ہمارے منفی اعمال و افعال ،نت نئے عذابوں اوراذیتوں کا سبب ہیں
عزیزان من! گزشتہ کالم میں ہم نے ایک طویل خط شائع کیا تھا جو نامکمل تھا اس کے جواب کا وعدہ ہم نے کیا تھا ۔اگر اس خط کے بقایاجات بھی شائع کیے جائیں تو شائد آج کا کالم بھی اسی خط کی نذر ہوجائے گا۔مختصراً یہ کہ باقی خط میں بھی ایسے ہی مسائل اور پریشانیاں موجود ہیں جیسا کہ خط کے ابتدائی حصے میں لہذا ہم نے خط کا بقیہ حصہ شائع کرنے کا ارادہ ملتوی کر دیا ہے، نمونہ کلام کے طور پر جو کچھ شائع ہوچکا اسی کو کافی سمجھیں۔ آئیے خط لکھنے والی خاتون کے مسائل پر بات کرتے ہیں۔
ہمارے ملک میں اپنے ذاتی مسائل اور پریشانیوں کو سحر جادو یا آسیب وجنات کے تناظر میں دیکھنا ایک عام سی بات ہوگئی ہے، ہم اس سلسلے میں ہمیشہ لکھتے رہے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ 99 فی صد معاملات میں سحر و جادو یا آسیب و جنات کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ کہیں معاشی مسائل کا معاملہ ہوتا ہے اور کہیں ذہنی و جسمانی بیماریاں اپنا رنگ دکھا رہی ہوتی ہیں اس کے علاوہ تیسری بات کہیں نظر نہیں آتی۔ دنیا میں جذبات اور احساسات انسان کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں وہ ان کی مدد سے خوشی اور غم دونوں کا ادراک کرتا ہے لیکن یہی احساسات اور جذبات اگر منفی رخ اختیار کر لیں تو نہ صرف دوسروں کے لیے بلکہ خود اپنے لیئے بھی ایک عذاب بن جاتے ہیں۔
عزیزم ! آپ کا پورا معاملہ منفی سوچوں کا نتیجہ ہے اور مشکل یہ ہے کہ آپ اس بات کو کسی طور بھی تسلیم نہیں کریں گی دراصل آپ نے اپنے آپ کو ماورائیت کے ایسے خول میں بند کر لیا ہے جس سے نکلنا اب آپ کے بس کی بات بھی نہیں۔ آپ کا خط آپ کے ذہنی الجھاؤ اور منفی سوچوں کا شاہکار ہے۔ حسد اور انتقام کی آگ آپ کے دل میں روشن ہے اور یہ کسی طور بجھنے والی نہیں ہے۔ یہ آگ اسی دن بھڑک اٹھی تھی جس دن آپ نے اپنے سب سے پیارے، لاڈلے بیٹے کی شادی کی۔ پہلے ہی دن آپ کو شدت سے یہ احساس ہوا کہ اب آپ کا بیٹا آپ کا نہیں رہا، کسی اور کا ہوگیا ہے۔ یہ احساس نہایت خطرناک انداز میں آپ کے دل و دماغ میں جا گزیں ہوگیا اور اس کے نتیجے میں جو آگ بھڑکی وہ آپ کو پہلے ہی دن بہو کا کمرہ کھلتے ہی بڑے بھیانک انداز میں محسوس ہوئی یعنی آپ کی حالت خراب ہوتی چلی گئی اور پھر اس دن سے آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ ابتدا میں فرماں بردار اور محبت کرنے والے بیٹے نے ہر طرح آپ کے علاج معالجے اور دلجوئی کی کوشش کی لیکن یہ وہ آگ نہیں تھی جسے بھجایا جاسکتا۔ یہ صرف اسی صورت میں بجھ سکتی تھی جب بیٹا واپس مل جائے یعنی اپنی بیوی کو طلاق دے دے لیکن یہ ہو نہ سکا یہاں تک کہ بچے بھی ہوگئے اور بالآخر بیٹا روز روز کی کلکل سے تنگ آکر علیحدہ ہوگیا اور بقول آپ کے آپ کی جان چھوٹ گئی۔ گویا اس محاذ پر آپ نے صبر کر لیا جس کی ایک وجہ پوتا پوتی کی محبت بھی ہے لیکن یہ صبر بھی بحالت مجبوری ہے ورنہ دل سے آپ اس عورت کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جس نے آپ سے آپ کا بیٹا چھین لیا ہے۔ ایسا بیٹا جسے آپ نا صرف یہ کہ دل و جان سے چاہتی تھیں بلکہ اس پر فخر بھی کرتی تھیں اور اسے اپنی نجی ملکیت سمجھتی تھیں۔ اب دوبارہ دوسرے بیٹے کا مسئلہ در پیش ہے لہذا آپ کی پریشانی بڑھنا شروع ہوگئی ہے اور اس سلسلے میں آپ اب اپنی بیٹی کے مقابل صف آرا ہورہی ہیں حالانکہ اس بیٹی سے آپ کی جنگ بہت پہلے سے جاری ہے کیونکہ وہ آپ کے مقابلے میں اپنی بھاوج کی طرف دار رہی ہے، وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا گھر اجڑے۔
