ہماری کامیابیوں اور ناکامیوں میں ہماری نفسیات کا کردار
لاشعوری تحریک یا خود تحریکی رویہ اور شعور و لاشعور کی کشاکش
سب سے پہلے لاشعوری تحریک کے نظریے کو ایک مثال کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ متوسط درجے کے ایک خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے دوران میں ہی ایک کاروبار شروع کیا مگر حالات نے اس کا ساتھ نہ دیا اور وہ ناکام ہوگیا۔ یہ ناکامی اسے مالی طور پر بھی کمزور کرگئی اور بالآخر اسے ملازمت ڈھونڈنا پڑی۔ کاروباری ناکامی نے اسے قرض دار بھی کردیا تھا۔ جب وہ ملازم ہوگیا تو قرض خواہ سر پر سوار ہوگئے اور آخر کار اسے اپنی آدھی تنخواہ ہر ماہ قرض ادا کرنے کے لیے دینا پڑی۔ اسی دوران میں اس نے ایک اور جوا کھیلنے کی کوشش کی تاکہ راتوں رات وہ بڑا آدمی بن جائے اور اپنے مسائل فوری طور پر حل کرسکے۔ اس نے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر ایک نیا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا جس میں وہ پارٹنر تو تھا مگر سرمایہ دوسرے لگارہے تھے، اس طرح وہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ ملازمت سے فارغ ہوکر وہ اس طرف توجہ دیتا تھا لیکن یہ کاروبار بھی نہ چل سکا اور خاصے بڑے مالی نقصان کے بعد بند ہوگیا۔ دوستوں میں اختلافات پیدا ہوئے اور نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی۔ مالی نقصان میں وہ بھی حصے دار بنا اور یوں مزید مقروض ہوگیا۔ اس تمام صورت حال کی وجہ سے وہ اپنی ملازمت کی ذمے داریوں پر بھی بھرپور توجہ نہ دے سکا ، چناں چہ ملازمت بھی ہاتھ سے گئی۔ اب پھر بے روزگاری، قرض اور دیگر مسائل اس کے سامنے تھے، وہ لوگوں سے منہ چھپاتا پھر رہا تھا مگر اس نے ابھی حوصلہ نہیں ہارا تھا، ناکامیوں نے اسے مایوس نہیں کیا تھا بلکہ یہ سوچنے پر مجبور کردیا تھا کہ آخر اس کے ساتھ معاملہ کیا ہے؟ کیوں وہ مستقل طور پر ناکام ہورہا ہے؟ اس کی سوچوں، فیصلوں اور عملی اقدام کے وہ نتائج کیوں نہیں آرہے جن کی وہ توقع رکھتا تھا، اس نے مزید جدوجہد کرنے کا ارادہ ملتوی کردیا اور کچھ عرصہ سوچ بچار میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ وہ جس قدر سوچتا جاتا تھا، اس کا دماغ مزید الجھن کا شکار ہوتا چلا جاتا تھا۔آخر کار وہ ایک لائبریری میں چلا گیا اور ایسی کتابیں تلاش کیں جو ذہنی الجھنیں دور کرنے اور رہنمائی کرنے کے لیے لکھی گئی تھیں۔ انہی میں سے اس نے ایک کتاب منتخب کی اور اسے پڑھنا شروع کیا۔ کتاب ختم ہوگئی مگر اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ کتاب پڑھنے کا اسے کوئی فائدہ محسوس نہ ہوا۔ یہاں ہم یہ وضاحت کرتے چلیں کہ ذہنی طور پر منتشر اور پریشان حال شخص کی سمجھ میں فوری طور پر کوئی بات نہیں آتی۔ بہر حال اس نے یہ ہر گز نہیں کیا کہ کتاب کو اٹھاکر پھینک دے اور مصنف کو برا بھلا کہتا ہوا اپنے گھر کی راہ لے۔ اس نے سوچا کہ اتنے بڑے عالم شخص کی لکھی ہوئی کتاب بے کار نہیں ہوسکتی۔ یقینا میں اپنی محدود ذہنی صلاحیت اور کم علمی کی وجہ سے اس کتاب کو درست طور پر نہیں سمجھ سکا ہوں۔ دوسرے روز وہ پھر لائبریری پہنچا اور پھر وہی کتاب اٹھاکر مطالعے میں مشغول ہوگیا۔ اس بار کچھ باتیں اس کی سمجھ میں آئیں۔ اس نے پھر تیسری مرتبہ اس کتاب کو پڑھا تو اس کا ذہن کھلتا چلا گیا۔ چند روز اس نے کتاب کی باتوں پر غوروخوض میں گزارے اور پھر چوتھی بار کتاب کا مطالعہ کیا۔ اب اس کے دماغ میں جھماکا ہوا۔ اس کی تمام ناکامیوں کے اسباب اور مستقبل کی تمام کامیابیوں کے لیے لائحہ عمل یکا یک ایک روشن تصویر کی طرح واضح ہوکر اس کے سامنے آچکا تھا۔
کتاب کا وہ باب جسے وہ پڑھ رہا تھا ”خود تحریکی رویہ“ کے بارے میں تھا۔ اس نے سمجھ لیا کہ ”خود تحریکی رویہ“ ہی اس کی مشکلات کا حل ہے۔
خود تحریکی رویہ ہی وہ طریقہ کار ہے جو ہمیں لاشعوری قوتوں سے کام لینے میں مدد دیتا ہے۔ اس شخص نے اس رویہ کے اصول کے مطابق فوراً اپنی ڈائری میں لکھا ” میرا آئندہ سب سے بڑا مقصد پانچ سال میں دو لاکھ روپے جمع کرنا ہے“ اس نے وقت اور رقم کی مقدار کے بارے میں حقیقت پسندی سے کام لیا اور مناسب وقت میں زیادہ سے زیادہ حصول مال کو اپنا مقصد حیات مقرر کرلیا۔ خود تحریکی رویے سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ پہلے ایک واضح اور دو ٹوک فیصلہ کرکے اپنے آئندہ کے مقصد کا حقیقت پسندی کے ساتھ تعین کرلیں اور پھر مقصد کے حصول تک اس فیصلے میں کوئی تبدیلی نہ لائیں۔ خواہ آئندہ چل کر حالات کوئی بھی رخ کیوں نہ اختیار کریں۔
اب دیکھیے کہ اس شخص نے اس فیصلے پر قائم رہنے اور اپنے لاشعور سے مدد لینے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی۔ اس نے اپنے لکھے ہوئے اس جملے کو اپنے روز مرہ معلومات زندگی میں شامل کرلیا۔ وہ صبح آنکھ کھلنے کے بعد سب سے پہلے یہی جملہ چند بار ذہن میں دہراتا اور دن میں بھی کئی بار پورے یقین اور جوش و جذبے کے ساتھ اس جملے کی تکرار کرتا۔ رات کو سونے سے قبل بستر پر لیٹ کر وہ اپنی دن بھر کی کوششوں اور جدوجہد کا جائزہ لیتا اور پھر یہ جملہ دہراتا ہوا سوجاتا۔ ابتدا میں وہ ایسے خواب دیکھنے لگا کہ جن سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس کے شعور اور لاشعور میں ایک نئی کشمکش شروع ہوچکی ہے۔ مثلاً وہ کسی پسندیدہ شے تک نہیں پہنچ پاتا۔ اسے سخت پیاس لگی ہوئی ہے جسے بجھانے کے لیے وہ فریج سے پانی کی بوتل نکالتا ہے تو وہ خالی ہوتی ہے گھر کے پانی کے نلکوں کو کھولتا ہے تو ان میں سے گندہ پانی نکلنے لگتا ہے جسے وہ پی نہیں سکتا۔ وہ گھر سے باہر نکلتا ہے تو خود کو ایک تپتے ہوئے ریگستان میں پاتا ہے جہاں بہت دور کہیں درخت نظر آرہا ہوتا ہے۔ وہ اس درخت کی طرف بڑھنا شروع کرتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ اس کی رفتار بہت سست ہے۔ اس کے قدم بھاری ہورہے ہیں اور اس کے لیے تیزی سے چلنا مشکل ہے، وغیرہ وغیرہ۔
