جادو اور مظاہرِ نفس کی بوالعجبیوں کا ماجرا

جادو کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے انسانی ذات یا نفس انسانی کو سمجھنا ضروری ہے کیوں کہ یہ تمام کائنات اپنی تمام تر وسعتوں اور عظمتوں کے ساتھ ’’نفس انسانی‘‘ کے سامنے صرف ایک نقطے کی سی حیثیت رکھتی ہے یا اس بات کو یوں سمجھ لیں کہ یہ دنیائے آب و گل محض ایک ثانوی مظہر ہے جس کا مقصد و مدعا صرف اور صرف انسان کی ضروریات کا پورا کرنا اور اس کی دل بستگی کا سامان مہیا کرنا ہے ۔
ہمارے موجودہ جدید معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے بنیادی حقائق کو چھوڑ کر ایک ثانوی شے یعنی مادے میں دلچسپی لینا شروع کردی ہے،ہماری تحقیق کا مرکز و محور ’’اصلِ حیات‘‘ کے بجائے ’’لوازم حیات‘‘ قرار پاچکے ہیں اور مظہر حیات یا نفس انسانی کا عرفان حاصل کرنے کی کوشش اوہام ، فرسودہ یا فضول خیال کی جاتی ہے ۔
یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ انسان کے تمام افعال و کردار اور خصوصاً روحانی یا روحی صلاحیتوں کے پیچھے نفس انسانی کی خفیہ اور بے پناہ قوت موجزن ہوتی ہے،چناں چہ جب تک ہم نفس انسانی کی ہیّت یا اس کی حقیقت کے بارے میں تھوڑا بہت نہ جان لیں گے ، کسی بھی سحری مظاہرے کی توجیح کرنا ممکن نہ ہوگا مگر اس دور جدید میں تجربہ پسندی کا رجحان اس قدر بڑھ گیا ہے کہ حکمت نفس کی جگہ نفسیات نے لے لی ہے اس پر طرّہ یہ کہ نفسیات داں حضرات مظاہر نفس کے بجائے انسانی کردار کی نیرنگیوں کے مطالعے پر زور دے رہے ہیں ، جدیدیت کے دعوے دار ذہن اور مادّہ پرست تو خیر محسوسات ہی کو تمام علوم و فنون کی بنیاد سمجھتے ہوئے اس سے آگے سوچنا ضروری نہیں سمجھتے، وہ تصوریت کو غیر منطقی جانتے ہیں ، انسانی نفسیات کے مسائل کو اس کے دماغ تک محدود کرکے روح اور روحیات کا باب بند کردیا گیا ہے ۔
ایسی صورت میں نفسِ انسانی کو سمجھنے کے لیے ایک ہی ذریعہ باقی رہتا ہے یعنی ’’وجدانیات‘‘ مگر مسئلہ تو یہ ہے کہ وجدانیات بھی اہل علم کے درمیان ایک متنازع مسئلہ ہے ، مختلف ذہن وجدان کی تعریف اپنے اپنے انداز میں مختلف کرتے ہیں ، اگر ہم کسی ایک تعریف کے حوالے سے وجدان کو سمجھ لیں اور اس کے ذریعے کائناتی حقیقت کو پانے کی کوشش کریں گے تو خواص کا مخصوص گروہ معترض ہوگا، اسی طرح اگر ہم وجدان کو کسی دوسرے زاویے سے بیان کرنا چاہیں تو بھی مشکلات موجود ہیں ۔
اس تمام بحث کے دوران میں ہماری کوشش ہوگی کہ ’’جادو‘‘ کے بارے میں تمام گروہی و فکری میلانات سے بچتے ہوئے ممکنہ حد تک حقائق پر گفتگو کرسکیں ۔
جادو کی حقیقت کو سمجھنے یا سمجھانے کے لیے اولاً انسان کو سمجھنا ہوگا، اس کے نفس کی کٹھنائیوں سے گزرنا ہوگا، نفس کی پُر پیچ گہرائیوں میں اترنا ہوگا اور فکر و عمل کے ساتھ روح اور وجدان کی شمع کو بھی روشن کرنا ہوگا، تب کہیں جاکر حقائق کے خزانے سے چند درِ آبدار ہاتھ لگیں گے ۔
آئیے پہلے چند نکات ’’نفس انسانی‘‘ کی ہیّت و حقیقت کے بارے میں بیان کرتے چلیں تاکہ جادو سے متعلق مباحث کو سمجھنے میں انسان کے کردار اور مقام کا تعین ہوسکے ۔
