ہم جس ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں اس میں قدم قدم پر نت نئے مسائل سے واسطہ پڑتا ہے اور کبھی کبھی کوئی مسئلہ ایسی پیچیدہ نوعیت بھی اختیار کرلیتا ہے جو خود ہماری عقل و فہم سے بالاتر ہوتی ہے لیکن یاد رکھیے کہ مسئلہ خواہ کچھ بھی ہو اور کیسی ہی پیچیدہ نوعیت کیوں نہ اختیار کرگیا ہو اس کا کوئی نہ کوئی حل ضرور موجود ہوتا ہے، یہ اور بات ہے کہ ہماری عقل و فہم کی رسائی اس حل تک نہ ہو پارہی ہو،یہ بھی ممکن ہے کہ ہم اس مسئلے کو بالکل ہی غلط انداز میں دیکھ رہے ہوں اور غلط طریقے پر حل کرنے کی کوشش کر رہے ہوں ، اس سلسلے میں ایک خط ملاحظہ کیجیے جو ہمیں ”س ع“ صاحبہ نے تحریر کیا ہے، وہ لکھتی ہیں۔
”میں ان لوگوں میں سے ہوں جو حالات و مشکلات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ، ذہنی مریضہ بن چکی ہوں، اپنے آپ کو اس دھرتی پر، اپنے گھر والوں پر اور خود کو خود پر بوجھ سمجھتی ہوں، میں چاہتی ہوں مجھ میں جو برائیاں اور خامیاں ہیں اور جو کچھ بھی میرے دل میں ہے، میں اسے تحریر کردوں، میں اپنی وہ پریشانیاں آپ کو لکھنا چاہتی ہوں جنہوں نے میری زندگی بالکل بے سکون کردی ہے اور مجھے کسی گھڑی بھی سکون میسر نہیں ہے، میں اپنی شخصیت سے بہت پریشان ہوں، میری اپنی ذہنیت اپنے متعلق ٹھیک نہیں ہے، کوئی کام کرنے کی صلاحیت نہیں، میں بالکل بے کار چیز ہوں، میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہوں مگر سب کہتے ہیں کہ میں سب سے چھوٹی لگتی ہوں، معلوم نہیں کیوں ہر کوئی مجھے دیکھ کر یہی کہتا ہے کہ تم سب سے چھوٹی ہو، اس وجہ سے میں شدید احساس کمتری میں مبتلا ہوں، دوسروں کی بات سے مجھے غصہ آتا ہے، ہر وقت یہی الفاظ ذہن میں گھومتے رہتے ہیں کہ کیا میں واقعی کمزور ہوں؟ کیا کہنے والے نے سچ کہا ہے یا پھر مجھ میں ہی شاید کسی چیز کی کمی ہے؟
”میں شروع سے ہی بڑی تنہائی پسند لڑکی تھی جو کسی نے دیا، کھالیا جو کسی نے پہنایا، پہن لیا، اپنی کوئی پسند یا ناپسند نہیں تھی، پہلے میرے والدین میرا بہت خیال رکھتے تھے، مجھے بہت پیار کرتے، میں ان کی لاڈلی بیٹی تھی مگر جوں جوں بہن بھائیوں کی تعداد زیادہ ہوتی گئی تُوں تُوں میرے لیے ان کے پیار میں کمی آتی گئی، اب تو یہ حال ہے کہ مجھے کوئی پسند ہی نہیں کرتا، یہاں تک کہ میرے بہن بھائی، میری والدہ بھی ہر وقت مجھے ڈانٹتے رہتے ہیں، میں سوچتی ہوں شاید مجھ میں بڑوں والی کوئی بات ہی نہیں ہے، اصل پریشانی کا سبب یہی ہے کہ میں بہت کمزور ہوں اور لاکھ کوشش کے باوجود بھی اپنے آپ کو اسمارٹ نہیں بناسکی، میری بھی یہ خواہش ہے اور یہ تو ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس سے محبت کی جائے، اس کی قدر کی جائے، اس کی تعریف کی جائے مگر میں نے تو بچپن سے آج تک اپنی تعریف میں ایک لفظ تک نہیں سنا، کوئی کام بھی کیا تو ڈانٹ پھٹکا رہی سننے کو ملی، پہلے میں ٹھیک تھی مگر جوں جوں بڑی ہوتی جارہی ہوں گھر والوں کی نظر میں بلکہ اپنی نظر میں بھی خود کو کمتر محسوس کرتی ہوں، ہر وقت ذہن میں یہی الفاظ گونجتے رہتے ہیں کہ میں کمزور ہوں، کیا میں واقعی کمزور ہوں؟ کبھی اس کا جواب ہاں میں کبھی کبھار نہیں میں آتا ہے۔