آپ نے اپنی طویل داستان میں جو قصے سنائے ہیں وہ خاصے دلچسپ ہیں، ہر قصے کی سچائی کے لیے آپ کے پاس کچھ نہ کچھ گواہان موجود ہیں لیکن ایسے گواہان جن کی گواہی کسی طرح بھی قابل اعتبار نہیں ہے مثلاً آپ کی بہو کے بھائی نے اپنی پھوپھی پر الزام لگا دیا کہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو بچانے کے لیے ہماری بہن کو کسی کی بھینٹ چڑھا دیا۔ یہ انتہائی گھٹیا اور احمقانہ الزام ہے جو محض قیاس اور اندازے پر مبنی ہے۔ خدا معلوم اس بدعقل بھائی کو کیا سوجھی تھی یقیناً وہ بھی مروجہ جہالت کے اثر میں تھا۔ پھر وہ آپ کو کسی مزار پر بھی لے گیا اور مزار پر جو کچھ ہوا وہ سب بھی آپ کے قیاس اور تصور کی کرشمہ سازی ہے۔ اسی طرح دیگر واقعات میں بھی آپ کا زبردست تصور اور قیاس اپنی کارفرمائی دکھا رہا ہے حالانکہ ان باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سارا کھیل ہی آپ کے وجدان اور تصور کی کرشمہ سازی پر مبنی ہے اور اس کی بنیاد میں حسد اور انتقام کی وہ آگ بھڑک رہی ہے جو آپ کی بہو نے آپ کے سینے میں لگائی ہے۔
آپ نے ایک بابا صاحب کا تذکرہ بھی کیا ہے جنہوں نے اسے سپنی کہا ۔ بے چارے اس کے علاوہ اور کیا کہہ کر آپ کو تسلی دیتے کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ آپ کا کوئی علاج ان کے پاس نہیں ہے۔ وہ تو یہ بھی سمجھنے سے قاصر تھے کہ آپ کا مسئلہ ہے کیا؟ کاش آپ نے اپنی تاریخ پیدائش بھی لکھی ہوتی تو ہم زیادہ بہتر انداز میں آپ کے مسئلے کا تجزیہ پیش کرتے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر آپ کے خیال اور یقین کے مطابق آپ کی بہو کسی زبردست ماورائی قوت کے زیر اثر ہے جس کا توڑ آپ کی بے شمار کوششوں کے بعد بھی نہیں ہوسکا تو پھر آخر اس کی شادی کیسے ہوگئی۔ اس زبردست قوت نے یہ کام کیوں ہونے دیا کوئی رکاوٹ کیوں نہیں ڈالی ، اس کے ہاں اولاد کیسے ہوگئی۔ اگر واقعی ایسا کوئی معاملہ ہوتا تو وہ اس کی شادی ہی نہ ہونے دیتا۔ اس کے شوہر کو نقصان پہنچاتا، آپ سے اس کا کیا جھگڑا یہ تو بالکل ایسی ہی بات ہے کہ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ ۔
ذرا ملاحظہ فرمائیے! مزار سے واپس آنے کے بعد آپ نے سوتے یا جاگتے جو خواب دیکھا کہ ایک عورت آپ کو دھمکیاں دے رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ آپ کو کس بات کی دھمکیاں دے رہی تھی۔ اگر آپ کی بہو ان کی کچھ لگتی سگتی تھی تو اس کی شادی ہی کیوں ہونے دی اور اب اگر شادی ہو بھی گئی تو اس کے شوہر کا بگاڑے جو بگاڑنا ہے۔ اولاد کی پیدائش میں رکاوٹ ڈالے۔ خود اس کو کوئی تکلیف پہنچائے۔ جس کی وجہ سے اتنا ہنگامہ ہے لیکن اس کا جواب آپ کے پاس یہی ہو گا کہ وہ تو ان کی چہیتی ہے اور خود زبردست پراسرار قوتوں کی مالک ہے لیکن یہ خیال آپ ہی کو مبارک ہو کیونکہ کہ آپ کو معلوم ہی نہیں کہ ایسے رابطے اور تعلق کیا تماشے دکھاتے ہیں۔
