مثبت طرز فکر، ہمارا لاشعور اور دماغ کا تاج
ہر مذہب میں خیر سے رغبت اور شر کی ممانعت ہے
بیماریوں اور مادی مسائل کے خلاف جنگ انسان کا اولین اور ازلی مسئلہ رہا ہے، اس مسئلے کے حل کے لیے وہ ہمیشہ نت نئی تدبیریں کرتا رہا ہے۔ زمانہ ءقدیم سے موجودہ ترقی یافتہ دور تک انسان کی تمام تر جدوجہد کا مرکز یہی مسئلہ رہا ہے کیوں کہ زندگی اور طویل عمری کے لیے اس پر قابو پانا ضروری ہے۔
فی زمانہ جس قسم کی بیماریاں اور مسائل انسان کی جان کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں ان میں سے ایک بڑا مسئلہ نفسیاتی امراض کا ہے جن کی بنیادی وجہ ذہنی دباو ہے۔ جب تک انسان خود کوروحانی طور پر مضبوط نہیں بنائے گا، مادی طور پر اسے کامیابیاں نہیں ملیں گی اور خود کو روحانی طور پر مضبوط بنانے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
اس سوال کا جواب نہایت مشکل اور پے چیدہ بھی ہوسکتا ہے بلکہ خاصا متنازع اور نہایت سادہ اور آسان بھی۔ مشکل اور پے چیدہ اس صورت میں ہوگا جب ہم اس کی تلاش میں شرعی احکامات ، قوانین اور عبادات سے متعلق فرائض کو بنیاد بنانے کی کوشش کریں گے۔ سادہ اور آسان اس وقت ہوجائے گا جب ہم مذہب کی بنیادی روح کی روشنی میں اس سوال کا جائزہ لیں گے۔
اگر ہم غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ دنیا کے تمام مذاہب، اسلام سمیت دو اہم نکات پر خصوصی زور دیتے آئے ہیں اور یہی دو اہم نکتے ہر آفاقی مذہب کی بنیادی روح ہیں۔ یہ دو نکات خیر اور شر ہیں۔ ہر مذہب نے خیر کی طرف راغب کیا ہے اور شر کی ممانعت کی ہے۔
خیر اور شر کی اصطلاح نے دنیا میں پہلی بار ہابیل اور قابیل کے واقعے کے بعد رواج پایا اور اس کی ابتدا تخلیق آدم کے بعد ابلیس کی نافرمانی سے ہوئی۔ خیر کیا ہے؟ مذہب کی زبان میں خالق کائنات کی اطاعت و فرماں برداری اور شر کیا ہے؟ مختصر الفاظ میں ”پیروی ابلیس“۔
یہ دونوں رویے ابتدا ہی سے انسانوں میں جاری و ساری ہیں۔ یہی رویے مثبت اور منفی رویے کہلاتے ہیں۔ ہم شروع ہی سے مثبت رویے کے فروغ اور منفی رویوں سے احتراز پر زور دیتے آئے ہیں اور روحانی طور پر خود کو مضبوط بنانے کے لیے بھی ہمارا موقف یہی ہے کہ آپ اپنے اندر مثبت رویوں کر پروان چڑھائیں، منفی رویوں سے بچیں۔
آئیے! ان نکات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنے نفسیاتی اور بہت سے مادی مسائل کا حل تلاش کریں۔ یاد رکھیں! یہ وہ بنیادی نکات ہیں کہ ان کے فرق اور اہمیت کو نظرانداز کرکے ہم کوئی معقول اور مکمل حل دریافت نہیں کرسکتے۔
برسوں کے تجربات اور مشاہدات نے دنیا بھر کے ماہرین نفسیات اور مابعد النفسیات کو اس بات کا قائل کردیا ہے کہ اگر انسان مثبت طرز فکر اپنائے اور منفی طرز فکر سے نجات پاجائے تو اس کے بیشتر مسائل چٹکی بجاتے حل ہوجاتے ہیں اور یہی نہیں ، وہ روحانی طور پر بھی اس قدر توانا ہوجاتا ہے کہ پھر مادی مسائل اسے پریشان نہیں کرپاتے۔