ایسے اور اسی سے ملتی جلتی صورت حال کے خواب اسے اس وقت تک دکھائی دیتے رہے جب تک وہ ایک معقول ملازمت تلاش کرنے میں کامیاب نہ ہوگیا۔ ہم نے مثال دے کر جو خواب بیان کیا ہے، یہ کچھ خوفناک اور خطرناک چیزوں کے بارے میں بھی ہوسکتا ہے۔ مثلاً شیر، ریچھ، سانپ، کتے، بلیاں، چھپکلیاں اور دیگر کیڑے مکوڑے، مردے، لاشیں، خون، بھوت، جنات، کوئی بزرگ ہستی وغیرہ صورت حال کے مطابق خوابوں میں آنے لگیں۔ یہ تمام کیفیات ہمارے لاشعور کی کشاکش سے جنم لیتی ہیں اور ہم خواب پرستی میں مبتلا ہوکر انھیں نامعلوم کیا کیا نام دیتے اور ان سے کیسے کیسے مطلب اخذ کرتے رہتے ہیں۔
قصہ مختصر دو لاکھ روپے کا حصول اس شخص کی زندگی کا اہم مقصد بن چکا تھا اور رات دن وہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے بارے میں ہی سوچتا رہتا تھا۔ دماغی اسٹیشن کے چینلز کی ٹیوننگ جاری تھی۔ وہ زور و شور سے اس مہم پر مصروف عمل تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کی زندگی میں کچھ نئی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ اس کا دماغ پیسہ بچانے کے امکانات ڈھونڈتا رہا ہے۔ اس حوالے سے وہ بہت حساس ہوچکا ہے۔ مالی فوائد اور نقصانات پر اس کی نظر بہت گہری ہوتی جارہی ہے۔ اس کے قریبی عزیز و اقارب بھی اس تبدیلی کو محسوس کرتے ہوئے اپنے اپنے خیال اور سوچ کے مطابق اسے مشورے دے رہے ہیں یا تنقید و تعریف سے نواز رہے ہیں مگر اس نے جیسے ہر طرف سے کان بند کرلیے تھے اور نظریں پھیر لی تھیں۔ اسے تو بس ایک ہی دھن سوار تھی ” دو لاکھ روپے”
اس دوران میں وہ غیر محسوس طور پر خود بخود ہی لوگوں کے کاروبار اور ان کی محنتوں کا تجزیہ کرنے لگا۔ آہستہ آہستہ وہ اس قابل ہورہا تھا کہ کامیاب اور ناکام ، مثبت اور منفی رویوں کو علیحدہ کرسکے اور ان کے نتائج سمجھ سکے۔ اس کی لاشعوری تحریک روز بروز مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی اور پھر اسی تحریک کے سہارے وہ کامیاب ہوتا گیا۔ یہاں پر ہم اس طریقہ کار سے بحث نہیں کریں گے جو دولت کے حصول کے لیے اس نے اختیار کیا۔ وہ حالات، وقت اور موقع محل کے اعتبار سے حسب ضرورت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ہم یہاں صرف اس جذبے اور لگن کو موضوع بنائیں گے جس نے اسے مستقل محنت اور جدوجہد پر آمادہ کیا۔ آج وہ انتہائی مضبوط پوزیشن میں ہے اور اس کا وہ مقصد پانچ سال میں دو لاکھ روپے اکھٹا کرنا تو چھ ماہ قبل ہی پورا ہوگیا تھا۔