صاحبان علم و دانش اور ماہرین نفسیات نے ’’مظاہرِ نفس کلّی‘‘ کی سات اقسام بیان کی ہیں ۔
اول ایسی کیفیت یا حالت جس کا احساس ’’لمس‘‘سے ہو گویا یہ قسم چھونے سے تعلق رکھتی ہے،مثلاً گرمی سردی، نرم و سخت اور جسم کا حجم وغیرہ ’’لمس‘‘ کے جادو اور اعجاز سے انکار ممکن نہیں ۔
دوسری ضمنی قسم میں ’’ذوقِ زبان‘‘ ہے، ہر قسم کا ذائقہ مثلاً تلخ و ترش، میٹھا سیٹھا اور نمکین وغیرہ زبان کا مصرف تو اور بھی ہے لیکن یہاں وہ زیر بحث نہیں ۔
تیسری قسم میں وہ اشیاء یا مظاہر آتے ہیں جن کا ادراک نگاہوں کے ذریعے ہوتا ہے مثلاً دشت و کوہسار، کھیت و کھلیان ، اٹکھیلیاں کرتے غزالانِ دشت، یہ سب ہی ایسے مظاہر ہیں کہ جن کا احساس بذریعہ بصارت ہوتا ہے ۔
چوتھے نمبر پر ایسی تمام حالاتیں یا اعراض جن کا احساس سماعت سے ہو، مظاہرِ نفس کی چوتھی قسم میں شامل ہیں ، آواز تو بجائے خود ایک جادو ہے، سُر جب کائنات کی وسعتوں میں پھیلتے ہیں تو پھر انسان بے اختیارانہ کیفیت و جذب کے عالم میں تھرکنے لگتا ہے،آواز کا جادو تن بدن میں آگ لگادیتا ہے، سُر کی طاقت کہیں توڑتی ہے تو کہیں روٹھے ہوئے دلوں کو جوڑتی بھی ہے،عشقیہ نغمے ہوں یا آزادی کے ترانے، یہ سب ہی سماعت سے متعلق ہیں ، محفل سماع تو یوں بھی بعض روحانی سلسلوں میں باقاعدہ عبادت کا سا درجہ رکھتی ہے اور دنیا میں ایسے مذاہب و عقائد بھی موجود ہیں جن میں موسیقی عبادت و مذہبی رسومات کا لازمی جز قرار دی گئی ہے اور اس کا جادو بھی سر چڑھ کر بولتا ہے ۔
پانچویں قسم ’’حسِ شامہ‘‘ کہلاتی ہے یعنی سونگھنے کی حس، جس میں ہر طرح کی خوشبو و بدبو وغیرہ شامل ہیں ۔
چھٹی قسم میں ایسے تمام مظاہر و اعراض شامل ہیں جو محسوس بالحواس نہیں ہیں ،یعنی انہیں اپنے حواس کے ذریعے ہم محسوس نہیں کرسکتے اور جن کا ادراک و احساس دائرۃ حواس سے زیادہ صرف عقلی طور پر ثابت و مسلّم ہے، مثلا الٹرا ساوَنڈ لہریں یا فضائے بسیط میں پائی جانے والی دیگر اسی قسم کی شعائیں ، کاسمک شعائیں اور سیارگان سے آنے والے اثرات وغیرہ جیسا کہ چاند کے اثرات جو پانی میں اتار چڑھاوَ لاتے ہیں ۔
ساتویں قسم میں ایسے اعراض یا معاملات و حقائق شامل ہیں جو نہ تو محسوس بالحواس ہیں اور نہ ہی مدرک بالعقل یعنی ایسے تمام معاملات جنہیں نہ تو حواسِِ خمسہ کے ذریعے محسوس کیا جاسکے اور نہ ہی عقل کی رسائی ان تک ہو مگر انسانی وجدان کے لیے وہ ناقابل انکار ہوں ، مثلاً ’’احساسِ ذات ‘‘یا ’’انسانی انا‘‘ اور اس کے ’’احساساتِ نفسی‘‘ وغیرہ ۔ محبت، نفرت اور انتقام کے جذبات وغیرہ ۔
مظاہر کی اس تقسیم سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مظاہرِ مادّی کے علاوہ ایک قسم ایسے مظاہرو اعراض کی بھی ہے جو ہر طرح کے حجم و جسم سے بری ہے اور ناقابل تجزیہ و اقسام ہے، اس کا تعلق براہِ راست نفسِ انسانی سے ہے، سامنے کی بات ہے، ہمارا احساس ذات بجائے خود غیر متغیّر و غیر متحیّر ہے اور ابھی تک عقلی طور پر نامعلوم بھی مگر اس کے باوجود ہم اس کا گویا اپنی ذات کا انکار نہیں کرسکتے ، ہم بغیر کسی دلیل و حجت کے اپنے وجود کو مانتے ہیں ۔

