ایران میں جادو
یہ کہنا مشکل ہے کہ ایران میں جادو کی ابتدا کس طرح ہوئی لیکن تاریخی واقعات و شواہد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عراق کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے یہاں بھی اہلِ بابل کے ذریعے ہی جادو رائج ہوا ہوگا، زرتشت جسے پارسی مذہب کا بانی قرار دیا جاتا ہے، اندازاً پندرہ سو قبلِ مسیح تک زندہ تھا، تاہم بعض دیگر کتب ”ژند اوستا“ وغیرہ کے مطابق جس میں اس کا نام بھی موجود ہے وہ شاید اس سے بھی کافی پہلے وجود رکھتا تھا، اس کے مذہب کے بنیادی اصول میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا میں دو عظیم قوتوں، خیر اور شر کا تصادم برپا ہے جو ازلی اور ابدی ہے، آخر کار خیر، شر پر غالب آجائے گا۔
پارسی 591 قبلِ مسیح میں موجود تھے، وہ جادو گر یا دانا انسانوں کی حیثیت سے مشہور تھے اور زرتشت کے افکار و نظریات کا پرچار کرتے تھے اور جس زمانے میں سائرس اعظم نے عظیم ایرانی سلطنت قائم کی تو اس زمانے میں بھی موجود تھے اور اسی زمانے میں بنی اسرائیل بھی بابل میں قیدیوں کی حیثیت میں موجود تھے کیوں کہ ماضی کا عظیم کلدانی شہنشاہ بختِ نصر جب فلسطین پر حملہ آور ہوا اور بنی اسرائیل کی حکومت کا خاتمہ کرکے اس نے ہیکلِ سلیمانی کو تباہ کردیا تو بنی اسرائیل کو غلام بنا کر بابل لے آیا، تاریخ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے تک ”چاہِ بابل“ بھی لوگوں کی نظروں کے سامنے موجود تھے جہاں دو فرشتے ہاروت اور ماروت اپنی دنیاوی سزا بھگت رہے تھے جن کا تذکرہ قرآن کریم میں موجود ہے۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اہلِ بابل کا علم و فن کسی دور میں بابل سے نکل کر یونان و مصر تک اور مشرق میں ایران و ہندوستان تک پھیلا ہوگا کیوں کہ سائرس جسے بعض لوگ غلط فہمی کی وجہ سے سکندر ذوالقرنین بھی سمجھتے ہیں، ایک بہت بڑی سلطنت کا فرماں روا تھا جو مغرب سے مشرق تک پھیلی ہوئی تھی، اسے بلاشبہ فاتح اعظم ہونے کا شرف حاصل ہے، اسی کے دور میں یہودیوں کو بابل سے رہائی ملی۔
یہ وہ دور تھا جب سحریات اور دوسرے علوم اپنے عروج پر تھے، مصر اور یونان میں پراسرار علوم کے ماہرین کی تنظیموں کے ریاستی معاملات پر عموماً بہت گہرے اثرات ہوتے تھے، ایران میں بھی انہیں مکمل سیاسی غلبہ حاصل تھا،مقدس مذہبی فلسفہ اور سائنس ان کے ہاتھ میں تھے اور وہ بیماروں کا روحانی اور جسمانی علاج کیا کرتے تھے، تاریخ میں ایسے شواہد موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ماہرین مختلف وجوہات کی بنیاد پر مختلف ادوار میں مشرق اور مغرب کی طرف ہجرت کرتے گئے اور عرب میں بھی ان کے اثرات زمانہ ء جاہلیت میں نظر آتے ہیں لیکن یہ طے کرنا بڑا مشکل کام ہے کہ بابل اور مصری تہذیبوں میں اس حوالے سے کس کو اولیت حاصل ہے،اگر بہت باریک بینی سے جائزہ لیا جائے اور ساتھ میں الہامی کتب سے بھی مدد لی جائے تو نسلِ انسانی کے پھلنے پھولنے اور پھیلنے کا پہلا مرکز ارضِ فلسطین اور عراق و عرب قرار پائیں