لاشعوری تحریک کے سہارے آپ بھی زندگی میں سب کچھ کرسکتے ہیں۔ اپنے اندر اس غیر ارادی تحریک کو ابھاریے اور پھر دیکھیے، آپ کا ذہن کیا کرشمہ انجام دیتا ہے۔ اس کو بے دار کرنے کے لیے سب سے ضروری چیز”ارتکاز فکر“ ہے۔ وہی ارتکاز فکر جو کامیابی کے سترہ زریں اصولوں میں سے ایک ہے۔ آپ کو اپنی سوچ کو ایک نقطے پر مرکوز کرنا ہوگا۔ اپنی خواہشات میں سے کسی ایک کو منتخب کر کے اسے لاشعور کے خانے میں انڈیلنا ہوگا۔ اپنی خواہشات کے چناو میں افرا تفری اور منتشر خیالی سے کام نہ لیں، بلکہ حقائق کی روشنی میں ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ فیصلہ کریں کہ آپ سب سے پہلے کیا چیز چاہتے ہیں۔ جب آپ اپنی سب سے بنیادی چیز کا تعین کرلیں تو پھر اس پر ثابت قدمی سے جمے رہےں۔ ایسا نہ ہو کہ کچھ عرصے بعد ارادہ تبدیل ہوجائے اور آپ کسی دوسری ضرورت کو تعین شدہ ضرورت سے زیادہ اہم سمجھنے لگیں۔ ضرورت کو صرف ایک مرتبہ ہی منتخب کریں۔ اس کا بار بار تبدیل ہونا اور غیر مستحکم ہونا آپ کی شخصیت کے استحکام کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ آپ کی ضرورت خطرناک بیماریوں کی صورت میں صرف اور صرف صحت و زندگی ہونا چاہیے۔ معاشی پریشانیوں کی صورت میں دولت، غرض جو بھی مقصد نہایت اہم اور ضروری ہو، اس کا تعین کریں، جب آپ اپنی ضرورت کا درست تعین کرلیں تو اسے اپنی لاشعوری تحریک بنائیں۔ کسی بھی مقصد کو ”لاشعوری تحریک“ میں تبدیل کرنے کا سب سے موثر اور طاقت ور طریقہ ہے اسے متواتر دہرانا۔ اپنے مقصد کو ذہن میں بار بار دہرائیے ۔ جب بھی موقع ملے اسے ذہن میں تازہ کیجیے اور اپنی روزانہ کی کارکردگی کا احتسابی انداز میں جائزہ لیجیے کہ آپ کی مصروفیات اپنے اصل مقصد سے کس قدر ہم آہنگ اور حسب ضرورت ہیں۔ بہتر ہوگا کہ مقصد کے حصول کے علاوہ آپ کے ذہن میں کوئی بات نہ رہے، آپ خود دیکھیں گے کہ آپ کا دماغ تھوڑے ہی عرصے میں خود بخود آپ کو صحیح راہ پر لے جائے گا اور آپ خود کارانہ عمل کے تحت اپنے آپ کو بہترین کی طرف بڑھتا ہوا پائیں گے۔
شعوری یا لاشعوری تحریک کے بغیر اثر پذیری ممکن نہیں
دماغ کی ٹیوننگ کا طریقہ کار تفصیلی طور پر ایک مثال کے ذریعے ہم نے پیش کیا۔ اس طریقے سے آپ دماغ کو کسی خاص مقصد کی طرف متوجہ کرسکتے ہیں۔ آپ کی یہ بظاہر معمولی سی شعوری کوشش جب تواتر سے جاری رہے گی تو لاشعور اس تحریک کا اثر ضرور قبول کرے گا۔ اپنی لاشعوری صلاحیتوں اور خصوصیات کو میدان عمل میں لانے کے لیے یہ ” خود تحریکی رویہ“ بہترین ثابت ہوتا ہے۔ اس طرح ہمارے دماغ کے دونوں حصے یعنی شعور اور لاشعور کے درمیان رفتہ رفتہ ہم آہنگی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔
اپنے لاشعور کی خفیہ صلاحیتوں کو بے دار کرنے کے لیے زمانہ قدیم سے بے شمار طریقے رائج رہے ہیں۔ آئیے ! اس جدید طریقے یعنی ” خود تحریکی رویے“ کے بارے میں ایک امریکی ماہر نفسیات ڈاکٹر بل ہیڈ لے کی تحقیقات کا جائزہ لیا جائے۔ خود تحریکی رویے کے حوالے سے ان کا نام دنیا بھر میں نہایت معتبر تصور کیا جاتا ہے اور ان کے ذاتی تجربات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر بل ہیڈ لے اس طریقے سے بے شمار مریضوں کو شفایاب کرچکے ہیں۔