سحر اور ساحرکی اقسام

جادو سے متعلق مسائل و معاملات کو سمجھنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک انسان اور انسانیت کا صحیح مفہوم سمجھ میں نہ آجائے ، اس حوالے سے پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری ہے جو انسانی وجود اور اس کی پوشیدہ صلاحیتوں کے بارے میں پیدا ہوتی رہی ہیں ، اسیلیے ’’مظاہر نفس کلّی‘‘ کی اقسام بیان کی گئی ہیں کیونکہ جادو کی حقیقت میں انسان کی قوت نفسانیہ کے کردار کو نظر انداز کرکے ہم مسئلے کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے ۔

انسان اور جنات و شیاطین

مذہبی نظریات کی روشنی میں ہمارے علماَ نے انسان کی قوت نفسانیہ کے کردار کو نظر انداز کیا ہے اور تمام زور جادو کے حوالے سے جنات و شیاطین کے کردار پر ڈال دیا ہے ، ہمارے خیال میں یہ نقطہَ نظر جادو کے قدیم علم و فن کی بنیادی مبادیات کے بھی خلاف ہے اور انسان کی پوشیدہ قوتوں کی بھی نفی کرتا ہے، بے شک جادو کی بعض اقسام میں جنات و شیاطین یا ہمزاد کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مگر جادو کی ایسی اقسام بھی موجود ہیں جن میں جنات و شیاطین سے کام نہیں لیا جاتا بلکہ ایک حقیقی جادوگر صرف اپنی قوت نفسانیہ سے کام لے کر سحری اثرات پیدا کرتا ہے اور وہ جادوگر بہرحال ایک انسان ہوتا ہے ، چنانچہ انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں اور قوتوں کا ادراک ضروری ہے ، یہ ایک الگ بحث ہوگی کہ کوئی انسان اپنی پوشیدہ صلاحیتوں اور قوتوں کا استعمال جائز طورپر کرتا ہے یا ناجائز ، یعنی اس کا طرز فکر تعمیری ہے یا تخریبی ;238;

انسان، حیوانِ ناطق یا قرآنِ ناطق

دوسری طرف محسوسات ہی کو واحد اور یقینی علم و ادراک اور منتہائے علم سمجھنے والے ذہن یا علم نفسیات کے جدید ماہرین منجملہ دیگر حیوانات کے انسان کو بھی ایک ترقی یافتہ حیوان ہی سمجھتے ہیں ، ان میں ایسے دانشوروں کی کمی نہیں جو حیوانات میں ارتقائی نشوونما کے قائل ہیں اور انسان کو بھی ایک ارتقائی عمل کے ذریعے حاصل ہونے والا انتہائی ترقی یافتہ شکل کا حیوان سمجھتے ہیں ، محض ڈارون کے نظریہ ارتقا کی ہی یہ خصوصیت نہیں کہ وہ انسان کو ترقی یافتہ حیوان سمجھتا ہے ، انسان کی تعریف ’’حیوان ناطق‘‘ خاصی پرانی اور قدیم ہے لیکن ان معروضات سے قطع نظر اگر انسان اور انسانیت کو مذہب اورالہامی کتب کی روشنی میں دیکھا جائے تو انسان کا ایک مختلف تصور ذہن میں ابھرتا ہے ، ایسا تصور جس میں عظمت بھی ہے ، بڑائی بھی اور جو اس کائنات کے تمام مظاہر کا حکمران بھی ہے ، مذہب کی روشنی میں انسان ’’حیوان ناطق ‘‘نہیں بلکہ ’’ قرآن ناطق‘‘ ہے ۔
اب ضروری ہے کہ ’’قرآن ناطق‘‘ کے ذیل میں انسان کے مفہوم کو سمجھ لیا جائے ، انسان کی تعریف خود بہ خود آپ کے ذہن میں آجائے گی ، انسان کی تعریف کا یہ انداز اتنا جامع ، مکمل اورموَثر ہے کہ اس میں جہانِ معنی کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مارتا دکھائی دیتا ہے لیکن یہاں اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ’’قرآن ناطق‘‘ کی تعریف ہر شخص پر صرف اس وقت ہی صادق آتی ہے جب وہ اس کا ثبوت اپنی ذات کے عرفان کی صورت میں پیش کردے ، یعنی جب تک انسان نفس کلی کے عرفان کا حامل نہ ہوگا وہ ’’قرآن ناطق‘‘ نہیں کہلا سکتا ، ذات کے عرفان تک پہنچنے کےلیے ہ میں اپنے نفس کے راستے سے ہوکر گزرنا پڑے گا ، اس حوالے سے حضور اکرم ﷺ کا ارشاد نہایت قابل توجہ ہے :
’’ جس نے اپنے نفس کہ پہچانا اس نے اپنے ربِ کو پہچانا ‘‘

