ہم درحقیقت خوف اور وسوسوں کے دور میں سانس لے رہے ہیں

ہم جس ماحول میں زندہ ہیں یہاں خوف، وسوسے، ڈر اور اندیشے کسی نہ کسی انداز میں ہمارے ذہنوں میں ہر وقت سرسراتے رہتے ہیں، معاشرے کے بیشتر افراد آپ کو کسی نہ کسی خوف، وہم یا اندیشے میں مبتلا نظر آئیںگے، بہت کم ایسے ہوں گے جنہیں ہر خوف و ڈر سے آزاد قرار دیا جاسکتا ہے یا یہ کہا جاسکے کہ ان کے ذہن میں کسی بھی قسم کا کوئی خوف یا اندیشہ نہیں ہے، اگر حقیقت پسندی سے ہم اپنی ذہنی حالتوں کا تجزیہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی خوف اور اندیشے میں مبتلا ہے،کسی نہ کسی شے سے، کسی نہ کسی پہلو پر اور اندر ہی اندر سہا ہوا ہے اور اکثر لوگ اسی خوف زدگی کے عالم میں پوری زندگی گزار دیتے ہیں۔
شاید ہمارے موجودہ معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ یہاں تمام انسان سہمے ہوئے اور کسی نہ کسی حوالے سے خوف زدہ ضرور ہیں، کوئی اپنی بقا کے سلسلے میں تشویش کا شکار ہے، کسی کو اپنی نسل کے ختم ہوجانے یا برباد ہوجانے کی فکر لاحق ہے، کوئی غم دوراں یا غم روزگار کی سختیوں سے سہما ہوا ہے تو کوئی اپنی زندگی میں نفع و نقصان کے حساب میں الجھ کر پریشان و ہراساں ہے اور سودوزیاں کی یہ فکر ہر لمحہ اس کے اعصاب پر سوار ہے، الغرض بچہ، بوڑھا، جوان، عورت، مرد ، شادی شدہ، بے روزگار یا برسرروزگار، صحت مند یا بیمار کسی نہ کسی نوعیت کے، کسی نہ کسی خوف میں ضرور مبتلا ہے، یہ خوف شعوری بھی ہوتا ہے اور لاشعوری بھی، شعوری خوف اس قدر خطرناک ثابت نہیں ہوتا ہے جتنا لاشعوری، شعوری خوف سے نجات پانے کے لیے انسان کوششوں میں مصروف رہتا ہے کیوں کہ یہ اس کا کھلا مدمقابل ہے، وہ اسے جانتا پہچانتا ہے اور اس سے نمٹنے کی تدبیریں سوچتا اور ان پر عمل کرتا رہتا ہے مگر لاشعوری خوف ایک نہایت خطرناک چھپا ہوا دشمن ہے جس سے انسان بے خبر ہونے کی وجہ سے قدم قدم پر شکست کھاتا اور اس کے حملوں سے اپنی روح کو مجہول کرتا رہتا ہے لیکن اسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی ذہنی اور روحانی تباہی کے اسباب کیا ہیں؟

ماحولیاتی آلودگی

موجودہ دور میں دنیا بھر کے سائنس دانوں اور عالمی ماحولیاتی اداروں کے مفکرین کے نزدیک جو مسئلہ روز بہ روز پیچیدہ تر اور ایک نہایت بھیانک حقیقت کی حیثیت اختیار کرتا جارہا ہے، وہ ماحولیاتی آلودگی ہے، دنیا بھر میں بہت بڑے پیمانے پر اس مسئلے کے تدارک کے لیے سر توڑ کوششیں ہورہی ہیں، ایک زر کثیر، فنڈز کی صورت میں ایسی تنظیموں کو فراہم کیا جارہا ہے جو ماحولیاتی آلودگی کے خلاف کام کرنے کی دعوے دار ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی سے مراد دنیا میں بڑھتی ہوئی کثافت، گندگی اور وہ آلائشات ہیں جو روز بہ روز کرئہ ارض کے ماحول کو تباہ کر رہی ہیں اور اسے نسل انسانی کے لیے ناقابل سکونت بناتی جارہی ہیں، ماہرین ماحولیات اور سائنس دانوں کے لیے یہ مسئلہ یقیناً بہت اہمیت رکھتا ہے، زمینی یا فضائی آلودگی ہم سب کا مسئلہ ہے لیکن کیا ہم میں سے کوئی ذہنی آلودگی کی طرف بھی متوجہ ہے؟ کیا سائنس دان انسانی دماغوں کو مختلف آلائشوں سے پاک کرنے کے لیے بھی کوئی کوشش کر رہے ہیں؟

