خواب ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہیں

ہر باشعور روز ایک سے زیادہ خواب دیکھتا ہے، صرف پاگل خواب نہیں دیکھتے

ہمارے بعض قارئین نے شکایت کی ہے کہ آج کل آپ پاکستان کے سیاسی حالات پر بہت کم لکھ رہے ہیں۔ حالاں کہ پاکستان میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد سیاست میں جو گرم بازاری ہے ، اس کے پیش نظر آپ کو اس موضوع پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔
جواباً عرض ہے کہ اب پاکستان میں سیاست کی جو صورت حال ہے اس پر بات کرنا ہماری نظر میں فضول ہے، 9 مئی کے بعد سے صورت حال میںجو تبدیلیاں آئی ہیں اور جس طرح نگراں حکومتیں آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قائم ہیں اس کے بعد پاکستانی سیاست کا موضوع تقریباً ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ کسی بھی ملک میں سب سے اہم چیز ملک کا آئین ہوتا ہے جب آئین کو نظرانداز کردیا جائے تو پھر سیاست کی بساط بھی لپٹ جاتی ہے۔جہاں صورت حال یہ ہو کہ ہر شخص خوب جانتا ہو کہ آنے والے الیکشن کے نتائج کیا ہوں گے وہاں فلکیاتی سیاروی گردش کے اثرات پر کیا بات کی جائے۔ملک کی نام نہاد جمہوریت اب کسی آئین و قانون کی پابند نہیں ہے اور جب صورت حال یہ ہو تو پھر جمہوریت ، انتخابات وغیرہ پر گفتگو بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔اب کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے، سب جان چکے ہیں کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کہ مصداق ہی آئندہ سب کچھ ہونا ہے۔البتہ سیاروی گردش میں ایسی موڑ بھی آتے ہیں جب لاٹھی ٹوٹ جاتی ہے اور بھینس قابو سے باہر ہوجاتی ہے، فی الحال ایسا ممکن نہیں ہے البتہ 15 جنوری 2024 کے بعد سیاروی گردش پاکستان کے زائچے میں کوئی نیا موڑ سامنے لائے گی جو یقینا دلچسپ ہوگا۔
عزیزان من! نئے سال 2024 سے متعلق ہمارا مضمون یقینا آپ کی نظر سے گزرا ہوگا جس میں ہم نے نئے سال میں ہونے والی اہم تبدیلیوں کی نشان دہی کی ہے، اس پر غور کریں اور انتظار کریں۔ بے شک وقت کوئی ساکت و جامد شے نہیں ہے ۔یہ ایسے ایسے رنگ بدلتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے، وہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایسا کیسے ہوگیا اور کیوں ہوگیا؟ یہاں ہم صرف وہی پرانی بات دہرائیں گے جو پہلے بھی کئی بار لکھ چکے ہیں ، سیاست ہو یا دوسرے دنیاوی معاملات ، انسان جو خود کو عقل کل سمجھتے ہیں ، اپنی ہوشیاری اور فنکاری کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیںاور سمجھتے ہیں کہ وہ جو چالیں چل رہے ہیں درست سمت میں ہیں اور یقینا وہ کامیاب ہوں گے لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے کیوں کہ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے علاوہ بھی دنیا میں ایک سپر پاور موجود ہے جو اپنی چالیں چل رہی ہے اور اس سے بہتر چالیں چلنے والا کائنات میں کوئی اور نہیں ہے ، اس کی ایک چھوٹی سی مثال پیش کرنے کی اجازت دیجیے۔