گے کیوں کہ دنیا کے پہلے انسان یعنی ابوالبشر حضرت آدم ؑ نے خانہء کعبہ کی بنیاد رکھی، گویا نسل انسانی کا پھیلاؤ مکہء معظمہ سے شروع ہوا مگر اس حقیقت کو دیگر مذاہب تسلیم نہیں کرتے اور حضرت آدم ؑ کے زمین پر قیام کے سلسلے میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے اور غیر مذہبی یا جدید سائنسی نظریہ تو انسان کا وجود حضرت آدم ؑ سے پہلے بھی تسلیم کرتا ہے لیکن ہم اس بحث میں نہیں پڑناچاہتے۔
معلوم تاریخ کی پہلی ہجرت
بہر حال اس بات پر سب متفق ہیں کہ عراق و فلسطین حضرت آدم ؑ کے بعد اولادِ آدم کا قدیم ترین مرکز رہے ہیں، ہابیل و قابیل کے واقعے نے انسانوں کے درمیان خیر و شر کی فصیل کھڑی کردی تھی اور اس طرح اولادِ آدم دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی تھی، ایک گروہ وہ تھا جو حضرت آدم ؑ کے بعد سلسلہء نبوت سے سرفراز تھا اور دوسرا اس کا مخالف تھا اور گمراہی کا راستہ اختیار کرچکا تھا، آخر کار حضرت ادریس ؑ کے دور میں شرکی قوت اتنی بڑھ گئی کہ آپ کو فلسطین سے ہجرت پر مجبور ہونا پڑا اور آپ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مصر چلے گئے ۔
روایات سے اور آسمانی کتابوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ علمِ نجوم حضرت ادریس کو معجزے کے طور پر عطا ہوا تھا، اس کے علاوہ بھی آپؑ دنیا میں بہت سی چیزوں کے مؤجد سمجھے جاتے ہیں، قلم اور تحریر بھی آپ کی ایجاد ہے، آپ نے مصر میں زراعت کو فروغ دیا، دریا سے نہریں نکالنے اور پتھروں سے عمارتیں تیار کرنے کا خیال بھی آپ کا ہے۔
اس ابتدائی انسانی تقسیم کے بعد بابل اور مصر کے لوگوں نے بہت تیز رفتار ترقی کی لیکن انبیاء کے نزول کا سلسلہ عراق و فلسطین میں زیادہ نظر آتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ معلوم تاریخ میں ہم ان علاقوں میں آنے والے انبیاء سے زیادہ واقف ہیں اور نمایاں طور پر حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد ہماری نظر میں ہے۔
جادو اور دیومالا
جادو کا دنیا کے مختلف علاقوں کی دیومالاؤں سے گہرا تعلق ہے، نیز فلسفے کے قدیم عقائد سے بھی ۔ پُراسرار ”کابیری“ کی پرستش بہت قدیم زمانوں میں بھی کی جاتی تھی اور فونیقی بھی کرتے تھے، اس کی پوجا کا آغاز مصر سے ہوا تھا اور میمفس کا معبد اس کے لیے مخصوص تھا، یہ قدیم روم میں بھی موجود ہے، لیمنوس کا جزیرہ کابیری کی پرستش کے حوالے سے نمایاں اہمیت کا حامل ہے، یہاں ولکن کی پرستش بھی کی جاتی تھی جس کی علامت آگ تھی، اس جزیرے میں کابیری اور ولکن کے سامنے پراسرار رسوم ادا کی جاتی تھیں،کابیری پوجا کی پراسرار رسومات یونان کے دیگر شہروں میں بھی موجود تھیں،کہا جاتا ہے کہ یہ رسوم رات کی تاریکی میں ادا کی جاتی تھیں،اس مسلک میں شامل ہونے کے خواہش مند کے سر پر زیتون کے پتوں کا تاج رکھا جاتا اور اس کی کمر کے گرد سرخ رنگ کی پیٹی باندھ دی جاتی، اسے ایک روشن تخت پر بٹھا دیا جاتا اور دیگر لوگ مستانہ وار اس کے گرد رقص کرتے،ان تقریبات میں جو عمومی نظریہ پیش کیا جاتا تھا وہ تھا موت کے ذریعے اعلیٰ ترین زندگی تک رسائی، امکان ہے کہ جب مذبی پیشوا تنویمی اثر میں ہوتے، تب ان پر مختلف چیزوں کے حوالے سے انکشافات ہوتے اور وہ پیش گوئیاں کرتے، آج کے زمانے کی جدید تحقیقات سے یہ بات ثابت ہے کہ ہمارے ارد گرد ان فضا میں اگر کسی طریقے سے ارتعاش پیدا کیا جائے تو مافوق الفطرت مظاہر کا مشاہدہ ہوسکتا ہے یا بھرپور ارتکاز توجہ کے ساتھ خاص نوعیت کی حرکات و سکنات یا لفظی تکرار بھی کائنات کی فضا میں کسی ارتعاش کا باعث ہوسکتی ہے اور اس کے نتیجے میں محیّر العقول کیفیات یا نظارہ مشاہدے میں آسکتا ہے، اسی صورت حال کو تنویمی اثر بھی کہا جاسکتا ہے اور اس کے زیر اثر انسان پیش گوئی یا کوئی سحری کمال بھی دکھا سکتا ہے۔
ڈیلفی کا دارالاستخارہ
پیشن گوئیوں کے پر اسرار فن میں ”ہاتفوں“یعنی کاہنوں نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے، یہ بنیادی طور پر سحری اثرات کے زیرِ اثر ایک ٹرانس کی کیفیت میں پیش گوئی کیا کرتے تھے، اس سلسلے میں بعض معبد بہت مشہور ہوئے اور ان کے مخصوص کاہن یا کاہنائیں بھی مشہور ہوئیں،تاریخ میں ”ڈیلفی کا دارالاستخارہ“ نہایت مشہور ہے اور اس کی کاہنہ کا بھی بہت چرچا ہے، یہ دارالاستخارہ کئی سو سال قبل مسیح سے ساری دنیا کی نظروں کا مرکز تھا، سائرس اعظم سے جس یونانی بادشاہ نے مقابلہ کیا اس نے ہی اسی استخارہ سینٹر سے رہنمائی لی تھی جو الٹی ہوگئی، اسے بتایا گیا تھا ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کو شکست دے کر اپنا غلام بناکر ساتھ لے جائے گا، اس نے سمجھا کہ وہ سائرس کو شکست دے کر اپنا غلام بنائے گا لیکن نتیجہ اس کے برعکس تھا یعنی اسے شکست ہوئی اور سائرس اسے اپنا غلام بناکر ایران لے گیا۔
روایات سے پتہ چلتا ہے ڈیلفی کے اس استخارہ سینٹر کو کوری ٹاس نامی چرواہے نے ایک غار سے نکلتے ہوئے دھوئیں کی وجہ سے دریافت کیا تھا، یہ دھواں فطری تھا یا نہیں اس کا کچھ پتہ نہیں ہے، چرواہا وہیں کا وہیں ہکا بکا رہ گیا ہے،اُس کی آنکھوں کے سامنے زمین کے ایک سوراخ سے نکلنے والا دھواں حیرت انگیز تھا، وہ خو د بخود کچھ الفاظ ادا کرنے لگا پھر وہاں ایک تپائی رکھ دی گئی، جوابات کے وسیلے کے طور پر ایک لڑکی کو منتخب کیا گیا جو معمول کے طور پر خدمات انجام دیتی تھی، یہ فرض کیاگیا تھا کہ اس لڑکی کے ذریعے جوابات غیب سے آئیں گے (ہمارے ہاں آج بھی حاضرات کے ایسے طریقے مروج ہیں جن میں کسی معصوم بچے پر حاضرات کھلوائی جاتی ہے، کیا یہ کسی قدیم روایت کی کڑی نہیں ہیں؟)
بعد ازاں اس مقام پر لارل کے پتوں سے ایک کُٹیا بنادی گئی اس کے بعد مذہبی پیشواؤں نے سنگِ مرمر کا شاندار معبد بنادیا اور پیتھونیس نامی لڑکی کو معمول مقرر کردیا گیا، کہاجاتا ہے کہ اس کاہنہ نے مقدس فوارے کا پانی پیا تھا جوکہ صرف اس کے لیے مخصوص تھا اور لارل کا پتا چبایا تھا، اس کے سر پر لارل کے پتوں کا تاج رکھا گیا تھا جو شخص اس سے کچھ پوچھنا چاہتا پہلے اسے کسی جانور کی بھینٹ دینی ہوتی تھی اس کے بعد وہ ایک سوال لکھ کر اس لڑکی کو دے دیتا وہ سوال کو ہاتھ میں لے کر سونے کی چوکی پر بیٹھ جاتی جو غار کے منہ پر رکھی گئی تھی، یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ یہ کاہنہ سال میں صرف ایک خاص مہینے میں بولا کرتی تھی اور شروع شروع میں تو وہ صرف ایک مخصوص مہینے کی ساتویں تاریخ کو بولا کرتی تھی، یہ دن ایک یونانی دیوتا اپالو کی پیدائش کا دن تھا۔