ہمارا مشورہ آپ کے لیے یہ ہے کہ حسد و انتقام کے بجائے محبت کے جذبے کو پروان چڑھائیں، ماورائی اور خیالی قوتوں سے رجوع کرنے کے بجائے حقیقی انسانی رشتوں سے محبت کریں۔ نفرت، حسد، انتقام کے بجائے ہمدردی اور محبت سے کام لیں لیکن یہ نعمت اس وقت تک نہیں ملے گی جب تک اپنی انا کو لگام نہ دی جائے۔ یاد رکھیں ہماری جھوٹی انا ہمیں اکثر فرعون بنا دیتی ہے جس کے باعث ہمیں سب حقیر اور بے توقیر نظر آتے ہیں اور ہم اپنی ہر چیز پر نہایت قابضانہ انداز میں تسلط جمانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب وہ چیز ہاتھ سے نکلتی نظر آتی ہے تو ہم پاگل ہوجاتے ہیں، جائز و ناجائز کی تمیز کھو دیتے ہیں، ظلم و زیادتی کی انتہا کر دیتے ہیں تاکہ کسی طرح اپنی انا کی تسکین ہوسکے۔
انا محبت کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ محبت تو عاجزی اور انکساری، خدمت اور قربانی کا جذبہ پیدا کرتی ہے جبکہ انا مخدوم بناتی ہے۔ دوسروں کو اپنے سامنے اطاعت گزار اور فرماں بردار دیکھنا چاہتی ہے۔ ممکن ہے ہماری باتیں آپ کی سمجھ میں نہ آئیں لیکن ہماری دعا ہے کہ آپ منفی سوچوں کو چھوڑ کر مثبت انداز میں سوچنے لگیں شاید کہ وہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات ۔
آپ کے کیس کو دیکھ کر ہمیں ایسے بہت سے دیگر کیس یاد آگئے جو کسی نہ کسی اعتبار سے آپ سے مماثلت رکھتے تھے لہذا اس حوالے سے ہم ایک اور بات کی بھی وضاحت کرتے چلیں اور وہ یہ کہ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہوں نے خود اپنے اوپر سحری اثرات مسلط کر لیے ہوتے ہیں۔ آپ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اگرچہ ہر طرف سحر و جادو ، سفلی، گندہ علم وغیرہ کا چرچا ہے اور بڑے بڑے نام نہاد جغادری قسم کے عامل کامل اور بعض نام نہاد عالم لوگوں کو بد اثرات کا فتویٰ دیتے نظر آتے ہیں لیکن اگر بداثرات کی تشریح اور توجیح کے بارے میں استفسار کیا جائے تو پھر آئیں بائیں شائیں ہواؤں میں لٹھ گھماتے نظر آتے ہیں کیونکہ یہ تمام علوم بھی کچھ اصول و ضوابط اور قاعدہ قانون رکھتے ہیں جس سے واقفیت انہیں لوگوں کو ہوتی ہے جو خود مشاہدے اور تجربے کے راستے سے گزرے ہوں۔
جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا کہ کچھ لوگ خود اپنی حماقتوں اور جہالت کے سبب بد اثرات کا شکار ہوتے ہیں اور ایسے اثرات کا توڑ بہت مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنی اس خرابی میں روز بروز خود ہی اضافہ کر رہے ہوتے ہیں اور ایک دن لاعلاج مریض بن جاتے ہیں، دراصل یہ لوگ خود ہی اپنے اوپر بد اثرات ڈال رہے ہوتے ہیں یا پھر خود ہی اپنے آپ کو کسی آسیب کا آلہ کار بنا رہے ہوتے ہیں۔
اگر یہ جان لیا جائے کہ سحر و جادو کے اثرات کس طرح ہوتے ہیں اور ان کی شناخت کیا ہے اور وہ کون کون سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے اکثر لوگ اس کی لپیٹ میں آتے ہیں تو سارا مسئلہ ہی حل ہوجائے گا مگر یہ بتانے والا کوئی نہیں ہے ۔ ہم اکثر اپنے اسی کالم میں اس حوالے سے لکھتے رہے ہیں اور اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے کالم کے قارئین اب ان مسائل کو اچھی طرح سمجھنے لگے ہیں ۔