”اگر میں خوب صورت ہوتی تو میری بھی تعریف ہوتی، میری بھی قدروعزت ہوتی مگر افسوس کہ میں اپنے ذہن میں اچھے الفاظ نہیں سوچ سکتی اور نہ اپنے اندر ایسی صلاحیتیں پیدا کرسکتی ہوں جو میری زندگی کو دوسروں کے لیے باعزت بنادیں، میرا ذہن ہر وقت ذرا ذرا سی بات پر پریشانی میں مبتلا ہوجاتا ہے، شاید میری شخصیت کے دو رخ بن گئے ہیں، کبھی میرا ذہن خاصا طاقت ور محسوس ہوتا ہے اور کبھی بہت کمزور محسوس ہوتا ہے ، پتا نہیں میرا ذہن ایسا کیوں ہوگیا ہے اور مجھے ہر وقت پریشانی کیوں گھیرے رہتی ہے ، آخر مجھے بھی خوش ہونے کا حق ہے مگر میرا دل بالکل نہیں لگتا، نہ ہی میرا کوئی دوست یا ہمدرد ہے، شاید اس کی وجہ بھی میری کمزوری ہے یا وہ رد عمل ہے جو ہر وقت میرے سر پر سوار رہتا ہے ، میرے ذہن میں ہر وقت یہی خیالات گھر کیے رہتے ہیں کہ کوئی مجھ سے اس لیے نہیں بولتا کیوں کہ میں کمزور ہوں یا میری شکل اچھی نہیں ہے، مخاطب سے بات کرتے وقت میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ میری باتوں سے خوش ہو مگر معلوم نہیں کیوں اس کے سامنے زبان بند ہوجاتی ہے اور ہر وقت یہی فقرہ سننے کے خیال میں رہتی ہوں کہ کہیں گفتگو کے درمیان سامنے والا میرے اندر کوئی نقص تلاش نہ کرلے یا یہ نہ کہے کہ بھئی بڑی کمزور لگ رہی ہو، کیا کچھ کھاتی پیتی نہیں ہو؟
”مجھ میں یہ بری عادت بھی ہے کہ ہر کسی کی باتوں کا اثر بہت لیتی ہوں اور دیر تک بات میرے ذہن کو پریشان کیے رہتی ہے کہ کہنے والے نے میرے بارے میں درست ہی کہا ہوگا، پھر میں اس کی بات کی روشنی میں اپنی شخصیت کا جائزہ لیتی ہوں اور یقین ہوتا ہے کہ کہنے والے نے میرے متعلق ٹھیک ہی کہا ہوگا۔
”لوگوں کی باتوں نے میرے ذہن پر بہت برا اثر ڈالا ہے اور مجھے دل برداشتہ کردیا ہے، اب میرے منگیتر ملتان سے آنے والے ہیں، مجھے یقین ہے کہ وہ بھی مجھے پسند نہیں کریں گے، وہ تو بہت خوب صورت لمبے اور گورے رنگ کے مالک، پڑھے لکھے ہیں جب کہ میں ان کے سامنے کچھ بھی نہیں ہوں لہٰذا یہی فکر لگی رہتی ہے کہ وہ آئے تو کیا ہوگا؟آخر پریشانی کیوں میرے ذہن پر سوار رہتی ہے؟ کیا میری رائے اپنے بارے میں اچھی نہیں ہوسکتی، میں خوب صورت نہیں بن سکتی؟ میں ذہنی طور پر خوب صورت بننا چاہتی ہوں، میں سمجھتی ہوں کہ اچھی سوچ انسان کو اچھی چیزوں اور اچھائی کی طرف مائل کرتی ہے، یہ جو میں نے اپنے اوپر سکوت طاری کر رکھا ہے، ختم نہیں ہوسکتا؟ ایسا کون سا طریقہ اختیار کروں کہ اپنے اوپر بھرپور اعتماد اور بھروسا ہو، اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاوں، ذہن سے مایوسی کے بادل چھٹ جائیں، غم، غصہ اور اسی طرح کے منفی احساسات میرے قریب بھی نہ آئیں۔
