ہم 70 ء کی دہائی میں سانس لے رہے ہیں ؟

اتنے بدقسمت کیوں ؟

ٹی، اے جگہ نامعلوم لکھتی ہیں ”میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر دنیا میں کچھ لوگ لا علاج کیوں ہوتے ہیں، ان کے ساتھ اتنے مسائل کیوں ہوتے ہیں، آخر ہم جیسے مایوس لوگ اپنی آخری سانسوں تک زندگی کا مقابلہ کیوں کرتے رہتے ہیں؟ میں بہت پریشان اور مایوس ہوں ہمارے ساتھ پیدائش کے بعد سے ہی نا معلوم کون کون سے مسئلے ہیں جو کہ تمام تر کوششوں کے باوجود حل ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں اور شاید حل بھی نہ ہوں، یہ زندگی تمام ہوجائے۔گناہ تو سب سے ہوتے ہیں مگر معاف بھی ہوجاتے ہیں، ہم سے نامعلوم کون سی غلطی یا گناہ ہوگیا ہے کہ ابھی تک ہم تمام گھر والے گرفت میں ہیں، سب بہن بھائیوں کی قسمت آخر ایک جیسی کیوں ہوتی ہے ؟میرا بھائی ابھی تک شادی جیسی سعادت سے محروم ہے اور میرا مسئلہ بھی یہی ہے، بھائی کی تعلیم میٹرک ہے، گورنمنٹ کی ملازمت ہے، پانچ وقت کا نمازی ہے،عادت کا بھی بہت اچھا ہے، ہر کسی کا خیال رکھنے والا مگر جس جگہ بھی اس کا رشتہ لے کر جاتے ہیں، مایوسی ملتی ہے۔حد یہ کہ ان گھروں سے بھی انکار ہوجاتا ہے جہاں لڑکی پڑھی لکھی نہیں ہوتی۔میرے بھائی میں کوئی برائی نہیں ہے، میں جھوٹ نہیں لکھ رہی ہوں، یہ بالکل سچ ہے ، جو بھائی اپنی بہنوں کی کفایت کرنے والا ہو، ایک بیوہ ماں اور دو بھانجیوں کا سرپرست ہو وہ آخر کیوں ہر چیز سے محروم ہو ، اس کے ساتھ والے تمام دوست و احباب جوان بچوں کے باپ بن چکے ہیں ، میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ آپ بتایئے بھائی کی شادی ہوجائے گی یا نہیں ؟ کب تک ہوگی اور کس سے ہوگی ؟پلیز میں اس وقت بہت ٹینشن میں آپ کو یہ خط لکھ رہی ہوں کیوں کہ کل شام کو ہی ایک جگہ سے انکار ہوا ہے حالاں کہ لڑکی کی تعلیم بھی کچھ نہیں ہے وہ لوگ بھی بس واجبی سے ہیں مگر افسوس ! ہم اور ہماری قسمت ۔خدا ایسی قسمت کسی کی بھی نہ بنائے، آپ کو میرے الفاظ شاید بہت ناگوار لگیں مگر آپ بتایئے آخر ہم ہر معاملے میں کیوں اتنے بد قسمت ہیں ؟ محاورہ ہے کہ کوشش سے ہر چیز مل جاتی ہے مگر ہمارے ساتھ معاملہ کچھ الگ ہے، جتنی کوشش کرو اتنے ہی محروم بن جاتے ہیں“
جواب : عزیزم ! ضروری ہے کہ آپ کو بہت صاف اور کھرے انداز میں جواب دیا جائے، اس صورت میں اگر ہماری کوئی بات ناگوار گزرے تو ہم پہلے سے معذرت خواہ ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے اپنے بھائی کی جو خوبیاں بیان کی ہیں وہ آج کے زمانے میں خوبیاں نہیں بلکہ خامیاں ہیں، آج کل لوگ دوسرے کی مالی پوزیشن پہلے دیکھتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں، صورت،شکل ،سیرت