خود تحریکی رویہ اور لاشعوری تربیت کی اہمیت بل ہیڈ لے کے ذہن میں اس وقت واضح ہوئی تھی جب وہ بچہ تھا اور اس کے باپ نے اسے ایک کتاب اس موضوع پر پڑھنے کے لیے دی تھی۔ کتاب میں شعور کی تربیت پر بہت زور دیا گیا تھا لیکن لاشعور کی تربیت اور تحریک کا کوئی ذکر نہ تھا اور نہ ہی وہ امکانات موجود تھے جو لاشعور میں موجود قوتوں کے ذریعے حاصل کیے جاسکتے تھے۔ تاہم شعور کی تربیت اور اسے محفوظ سمت میں موڑنے والی باتیں بل ہیڈ لے کے ذہن سے چپک کر رہ گئی تھیں۔ پھر اس نے سوچ بچار شروع کردی۔ تعلیم سے فارغ ہونے تک وہ خود اپنے ذہن پر خاصا عبور حاصل کرچکا تھا اور ہپنا ٹزم کا ماہر بن چکا تھا۔ اس نے ہپنا ٹزم کے نئے اور عملی استعمال پر توجہ دی اور اس کے ذریعے طبعی بیماریوں کا علاج شروع کردیا۔ وہ اپنے معمول کے ذہن کو اپنے قابو میں کرلیتا تھا اور پھر اسے بیماری کے خلاف لڑنے کی تربیت دیتا تھا۔ مریض کو کچھ خبر نہ ہوتی کہ اسے کس سمت میں موڑا جارہا ہے۔ اس کی زندگی کے ظاہری معمولات میں کوئی فرق نہ آتا تھا، اس لیے کہ ہیڈ لے مریض کے لاشعور کو متحرک کرتا تھا۔ وہ مریضوں میں بیماری کے خلاف نفرت ابھارتا تھا۔ انہیں جینے کا حوصلہ اور بیماری ختم کرنے کے لیے صحت مند رویہ دیتا تھا۔ وہ یہ عمل بار بار دہراتا تھا یہاں تک کہ مریض اندرونی طور پر خود بخود بیماری کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا، اس کا جسم غیر محسوس طور پر بیماری کے خلاف صف آرا ہو جاتا اور پھر اس کا شعور و لاشعور دونوں مل کر بیماری کو اکھاڑ پھینکتے۔
طبعی بیماریوں کے خلاف ڈاکٹر ہیڈ لے کا یہ صحت مند رویہ بے انتہا مقبول ہوا۔ اس کے پاس ہپناٹزم کے ذریعے علاج کروانے والوں کی قطار لگ گئی۔ لوگ اس کے علاج سے صحت یاب ہونے لگے تاہم وہ خود بھی اس طریقہ کار سے مکمل طور پر مطمئن نہیں تھا، اس کے ذہن میں چند سوالات ایسے بھی تھے جن کے جواب اسے ابھی تک نہیں مل سکے تھے لیکن جیسے ہی اس نے اپنے سوالوں کے جواب پائے اس نے ہپناٹزم کے ذریعے بیماریوں کے علاج کا طریقہ کار چھوڑ دیا۔
ڈاکٹر ہیڈ لے کے سوالات اور ان کے جوابات درج ذیل ہیں۔ انھیں توجہ سے پڑھنے اور ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سوال و جواب ہر بیماری اور ہر مشکل کے حل میں معاون نہیں۔
پہلا سوال : ڈاکٹر کے نسخے سے زیادہ مریض کے ذہن کی ہدایت ہوتی ہے جو شعوری طور پر اس کے بدن کو بیماری کے خلاف عمل کرنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ شعور یا لاشعوری تحریک کے بغیر کوئی بھی بیرونی تحریک و ہدایت اثر پذیر نہیں ہوتی۔
دوسرا سوال: اگر ڈاکٹر کی جانب سے دی گئی ہدایت مریض کی اندرونی تحریک کو بے دار کرتی ہے تو پھر مریض اپنے طور پر ہی کیوں ایک صحت مند، مثبت ہدایتی رویہ اختیار نہیں کرسکتا اور نقصان دہ خیالات و رجحانات سے کیوں نہیں بچارہ سکتا؟