یاد رکھیں ! ہمارے بہت سے اعمال و افعال ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں کسی بھی قسم کے بد اثرات میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ مثلاً مندرجہ بالا خط میں کوئلے جلانے اور بے تحاشہ پڑھائیاں کرنے، مزارات پر حاضریاں دینے اور اپنے جملہ مقاصد کی تکمیل کے لیے ادھر ادھر سے نقش و تعویذ، عمل چلّے کے لیے بھاگ دوڑ ایسی صورت حال ہے جو خود کو سحری اثرات یا بد اثرات کا شکار بنا سکتی ہے خصوصاً اس صورت میں جب کہ مقاصد بھی غلط اور ناجائز ہوں۔ بہو کے خلاف محاذ آرائی، اپنے طور پر یہ طے کر لینا کہ اپنے پیارے بیٹے کو اس ظالم ڈائن سے بچانا ہے اور ہر صورت میں اسے طلاق دلانا ہے، کوئی جائز کام نہیں ہے۔ میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کرانا شرعاً ناجائز اور نہایت گناہ گارانہ فعل ہے لہذا اس کام کے لیے کوشش اپنا ہی کچھ بیڑا غرق کرے گی۔ بہو کا کچھ نہیں بگڑے گا اور یہی کچھ ہوا بھی ہے۔ وہ آپ سے علیحدہ ہو کر اپنے گھر میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ چین کی بنسی بجا رہی ہے جب کہ آپ انگاروں پر لوٹ رہی ہیں۔
آپ کے مسئلے کا روحانی اور طبی علاج بھی ہم لکھ رہے ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ آپ کو اس علاج کی توفیق دے۔
سب سے پہلے اپنی مزارات کی حاضریاں بند کر دیں، بزرگان دین کے لیے فاتحہ، صدقہ و خیرات آپ گھر بیٹھے بھی کر سکتی ہیں۔ اس احمقانہ اور جاہلانہ خیال سے پیچھا چھڑائیں کہ آپ وہاں جائیں گی اور حاضری دیں گی تو آپ کی بات سنی جائے گی اور آپ کو سکون و چین ملے گا۔
آپ جو عبادات کر رہی ہیں یعنی نماز روزہ، تلاوت قرآن پاک، بس یہی کافی ہے۔ اس کے علاوہ پورا پانچواں کلمہ سو مرتبہ صبح و شام پڑھیں اور اللہ تعالی سے گڑگڑا کر نہایت عاجزی اور انکسار کے ساتھ دعا کریں کہ وہ آپ کے موجودہ مسائل کو حل فرمائے اور آپ کو آپ کی اذیتوں سے نجات دے۔
سورہ فلق اور سورہ الناس روزانہ سو بار پڑھ کر دونوں ہاتھوں پر دم کریں اور پھر ہاتھ چہرے اور بدن پر پھیر لیں کچھ پانی پر دم کریں اور وہ پانی پی لیں۔ یہ کام صبح فجر سے پہلے اور شام کو عصر و مغرب کے درمیان کریں۔ سورہ فلق اور ناس جنہیں معوذ تین کہا جاتا ہے اگر مستقل اپنے ورد میں رکھی جائیں تو انسان ہر قسم کے آسیب و جنات، انسانی فتنہ و فساد، شرانگیزی، وسوسہ خناس سے محفوظ رہتا ہے، ممکن ہے آپ کا جواب یہ ہو کہ یہ سورتیں تو میں مستقل اپنے ورد میں رکھتی ہوں لیکن پھر بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ تو ہمارا جواب یہ ہوگا کہ یقیناً آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ آپ کا ایمان کمزور ہے آپ کا یقین تو ان سورتوں کے خالق یعنی رب کائنات کے بجائے کسی اور پر ہے۔ کسی بابا، یا کسی صاحب مزار پر۔ اگر آپ ہر طرف سے توجہ ہٹا کر صرف اور صرف اپنے رب کی طرف متوجہ ہو جائیں تو پھر یقیناً یہ سورتیں آپ کو فائدہ دیں گی۔