اسی طرح ایک اور یونانی معبد کشف یا استخارے کے لیے مشہور تھا، مذہبی پیشوا دیوتا کی شبیہہ باہر لے جاتے تھے لیکن وہ شبیہہ بولتی نہیں تھی صرف سر ہلاکر جواب دیتی تھی، بعض اوقات مذہبی پیشوا خود اس کے اشاروں کو نہ سمجھ پانے کا اعتراف کرتے تھے چناں چہ سر کے اشاروں سے دیے گئے جوابات کے نتیجے میں سوال کنندہ تشنہ ہی رہ جاتا۔
مقدونیہ کے فاتح اعظم سکندر دی گریٹ کی پیدائش بھی ایک کاہن کی پیش گوئی کے مطابق ہوئی تھی، یونان میں ڈیانا دیوی کے مندر (واضح رہے کہ ڈیانا دیوی کا معبد قدیم دنیا کے سات عجائبات میں شامل رہا ہے اور اسے معبد مشتری بھی کہا جاتا ہے اور مشتری کو قدیم یونانی زبان میں زیوس کہتے تھے) کے مذہبی پیشوا نے اس کی ماں کو بتایا کہ زیوس کا بیٹا اس کی کوکھ سے جنم لے گا (یونان میں ستارہ پرستی عام تھی) چناں چہ اپنی زچگی کے آخری دنوں میں اس کا قیام مستقل معبد مشتری میں رہا جہاں سکندر پیدا ہوا، وہ زندگی بھر سکندر کو دیوتا زیوس کا بیٹا سمجھتی رہی، اپنے شوہر سے ہمیشہ اُس کے تعلقات خراب رہے۔
قصہ مختصر یہ کہ زمانہئ قدیم میں کہانت بھی جادو کی ایک شاخ تھی، اس کے ذریعے مستقبل کے بارے میں سوالوں کے جواب حاصل کیے جاتے تھے، حضور اکرم ؐ کی مشہور حدیث اسی کہانت کے بارے میں ہے، جس میں فرمایا گیا ہے کہ جس نے کاہن کی بات پر دھیان دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے، قبل اسلام عرب میں بھی کہانت کا بہت زور تھا۔
چند مشہور کاہن
یونان ہی میں پازا نیاس نے جوپیٹرٹروفونیئس کے کاہن کا تذکرہ کیاہے، وہ اپنے زمانے کا سب سے زیادہ ماہر معمار تصور کیاجاتا تھا، ایک روایت کے مطابق ایک زلزلے کے دوران وہ ایک غار میں گم ہوگیا، اس کے بعد وہ غار پیش گوئیاں کرنے لگا، سوال کاجواب دریافت کرنے والے کو غار کے اندر جاکر بھینٹ دینی پڑتی تھی اور ٹروفونیئس یا اُس کی روح کبھی خواب میں اور کبھی بلند آواز میں سوال کا جواب دیتی تھی، بہ ظاہر یہ ایک عجیب نوعیت کا پراسرار معاملہ ہے لیکن جو لوگ روحیت اور ہمزاد کے حقیقی اور بنیادی مسائل سے آگاہ ہیں، ان کے لیے اس میں کوئی پراسراریت نہیں ہونی چاہیے، ایک اوریجنل کاہن یا اعلیٰ درجے کا معمول (Medium) اپنی موت کے بعد بھی اپنے ہمزاد کے ذریعے دنیا میں متحرک ہوسکتا ہے اور دوسروں کی مثبت یا منفی رہنمائی اپنی سابقہ نالج کے مطابق کرسکتا ہے،ایسے واقعات آج بھی مشاہدے میں آتے رہتے ہیں، ہماری تحقیق کے مطابق آواگون کا مسئلہ بھی اسی ذیل میں آتا ہے، وہ لوگ جو اپنے پچھلے جنموں کی باتیں کرتے پائے گئے ہیں تو یقیناً کسی قدیم ہمزاد کے رابطے میں رہے ہیں اور وہ ہمزاد انھیں اپنی زندگی کے حوالے سے معلومات فراہم کرتا ہے جب کہ وہ اسے اپنے پچھلے جنم کی کتھا سمجھ کر دوسروں کو سناتے اور حیران کرتے ہیں ورنہ درحقیقت آواگون اور پچھلے جنم جیسے نظریے کا کوئی وجود نہیں ہے۔