مثبت اور منفی طرز فکر کے اس کھیل میں ہمارا دماغ نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے کیوں کہ یہ دونوں رویے اسی مرکز جسم سے وابستہ ہوتے ہیں۔ دماغ دو حصوں سے مل کر تشکیل پاتا ہے، ایک کو شعور اور دوسرے کا لاشعور کہتے ہیں۔ شعور دماغ کا وہ حصہ ہے جس کاہمیں ادراک ہوتا ہے یعنی جسے ہم سمجھتے ہیں اور لاشعور دماغ کا وہ حصہ ہے جس کا ہمیں ادراک نہیں ہوتا یا جسے ہم سمجھ نہیں پاتے اور درحقیقت اپنے لاشعور سے یہ لاعلمی ہی ہماری بہت بڑی خرابی ہے۔ ہماری اکثریت یہ جانتی ہی نہیں کہ دماغ کے اس غیر محسوس حصے میں کتنی قوت ہے، کتنی توانیاں ہیں، کتنی خفیہ اور پر اسرار طاقتیں اس چھوٹے سے حصے میں قید ہیں۔ اگر ان قوتوں کو کام میں لایا جائے تو حیرت انگیز کارنامے انجام دیے جاسکتے ہیں۔ مثبت طرز فکر کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم اپنے آپ سے واقفیت حاصل کریں، اپنی طرف متوجہ ہوں اور ان صلاحیتوں اور خوبیوں کو ڈھونڈ نکالیں جو دور کہیں کسی گوشے میں خوابیدہ ہیں، منتظر ہیں کہ انھیں اشارہ کیا جائے اور وہ ہمیں نئی دنیاوں میں لے جائیں۔ یہاں حضور اکرم ﷺ کی یہ حدیث بھی پیش نظر رہے کہ ” جس نے اپنے آپ کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا“۔
لاشعور کی کرشمہ سازیوں اور پر اسرار قوتوں کا وجود دنیا میں نیا نہیں ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ زمانہ قبل از تاریخ کا وحشی انسان بھی جس کی ذہنی استعداد کچھ زیادہ نہ تھی، لاشعور کی فوق العقل خصوصیات سے باخبر تھا اور انھیں بخوبی اپنی ضروریات کے حصول کے لیے استعمال کرتا تھا۔ دنیا کی تمام قدیم ترین تہذیبوں میں ماورائی تصورات اور فطرت سے بالا تر عناصر کا زندگی میں عمل دخل آج ایک مستند بات ہے۔ ان تمام داستانوں میں جادو ٹونے، ہپناٹزم اور مسمریزم کے قصے عام ہیں اور اس دور کی بہت سی نشانیاں آج بھی محققین کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہیں، حتیٰ کہ آج بھی براعظم آسٹریلیا کے دور دراز، گم نام ترین علاقوں میں جہاں تہذیب کی روشنی نے قدم نہیں رکھا ہے، ہزاروں سال سے آباد وحشی قبائل انسانی ذہن کے ذریعے ایسے کرشمے رونما کر رہے ہیں جو جدید دور کے سائنس دانوں کے لیے مبالغے سے کم نہیں۔ ہماری دنیا میں آج بھی بہت سے ایسے تصورات اور عوامل موجود ہیں جن کی توجیہہ نہیں پیش کی جاسکتی جن کے لیے کوئی نظریہ موجود نہیں اور جنہیں سمجھنے سے عقل عاری ہے لیکن پھر بھی وہ موجود ہیں۔ لوگوں کے ساتھ ان کا اکثر تعلق رہتا ہے اور ان پر عتقاد رکھنے والے کونے کونے میں پائے جاتے ہیں۔ طبعی طور پر پراسرار چیزوں کا کوئی وجود نہیں۔ سائنس انھیں تسلیم نہیں کرتی اور عقل کی حکمرانی میں ان قوتوں کا وجود فضول ہے، بس یہی وہ مقام ہے جہاں سے لاشعور کی حدود شروع ہوتی ہےں۔ لاشعور پر اعتقاد رکھنے والے بڑی شدت سے اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ جس کو شعور پاگل پن قرار دیتا ہے، لاشعور میں وہ برحق ہے، اس لیے کہ وہاں سب کچھ ممکن ہے، آپ اپنے لاشعور کے ذریعے بڑے سے بڑا کام چٹکی بجاتے میں کرسکتے ہیں، لوگوں کو حیرت زدہ کرسکتے ہیں اور خود اپنی کارکردگی کو ہزاروں گنا بہتر کرسکتے ہیں، اپنے خطرناک ترین ذہنی و جسمانی امراض پر قابو پاسکتے ہیں، ضرورت محض اس بات کی ہے کہ آپ اپنے لاشعور میں موجود قوتوں سے واقف ہوں۔ ان کے استعمال کا طریقہ جانتے ہوں اور اس مناسب لمحے سے آگاہ ہوں جب ان قوتوں کا بھرپور طور پر استعمال کیا جاسکے۔