وغیرہ کوئی نہیںدیکھتا، آپ کا بھائی زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہے، میٹرک تو کیا آج کل گریجویٹ کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے، گورنمنٹ ملازمت یقیناً ایک اچھی بات ہے مگر تعلیم کی کمی کے سبب میٹرک پاس اگر چپراسی بھرتی ہوگا تو زندگی بھر چپراسی ہی رہے گا،وقت کے ساتھ ساتھ اُس کی تنخواہ ضرور بڑھے گی مگر کس حد تک؟ یہ آپ بھی جانتی ہیں اور وہ لوگ بھی جانتے ہوں گے جہاں رشتے کی بات شروع ہوگی پھر اسی تنخواہ میں وہ بقول آپ کے اپنی والدہ ، بہنوں اور دو بھانجیوں کا بھی سرپرست ہے، اس کے بعد اُس کی تنخواہ میں سے بیوی کے لیے کیا بچے گا ؟عزت سے دو وقت کی روٹی تو وہ اپنے ماں باپ کے گھر میں بھی کھا رہی ہے۔آخر ہر لڑکی اور اس کے ماں باپ کے کچھ خواب ہوتے ہیں کہ وہ اپنے شوہر کے گھر جاکر زیادہ عیش و آرام کی زندگی گزارے گی اس کا ہاتھ مالی طور پر تنگ نہیں رہے گا،وہ اپنی مرضی سے خرچ کرسکے گی اور یہ خواب ناجائز بھی نہیں ہےں،ہمارا خیال ہے کہ رشتوں میں انکار کی پہلی وجہ تو یہی صورت حال ہے اور دوسری وجہ آپ کے بھائی کی عمر ہوسکتی ہے کیوں کہ بہر حال بقول آپ کے ان کے دوست احباب اب جوان بچوں کے باپ بن چکے ہیں اور آپ اب بھی ان کے لیے شاید کم عمر کنواری لڑکیاں دیکھتی پھر رہی ہیں، خدا ترسی اور نیکی تو یہ ہوگی کہ آپ کسی بیوہ یا مطلقہ عورت کے سر پر ہاتھ رکھیں، اگر اس کے ایک دو بچے بھی ہوں تو انہیں بھی دل سے قبول کریں پھر دیکھیں اللہ ان کے نصیب سے اور آپ کے اس کار خیر کے صلے میں آپ کے خاندان پر کیسی نوازشیں کرتا ہے، وہ کسی کا ادھار رکھنے کا قائل ہی نہیں ہے مگر یہ سوچ پیدا کرنا بڑا مشکل کام ہے،یہاں تو اپنی انا اور عزت کے مسائل کھڑے ہوجائیں گے کہ ہم اپنے کنوارے بھائی کے لیے کوئی بچوں والی ، مطلقہ یا بیوہ کیوں لے کر آئےں؟ دنیا اور خاندان والوں کو کیا منہ دکھائیں گے؟
جب بات پوری سچائی کے ساتھ ہورہی ہے تو ایک حقیقت اور بھی بیان کرتے چلیں جو ظاہر ہے آپ تو شاید نہ سمجھ سکیں مگر ہمارا تجربہ یہ ہے کہ بڑے بڑے تجربہ کار اور بزعم خود دانش مند بھی نہیںسمجھتے یا اسے نظر انداز کردیتے ہیں کیوں کہ اس حقیقت کا تعلق میڈیکل کے علم سے بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کے بھائی عمر کی جس منزل میں ہے ، ضروری نہیں ہے کہ شادی کے بعد ان کے ہاں اولاد کی پیدائش یقینی ہو، خدا نخواستہ اگر شادی کے بعد ایسی کوئی پرابلم پیدا ہوتی ہے تو بھی پہلے سے موجود بچوں کی وجہ سے کوئی کمی محسوس نہیں ہوگی، یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ اگر آپ زیادہ عمر کی کوئی کنواری لڑکی بیاہ کرلاتی ہیں تو اس صورت میں بھی اولاد کے حوالے سے مسائل سامنے آسکتے ہیں، میڈیکل کا علم رکھنے والے افراد ان باریکیوں کو سمجھتے ہیں، ہمارا خیال ہے کہ ہم نے آپ کے ایک مسئلے پر درست روشنی ڈال دی ہے،اب اسے حل کرنا یا نہ کرنا، آپ کے اور آپ کے گھر والوں کے اختیار میں ہے، بظاہر یہ بڑی کڑوی گولی ہے مگر اس کی حقیقی مٹھاس کا اندازہ اسے نگلنے کے بعد ہوسکے گا۔