2007 بھی پاکستان کی سیاست کا ایک غیر معمولی سال تھا ، ملک میں جنرل مشرف حکمران تھے لیکن بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ پاکستان میں اپنی مرضی کا سیٹ اپ چاہتی تھی چناں چہ امریکا، برطانیہ اور سعودیہ ،متحدہ عرب امارات وغیرہ کی کوششوں سے جنرل مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت ملک میں نئے انتخابات کی تیاری شروع کی گئی ۔محترمہ اور جناب نواز شریف جو جلاوطنی کے دن گزار رہے تھے انھیں واپس پاکستان آنے کی اجازت ملی ۔ معاہدے کے مطابق یہ طے تھا کہ جنرل مشرف بدستور ملک کے صدر رہیں گے اور محترمہ وزیراعظم ہوں گی وغیرہ وغیرہ۔ یہ خود کو عقل کل سمجھنے والے انسانوں کی حکمت عملیاں تھیں لیکن قدرت کی حکمت عملیاں جب ظاہر ہوئیں تو پوری دنیا انگشت بہ دنداں رہ گئی۔ نہ محترمہ تیسری بار وزیراعظم بن سکیں اور نہ ہی جنرل مشرف صدر رہے بلکہ ملک پر دس سال نہایت جاہ و جلال کے ساتھ حکومت کرنے والے جنرل مشرف آخر کار ملک چھوڑنے اور جلاوطنی کا لطف اٹھانے پر مجبور ہوگئے۔
عزیزان من! ذرا سوچیے ہماری حکمت عملیاں ، ہماری سوچیں اور ہمارے خواب سب اپنی جگہ ہیں لیکن کیا ہم یہ بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ سب کچھ ویسے ہی ہوگا جیسا ہم سوچ رہے ہیں ؟یقینا ایسا ہوسکتا ہے بہ شرط یہ کہ ہماری نیتیں صاف ہوں ، ہم مثبت سوچ رکھتے ہوں اور اپنے جائز حقوق و مقاصد کے لیے جدوجہد کر رہے ہوں تو یقینا ویسا ہی ہوگا جیسا ہم سوچ رہے ہوں گے کیوں کہ اللہ رب العزت نے یہ بھی فرمایا ہے ” میں تمہارے گمان پر پورا اتروں گا“ لیکن اس کے برعکس اگر ہماری سوچیں منفی ہیں اور ہماری نیتوں میں فتور ہے تو پھر یاد رکھیں ہماری ساری حکمت عملیاں ، فنکاریاں، چالیں دھری کی دھری رہ جائیں گی اور ہوگا وہی جو قدرت چاہتی ہے۔آپ دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ محسوس کریں گے کہ یہ قانون قدرت ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ اس میں آپ کبھی کوئی فرق نہیں پائیں گے، محترمہ اور جنرل مشرف کی مثال کے علاوہ ایسی سینکڑوں، ہزاروں مثالیں موجود ہیں، غور کیجیے۔ اللہ بس باقی ہوس۔
آئیے ایک خط اور اس کے جواب کی جانب:
زیر خط جو ہمارے پیش نظر ہے ۔اس میں خاصے دلچسپ اور غور طلب سوال اٹھائے گئے ہیں۔ ہمارے ایک کرم فرما لکھتے ہیں۔
”عرض یہ ہے کہ وہ کون سے اصول ہیں جن کی روشنی میں ہم یہ جان سکیں کہ ہمارا خواب سچا ہے۔ خواب سے میری مراد وہ خواب ہیں جس میں حضور اکرم ﷺ کی زیارت کرتے ہیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ میں کالم مسیحا کا کچھ عرصے سے مطالعہ کر رہا ہوں جس میں آپ نے مختلف ستاروں اور خاص طور پر زحل کی نحوست کا ذکر کیا ہے۔ میری عرض یہ ہے کہ سب سے بڑے حساب داں خالق کائنات نے ہمارے لئے دن رات میں جو پانچ نمازوں کا حکم دیا ہے جب انسان پابندی سے ان پانچ نمازوں کا اہتمام کرتا ہے تو کیا پھر بھی اسے ستاروں وغیرہ کی نحوست کی فکر کرنی چاہئے اور کیا وہ ان سیاروں کے اثرات کی زد میں آ سکتا ہے؟ جواب سے نوازیئے۔ خط میں کوئی غلطی ہو تو معذرت چاہتا ہوں کیوں کہ بنیادی طور پر انسان غلطی کا پتلا ہوتا ہے اسی لئے پینسل کے اوپر ربر لگا ہوتا ہے۔“
جواب: عزیزم! خوابوں کے حوالے سے جو جدید تحقیقات سامنے آئیں ہیں، انہیں ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ پہلا حصہ انسانی نفسیات کا مشاہدہ اور مطالعہ کرنے والے ماہرین نفسیات کی تحقیقات پر مشتمل ہے جب کہ دوسرا حصہ مابعد النفسیات کے ذیل میں آتا ہے۔