یاد رکھیں! اس کے بغیر یہ ممکن نہیں کہ آپ کو اپنی نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں سے صرف دواوں کی مدد سے مکمل نجات مل سکے۔ ایلو پیتھک دوائیں ہمارے ذہن اور احساسات کو سلانے کا کام ہی نہیں کرتیں بلکہ وہ ہماری دماغی صلاحیتوں کو بھی تباہ و برباد کرکے رکھ دیتی ہیں۔ اس تباہی و بربادی کے بعد یہ کیسے فرض کرلیا جائے کہ مریض مکمل طور پر کبھی نہ کبھی صحت یاب ہوجائے گا۔ یہ امید تو صرف اسی صورت میں قائم ہوسکتی ہے جب ہمیں یہ اطمینان ہو کہ ہمارا دماغ صحت مند ہے اور اس سے وابستہ صلاحیتیں تباہ نہیں ہورہی ہیں۔ وہ کسی علاج یا مخصوص طریقے سے جاگ سکتی ہیں اور ان کی مدد سے ہم ہر مصیبت سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔
دنیا میں ایک قاعدہ ہے۔ بہتر کی برتری کا جو اچھا ہوتا ہے وہ دوسروں پر فوقیت رکھتا ہے اور وہی دوسروں پر حکمرانی کرتاہے۔ دوسرے اس کے سامنے سر جھکاتے ہیں اور بہتر کو اپنے سر پر بٹھاتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے اپنے سر پر کسی کو بٹھایا ہوا ہے؟
یقینا آپ کا جواب سو فیصدر درست ہے، آپ نے اپنے سر پر اپنے دماغ کو بٹھایا ہوا ہے۔ وہی دماغ جسے رکھنے والا اگر اس کی قدر و قیمت پہچان لے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کے سر کو اپنے سامنے جھکا نہیں سکتی۔ وہ مادی طاقت ہو یا ماورائی کیوں کہ دماغ رکھنے والا خود اپنا بادشاہ ہوتا ہے۔ اس کی حکمرانی اپنے جسم کی سلطنت پر ہوتی ہے اور اپنی اس حکمرانی کا اظہار وہ ”دماغ کا تاج“ پہن کر فخریہ طور پر کرتا ہے لیکن خیال رہے کہ عام زبان میں دماغ کا تاج تو ہر شخص کے سر پر ہے مگر اس تاج میں موجود جواہر کی خوبیوں سے کون کون واقف ہے۔ یہاں ہم واضح طور پر ایک بات کہہ دیں تو مناسب ہوگا۔ آپ ذاتی طور پر کچھ بھی نہیں آپ کا جسم، آپ کی طاقت، خوب صورتی، جوانی، رگوں میں دوڑتا ہوا لہو کچھ بھی نہیں، اس کی کچھ بھی وقعت نہیں اگر دماغ ساتھ نہ ہو۔ دنیا کے خوب صورت ترین، ذہین ترین انسان کے بدن میں سے بھی اگر پچاس اونس کا سفید لجلجا سا گودا نکال لیا جائے تو وہ محض گوشت کا ایک بے ہنگم و بے وقعت ڈھیر سے زیادہ کچھ نہیں رہ جائے گا۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ جو کچھ آپ کے جسم میں سب سے اوپر ہے۔ اوپر کا خانہ خالی ہے تو پھر کچھ نہیں ہے۔ قدرت نے بھی دماغ کی حکمرانی و برتری کا اظہار اسے انسانی جسم میں سب سے اوپر جگہ دے کر کیا ہے۔
دماغ اپنی ساخت اور ترکیب کے اعتبار سے کائنات کی اعلیٰ ترین تخلیق کہی جاسکتی ہے جسے مکمل طور پر اب تک سمجھا نہیں جاسکا ہے۔ یہ ایک پر اسرار معمہ ہے جو کہ حل کرنے کے لیے سائنس دان مستقل کوششیں کر رہے ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ اب تک دماغ کے محض بیس فیصد حصے کو سمجھنے کے قابل ہوئے ہیں۔ انسان اپنے دماغ کی بدولت مریخ سے آگے نکل گیا ہے۔ لاکھوں میل دور چاند ستاروں کی اسے خبر ہے لیکن وہ چیز جس نے اسے اس قابل بنادیا ہے، خود ابھی تک لا علمی کے پردوں میں پوشیدہ ہے۔
آئیے اپنے سوالات اور ان کے جوابات کی طرف۔
برج عقرب کے منفی رجحانات
ایچ ،ایس۔ امریکا: آپ کا بچہ غیر معمولی صفات اور مزاج کا حامل ہے۔ یقینا اس کی پرورش کے دوران میں آپ نے اسے بہتر طور پر واچ نہیں کیا اور یہ کچھ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوگیا ہے اور ایسا گزشتہ دو سال کے دوران میں ہوا ہوگا۔ سن سائن کے ساتھ اس کا مون سائن بھی عقرب ہی ہے یعنی یہ اپنی شخصیت اور فطرت دونوں میں عقرب کے گہرے اثرات رکھتا ہے۔