ممکن ہے آپ کا جوابی سوال اور اعتراض یہ ہو کہ آخر ہم نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے یا ہم سے کیا غلطی ہوئی ہے کہ ہم اگر بھائی کی شادی بھی کریں تو اس طرح کریں کہ ہمارے دل کے ارمان دل ہی میں رہ جائیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ پوری ایمانداری سے یہ یاد کرنے کی کوشش کریں کہ آپ کو یا آپ کے بھائی کو شادی کا خیال پہلی بار کب آیا اور اس کے لیے آپ نے سنجیدہ کوششیں کب شروع کی تھیں ؟ ہمارا اندازہ ہے کہ خاندانی مسائل اور پریشانیوںکی وجہ سے آپ کے بھائی کو گھر کے سرپرست کی حیثیت سے جو ذمہ داریاں اٹھانا پڑی ہوں گی ان میں شادی کے مسئلے کو ہمیشہ دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہوگا اور جب یہ احساس ہوا ہوگا کہ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے، عمر کی ڈور تیزی کے ساتھ ہاتھ سے نکل رہی ہے تو پھر حسب منشا رشتے ملنا مشکل ہوگئے ہوں گے،آخری بات یہی ہے کہ اگر آپ کے گھر میں دولت کی ریل پیل ہو تو بھائی کے لیے پسندیدہ رشتوں کی لائن لگ جائے گی،یہ بڑی سیدھی سچی اور سامنے کی بات ہے لہٰذا اپنی بدقسمتی کا رونا رو کر اللہ کو (معاذ اللہ) موردِ الزام نہ ٹھہرائیں ، سمجھ لیں کہ آپ نے اور آپ کے اہل خانہ نے خدا معلوم کن مجبوریوں اور مصلحتوں کی وجہ سے زندگی کے اہم فیصلوں میں تاخیر کی ہے تو اب اس تاخیر کا خمیازہ تو سامنے آئے گا۔
آپ کا ذاتی مسئلہ بھی تقریباً بھائی کے مسئلے سے ملتا جلتا ہے اور وقت آپ کے ہاتھ سے نکل چکا ہے،پچھلے چند سال سے آپ زحل کی نحوست کا شکار بھی ہیں لہٰذا غلط جگہ امید لگائے بیٹھی ہیں، اس سلسلے میں کامیابی اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب آپ اور فریق ثانی کوئی بولڈ اسٹپ لیں یعنی کورٹ میرج وغیرہ کرلیں،دوسری کوئی صورت نارمل انداز میں ممکن نہیں ہوگی، اگر آپ یا وہ صاحب یہ سوچتے ہوں کہ کبھی نہ کبھی تو گھر والے مان جائیں گے تو اس کا امکان نہیں ہے،آپ لوگوں کو اگر کچھ کرنا ہے تو کر ڈالیں ورنہ اس سلسلے کو ختم کردیں تاکہ اللہ آپ کے لیے کوئی دوسرا راستہ کھول دے،آخری بات آپ کے لیے یہ ہے کہ فریق ثانی آپ سے شادی کے سلسلے میں ہمیں مخلص نظر نہیں آتے، آپ کو چاہیے کہ مرجان اور سفید پکھراج کے نگینے پہن لیں ، مزید کوئی بات وضاحت طلب ہو تو فون پر رابطہ کرسکتی ہیں۔