ذہنی آلودگی

جیسا کہ ہم نے ابتدا ہی میں عرض کیا تھا کہ ہم درحقیقت خوف ، وسوسوں اور اندیشوں کے دور میں سانس لے رہے ہیں، ہمارے اردگرد کا ہر شخص خوف زدہ ہے، کسی نہ کسی اندیشے میں مبتلا ہے، یہ خوف اور اندیشے صبح و شام عام آدمی کے ذہن میں ہلچل مچائے رکھتے ہیں اور ان ہی کی بدولت آج کے دور کا انسان کسی بھی زمانے کے مقابلے میں ذہنی طور پر زیادہ انتشار اور پراگندگی کا شکار ہے، اس کی دماغی کثافتیں روز بہ روز بڑھتی جارہی ہیں اور ہزار ہائے اقسام کے اعصابی دباو اسی کی شخصیت اور صلاحیتوں کو کچل رہے ہیں لیکن اس ذہنی آلودگی کے تدارک کے لیے کسی بھی سطح پر کوئی باقاعدہ کام نہیں ہورہا، انفرادی طور پر یقیناً ایسے لوگ موجود ہوں گے اور ہیں جو بساط بھر کوششیں کر رہے ہیں، اس سلسلے میں ہمارے اہل تصوف ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں اور آج بھی ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں تصوف اور روحانیت کے نام پر پیشہ وری اور فراڈ بہت زیادہ فروغ پاگیا ہے، اس کی وجہ سے عام لوگوں کا اعتماد و اعتقاد بری طرح مجروح ہوا، دنیا میں اور خاص طور پر ہمارے ملک میں سرکاری سطح پر اس نوعیت کا کوئی کام ماہرین کی زیر نگرانی نہیں کرایا جاتا جو انسانوں میں بڑھتی ہوئی ذہنی آلودگی کے تدارک میں معاون ثابت ہوسکتی ہے بلکہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ جیسے ابھی تک دنیا کو اس ذہنی آلائش اور فکری پراگندگی کے نقصان کا صحیح ادراک ہی نہیں ہے جس کی تعداد بڑھتے بڑھتے اب ایک سو ایک مختلف شکلیں اختیار کرگئی ہے۔ جی ہاں ! ایک بین الاقوامی سروے رپورٹ کے مطابق دنیا میں ذہنی خوف دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں اور اب تک ان کی ایک سو ایک انتہائی مہلک اقسام سامنے آچکی ہیں،ا س میں ریگرو فوبیا (کھلی جگہوں پر خوف) سے لے کر کلسٹر و فوبیا (بند جگہوں کا خوف) تک ہر چیز کا خوف شامل ہے، یقیناً دنیا میں بہت سے خوف ابھی ایسے ہیں جو لوگوں کو لاحق ہیں مگر وہ تاحال سائنس دانوں کی نگاہ سے نہیں گزرے اور اس کے نتیجے میں ایک سو ایک خوف کی اس فہرست میں شامل نہیں ہوسکے جو سروے کرنے والی ٹیم نے تیار کیے، اس سروے کے آخر میں بتایا گیا ہے کہ یہ تحقیق ابھی بھی جاری ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ اس تعداد میں حیرت ناک حد تک اضافہ ہوگا۔
دنیا خوف کی ذہنی کیفیت کے نت نئے پہلووں سے مستقبل قریب میں یقیناً روشناس ہوتی رہے گی اور اس کی نت نئی تباہ کاریاں سامنے آتی رہیں گی، ہم سب خوف کی بڑھتی ہوئی اقسام کو دیکھ کر خوف زدہ ہوتے رہیں گے کیوں کہ یہ خوف کا دور ہے اور ہم سب خوف زدہ لوگ ہیں۔
ہمارے خیال میں خوف کی نئی اقسام کی دریافت اور خوف سے نجات کے لیے تمام سائنس دانوں اور ماہرین نفسیات کی بہ نسبت روحانی سائنس یا روحی سائنس کے اسکالرز زیادہ بہتر کام کرسکتے ہیں، یہ بات ہم اپنے کچھ ذاتی تجربے کی بنا پر لکھ رہے ہیں جو ہمیں موصول ہونے والے لاتعداد خطوط کے ذریعے حاصل ہوئی ہے، ہمارے اعداد و شمار کے مطابق مندرجہ بالا سروے رپورٹ میں دیے گئے ایک سو ایک خوف کی تعداد بہت کم ہے ، موجودہ دور میں خوف کی اقسام اس سے کہیں زیادہ ہوچکی ہیں، انشاءاللہ آئندہ اس موضوع پر مزید اظہار خیال کیا جائے گا، فی الحال ایک اور اس کا جواب، پہلا خط خوف کی ایک قسم ہی کے حوالے سے ہے۔