ماہرین نفسیات کی تحقیقات اگرچہ آپ کے سوال کا موضوع نہیں ہے مگر فی زمانہ خوابوں کی حقیقت جاننے کے لئے ہم انہیں نظر انداز نہیں کر سکتے۔
علم نفسیات اب ایک مستند سائنس کا درجہ رکھتی ہے جس میں مطالعہ اور مشاہدے کے ساتھ تجربہ بھی ضروری ہے چنانچہ ماہرین نفسیات نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارے خواب ہماری زندگی کا بالکل اسی طرح ایک لازمی حصہ ہیں جس طرح زندگی کی دیگر ضروریات۔ مثلاً کھانا، پینا، سونا، جاگنا، ہنسنا، رونا وغیرہ۔ ہر عاقل اور باشعور انسان ہر رات ایک سے زیادہ مرتبہ خواب دیکھتا ہے اور اس حوالے سے عمر کی بھی کوئی قید نہیں ہے۔ تجربے سے یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ صرف وہ لوگ خواب نہیں دیکھتے جو فاتر العقل یا پاگل ہیں یعنی وہ شعور ہی نہیں رکھتے اور ذہنی طور پر مفلوج ہیں۔ اگر کوئی باشعور اور ذہنی طور پر صحت مند شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ خواب نہیں دیکھتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے خوابوں کی دنیا سے بے خبر ہے اور یقیناً اول تا آخر نہایت گہری نیند سوتا ہے۔ اتنی گہری نیند کہ جاگنے کے بعد اسے نیند کے دوران دکھائی دینے والے خواب یاد نہیں رہتے جب کہ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو ایک رات میں جتنے بھی خواب دیکھتے ہیں وہ سب انہیں یاد ہوتے ہیں بلکہ بعض تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ نیند کی آغوش میں پہنچتے ہی خواب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور ان کا یہ خواب خاص طویل ہوتا ہے جس میں کسی فلم کی طرح مناظر بدلتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا کہ خواب دیکھنے کے دوران اگر کسی وجہ سے ان کی آنکھ کھل گئی اور پھر چند لمحوں بعد وہ دوبارہ سو گئے تو پہلا والا خواب دوبارہ اسی تسلسل سے شروع ہو گیا۔
ماہرین نفسیات ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم شعوری طور پر جاگتی آنکھوں سے دنیا میں جو کچھ دیکھتے ہیں، سنتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں وہ ایک تواتر سے ترتیب وار ہمارے شعور کے ذریعے لاشعور تک اور پھر تحت الشعور تک پہنچتا ہے۔ ہمارا تحت الشعور ہمارے شعور کے مشاہدے اور احساسات کا ایک خفیہ اسٹور ہے جس میں دنیاوی مظاہر کے مشاہدے سے حاصل ہونے والی ہمارے احساسات کی تصویریں جمع ہوتی رہتی ہیں اور جب ہم نیند کی حالت میںاپنے شعور کے دروازے بند کر کے اپنے لاشعور کی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں تو تحت الشعور میں جمع شدہ احساسات کا ذخیرہ ابل پڑتا ہے اور اس کا ڈسپلے ہمارے لاشعور کی دنیا میں ہوتا ہے جسے ہم عالم خواب کہتے ہیں۔ یہ عمل ہماری ذہنی صحت کے لئے نہایت مفید اور ضروری ہے۔
اب آئیے آپ اپنے سوال کی طرف۔ ہمارا شعوری مطالعہ اور مشاہدہ ہمیں جس قسم کے احساسات سے روشناس کراتا ہے، وہی ہم اپنے تحت الشعور میں اسٹور کرتے ہیں۔ ہمارے یہ احساسات اگر اچھے ہوں گے تو ہمارے خواب بھی خوشگوار ہوں گے لیکن اگر یہ احساسات غم و فکر، کرب و اذیت، ناگواری اور بیزاری، غصہ و انتقام، خوف و دہشت وغیرہ پر مبنی ہوں گے تو ان کا ڈسپلے بھی ناخوشگوار اور پریشان کن ہو گا چونکہ فی زمانہ لوگوں کی اکثریت طرح طرح کے مسائل، خوف اور فکر و پریشانی میں مبتلا ہے لہٰذا عموماً لوگ ناخوشگوار یا خطرناک قسم کے خواب بیان کرتے نظر آتے ہیں یا پھر ان کے خوابوں پر ان کی خواہشات کے احساس کا غلبہ نظر آتا ہے۔ ایسے لوگ چونکہ عموماً ذہنی انتشار کا شکار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نیند بھی بہت زیادہ گہری نہیں ہوتی لہٰذا انہیں اپنے رات بھر دیکھے ہوئے تمام خواب یاد رہتے ہیں۔