میرا خواب پورا ہوسکے گا؟

نام و پتا ظاہر نہیں کیا جارہا، امید ہے کہ آپ اپنے سوالوں سے جان لیں گی کہ یہ جواب آپ کے لیے ہے۔
”میرا مسئلہ یہ ہے کہ ممانی نے اپنے بیٹے کے لیے میرے رشتے کی بات کی ہے۔ سارے گھر والے راضی ہیں۔ لڑکا شکل و صورت کے اعتبار سے اچھا اور شریف ہے۔ گھر والے بھی شریف اور سیدھے سادے ہیں۔ میٹرک پاس ہے اور ایک ہوٹل پر ویٹر کی جاب کرتا ہے۔ گھر والے کہتے ہیں کہ وقت آنے پر کسی معقول جاب کا بندوبست کردیں گے۔ ایک مہینے بعد منگنی اور ڈیڑھ دو سال بعد شادی کا کہہ رہے ہیں۔ جبکہ اس سارے مسئلے میں میری رائے نہیں لی گئی۔ گھر والوں کے ساتھ لڑکا بھی راضی ہے۔ میں اس ساری صورت حال میں بہت پریشان ہوں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں؟ کبھی سوچتی ہوں کہ مجھے گھروالوں کی بات مان لینی چاہیے ، کبھی سوچتی ہوں کہ میرے مستقبل کا کیا ہوگا۔ شاید میرے اندر قوت فیصلہ کی کمی ہے۔ میڈیکل کی طالبہ ہوں اور آج کل انگلش لینگویج کررہی ہوں۔ میں اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہوں اور کچھ بننا چاہتی ہوں۔ گھر والے کہتے ہیں کہ شادی کے بعد جو کرنا ہے کرلینا۔ ممانی نے بھی یہی کہا کہ بعد میں پڑھ لینا لیکن میں جانتی ہوں کہ بعد میں ذمے داریاں بڑھ جائیں گی اور میں تعلیم پر توجہ نہیں دے پاﺅں گی۔ میرا پیدائشی برج حوت ہونے کی وجہ سے زحل کی ساڑھ ستی بھی چل رہی ہے۔ ایک مرتبہ آپ نے لکھا تھا کہ ایسے وقت میں جو فیصلے کیے جائیں ان کی بنیاد مستحکم نہیں ہوتی اور یہ زیادہ پائیدار ثابت نہیں ہوتے بلکہ ایسے وقت میں غلط فیصلے سرزد ہوجاتے ہیں اور بعد میں پچھتانا پڑتا ہے۔
”میرا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ میں پیدائشی طور پر مینگلیک ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ مینگلیک افراد کی شادی ناکام رہتی ہے یا دونوں میں سے کسی ایک کی ڈیتھ ہوجاتی ہے۔ انکل، کیا واقعی مینگلیک منحوس ہوتے ہیں؟ سیارہ مریخ کا ناقص اثر وقت سے پہلے کس طرح زائل ہوسکتا ہے؟ اور مریخ میرے زائچے کے کون سے گھر میں ہے؟ میں بہت پریشان ہوں۔ سوچتی ہوں اگر گھر والوں کی بات مان لی تو اپنے مستقبل کی قربانی دینا پڑے گی۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر منگنی والی بات مان بھی لی تو شادی اٹھائیس تیس سال کی عمرسے پہلے نہیں کروں گی لیکن ممانی کو جلدی ہے۔ آپ بتائیے کہ کیا مجھے گھر والوں کی بات ماننا چاہیے یا پھر اس رشتے سے ہی انکار کرنا چاہیے؟ اور کیا لڑکا میرے لیے معقول رہے گا؟ کیا میری شادی کامیاب رہے گی؟ میرا کچھ بننے کا خواب پورا ہوسکے گا۔ مجھے اپنے پاس کون سی لوح رکھنی چاہیے۔ لوح مشتری میرے لیے مناسب رہے گی؟ سیارہ مشتری میرے زائچے میں کس پوزیشن میں ہے؟ میں بہت ٹینشن میں ہوں جس کی وجہ سے پڑھائی بھی متاثر ہورہی ہے۔“