برج عقرب حساس ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کو بہت جلد ڈپریشن کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ لوگ ہر معاملے کا تاریک پہلو پہلے دیکھتے ہیں اور ہر بات کا گہرا اثر قبول کرتے ہیں پھر اس کا اظہار بھی نہیں کرتے۔ اندر ہی اندر جلتے کڑھتے رہتے ہیں۔ اپنے جذبات کا گلا گھونٹتے رہتے ہیں۔ ان کی یہی گھٹن کبھی کبھی ہسٹیریا، شیزوفرینیا، مالیخولیا وغیرہ کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے اور ہمارے ملک میں یہی دورے جب شدت اختیار کرتے ہیں تو آسیبی اور جناتی مریض سامنے آتے ہیں۔ ڈپریشن تو ان کا خاص الخاص مرض ہے۔ اس بچے کی پیدائش کے وقت پانچ سیارے بیک وقت برج عقرب میں تھے جس میں زہرہ بھی شامل ہے۔ زہرہ برج عقرب میں انتہائی خراب ہوتا ہے اور یہی صورت قمر کی ہے۔
برج عقرب ” سیکس“ اور تناسلی اعضا سے متعلق برج ہے۔ لہٰذا سیکس بھی ان لوگوں کا بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ زیادہ مذہبی ماحول میں اگر یہ جنسی گھٹن کا شکار ہوکر مذہب کی طرف جاتے ہیں تو بھی نفسیاتی عوارض کا شکار ہوتے ہیں اور اس کے برعکس صورت میں آزاد روی کا ماحول بھی انھیں بگاڑ سکتا ہے یا ان کے ذہن پر برا اثر ڈال سکتا ہے۔ قمر اور زہرہ کی یہاں موجودگی اور زائچہ کی باقی صورت حال اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ وقت سے پہلے صاحب زادے غلط رجحانات کا منفی اثر قبول کر بیٹھے ہیں۔ ان کی خوراک میں سادہ غذا کا استعمال رکھیں یعنی صرف سبزیاں، دالیں وغیرہ اور دالوں میں بھی ماش کی دال نہ دیں۔ ماہر نفسیات کے مشورے سے جو علاج کر رہی ہیں، وہ جاری رکھیں۔ سرخ اور سیاہ رنگ سے پرہیز کرائیں۔ ہلکے نیلے رنگ اور آسمانی رنگ ان کے لیے بہت مفید ہوں گے۔ آسمانی رنگ کی شعاعیں صبح شام آدھا گھنٹا سر پر ڈالنا اور آسمانی رنگ کی روشنیوں کا پانی پلانا مفید ہوگا۔ سچا موتی (pearl) چاندی کے لاکٹ میں جڑواکر پیر کے روز صبح سورج نکلنے کے بعد پہنائیں۔
غلط زاویہ نظر
ا، س، تربیلا ٹاون شپ: یہ وہم اور جاہلانہ سوچ ذہن سے نکال دیں کہ سگی ماں اپنے بیٹے پر تعویذ گنڈے کرکے اس کا دماغ خراب کر ہی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے والد کا بغیر کسی تعویذ اور کالے جادو کے دماغ خراب ہوا ہے اور اس سلسلے میں آپ کو اپنے اعمال و افعال کا جائزہ بھی لینا چاہیے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ آپ کی کسی بات یا حرکت سے وہ آپ سے نفرت کرنے لگے ہوں۔ دراصل اپنی غلطیاں اور خطائیں کسی کو بھی نظر نہیں آتیں کیوں کہ یہ ایک بہت ہی مشکل ترین کام ہے۔
آپ کے دوسرے سوال کا تعلق بھی آپ کی ایک حماقت سے ہے۔ ایسی حماقت جس کا کوئی سر پیر ہی نہیں ہے۔ بس آپ جاگتی آنکھوں سے ایک خواب دیکھ رہی ہیں اور چاہتی ہیں کہ وہ حقیقت بن جائے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ آپ خود حقیقت پسندی اختیار کریں اور جذباتی و تصوراتی دنیا سے خود کو نکالنے کی کوشش کریں۔ چلتے پھرتے کثرت سے اٹھتے بیٹھتے لاحول پڑھا کریں۔