شاید دنیا کا سب سے زیادہ پڑھا اور لکھا جانے والا موضوع محبت ہے۔ بہت کم کہانیاں دنیا میں ایسی ہوں گی جن میں اس عالمی جذبے کی کارفرمائی موجود نہ ہو۔ دنیا کے طاقتور ترین جذبوں میں محبت اور نفرت ہی وہ دو جذبے ہیں جو انسانی نفسیات میں سرفہرست ہیں۔ باقی تمام جذبے محبت اور نفرت ہی کی اگلی کڑی کہلائیں گے۔ مثلاً انتقام ، لالچ وغیرہ۔
محبت کے عالمی اور لافانی کردار کو تمام مذاہب کے علاوہ وہ لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں جو لامذہب یا دوسرے معنوں میں مادّہ پرست کہلاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ محبت کی توجیح و تشریح میں بھی مادّی فوائد کو مدِ نظر رکھتے ہیں۔ مثلاً علم نفسیات کا باوا آدم سنگمنڈ فرائڈ محبت کے جذبے میں جنس کے پہلو کو اوّلیت دیتا ہے۔
جدید علم نفسیات میں اگرچہ محبت کے جذبے کو ہر حوالے سے سیکس کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے مگر ماہرین نفسیات ایک ایسی محبت کے بھی قائل ہیں جس میں محبت کے ساتھ سیکس کا وجود نظر نہیں آتا لیکن وہ ایسی کسی مثال کو محبت سے زیادہ کشش و پسندیدگی قرار دیتے ہیں اور اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ انسانی جسم سے جو لہریں خارج ہوتی ہیں وہ کسی دوسرے انسان کی لہروں سے اگر ہم آہنگ ہو جائیں تو کشش و پسندیدگی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اگر وہ لہریں دوسرے انسان کی لہروں سے متصادم ہوں تو دونوں کے درمیان ناپسندیدگی یا دوسرے لفظوں میں بے رغبتی کا سبب بنتی ہیں۔
محبت اور علم نجوم
اس مسئلے کا جتنا واضح اور شافی و کافی جواب ہمیں ایسٹرولوجی دیتی ہے، دوسرا کوئی علم نہیں دیتا۔ سنگمنڈ فرائڈ کے جاں نشینوں میں ایک بہت بڑا نام ماہر نفسیات کارل یونگ کا ہے جس نے اپنے استاد سنگمنڈ فرائڈ سے اختلاف بھی کیا ہے۔ واضح رہے کہ کارل یونگ علم نفسیات کے ان اولین ماہرین میں سے ایک ہے جس نے انسانی نفسیات کو سمجھنے میں علم نجوم سے مدد لی۔ اس نے اعتراف کیا ہے کہ میں نے اپنے مشکل نفسیاتی کیسوں میں انسان کے نفسیاتی مسائل کو سمجھنے میں علم نجوم سے استفادہ کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کارل یونگ کے اکثر پیروکار برسوں اس حقیقت کو چھپاتے رہے اور علم نجوم کا انکار کرتے رہے مگر پچاس کی دہائی میں عظیم ایسٹرولوجر سڈنی اومر کی کوششوں کے نتیجے میں یہ حقیقت روز روشن کی طرح دنیا کے سامنے آگئی۔ سڈنی اومر کی تحقیق اور جدوجہد کا ماجرا بھی خاصا دلچسپ ہے جو یہاں ہمارا موضوع نہیں ہے۔
آج بھی دنیا بھر میں تمام شادی شدہ یا غیر شادی شدہ افراد (خواتین و حضرات) کے لیے سب سے زیادہ دلچسپ اور اہم موضوع محبت، دوستی اور ہم آہنگی ہے۔ چونکہ اس کے بغیر زندگی کی گاڑی کے دونوں پہیّے سبک رفتاری سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔
ایسٹرولوجی میں بھی محبت یا دو افراد کے درمیان ہم آہنگی اور کشش کا موضوع سرفہرست ہے۔ اس موضوع پر اب تک ہزاروں کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ مشہور امریکن ایسٹرولوجر لنڈا گڈمین کی بے پناہ شہرت اور مقبولیت کا سبب ہی اس کی شہرہ آفاق کتاب Love Sign ہے۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار ایسٹرولوجرز نے بارہ بروج کی باہمی کشش یا باہمی چپقلش کو موضوع بنایا ہے لیکن ہزارہا صفحات لکھے جانے کے باوجود یہ موضوع تاحال تشنہ اور نامکمل محسوس ہوتا ہے کیونکہ بے شمار جگہ ایک نیا جہان حیرت سامنے آتا ہے اور بقول مشہور شاعر جناب رئیس امروہوی مرحوم