جواب : عزیزی مس ٹینشن! آپ کا اور آپ کے کزن کا زائچہ کافی ہم آہنگی رکھتا ہے اور اگر آپ دونوں کی شادی ہوتی ہے تو یقینا کامیاب رہے گی لیکن شادی کی کامیابی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ خوش اور مطمئن بھی رہیں گی۔ زندگی میں بہت سے مسائل ہوتے ہیں جن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آپ کا اور آپ کے کزن کا زائچہ بھی مسائل کی نشان دہی کرتا ہے۔ ان مسائل میں کچھ ایسے بھی ہیں جو آئندہ زندگی میں آپ دونوں کو ڈسٹرب کرسکتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ دو افراد کے زائچوں میں سو فیصد ہم آہنگی بڑا ہی مشکل کام ہے۔کوئی نہ کوئی بات ایسی ضرور ہوتی ہے جوکسی اختلاف کو جنم دے سکتی ہے۔ چنانچہ ایسی صورت حال آپ دونوں کے زائچوں میں بھی موجود ہے اور آپ دونوں کو بعض معاملات میں سمجھوتے کرنا پڑیں گے۔
آپ کا پیدائشی برج حوت اور قمری برج سرطان ہے جبکہ شمسی برج حوت ہے۔ آپ کے کزن کا شمسی برج حمل، پیدائشی اور قمری برج سرطان ہے۔ اگر آپ مینگلیک ہیں تو وہ بھی مینگلیک ہے اور یاد رہے کہ ایک مینگلیک دوسرے مینگلیک کا اثر کاٹتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے ایڈجسٹ کر لیتے ہیں۔ سیارہ مریخ آپ کے زائچے کے آٹھویں گھر میں ہے اور کزن کے بارہویں گھر میں۔ دونوں کے قمری برج ایک ہی ہےں اور زحل اور یورینس دونوں کے قمری برج کے ساتویں گھر میں ہیں جو ازدواجی زندگی میں اختلافات کی نشان دہی کرتے ہیں۔ دونوں کے زہرہ و مریخ تربیع کی پوزیشن میں ہیں لہذا دونوں کے درمیان حقیقی محبت اور پسندیدگی کا جذبہ پیدا ہونا مشکل ہے۔ گویا دونوں ایک دوسرے کے لیے کوئی خاص کشش محسوس نہیں کریں گے بلکہ ازدواجی زندگی میں ایک مشینی انداز رہے گا جیسے وقت مقررہ پر اپنی اپنی ڈیوٹی ادا کررہے ہوں۔ اکثر جوڑے ایسی ہی خشک زندگی گزارتے ہیں اور کئی بچوں کے ماں باپ بھی بن جاتے ہیں۔ سمجھوتوں کے ساتھ پوری زندگی اسی طرح لڑتے جھگڑتے گزرجاتی ہے اور ایسی شادیوں کو بھی کامیاب شادیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
ہمارے نزدیک خرابی کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ کا شمسی برج حوت اور کزن کا حمل ہے۔ دونوں کے لیے ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنا اور ایک دوسرے کی خامیوں کو برداشت کرنا بہت مشکل ہوگا۔ مزید خرابی یہ ہے کہ اس کی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ کوئی معقول ہنر بھی نہیں جانتا۔ حمل افراد اگر تعلیم یافتہ نہ ہوں تو ان کی آتش مزاجی بڑھ جاتی ہے ، وہ نہایت اجڈ اور کرخت ہوجاتے ہیں۔ اپنی ہر بات کو طاقت کے بل بوتے پر منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جلد مشتعل ہوجاتے ہیں اور فورا ہاتھا پائی پر اتر آتے ہیں۔ دوسری طرف آپ شمسی برج حوت اور قمری برج سرطان کی وجہ سے نہایت حساس اور جذباتی ہیں۔ ٹینشن ڈپریش آپ کی پیدائشی بیماریاں ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر حوصلہ ہار کر رونا دھونا اور کبھی کبھی مرجانے کے بارے میں سوچنا آپ کا ٹریڈ مارک ہے۔
غالبا دونوں زائچوں کی یہ تجزیاتی رپورٹ کسی فیصلے پر پہنچنے کے لیے کافی ہے۔ اگر روایتی کامیاب ازدواجی زندگی گزارنی ہے تو ٹھیک ہے ، گزارہ ہوجائے گا لیکن ایک مثالی محبت اور ہم آہنگی کی ازدواجی زندگی کے لیے یہ رشتہ موزوں نہیں ہے۔ آپ کا زائچہ بہت اچھا ہے۔ اگر آپ اپنا تعلیمی سفر جاری رکھ سکیں تو یقینا آپ کے خواب ضرور پورے ہوجائیں گے اور آپ زندگی میں کوئی اعلی مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔ یہ خیال بھی غلط ہے کہ شادی کے بعد آپ کو مزید تعلیم حاصل کرنے اور کریئر بنانے کا موقع مل سکے گا۔ جو شخص خود تعلیم یافتہ نہیں ہے وہ تعلیم کی قدر بھی نہیں جانتا۔ لہذا آپ کو بھی اجازت نہیں دے سکتا۔ آپ کی ممانی کس قدر روشن خیال ہیں یہ آپ کو خود اندازہ ہوگا۔
آپ پر زحل کی ساڑھ ستی نہیں بلکہ ڈھیا چل رہی ہے جو 2025 تک رہے گی اور ہمارا اندازہ ہے کہ گھر والوں کے اور ممانی کے منصوبے کی مزاحمت کرنا آپ کے لیے مشکل ہوگا۔ بہرحال شر اور فساد سے بچنے کے لیے آپ کو منگنی کر لینا چاہیے۔ آنے والے دو تین سالوں تک خاموشی سے اپنی تعلیم جاری رکھیں اور یہ شرط بھی لگادیں کہ اس عرصے میں آپ کے کزن کو بھی مزید تعلیم حاصل کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ آنے والے دوسالوں میں پوت کے پاﺅں پالنے میں نظر آجائیں گے۔ شاید اس طرح آپ کے گھروالوں کو کوئی بہتر فیصلہ کرنے میں مدد ملے۔
آپ کا آخری سوال مینگلیک کے بارے میں ہے کہ کیا وہ منحوس ہوتے ہیں؟ تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ مینگلیک افراد زیادہ جوشیلے جذباتی ، گرم مزاج اور غلبہ پسند ہوتے ہیں ، ان لوگوں میں ذہنی میچوریٹی دیر سے آتی ہے۔ لہذا ازدواجی زندگی کی ذمے داریاں کم عمری میں اٹھانے کے قابل نہیں ہوتے۔ مختصرا یہ کہ ہر شخص سے ان کی انڈراسٹینڈنگ نہیں ہوسکتی۔ البتہ دو مینگلیک ایڈجسٹ ہوسکتے ہیں۔ خواہ شادی کم عمری میں ہی کیوں نہ ہو۔ صرف یہ کہنا بھی غلط ہے کہ شادی کی ناکامی کا سبب مینگلیک ہونا ہے۔ کسی بھی زائچے میں اور بھی ایسے عوامل ہوسکتے ہیں جو شادی کی ناکامی کا سبب بن سکتے ہیں۔