جواب: انسان یقینا ایک مثبت طرز فکر اختیار کرکے نا صرف بیماریوں سے دور رہ سکتا ہے بلکہ موذی اور قدیم امراض کو ختم بھی کرسکتا ہے۔ اس کا سب سے مناسب طریقہ وہی ہے جو لاشعوری تحریک کے سلسلے میں بتایا گیا، یعنی اپنے مقصد کو بار بار دہرانا، صحت مند رویہ اختیار کرنے کے لیے مقصد کو دہرانا ضروری ہے۔ ہاں البتہ یہاں الفاظ ضرور تبدیل ہوسکتے ہیں۔ مثلا
میری بیماری ختم ہوتی جارہی ہے۔
میں روز بہ روز بہتر سے بہتر ہوتا جارہا ہوں۔
میری کارکردگی کا معیار روز بروز بڑھ رہا ہے۔
میں اپنی تمام مشکلات حل کرسکتا ہوں۔
میرا دماغ تیز سے تیز ہوتا جارہا ہے۔
میں کسی سے کمزور یا کم تر نہیں ہوں ، کوئی مجھ پر غالب نہیں ہوسکتا۔
غرض اس قسم کے اپنے مقصد کے موافق جملے تواتر کے ساتھ دہراکر صحت مند رویہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ ان تمام الفاظ اور جملوں کا ایک ہی مقصد ہے، مثبت طرز فکر کو بے دار کرنا۔ آپ کو زندگی گزارنے کے لیے صحت مند رجحانات سے روشناس کرانا اور ان مسائل سے نمٹنے کے لیے خود انحصاری کی تربیت دینا جو ناجانے کب سے راہ کی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
دنیا کا ہر انسان شعوری تحریک کے ساتھ ساتھ زندگی بھر لاشعوری تحریک سے بھی متاثر ہوتا رہتا ہے۔ لاشعوری تحریک کا تعلق انسان کی عادات اور لاشعوری ضروریات سے ہوتا ہے ۔ جس چیز کو آپ کا لاشعور واقعتا ضروری سمجھے گا اس کے لیے وہی آپ کے اندر ضرورت کی تحریک بے دار کرے گا لہٰذا اگر آپ اپنے اندر لاشعوری تحریک بے دار کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اسے ضرورتوں میں تمیز کرنا سکھایے، ضروریات کے حوالے سے ترجیحات کی اہمیت پر غور کرنا سکھایے، اسے وقت کے تقاضوں کا پابند بنایے تب ہی آپ کا لاشعور فائدہ مند ضرورتوں میں فرق پیدا کرنے کے قابل ہوسکے گا اور تحریک پیدا کرسکے گا۔ مثلاً آپ کی ضروریات میں دولت، صحت اور شادی کے مسئلے شامل ہیں۔ اب آپ کو فیصلہ کرنا ہے کہ اولین ترجیح کس مسئلے کو دی جائے اور اپنے لاشعور کی قوت کو سب سے پہلے کس محاذ پر بروئے کار لایا جائے۔ بہترین بات یہ ہوگی کہ اولین ضرورت صحت قرار پائے کیوں کہ اس کے بغیر دولت کا حصول بھی ممکن نہیں اور شادی بھی ایک بے کار چیز ہوگی۔
لاشعوری تحریک ان لوگوں میں زیادہ طاقت ور اور دیر پا ہوتی ہے جو مثبت طرز فکر کے عادی ہیں۔ ایسے لوگ اپنے شعور کے ساتھ لاشعور کی تربیت بھی خود ہی کرتے ہیں اور اسے مثبت اور منفی اچھے اور برے ، فائدہ مند اور نقصان دہ کے بارے میں آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر یہ لاشعوری تحریک اس وقت بہت زیادہ معاون ثابت ہوتی ہے جب ان لوگوں کو کوئی بہت ہی سنجیدہ قسم کی ذاتی مشکل درپیش ہوتی ہے۔ ہنگامی صورت حال میں مثبت فکر رکھنے والوں کا شعور بہت زیادہ متحرک ہوجاتا ہے۔