یارب! غم عشق کیا بلا ہے
ہر شخص کا تجربہ نیا ہے
بے شک محبت، شادی اور ازدواجی زندگی کا ہر پہلو اس قدر رنگارنگ اور متنوع ہے کہ شاعر کو کہنا پڑا “ہر شخص کا تجربہ نیا ہے”۔
ہم اکثر محبت کے حوالے سے نت نئی کہانیاں سنتے اور ازدواجی زندگی کے رنگارنگ پہلوو¿ں کا نظارہ کرتے رہتے ہیں۔ اب ہمیں زیادہ حیرت بھی نہیں ہوتی کیونکہ ہماری ساری حیرت علم نجوم کی مدد سے دور ہو جاتی ہے مگر عام لوگ اس وقت شدید حیرت کا شکار ہوتے ہیں جب دو محبت میں دیوانے افراد کو شادی سے پہلے یا شادی کے بعد علیحدہ ہوتے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر اس طرح ایک دوسرے کو پاگلوں کی طرح چاہنے والے اور شادی کے لیے ساری دنیا سے بغاوت کرنے والے اس جوڑے کو اب اچانک کیا ہو گیا ہے۔ اس موقع پر پھر ایک دلچسپ شعر ملاحظہ کیجیے اور اس پر غور کیجیے
بچھڑ بھی جاتے ہیں مل کر رہ محبت میں
مگر یہ بات ابھی تیرے سوچنے کی نہیں
عزیزان من! شاید آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ آج ہم یہ کس قسم کی باتیں کرنے بیٹھ گئے ہیں۔ دراصل ہمارے معاشرے میں ایسٹرولوجی کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ صرف تھوڑی سی تفریح کی حد تک ضرور اس میں دلچسپی لی جاتی ہے۔ ہماری موجودہ نسل انٹرنیٹ کی بدولت البتہ اب زیادہ دلچسپی لینے لگی ہے لیکن پرانی نسل مختلف وجوہات کی بنیاد پر اس اہم موضوع سے گریزاں رہتی ہے۔ البتہ جب کوئی مشکل پیش آتی ہے تو ضرور کسی ایسٹرولوجر سے مشورہ کیا جاتا ہے لیکن یہ مشورہ بھی اس وقت کیا جاتا ہے جب کھیل بگڑ چکا ہوتا ہے اور خراب نتائج سامنے نظر آرہے ہوتے ہیں اگر دو محبت کرنے والے یا دو شادی کرنے والے افراد پہلے ہی علم نجوم کی روشنی میں باہمی انڈراسٹینڈنگ کے مسائل کو سمجھ لیں تو شاید بعد کے بہت سے مسائل قبل از وقت ہی حل ہو جائیں مگر محبت ایک ایسی بلا ہے کہ جب یہ لپٹتی ہے تو انسان کو اندھا کر دیتی ہے۔ وہ اچھا برا، موافق ناموافق کچھ نہیں دیکھتا، ہم روزانہ یہ تماشا دیکھتے ہیں کہ دو افراد آپس میں شادی کے لیے پاگل ہو رہے ہیں، ہمارے سمجھانے کے باوجود کہ آپ کی جوڑی مناسب نہیں ہے، شادی پر بضد ہیں۔
مختلف بروج کی بنیادی خصوصیات
آئیے اس مسئلے کو ایسٹرولوجی کی فلاسفی کے تحت سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس سے پہلے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ دائرہ بروج (Zodiac Signs) کے بارہ برج محبت کے جذبے کو کس طرح دیکھتے ہیں اور اس حوالے سے ان کے مزاجی اور فطری رجحانات کیا ہیں۔
دائرہ بروج کا پہلا برج حمل (Aries) ہے اور آخری یعنی بارہواں حوت (Pisces) ہے۔ ماہرین نجوم نے بارہ برجوں کو مختلف اقسام (Categories) میں بانٹ دیا ہے۔ اس تقسیم کے لحاظ سے چھ برج مذکر (Male) ہیں اورچھ مونث (Female) ہیں۔ مذکر بروج حمل،جوزا، اسد، میزان، قوس، دلو ہے، جبکہ مونث برج ثور، سرطان، سنبلہ، عقرب، جدی اور حوت ہیں۔ اسی طرح ان برجوں کی عنصری تقسیم کے مطابق تین برج آتشی (Fire)، حمل، اسد اور قوس۔ تین خاکی (Earth)، ثور، سنبلہ، جدی۔ تین آبی (Water)، سرطان، عقرب، حوت اور تین بادی یا ہوائی (Air)، جوزا، میزان، دلو ہیں۔
اسی طرح بارہ برجوں کی تقسیم ماہیت کے اعتبار سے اس طرح ہے کہ چار برج منقلب یعنی تغیر پذیر (Cardinal) ہیں۔ جن میں حمل،سرطان، میزان اور جدی شامل ہیں۔ چار برج ثابت یعنی ٹھہراو¿ والے (Fixed) ہیں۔ ثور، اسد، عقرب اور دلو۔ چار برج ذو جسدین یعنی دہرے جسم والے (Common Sign) کہلاتے ہیں۔ جوزا، سنبلہ، قوس اور حوت۔
