جس نے خودکو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا

انسان کو پہچاننے، جاننے اور سمجھنے کا بہترین ذریعہ علم نجوم ہے

کائنات عجائبات سے بھری پڑی ہے جس طرف بھی نظر ڈالئے قدرت خداوندی کا کوئی نہ کوئی عجوبہ نظر آجائے گا۔ نظام فلکی میں گردش کرتے ہوئے سیارے اور زمین پر پھیلے ہوئے دست قدرت کے عقل کو حیران کر دینے والے شاہکار پہاڑ، دریا، جنگل، ریگستان، سمندر اور پھر رنگ برنگی مخلوقات عالم۔ قدرت کی پیدا کی ہوئی ہر چیز انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتی نظر آتی ہے لیکن ان تمام چیزوں کے درمیان یا یوں کہیں کہ ان تمام عجائبات عالم کے درمیان سب سے بڑا عجوبہ خود انسان ہے لہٰذا سب سے زیادہ غور و فکر اور مطالعے و مشاہدے کی ضرورت انسانی ذات اور صفات کو ہے۔
جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے شاید اسی وقت سے انسانی ذات و صفات کے مطالعے اور مشاہدے کا عمل شروع ہو گیا تھا جو آج تک جاری ہے اور شاید قیامت تک جاری رہے گا۔ اس کام کی ضرورت تو دینی نکتہ نظر سے بھی ایک مسلم الثبوت اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ حدیث شریف میں یہ ارشاد رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم موجود ہے۔
“جس نے اپنے آپ کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا۔”
ہمارے تجربے اور مشاہدے کے مطابق انسان کو پہچاننے، جاننے اور سمجھنے کا سب سے بہترین ذریعہ علم نجوم ہے جس کے نتائج صدیوں کی تحقیق، تجربے اور مشاہدے کے بعد مرتب ہوئے ہیں۔ آج ساری دنیا اس علم کی افادیت کی قائل ہے اور اس سے استفادہ کرتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کے معاشرے میں یہ علم عطائیوں اور دھوکے بازوں کی وجہ سے بہت بدنام ہے۔ اسے قسمت کا حال یا غیب کا علم سمجھا جانے لگا نتیجتاً مسلمانوں نے اس سے گریز کیا اور اسے طنز و تضحیک کا نشانہ بنایا۔ یہ روایت ہمارے ہاں آج بھی جاری و ساری ہے۔
ہمارا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ لوگ اس علم کو محض شعبدہ بازی اور قیاس آرائی یا پھر غیب دانی سمجھتے ہیں۔ اکثر نئے لوگ جب ہم سے ملتے ہیں اور انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس علم کا شوق رکھتے ہیں تو وہ بڑے خوش ہو کر نہایت بے قراری سے یہ ضرور کہتے ہیں۔ اچھا تو جناب پھر کچھ ہمارے بارے میں بھی بتایئے۔
تب ہمیں خیال آتا ہے کہ لوگوں کو اس علم کی حسابی پے چیدگی، نازک مزاجی اور سنجیدگی کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم۔ اگر انہیں معلوم ہوتا تو وہ یقینا ایسا سوال ہر گز نہیں کرتے۔ لوگ کسی ایسٹرولوجسٹ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ انہیں ان کے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں وہ سب کچھ چند منٹ میں بتا دے گا جو کہ وہ خود بھی جانتے ہیں اور پھر وہ بے اختیار تعریفی انداز میں کہیں گے۔ ”واقعی آپ نے تو کمال کر دیا لیکن اس کے برعکس اگر وہ انہیں کچھ ایسی باتیں بتاتا ہے جو پہلے انہیں معلوم ہی نہیں تھیں یعنی ان کی شخصیت و کردار کے اسرار، ان کے چال چلن کے رنگ ڈھنگ، اچھے یا برے طور طریقوں، کامیابیوں یا ناکامیوں کے اسباب، وقت کے اتار چڑھاﺅ کے اثرات اور وقت کی مہربانیوں یا سفاکیوں کے رنگ وغیرہ تو یہ باتیں ان کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ ایسے موقع پر ان پر اپنے جذبات و احساسات، ان کی اپنی پسند و ناپسند اور اکثر انا غالب آجاتی ہے اور وہ مطمئن نہ ہونے والے انداز میں یہ کہتے ہیں کہ آپ نے کوئی خاص بات تو بتائی ہی نہیں۔