ہر انسان اگر چاہے تو اپنے لاشعور کے ذریعے زندگی کی ہر مشکل پر قابو پاسکتا ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ طاقت ور بنا سکتا ہے۔ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ لاشعور کو آپ اپنی خفیہ صلاحیتوں کی بے داری کے لیے استعمال کرسکتے ہیں اور لاشعور کو ذہنی و اخلاقی برائیوں کے خاتمے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی ذہنی، اخلاقی یا کرداری کمزوری میں مبتلا ہیں تو پھر اس کے خلاف ” لاشعوری تحریک“ کا ہتھیار استعمال کیجیے۔ اس کے سدباب کو اپنا مقصد بناکر لاشعور کی طرف روانہ کردیجیے، پھر صبح و شام ، دن رات اور رات، ہر لمحے میں بھرپور عزم کے ساتھ اس کے خاتمے کا خیال اپنے ذہن میں رکھیے۔ آپ خود دیکھیں گے کہ جوں ہی آپ غیر ارادی طور پر اس برائی کی طرف متوجہ ہوں گے کوئی اندرونی طاقت آپ کا راستہ روکے گی۔ آپ کو منع کرے گی اور ندامت یا شرم ساری کا چبھتا ہوا احساس آپ کے دل میں پیدا ہوگا پھر جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا آپ کا لاشعور برائی کے خالف تحریک کو تیز سے تیز تر کرتا چلا جائے گا اور آپ کے اندر برائی کے خاتمے کے خلاف رکاوٹ بڑھتی چلی جائے گی یہاں تک کہ ایک موقع پر آپ خود اندر سے اٹھنے والی شدید آواز کے سامنے مجبور ہوجائیں گے اور متواتر پابندی کے عادی ہوکر برائی سے دور ہوجائیں گے۔
لاشعوری تحریک کی رکاوٹ کے اس عمل کو اخلاقی یا عادی مجرموں کے خلاف نفسیاتی علاج کے طور پر بہت کامیابی سے استعمال کیا جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات ایسے مجرموں کے اندر برائی سے لڑنے کی ترغیب ابھارتے ہیں۔ انھیں اس ذہنی رکاوٹ کا احساس دلاتے ہیں جس نے انھیں ایک کامیاب آدمی کے بجائے عادی مجرم بنادیا ہے۔
اب تک آپ اندازہ کرچکے ہوں گے کہ شعور اور لاشعور دراصل معلومات، خبروں، ذہانت اور اسی قسم کی دوسری چیزوں سے مل کر تشکیل پاتے ہیں۔ جتنی زیادہ معلومات آپ کے پاس ہوں گی، آپ کا شعور اتنا ہی زیادہ ترقی یافتہ ہوگا۔ ہمارے آس پاس جتنی بھی چیزیں ہیں وہ سب شعور اور لاشعور پر اثر انداز ہوتی ہیں جو کچھ ہم دیکھتے ہیں، پڑھتے ہیں یا سنتے ہیں ان کے کچھ نہ کچھ اثرات شعوری یا لاشعوری طور پر ہمارے اوپر ضرور پڑتے ہیں مگر یہاں کچھ قوتیں ایسی بھی ہیں، بادی النظر میں جن کا وجود محسوس نہیں ہوتا، ہم ان کے وجود سے باخبر بھی نہیں لیکن پھر بھی ان کے اثرات ہم پر اتنے ہی طاقت ور ہیں جتنے کہ دیدہ یا محسوس کی جانے والی قوتوں کے۔
ایسی قوتیں یا عناصر، ہمارا شعور جن کا ادراک نہیں کرسکتا جو ہمیں اپنے اوپر اثر انداز ہوتی ہوئی محسوس نہیں ہوتیں، درحقیقت ہمارا لاشعور کو متاثر کرتی ہیں اور وہ ان سے چپکے چپکے اتنا متاثر ہوتا رہتا ہے کہ ایک دن جب وہ کھل کر سامنے آتا ہے تو ہم حیران رہ جاتے ہیں اور یہ بات سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا؟ جب کہ ان باتوں کا ہماری زندگی میں گزر ہی نہیں رہا۔