مختلف بروج میں محبت کا جذبہ
بارہ بروج کی یہ تقسیم ان کے مزاج اور فطرت اور دیگر خصوصیات پر روشنی ڈالتی ہے اور اسی مزاج و فطرت کی بنیاد پر ان برجوں کے محبت، دوستی یا ازدوجی زندگی کے معاملات ہمارے سامنے آتے ہیں۔ چونکہ محبت کا تعلق دماغ سے زیادہ دل اور ہمارے جذبات و احساسات سے ہے لہذا اگر محبت کرنے والے یا محبت میں انتہا کے درجے پر جانے برجوں کا انتخاب کرنا ہو تو وہ آبی بروج (Water Sign) ہوں گے یعنی سرطان، عقرب اور حوت، یہ تینوں احساسات اور جذبات کے حوالے سے سرفہرست ہیں۔ اگر آپ کسی کو محبت میں یا کسی بھی تعلق میں نہایت جذباتی اور حساس پائیں تو سمجھ لیں کہ اس کی ساخت میں Water Sign کوئی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ لوگ محبت اور نفرت دونوں جذبوں میں نہایت شدت پسند اور انتہاو¿ں کو چھونے والے ہوتے ہیں۔ یہ کسی تعلق کو بھی سرسری انداز میں نہیں لیتے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے جذبے ہمیشہ سچے اور کھرے ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق محبت سے ہو یا نفرت سے، اسی بنیاد پر ان برجوں سے وابستہ افراد بحیثیت دشمن بھی بہت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ وہ انتقام لینے پر تل جاتے ہیں۔ تینوں آبی بروج میں انتقامی جذبے کے حوالے سے برج عقرب سرفہرست ہے۔ عقربی افراد کے دل میں چبھی ہوئی پھانس کبھی نہیں نکلتی۔ بہرحال! یہ تینوں برج محبت میں گہرائی اور گیرائی کے قائل ہیں۔ البتہ تینوں کی محبت کا انداز اور اظہار خاصا مختلف ہے۔
سرطانی محبت
سرطان کی محبت میں مامتا کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ اسی لیے برج سرطان کو International Mother کہا جاتا ہے۔ ان کی محبت کا انداز اور اظہار ایسا ہی ہوتا ہے جیسے ایک ماں کا۔ ان لوگوں کو اپنی زمین، اپنے وطن، اپنے شہر، اپنے محلے، اپنی آبائی مکان، اپنے خاندان، اپنی ماں، اپنے بچوں کا بہت خیال رہتا ہے۔ ان کی کوئی خوشی ان چیزوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ حد یہ کہ سرطان عورتیں اپنے شوہر کا بھی اس طرح خیال رکھتی ہیں جیسے اپنی اولاد کا اور سرطان مرد اپنی بیوی سے بھی یہ ہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کا اسی طرح خیال رکھے جیسے ان کی ماں ان کا خیال رکھتی تھی۔ سرطان افراد کے لیے اپنا ذاتی گھر بھی نہایت ضروری ہے۔ وہ کرائے کے مکان یا کسی غیر کے گھر میں خوش نہیں رہ سکتے۔ سرطان لڑکے لڑکیاں جب محبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو ان کی اولین کوشش اور خواہش شادی ہوتی ہے تاکہ جلد سے جلد گھر اور خاندان کی بنیاد رکھی جا سکے۔ یہی سرطانی افراد کی محبت کے جذبے کا انداز اور اظہار ہے۔
سرطانی افراد کو محبت میں مکمل اعتبار اور اعتماد چاہیے۔ ایسا اعتبار اور اعتماد جو ماں کی محبت میں پایا جاتا ہے۔ شاید اسی لیے سرطان بیویاں اور سرطان شوہر محبت کے معاملات میں شادی کے بعد بھی بے اعتمادی کا شکار رہتے ہیں۔ انہیں بار بار اپنی محبت کا یقین دلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اس کام میں بے پروائی کا مظاہرہ کیا جائے یعنی آپ اپنے سرطان پارٹنر کو اپنی محبت کا یقین دلانے میں سستی کا مظاہرہ کریں یا بے پروائی سے کام لیں تو سمجھ لیں ایک بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ اس کے شکوک و شبہات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ یہ کام آپ محض زبانی کلامی بھی کرتے رہیں تو کافی ہے۔