عزیزان من! اس ساری گفتگو کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ علم نجوم سے فائدہ اٹھانے کے لئے اس علم کی حقیقت اور اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر ہم اس سے بھرپور فائدہ حاصل نہیں کر سکتے۔
ستاروں اور برجوں کے اشارے بڑی وسعت و گہرائی رکھتے ہیں۔ جو لوگ علم نجوم سے واقفیت رکھتے ہیں وہ اپنی اپنی استعداد کے مطابق ان اشاروں کو سمجھ کر ایک شاعرانہ پیرائے میں بیان کرنے پر مجبور ہیں کیوں کہ یہ اشارے نہایت لطیف ہوتے ہیں۔ ان کا اظہار کرتے ہوئے لفظوں کے خوبصورت پیرہن کی ضرورت ہوتی ہے بصورت دیگر ان کا برہنہ اظہار ناقابل برداشت ہو سکتا ہے۔
قدیم زمانوں سے پیش گوئی کا انداز شاعرانہ ہی رہا ہے۔ دنیا کے عظیم پیش گو ناسٹرا ڈیمس کو جب یہ خوف ہوا کہ لوگ اس کی پیش گوئیاں سن کر کہیں اسے پاگل نہ سمجھنے لگیں یا وہ مقتدر حلقوں کے عتاب کا نشانہ نہ بن جائے تو اس نے اپنی تمام پیش گوئیاں اشعار کی شکل میں لکھ دیں جو آج تک محفوظ ہیں۔
مستقبل کے حوالے سے پیش گوئی کرتے ہوئے کسی بھی پیش گو کو اس وقت بڑی مشکل کا سامنا ہوتا ہے جب وہ یہ سمجھ رہا ہو کہ اس کی بات دوسروں کی سمجھ میں نہیں آئے گی یا وہ اس بات کا کوئی برا مفہوم لے لیں گے اور بعض باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں وہ خود کوئی واضح نام یا عنوان نہیں دیتے۔ مثلاً ناسٹرا ڈیمس ہی کی مثال لے لیجئے کہ اس نے اٹلی کے بادشاہ کے انجام کے بارے میں لکھتے ہوئے کہا کہ اس کی لاش ایک لوہے کے بڑے سے تابوت میں ڈالی جائے گی جس میں 4 پہیے بھی لگے ہوں گے اور وہ تابوت خود بخود حرکت کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہو گا۔ ظاہر ہے یہ پیش گوئی اٹلی کے ڈکٹیٹر مسولینی کی موت سے 400 سال قبل کی گئی تھی۔ اس وقت تک نہ انجن دریافت ہوا تھا نہ موٹر کاریں بنائی گئی تھیں نہ ہی کوئی وین یا ایمبولینس ٹائپ سواری موجود تھی۔ اسی طرح پہلی یا دوسری جنگ عظیم کے بارے میں اس نے پیش گوئی کرتے ہوئے بتایا کہ ان جنگوں میں لوہے کے بڑے بڑے پرندے آسمان سے آگ برسائیں گے وغیرہ وغیرہ۔
ناسٹرا ڈیمس بہت قدیم پیش گو تھا موجودہ دور میں بلکہ گزشتہ کئی صدیوں میں اس جیسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہم باتوں ہی باتوں میں اٹک کر ناسٹرا ڈیمس تک جا پہنچے۔
عزیزان من! ہم صرف یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ علم نجوم کو غیب دانی کا علم نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہ ایک حسابی علم ہے اور اس کے ذریعے سب سے پہلے اپنی ذات و صفات کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے اس کے بعد وقت کی موافقت اور ناموافقت اس علم کا موضوع ہے۔ ان ہی دو باتوں پر ماضی، حال اور مستقبل کی پیش گوئیاں ممکن ہیں۔
جیسا کہ ہم نے ابتدا میں عرض کیا تھا کہ انسان کائنات کا سب سے بڑا عجوبہ ہے اور اس عجوبے کے مسائل بھی عجیب ہی ہوتے ہیں جو انسان کے اندر موجود خیر اور شر کی قوتوں کے درمیان تصادم کے بعد وجود میں آتے ہیں لیکن اکثر انسان یا تو اس کا ادراک نہیں رکھتے اور اگر ادراک ہو بھی جائے تو اپنی ذات کے مسائل سے نظریں چرانا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔
آیئے ایک خط اور اس میں اٹھائے گئے سوالات دیکھئے۔

کون بہتر ہے؟

زیڈ۔ ایس۔ ٹی ۔ دیار غیر سے لکھتی ہیں۔
”میں آپ کو دو افراد کی تاریخ پیدائش دے رہی ہوں۔ ان میں سے میرے لئے کون بہتر ہے جس سے میں شادی کرسکوں؟
پہلا شخص کیتھولک نان مسلم ہے لیکن مجھے امید ہے کہ وہ مسلمان ہو سکتا ہے۔ میں نے اس کے لیے کئی مرتبہ دعا کی ہے اور استخارہ بھی کیا ہے اور میں محسوس کرتی ہوں کہ اس کا دل بدل سکتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ اسلام کو سمجھ رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذہب سے اس کا اعتماد اٹھ چکا ہے لیکن میں نے جب اسے اسلام کے اصولوں کے بارے میں بتایا تو اس نے ان کی تعریف کی۔ ہم دونوں کے درمیان خاصے طویل عرصے سے بہت اچھی انڈر اسٹینڈنگ ہے۔
دوسرا شخص مسلمان ہے۔ میں امید کرتی ہوں آپ میری مدد کریں گے تاکہ میں درست لائف پارٹنر کا انتخاب کر سکوں۔“
جواب:۔ عزیزم! مختصر الفاظ میں آپ کے سوالات کا جواب صرف دو جملوں میں دیا جا سکتا ہے کہ فلاں موزوں ہے اور فلاں ناموزوں، لیکن شاید اس طرح آپ کی تسلی نہ ہو۔ مزید یہ کہ اس کالم میں ہمارا مقصد صرف سوالوں کے جواب دینا ہی نہیں بلکہ علم نجوم کے تجزیہ سے متعلق دلائل کا اظہار کرنا بھی ہے لہٰذا ہم دونوں افراد کی تجزیاتی رپورٹ یہاں پیش کر رہے ہیں۔ فریق اول جو غیر مسلم ہے اگرچہ آپ کے لئے ناموزوں نہیں ہے کیوں کہ آپ کا شمسی برج جوزا اور اس کا میزان ہے۔ دونوں کے درمیان معقول ذہنی ہم آہنگی ہو سکتی ہے لیکن جہاں تک اس کے مذہب تبدیل کرنے کا سوال ہے اس پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کی باتوں سے بقول آپ کے وہ خاصا متاثر ہے اور اسلامی اصولوں کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے اور آپ نے یہ بھی کہا کہ مذہب سے اس کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ میزانی افراد توازن پسند اور ہم آہنگی برقرار رکھنے والے ہوتے ہیں خصوصاً تعلقات میں وہ کوئی ایسی بدمزگی نہیں چاہتے جس سے تعلقات متاثر ہوں لہٰذا اکثر ناگوار اور ناپسندیدہ باتوں کو بھی برداشت کر لیتے ہیں یا نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اکثر مصلحت پسندی سے بھی کام لیتے ہیں اور اس خیال سے کہ کوئی تنازع نہ پیدا ہو، کبھی کبھی اپنے اصل نظریات کو پوشیدہ رکھتے ہیں۔ بے حد انصاف پسند ہوتے ہیں اس لئے ہر قسم کے نظریات پر غور و فکر کر لیتے ہیں اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ دوسروں کا موقف سنتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ دوسروں سے یا ان کے خیالات سے متاثر ہو گئے ہیں۔ اس کا قمری برج عقرب ہے لہٰذا وہ اپنی فطرت میں نہایت گہرا اور اپنے ذاتی نظریات میں بہت شدت پسندانہ مضبوط سوچ رکھنے والا انسان ہے اور اس حوالے سے اس کی سوچ کو تبدیل کرنا بہت مشکل کام ہے۔ ممکن ہے وہ اپنے پیدائشی مذہب سے مطمئن نہ ہو اور دیگر مذاہب عالم کے حوالے سے بھی اس کی سوچ بے اعتمادی کا شکار ہو لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ اسلام قبول کر لے۔ اس کے زائچے کی دیگر صورت حال بھی اس امکان کی نفی کرتی ہے۔ بنیادی طور پر وہ ایک رومان پرست اور اپنی خواہشات کا غلام انسان ہے۔ ممکن ہے آپ سے شادی کی خاطر یا کسی اور مقصد کے تحت مذہب تبدیل کر لے مگر یہ تبدیلی دائمی نہیں ہو گی چنانچہ یہ بات آپ کو بہرحال ذہن میں رکھنا ہو گی۔ زائچہ پیدائش میں سیارہ عطارد الٹا پڑا ہے۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنی سوچ اور خیال نظریہ¿ ضرورت کے تحت اکثر و بیشتر بدلتا رہتا ہے اور آئندہ بھی ایسا کر سکتا ہے۔ بہرحال آپ بھی ایک بڑا قلابازیاں کھانے والا ذہن رکھتی ہیں لہٰذا ”خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔“
فریق ثانی ہمارے نزدیک آپ کے لئے زیادہ موزوں شخصیت ہے۔ اس کا شمسی برج قوس ہے جو آپ کے برج جوزا سے مقابلے کا برج بھی ہے اور شراکت کا بھی۔ آپ دونوں ایک دوسرے کے اچھے شریک کار اور شریک حیات ثابت ہو سکتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی خوبیوں اور خامیوں کو سمجھنے کی اچھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جتنی بے چینیاں اور بے قراریاں، جلد بازیاں اور ذہنی قلابازیاں آپ کے اندر موجود ہیں اتنی ہی دوسری جانب بھی ہیں۔ گویا یہ نہلے پر دہلا ہے۔ آپ کو جن خوبیوں کی تلاش ہے وہ برج قوس میں موجود ہیں اور برج قوس کو جو باتیں لبھاتی ہیں اور جن حرکتوں سے وہ خوش ہوتا ہے وہ سب آپ کے اندر موجود ہیں۔ آپ دونوں بہت پرامید، خوش مزاج اور نہایت بے فکرے ہیں۔ ایک دوسرے کی رفاقت میں خوب انجوائے کریں گے۔ دونوں غیر معمولی طور پر ذہین ہیں اور ایک دوسرے کی خوبیوں اور صلاحیتوں کو سراہنے والے اور خامیوں اور کمزوریوں کو نظر انداز کر دینے والے ہیں لہٰذا بہتر ہو گا کہ اپنی اسلامی مہم جوئی کو چھوڑ کر فریق ثانی کو لائف پارٹنر منتخب کر لیں۔

تعلیم اور شادی

ش۔ ز۔ ش۔ جگہ نامعلوم لکھتی ہیں۔
”میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں لیکن میرے والد میری شادی کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے پہلے پری میڈیکل کا شعبہ اپنے لئے منتخب کیا تھا لیکن مالی حالات کی وجہ سے آگے نہیں پڑھ پائی۔ اب میرا ارادہ پھر سے سخت جدوجہد کے ساتھ آگے پڑھنے کا ہے۔ براہ مہربانی میری رہنمائی کیجئے اور بتایئے کہ میرے لئے کون سا شعبہ صحیح رہے گا؟“
جواب:۔ پیاری بیٹی! تم بہت بہادر اور ہمت والی ہو۔ تمہارے دو برج جدی اور سنبلہ خاکی عنصر رکھتے ہیں اور زائچے میں سیارہ زحل بھی اپنے برج عروج جدی میںہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ تمہاری سوچ بہت عملی اور حقیقت پسندانہ ہے۔ تم یقینا اپنے والدین کے لئے ایک بیٹے کا کردار ادا کر سکتی ہو۔
بہتر ہو گا کہ اب اپنے لئے کامرس یا آرٹس کا شعبہ منتخب کرو۔ اگر آرٹس کا شعبہ لیتی ہو تو بعد میں ایل ایل بی کر سکتی ہو۔ قانون، اکاﺅنٹس وغیرہ تمہارے لئے مناسب شعبے ہوں گے اور دوران تعلیم تمہیں وہ پریشانیاں بھی نہیں ہوں گی جو پری میڈیکل میں پیش آئیں۔ باقی تمہارے والد اگر تمہاری شادی کے لئے اصرار کر رہے ہیں تو اپنی دانست میںتو وہ بہرحال بہتر ہی سوچ رہے ہیں لیکن ہمارے خیال سے وہ ایسا کر کے غلطی کریں گے۔ ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے مزید یہ کہ خراب وقت چل رہا ہے۔ اس دوران میں اگر شادی ہوئی تو نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔ ہمارا مشورہ ہے کہ کم از کم تین چار سال تمہاری شادی نہ کی جائے اور تمہیں تعلیم مکمل کرنے اور کیریئر بنانے کا موقع دیا جائے۔