بلکہ ہر شخص اپنی ذات میں ایک فرعون بنا رہتا ہے ، لڑکے والوں کو یا لڑکے کو اپنی برتری اور غالب پوزیشن کا احساس رہتا ہے ، وہ سمجھتے ہیں کہ ہم چاہے کیسا بھی سلوک کریں ، لڑکی والوں کو بہر حال ہمارے سامنے جھکنا پڑے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کمزور پر دباﺅ ڈالنے والے اور ظلم و زیادتی کرنے والے در حقیقت بزدل ہوتے ہیں ، اگر مضبوط انداز میں جوابی کارروائی سامنے آجائے تو یہی ظلم کرنے والے بکری بن جاتے ہیں اور ہاتھ پاﺅں جوڑنے لگتے ہیں ۔ یہ بات سمجھ لینا چاہئے کہ بھیڑیا بکری کی معقول دلیلوں اورعاجزی انکساری کو کبھی خاطر میں نہیں لاتا ۔وہ تو شیر کے تھپڑ کی زبان ہی سمجھتا ہے ۔
آپ سب سے پہلے اپنے علاقے کے ایم پی اے آفس میں اپنے والد کی طرف سے ایک درخواست دے دیں جس میں تمام صورتِ احوال بیان کردیں ، اس کے بعد اپنے علاقے کے تھانے میں والد کی طرف سے ایک اطلاعی رپورٹ درج کرالیں ۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ وہ آپ کے خلاف کبھی کوئی قانونی کارروائی نہیں کرسکے گا اور آپ کے حقوق بھی غصب نہیں کئے جاسکیں گے ۔ آئندہ کبھی کسی عدالتی کارروائی کا مرحلہ آیا تو یہ اطلاعی رپورٹ آپ کی معاون ثابت ہوگی ، تھانے سے اس رپورٹ کی نقل ضرور حاصل کریں ۔
اس کے بعد اگر وہ آپ کو طلاق دیتے ہیں تو ٹھیک ہے آپ اپنے اور اپنے بچے کے حقوق کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاسکتی ہیں ، اگر طلاق نہیں دیتے اور ایسے ہی لٹکا کر رکھتے ہیں تو بھی آپ کو عدالت سے رجوع کرنے میں آسانی ہوگی اور آپ کا کیس اس اطلاعی رپورٹ کی وجہ سے مضبوط ہوجائے گا ۔
آپ کا پیدائشی زائچہ گزشتہ سال ستمبر کے بعد سے بہتر پوزیشن میں آچکا ہے اور آنے والا وقت آپ کے لئے اچھا ثابت ہوگا ، اس وقت سے فائدہ اٹھانے کے لئے آپ کو آگے قدم بڑھانا چاہئے ، اپنے لئے کوئی کام ڈھونڈیں تاکہ آپ کسی پر بوجھ نہ بنیں ، اپنا اور اپنے بچے کا خرچ اٹھا سکیں ،آپ کا زائچہ دوسری شادی کا امکان ظاہر کرتا ہے اور اس شادی کو بہر حال کسی نہ کسی طور ختم ہونا ہی ہے ۔
آپ کے لئے ہم ایک وظیفہ لکھ رہے ہیں اسے شروع کریں ، اللہ آپ کے تمام مسائل ضرور حل کرے گا ۔
نیا چاند ہونے کے بعد جو پہلا اتوار ، پیر ، جمعرات یا جمعہ آئے اس دن سے شروع کریں ، روزانہ گیارہ بار اوِل و آخر درود شریف کے ساتھ سورہ طلاق کی دوسری آیت ”ومن یتق اللہ سے لکل شی قدرا “ تک 406 مرتبہ پڑھیں ، اس وظیفے کی مدت 90 دن ہے ۔ بہتر ہوگا کہ قرآن کریم میں دیکھ کر آیت مبارکہ کا ترجمہ بھی یاد کرلیں ۔
باقی آپ نے جو دوسرے گھریلو مسائل لکھے ہیں ان کا تعلق آپ کی ذات سے نہیں ہے بلکہ آپ کے والدین کی ذات سے ہے ، مکان کے کاغذات اگر گم ہوگئے ہیں تو ان کی دوسری کاپی کے ڈی اے آفس سے نکلوائی جاسکتی ہے ، اس کے لئے بھی پہلے ایک اطلاعی رپورٹ تھانے میں درج کرائیں اور پھر سوک سینٹر جاکر باقی کارروائی کریں ، اس سلسلے میں کسی عمل وظیفے کی ضرورت نہیں ہے ۔ آپ کو جو وظیفہ بتایا ہے وہ آپ کے تمام مسائل کا حل ہے ۔ آپ سوچ بھی نہیں سکتیں کہ اللہ کس طرح آپ کی مدد فرمائے گا ۔“