برج عقرب کے تین نشان
آبی بروج میں دوسرے نمبر پر برج عقرب ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بارہ بروج میں یہ سب سے زیادہ حیرت انگیز اور عجیب خصوصیات کا حامل برج ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ یہ واحد سائن ہے جس کے تین نشان ہیں۔ اوّل بِِِِِچّھو (Scorpio)، دوم عقاب (Eagle)، سوم قُقنس۔
بِِچّھو کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ یہ تاریکی میں رہنا پسند کرتا ہے۔ ہمیشہ اپنے وجود کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسرے معنوں میں چھپ کر رہتا ہے۔ خطرہ محسوس کرے تو اس صورت میں بھی پسپائی اختیار کرتے ہوئے چھپ کر وار کرتا ہے لیکن مقابلے سے دستبردار نہیں ہوتا۔ شکست تسلیم نہیں کرتا۔ ڈنک مارنا اس کا طرہ امتیاز ہے۔ دوسرا نشان عقاب ہے اور عقاب کا بہادری کے ساتھ جھپٹنا مشہور ہے۔ ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال نے عقاب کو اپنا آئیڈیل بنایا ہے۔ ان کے ایک شعر سے عقاب کی خصوصیات اور زندگی پر بھرپور روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ
عقربی افراد کی زندگی یقیناً اس شعر سے عبارت ہے۔ یہ لوگ ساری زندگی ایسی ہی جدوجہد کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔ بظاہر نہایت پرسکون نظر آنے والے عقربی افراد کے اندر کا ماحول بڑا طوفانی ہوتا ہے۔ وہ ہر لمحہ جھپٹنے، پلٹنے اور پلٹ کر پھر جھپٹنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
تیسرا نشان روایتی اور افسانوی پرندہ قُقنس ہے۔ شاید ہمارے بہت سے قارئین کے لیے یہ نام نیا ہو اور وہ اس پرندے سے قطعی نا واقف ہوں۔ قُقنس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک انتہائی نایاب پرندہ ہے۔ دنیا میں ایسے خوش قسمت بہت تھوڑے ہوں گے جنہوں نے اس پرندے کو دیکھا ہو۔ اس کے بارے میں صدیوں سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ یہ ہمیشہ پوری دنیا میں ایک ہی ہوتا ہے۔ دوسرے معنوں میں اس کا جوڑا بھی نہیں ہوتا۔ جب ایک قُقنس کا آخری وقت قریب آجاتا ہے تو وہ کسی بلند مقام پر اپنے لیے ایک گھونسلا بناتا ہے پھر اس گھونسلا میں بیٹھ کر اپنی نہایت سریلی آواز میں ایک ایسی دھن نکالتا ہے جسے کلاسیکل موسیقی میں دیپک راگ کہا جاتا ہے۔ یہ روایت بھی موجود ہے کہ دیپک راگ قُقنس سے لیا گیا ہے۔ چناچہ اس کے نتیجے میں گھونسلے میں آگ لگ جاتی ہے لیکن قُقنس اپنے گھونسلے سے باہر نہیں نکلتا اور اسی آگ میں جل کر خاک ہو جاتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے اور اس میں اپنے مقصد، اپنے گھر سے محبت کا کتنا شدید جذبہ موجود ہے۔ بقول خدائے سخن میر تقی میر
آگ تھے ابتداءعشق میں ہم
ہو گئے خاک، انتہا ہے یہ
اس خودسوزی کے بعد جب پہلی بارش کا پہلا قطرہ اس کی جلی ہوئی راکھ پر پڑتا ہے تو ایک نیا قُقنس اس راکھ سے جنم لیتا ہے۔ گویا ایک زندگی ختم ہوتی ہے تو پیدائش کا نیا عمل شروع ہوتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے جدید ماہرین نجوم نے برج عقرب کا حاکم سیارہ پلوٹو کو مقرر کیا ہے، جو موت یعنی انجام اور حیات نو کا سیارہ ہے۔