وہ خواب جن کا تعلق مابعد النفسیات یعنی روحانیات سے ہے اور جن کے بارے میں حضور اکرم ﷺ کی حدیث موجود ہے اور جن کی حیثیت کشف کی سی ہے وہ ہمیشہ نظر نہیں آتے اور ایسے خواب کے لئے ضروری ہے کہ دیکھنے والا نہ صرف یہ کہ ذہنی طور پر صحت مند ہو بلکہ روحانی طور پر بھی صحت مند ہو اور یہاں صحت مندی سے مراد یہ ہے کہ اسے ذہنی طور پر دنیاوی خواہشات اور دنیاوی غم و فکر، خوف و الم سے نجات ہو اور روحانی صحت سے مراد یہ ہے کہ اس کی روح قرآن و سنت کے مقرر کردہ معیار کے مطابق پاکیزہ ہو۔
یہ بڑا سخت اور کڑا معیار ہے۔ اس پر ہر خاص و عام پورا نہیں اتر سکتا۔ اس لئے خواب میں رسول کریم ﷺ کی زیارت کا دعویٰ کرنے والے افراد کو اپنے باطن میں جھانک کر خود ہی یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ اس نے خواب میں جو کچھ دیکھا وہ محض اس کے احساست کا ڈسپلے تو نہیں تھا جسے وہ اپنی ناسمجھی کے سبب کوئی نیا رخ دے رہا ہو۔
ہم ایسے بے شمار لوگوں سے مل چکے ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور اکرم ﷺ کو خواب میں دیکھا یا کسی اور بزرگ یا ولی اﷲ کو خواب میں دیکھا مگر ان کے حالات اور ذہنی کیفیات کا مطالعہ کرنے کے بعد ہم نے یہی سمجھا کہ وہ اپنے خیال میں غلطی پر ہیں کیوں کہ ذہنی صحت کی شرط کے ساتھ روح کی پاکیزگی کی شرط نہایت سخت ہے اور اس شرط کو پورا کرنے کے لئے آج کے زمانے میں شاید انسان کو تارک الدنیا ہونا پڑے گا۔
اپنے ایسے خوابوں کے حوالے سے اکثر لوگ دلیل کے طور پر حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد بھی پیش کرتے ہیں کہ شیطان خواب میں میری شکل اختیار نہیں کر سکتا۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کو دیکھا کس نے ہے۔ اکثر خواب دیکھنے والے خواب میں جب کسی بزرگ شخص کو دیکھتے ہیں تو ماحول کی وجہ سے یا کسی کے بتانے پر یہ گمان کر لیتے ہیں کہ انہوں نے حضور ﷺ کا دیدار کر لیا۔ ہم اس امکان کو یکسر مسترد نہیں کر سکتے لیکن جیسا کہ ابتدا میں بیان کر چکے ہیں کہ زیارت رسول پاک ﷺ کے سلسلے میں علما اور صوفیائے کرام کی مقرر کردہ شرائط نہایت سخت ہیں۔ آخری بات اس حوالے سے ہم صرف اتنی کہیں گے کہ صحت روحانی کا درست مفہوم معصومیت ہے۔ عیاری اور مکاری روح کو کثیف بنا دیتی ہے اور کثافت کا لطافت سے کیا واسطہ۔

شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات

اب آئیے اپنے دوسرے سوال کی طرف جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دین اور دنیا کے بارے میںآپ خاصے کنفیوژ ہیں اور آپ ہی کیا اکثر لوگ اس قسم کے سوالات کرتے نظر آتے ہیں بلکہ ہم نے تو یہ بھی دیکھا ہے کہ اس حوالے سے لوگ اﷲ سے شکوہ شکایت بھی کرتے ہیں۔ وہ اکثر ایسی مثالیں پیش کرتے رہتے ہیں کہ جناب ہم نماز، روزہ اور تمام شرعی احکام کی پابندی کرتے ہیں، اس کے باوجود ہمارے حالات خراب ہیں جب کہ فلاں فلاں کسی شرعی حکم کی پابندی نہیں کرتا مگر نہایت خوشحال اور روز بروز ترقی کی جانب گامزن ہے۔ یہ سوچ غالباً ہمارے ہاں اس غلط تصور کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ ہم جو احکام الہٰی کے مطابق عبادات کر رہے ہیں اس کے صلے میں ہمیں مادی طور پر خوشحالی اور ترقی ہو گی یا یہ کہ ان عبادات کی وجہ سے ہم ہر دکھ، بیماری، مصیبت اور پریشانی سے بچے رہیں گے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ عبادات الہٰی جو ہم پر فرض ہیں، ان کے روحانی فوائد کے ساتھ بہت سے مادی فوائد بھی ہیں مگر یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ان عبادات کا بنیادی مقصد یہ ہر گز نہیں ہے جو ہم نے سمجھ لیا ہے بلکہ ان عبادات کا مقصد تو یہ ہے کہ ہم اپنے عمل عبادت سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور اس ناتے سے ہم اپنے مالک حقیقی کے حکم پر پانچ وقت اس کے سامنے جھک کر اطاعت و فرمانبرداری کا اظہار کرتے ہیں۔ ہماری اس اطاعت و فرمانبرداری کا وہ ہمیں کیا صلہ دے گا، یہ ایک الگ بحث ہے مگر عبادت کے سلسلے کو مادی دنیاکے دیگر مسائل سے جوڑنا کوئی مناسب بات نہیں ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے تو ہمیں دنیا کے مادی مظاہر کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ وہ سیارگان کی گردش کے اثرات ہوں یا موسموں کی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل ہوں یا معاشی جدوجہد کے درمیان درپیش مشکلات ہوں یا پھر جسمانی طور پر لاحق ہونے والی بیماریاں ہوں، الغرض اپنے مادی وجود کے ساتھ ہمیں دیگر تمام مادی مظاہر کے درمیان زندگی گزارتے ہوئے کبھی نہ کبھی،کسی نہ کسی اتار چڑھاﺅ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ صورت حال صرف عام لوگوں کے لئے ہی نہیںہے۔ اگر ہم انبیاءاور اولیاءکی زندگی کا مطالعہ کریں جو ہم سے کہیں زیادہ عبادت گزار اور اﷲ کے قریب تھے تو ہم دیکھتے ہیں کہ مادی دنیا کے اس سسٹم میں رہ کر انہیں بھی قدم قدم پر مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ اﷲ سے قربت کے باوجود انہوں نے کبھی یہ کوشش نہیں کی کہ اس کے بنائے ہوئے کائناتی نظام میں کوئی ردوبدل کریں۔ معجزے اور کرامات اﷲ کے دین کی سربلندی کے لئے اﷲ ہی کی مرضی اور منشا کے مطابق ظہور پذیر ہوئے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انہوں نے اپنی کسی حاجت، پریشانی، مصیبت کے وقت میں اپنی نجی ضرورت کے تحت حالات اور وقت کو بدلنے کی کوشش کی ہو۔
اﷲ کے قائم کردہ کائناتی نظام میں زحل یا کسی بھی سیارے کی گردش سے پیدا ہونے والے اثرات کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے موسموں کا تغیر و تبدل۔ موسم خود اچھے یا برے نہیںہوتے، وہ تو فطرت کے قوانین کے مطابق تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن کچھ لوگ اگر کسی موسم کو انجوائے کر رہے ہوتے ہیں تو آپ نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہوں گے جن کے لئے وہ موسم عذاب بن گیا ہو گا۔ بالکل اسی طرح زحل یا کسی اور سیارے کا اپنی فطری گردش کے مطابق کسی مخصوص زاویے پر آنا اگر کچھ لوگوں کے لئے سعادت کا باعث ہو گا تو کچھ افراد کے لئے ناقص یعنی نحوست کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔ امید ہے کہ اس وضاحت سے آپ کی الجھن دور ہو گئی ہو گی۔