”میرے اندر ایک بری عادت یہ بھی ہے کہ دوسروں کی نقل کرتی ہوں، لاکھ کوشش کے باوجود بھی ہمیشہ میرے اندر یہی خواہش رہتی ہے کہ میں اس جیسی بن جاوں، اگر ایسا کیا تو اس جیسی لگوں گی، کسی فلم اسٹار کو دیکھوں تو یہی خواہش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح میں بھی اس جیسی نظر آوں مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ جیسا سوچوں ویسا ہی کرلوں، اتنی طاقت تو کسی انسان میں نہیں ہوتی کہ جیسا سوچے، اسی روپ میں خود کو ڈھال لے، کیا میرے دل سے ان لوگوں کا خوف اور ان کی شخصیت کا بوجھ، ان کے طعنوں کی جلن نکل نہیں سکتی جنہوں نے مجھے آج تک پریشان رکھا؟ کیا میں انہیں پریشان نہیں کرسکتی۔
”مجھ میں ہر کام کرنے کی صلاحیت موجود ہے مگر کبھی کبھار لوگوں کے منفی رویّے سے غمگین ہوجاتی ہوں، براہ کرم میری کچھ رہنمائی کریں، مجھے اپنے علم کے ذریعے کوئی ایسا طریقہ بتائیں کہ میں خوش گوار زندگی گزار سکوں“۔
جواب: س،ع صاحبہ! آپ نے اچھا کیا کہ سب کچھ تحریر کردیا، اس سے آپ کے دل کا بوجھ ہلکا ہوگیا ہوگا جب بھی آپ کا ذہن الجھنوں کا شکار ہو، اپنے احساسات کو تحریر کرلیا کریں، اس سے آپ کے دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے گا،اس سے آپ سکون محسوس کریں گی لیکن ایک بات آپ اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں کہ نہ آپ ذہنی مریضہ ہیں، نہ کسی نفسیاتی بیماری کا شکار، آپ میں صلاحیتوں کی بھی کمی نہیں ہے، آپ نے شاید کبھی محسوس نہیں کیا کہ آپ کو قدرت نے لکھنے کی صلاحیت بھی دی ہے، آپ نے اپنی کیفیات کو بہت عمدہ اور موثر انداز میں تحریر کیا ہے،ا گر آپ کوشش کریں تو اچھی قلم کار بن سکتی ہیں، دنیا میں کوئی بھی فرد بے کار نہیں پیدا ہوا، قدرت نے ہر ایک کو صلاحیتوں سے نوازا ہے، جو لوگ دشواریوں پر اشک بہانے کے بجائے ان پر قابو پانے کی جدوجہد کرتے ہیں، وہ کبھی ناکام نہیں ہوتے، حوادث سے الجھ کر ہی ان پر قابو پایا جاتا ہے، ہمت ہار کر یا خوف زدہ ہوکر نہیں، آپ تمام بہن بھائیوں سے بڑی ہیں، اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، اگر آپ جسمانی طور پر کمزور ہیں اور کم عمر لگتی ہیں تو یہ کوئی خامی تو نہیں جو آپ خود کو کمتر محسوس کریں، آپ خود بتلائیں کسی بھی خاندان میں آپ نے تمام افراد کو جسمانی طور پر یکساں دیکھا ہے،ایسا کم ہی ہوگا ، کم عمر نظر آنا تو ایک خوبی ہے، خرابی نہیں، آج کل تو لوگ اس خوبی کے لیے نہ جانے کیا کیا کوششیں کرتے ہیں، آپ نے لکھا ہے کہ آپ والدین کی لاڈلی بیٹی تھیں لیکن جوں جوں بہن بھائیوں کی تعداد زیادہ ہوتی گئی ان کے پیار میں کمی آتی گئی، کیا یہ قدرتی بات نہیں ہے؟ بچے زیادہ ہوتے ہیں تو ماں باپ کا پیار بٹ جاتا ہے، وہ آپ کی طرح دوسرے بچوں کو بھی اس پیار میں حصہ دیتے ہیں، والدین کا سارا پیار اپنی ذات کے لیے مخصوص کرنے کی خواہش تو خود غرضی ہے، بڑی بہن کی حیثیت سے آپ کو بھی چھوٹے بہن بھائیوں سے پیار کرنا چاہیے۔