قُقنس کی یہ صفت عقربی افراد میں پائی جاتی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ عقربی افراد تنہا پسندی کو فوقیت دیتے ہیں۔ بسا اوقات تو ہزاروں کے مجمع میں رہتے ہوئے بھی اپنی ذات میں تنہا ہی ہوتے ہیں۔ ان کی یہ تنہائی درحقیقت روحانی ہوتی ہے۔ شاید مندرجہ ذیل شعر عقربی افراد کی تنہائی کے معاملے پر کچھ روشنی ڈال سکے۔
بھیڑ تنہائیوں کا میلہ ہے
آدمی آدمی اکیلا ہے
قُقنس کی دوسری خصوصیت خودسوزی یا خودکشی ہے۔ عقربی افراد زندگی بھر اندر ہی اندر جلنے اور سلگنے کی خصوصیت رکھتے ہیں کیونکہ یہ لوگ اپنے جذبات و احساسات کا کھل کر اظہار نہیں کرتے یا ایسا کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ اسی طرح یہ لوگ مایوسی کے آخری درجے پر پہنچنے کے بعد خودکشی کی طرف بھی جلد راغب ہوجاتے ہیں۔ اگر ایک سروے کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ دنیا بھر میں خودکشی کرنے والوں میں عقربی افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہو گی۔ ماہنامہ سرگزشت کی ادارت کے زمانے میں ہم نے اس میگزین کا ایک “خودکشی نمبر” شائع کیا تھا جس میں ایسے افراد کی کہانیاں تھیں جنہوں نے خودکشی کی تھی۔ جب ہم نے ان کی تاریخ پیدائش کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جن کا شمسی، قمری یا پیدائشی برج عقرب تھا۔
عقربی محبت
اس تمام وضاحت کا مقصد یہ ہے کہ آبی بروج کی تکون کا دوسرا برج عقرب محبت کے معاملے میں بھی دیگر تمام بروج سے زیادہ شدت پسند بلکہ انتہاپسند واقع ہوا ہے۔ اس برج سے متعلق افراد میں محبت کے جذبے کی شدت شدید جیلسی اور حسد کا مادّہ پیدا کرتی ہے۔ چناچہ عقربی افراد اپنے محبوب کو سات تالوں میں بند کر کے رکھنا پسند کرتے ہیں۔ وہ کسی لمحے بھی نہیں چاہتے کہ ان کا محبوب ان کی نظروں سے اوجھل ہو اور کوئی دوسرا اس کی طرف متوجہ ہو یا وہ خود کسی دوسرے سے کوئی تعلق رکھیں۔ بعض ناپختہ یا زائچے میں سیاروں کے خراب اثرات کا شکار عقربی افراد جنونی اور اذیت پسند بھی ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ برج خاصا خطرناک بھی ہے۔
عقربی افراد کی محبت اور چاہت کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہر برج اس کا اہل نہیں ہے بلکہ بعض بروج تو اس محبت کی شدت کو برداشت ہی نہیں کر سکتے۔ اس موقع پر پھر ہمیں ایک شعر یاد آ رہا ہے جو عقربی افراد کی محبت کی شدت کا عکّاس ہے اور یہ شعر ایک عقربی شاعر کا ہے ، عبید اللہ علیم افسوس اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
عقربی افراد محبت یا نفرت دونوں صورتوں میں اس جذبے کو دل کی انتہائی گہرائیوں کے ساتھ قبول کرتے ہیں اور پھر زندگی بھر اسے فراموش نہیں کر سکتے۔ دیگر معاملات کی طرح محبت میں ناکامی ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ایسی صورت میں وہ انتقام یا خودکشی کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ انگلینڈ کی مشہور شاعرہ سلویا پاتھ نے محبت میں ناکامی کے بعد اپنا سر اون میں رکھ کر خودکشی کی تھی۔ اس کا شمسی برج عقرب تھا۔
عقرب مرد اور خواتین دونوں کا محبت کے معاملے میں یہی حال ہے لیکن یہاں اس حقیقت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آبی برج سرطان کی محبت کا مرکز و محور گھر اور خاندان ہے تو آبی برج عقرب کی محبت کا مرکز و محور سیکس ہے۔ برج عقرب کا یہ پہلو بھی انتہائی دلچسپ ہے کہ ایک طرف تو یہ روحانیت کا برج ہے اور دوسری طرف سیکس اور نسل انسانی کے ارتقاءسے تعلق رکھتا ہے۔ لہذا عقربی افراد محبت میں سیکس کے پہلو کو نظر انداز نہیں کرتے۔(جاری ہے)