ڈیلوس اور برانچس کے کاہن بھی بہت اعلیٰ ساکھ کے حامل تھے، سوالوں کے جواب ایک کاہنہ 3 دن کے بعد دیا کرتی تھی، وہ عورت ایک خوب صورت چھڑی پکڑے ایک دوسری سلاخ پر بیٹھ جاتی جوکہ ایک ابلتے ہوئے چشمے کے آر پار نصب ہوتی تھی، وہ وہاں بیٹھ کر بھاپ کو سانس کے ساتھ سینے میں سمو لیا کرتی اس سے جواب حاصل کرنے کے لیے خصوصی تقریب اور بھینٹ ضروری ہوتی تھی، سوال کنندہ کو غسل کرکے فاقہ کرنا پڑتا اور تنہائی میں رہنا پڑتا۔
مصر میں بھی یہی صورت حال تھی، کاہنوں نے پرانے زمانے کے لوگوں کے ذہنوں پر زبردست اثرات ڈالے تھے، کاہنوں یا کاہناؤں کا انتخاب مذہبی پیشواؤں کے طبقے سے کیا جاتا تھا، انہیں باقاعدہ غیب دانی کی تعلیم دی جاتی تھی، وہ ساری زندگی اس مذہبی منصب پر فائز رہتے اور کوئی جرم خواہ کتنا ہی گھناؤنا کیوں نہ ہوتا ان کی حیثیت پر اثر انداز نہیں ہوسکتا تھا اور انہیں ان کے منصب سے محروم نہیں کرسکتا تھا، وہ قدرتی احکامات کی تعبیر بھی بتایا کرتے، دیوتاؤں کو چڑھائی جانے والی بھینٹ کے جانوروں کا تعین کرتے اور رسومات منانے کا اہتمام کرتے، ان کااثر رسوخ بہت زیادہ تھا، چھوٹے افسروں سے لے کر حاکموں تک کے عہدوں کی توثیق کیا کرتے تھے، جنگ لڑنے یا نہ لڑنے کا فیصلہ وہ کرتے تھے، عوامی ذہنوں پر ان کا غلبہ مکمل تھا اور کوئی شخص ان کے فیصلوں کو رد نہیں کرسکتا تھا کیونکہ ان کے بارے میں عام خیال یہی تھا کہ وہ دیوتاؤں کے مقرب خاص ہیں، یہ کاہن مختلف چیزوں اور واقعات سے شگون بھی لیا کرتے تھے، جیسے پوجا یا کسی اور رسم کی ادائیگی کے وقت کسی پرندے کا اچانک آجانا یا بلی وغیرہ کا آجانا جیسا کہ ہمارے یہاں بھی بلی کا سامنے سے گزر جانا برا شگون مانا جاتا ہے۔
کاہنوں کے حوالے سے یہ عقیدہ بھی مشہور تھا کہ ان کا رابطہ جنات، ارواح یا دیگر ماورائی قوتوں سے رہتا ہے اور اس کے لیے وہ خصوصی عبادات و ریاضت بھی کیا کرتے تھے، گویا یہ لوگ یقیناً اعلیٰ درجے کے معمول ہوا کرتے تھے جن کے لیے جنات، ارواح یا بھٹکے ہوئے کسی ہمزاد سے رابطہ کرنا آسان ہوتا تھا، مزید مختلف ریاضتیں بھی انھیں اس قابل بناتی تھیں، بالکل آج ہی کی طرح جیسے کہ آج کل بھی لوگ ایسے ہی کاموں میں مصروف رہتے ہیں، اگرچہ ان کی اکثریت ناکامی کی شکار ہوتی ہے کیوں کہ اکثریت کو خود اپنے بارے میں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس کام کے لیے مناسب اور موزوں بھی ہیں یا نہیں، ہمارا مشاہدہ ہے کہ اس راستے پر جانے والے اکثر افراد فطری طور پر مادہ پرست ہوتے ہیں، دولت اور اقتدار کی ہوس انھیں ایسے کاموں کی طرف متوجہ کرتی ہے اور عام طور پر وہ اس کام کے لیے موزوں نہیں ہوتے، ایک اعلیٰ درجے کے معمول میں کیا خصوصیات ہونا چاہئیں یہ صرف علم نجوم ہی کے ذریعے معلوم ہوسکتا ہے۔(جاری ہے)