طرزِ فکر کا فرق

اس نکتے پر ہمارا زور اسلیے ہے کہ روحی اور روحانی صلاحیتوں کے مالک اشخاص آسمان سے براہ راست نہیں اترا کرتے ، وہ بھی ہمارے اور آپ کے جیسے انسان ہی ہوتے ہیں ، ہاں ، فرق اگر ہوتا ہے تو ہمارے اور ان کے طرز فکر میں ، یہ فرق بہ ظاہر تو بہت معمولی سمجھا جاتا ہے اور اسے خاطر خواہ اہمیت بھی نہیں دی جاتی مگر یاد رکھیے کہ صرف اور صرف طرز فکر ہی کے فرق سے ایک شخص بلندیوں پر فائز ہوتا ہے اور دوسرے کا مقدر پستیاں ٹھہرتی ہیں ، ایک انسان وہ ہے جو چند سکّوں کی خاطر جانوروں کی طرح اپنے جیسے انسانوں کو نوچتا کھسوٹتا ہے ، محض وقتی آرام یا لمحاتی تسکین کےلیے ذلت و ظلمت کی ان گہرائیوں میں اتر جاتا ہے کہ جن سے شیطان بھی شرمائے اور ایک وہ بھی انسان ہے جو ببانگ دہل کہتا ہے ;242;مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی ۔
انسان اور انسان میں اتنا فرق ;238; آخر کیوں ;238;
جی ہاں ! یہ محض طرز فکر کا فرق ہے ، محض سوچنے کے انداز میں تفاوت سے انسان اتنا بلند اور اتنا پست ہوجاتا ہے کہ کہیں تو وہ جانوروں سے بھی بد تر ٹھہرے اور کہیں شان خدا وندی بھی اس کی نظروں میں نہ جچے ۔
انسان کی صلاحیتوں ، مرتبے ، قوتوں اور عظمت و بلندی میں پایا جانے والا یہ فرق ہ میں دعوت فکر دے رہا ہے، سوچنے اور انداز فکر میں مثبت تبدیلیاں لانے پر اکسا رہا ہے تاکہ ہم بھی حیوان ناطق کی صفوں سے نکل کر قرآن ناطق کی اولین و معزز صفوں میں جگہ پاسکیں ۔

ائمہ اور صوفیا کی رائے

خواجہ حسن بصری ;231; فرماتے ہیں ’’ جادوگر کا کوئی دین یا مذہب نہیں ہوتا ‘‘ یہاں یہ بات لازماً ذہن میں رہے کہ جادو سے مراد منفی طرز فکر ہوتی ہے ، مذہب سے متعلق کتب اور علماَ و فقہا نے جادوگروں کے متعلق مختلف آراَ کا اظہار کیا ہے ، امام مالک ;231; ، امام احمد بن حنبل ;231; اور امام اعظم ابو حنیفہ ;231; اس کے کفر کے قائل ہیں جبکہ علماَ کی کثیر تعداد کے نزدیک اگر جادوئی اثرات ادویات یا بخورات سے متعلق ہوں تو پھر یہ کفر نہ ہوگا ۔
اس ضمن میں حضرت امام شافعی;231; کا قول ہے کہ ’’ ہم جادوگر سے پوچھیں گے کہ وہ اپنے جادو کے بارے میں ہ میں بتائے ، اگر جادوگر کا بیان کفر کی حد تک پہنچ جائے جیساکہ اہل بابل کا عقیدہ تھا تو پھر وہ کافر ہے لیکن اگر جادوگر کی باتیں کفر کی حد تک نہیں پہنچتیں تو ہم یہ دیکھیں گے کہ آیا یہ شخص جادو کو مباح سمجھتا ہے یا نہیں ;238; اگر مباح سمجھے تو اس پر کفر کا اطلاق ہوگا ‘‘
دراصل ذہن و مذہب کی رو سے جادوگروں کو اسلیے ناپسندیدہ اور بعض اوقات کافر قرار دیا جاتا ہے کہ یہ لوگ اپنی قوت سے تخریب کا کام لیتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں سے بنی نوع انسان کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔
ابن قدامہ اپنی کتاب ’’الکافی‘‘ میں فرماتے ہیں ’’ سحر ان تعویذ گنڈوں اور دھاگوں کی گانٹھوں کو کہتے ہیں جو انسان کے بدن اور خصوصاً دل پر اثر کرتے ہیں ، جن کی وجہ سے انسان بیمار ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی اس کی موت بھی واقع ہوجاتی ہے اور بعض اوقات میاں بیوی میں پھوٹ تک پڑجاتی ہے ۔ ‘‘(جاری ہے)