اب ایسا کیجیے کہ اپنے طرز عمل میں تھوڑی سی تبدیلی پیدا کیجیے، محبت صرف ان کو ملتی ہے جو دوسروں سے محبت کرتے ہیں، آپ چاہتی ہیں کہ دوسرے آپ سے محبت کریں، آپ کی قدر کریں، تعریف کریں، یہ خواہش تو سب کو ہوتی ہے، ہر دل عزیزی کے لیے چند اصول ہیں آپ ان پر عمل کیجیے پھر دیکھیے کیا نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔
دوسروں کی تعریف اور ستائش کرنے میں کسی بخل سے کام نہ لیجیے، بھائی بہنوں اور سہیلیوں کی خوبیوں کو سراہنا سیکھیے اور خلوص کے ساتھ ان کی کوتاہیوں کو مسکراکر نظر انداز کردیجیے، جب بھی دوسروں کے درمیان بیٹھیں یا کہیں جائیں تو کسی کی خوبی کی تعریف کرنے میں دیر نہ کریں، آپ کا لباس بڑا خوب صورت ہے، آپ نے کھانا بہت لذیز پکایا ہے، آپ بہت سلیقہ مند ہیں یا ذہین ہیں، وغیرہ، یہ چند الفاظ ادا کرکے آپ لوگوں کو اپنا گرویدہ بناسکتی ہیں، ہر ایک کی بات دلچسپی اور توجہ سے سنیے، خود بولنے کے بجائے دوسرے کو بولنے کا موقع دیجیے، ان سے سوال کیجیے، ان کا دکھ معلوم کیجیے، اگر کوئی آپ کو تلخ بات کہہ دے تو غصے کا اظہار نہ کیجیے بلکہ غور کیجیے کہ آپ کی کس بات سے اسے تکلیف پہنچی، ممکن ہے اس معاملے میں آپ کا ہی قصور ہو، چھوٹے بھائی بہنوں کی دشواریوں میں ان کی مدد کیجیے، والدین کی ضروریات کا خیال رکھیے، آپ بڑی ہیں اس لیے یہ آپ پر فرض بھی ہے۔
انسان نہ جسمانی صحت سے بڑا ہوتا ہے، نہ ہی عمر سے، یہ اس کی خوبیاں اور صلاحیتیں ہیں، اس کا حسن اخلاق اور سلوک ہے جو اسے بڑا بناتا ہے، آپ موٹا ہونے کی فکر چھوڑ کر اپنی شخصیت کو دلکش بنائیے، اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھائیے، لباس کی سادگی میں بڑا حسن ہے، قیمت میں نہیں، مسکراتے چہرے اور خوش اخلاق افراد ہی لوگوں میں مقبولیت حاصل کرتے ہیں، اپنے بارے میں سوچنے کے بجائے دوسروں کے بارے میں سوچیے، دوسروں کی پسند کا خیال کیجیے، منگیتر آرہے ہیں تو خوف زدہ ہونے کی کیا بات ہے! انہوں نے یقیناً پہلے بھی آپ کو دیکھا ہے، ان کا خیر مقدم پر خلوص مسکراہٹ سے کریں، ان سے ان کی مصروفیات اور دلچسپیوں کے بارے میں گفتگو کریں، ان کی پسند کا خیال رکھیں، یاد رکھیں کہ دنیا میں ہر انسان کسی نہ کسی احساس کمتری میں ضرور مبتلا ہے، اس لیے اپنے احساس کمتری کی فکر نہ کریں، آئندہ جب بھی ذہن پر کوئی بوجھ محسوس ہو، فوراً قلم اور کاغذ سنبھال لیں اور اسے تحریر کر ڈالیں، خود نویسی بہت سی الجھنوں کا علاج ہے۔
-
03002107035