شادی میں تاخیر کی وجوہات
والدہ سے شکوہ و شکایات، زیادتیوں کا رونا
اے، جے نامعلوم جگہ سے لکھتی ہیں ” یہ میرا چوتھا خط ہے، دس ماہ میں آپ کو چار خط لکھ چکی ہوں مگر جواب نہ آیا،بہر حال میں پھر ایک بار نئی امید پر آپ کو اپنی تاریخ پیدائش اور مسئلہ لکھ رہی ہوں۔میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں بچپن سے ہی زیادتیوں اور نا انصافیوں کا شکار رہی ہوں، بس مٹی کا مادھو بن کر رہ گئی،سب سے زیادہ تو اپنی سگی ماں کی طرف سے بہت دل جلا ہے۔
میری ماں مجھے منحوس کہتی تھی،نہ جانے کیوں ؟ بہت ترسی ہوں، ماں کی ممتا اور گود کے لیے اور اب تک ماں کی نا انصافیاں بھگت رہی ہوں مگر بے رُخی کے علاوہ کچھ نہیں ملتا، حالاں کہ روز نماز میں اپنی ماں کے لیے دعائے مغفرت و رحمت کرتی ہوں اور اپنے ساتھ کی گئی زیادتیوں کے لیے بھی معاف کردیتی ہوں لیکن ماں کا رویہ وہی رہتا ہے،میرے بہن بھائی بھی مطلب پرست ہیں،اُن کا رویہ بھی مجھ پر بات بات میں چڑھانے کا ہوتا ہے۔
میرے ماں باپ میں بھی بہت نا اتفاقی ہے لیکن باپ پھر بھی ماں سے بہتر ہے کیوں کہ وہ کبھی کبھار میری تعریفیں کردیتے ہیں، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر میری ماں کا مجھ سے یہ سلوک یا رویہ کیوں ہے؟میں نے کیا دنیا میں آکے غلطی کی یا پھر میں برے نصیب لے کر پیدا ہوئی ہوں ؟ کیا مجھ میں کوئی خوبی نہیں؟ کوئی خوبصورتی نہیں؟ کیا ساری زندگی بھیگی بلّی کی طرح ہی گزاروں گی؟ کیا رب نے مجھے ایسی زندگی گزارنے کے لیے پیدا کیا ہے ؟ کیا میرا کوئی اچھا مستقبل نہیں ؟ میں ڈرتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ اللہ کی نظروںمیں بھی بہت بری ہوں، رب مجھ سے ناخوش ہے کیوں کہ سب مجھ سے ناخوش ہیں یا میں شاید حقوق العباد پورے کرنے میں ناکام ہوگئی، اب اللہ مجھے عذاب قبر نہ دے، جہنم میں نہ بھیج دے۔
میں کیسے زندگی گزاروں ؟ وہ کون سا راستہ ہے جسے میں سمجھ نہ پائی ؟ پلیز میری رہنمائی کرکے مجھے بتائیں کہ اتنی ناکام لائف کیوں ہے میری ؟ کیا میں بھی حسد کروں ؟ فیشن کروں ؟ غیبت کروں ؟ لڑائیاں کرواوں؟ خود غرض ہوجاوں؟ زبان چلاوں؟ بدتمیزی کروں؟ کیوں کہ جو برائیاں اپناتا ہے،کامیاب ہوجاتا ہے“
جواب: عزیزم آپ کا مسئلہ بھی کچھ ایسا ہی نظر آتا ہے جیسا اکثر ہم بعض لوگوں میں دیکھتے ہیں کہ وہ نا شکر گزاری کے عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں،آپ کے خط میں سارا زور اور شکوہ شکایت اپنی ماں سے ہے، حالاں کہ ماں نے آپ کے لیے 9 ماہ تک جو اذیت و تکلیف برداشت کی اور پھر آپ کے ہوش سنبھالنے تک جس طرح آپ کا خیال رکھا۔
یہی اتنا زیادہ ہے کہ اس کے بعد کسی شکایت کی گنجائش نہیں رہ جاتی،اگر آپ ساری زندگی بھی اپنی ماں کی خدمت کرتی رہیں تو بھی اس کا حق ادا نہیں کرسکتیں،آپ کو ماں باپ نے پال پوس کر جوان کیا اور آپ کی شادی کردی۔
اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے آپ کو اولاد کی نعمت سے نوازا ہے،اب آپ ایسی باتوں کو بنیاد بناکر اپنی ماں سے شکوے شکایت اور نا انصافیوں کی بات کر رہی ہیں جن کی ہماری نظر میں تو کوئی اہمیت نہیں ہے، اگر ماں نے آپ کو ہمیشہ برا بھلا کہا ، آپ کے عیب گنائے یا اسے آپ میں کوئی خوبی ہی نظر نہیں آئی تو یہ ایسی باتیں نہیں ہیں جن کی وجہ سے آپ اتنی پریشان ہوں اور خود کو دنیا کا ستم رسیدہ ترین انسان سمجھنے لگں۔
جہاں تک بہن بھائیوں کے رویے کا تعلق ہے تو یہ بھی کوئی عجیب اور انہونی بات نہیں ہے،آپ نے لکھا ہے کہ والد اور والدہ کے درمیان ہمیشہ اختلافات رہے،جس گھر میں میاں بیوی کے درمیان اختلافات اور لڑائی جھگڑے مستقل رہتے ہوں، اُس گھر میں بچوں کی درست تربیت نہیں ہوسکتی بلکہ ایسے بچے اکثر مختلف نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ مثلاً حسد، خود غرضی،ظالمانہ رویے، لالچ وغیرہ۔آپ کی بروقت و درست موقعے پر والدین نے شادی کردی اور آپ یقیناً اب اپنے گھر میں شوہر و بچوں کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں،کم از کم اب تو آپ کو والدہ اور بہن بھائیوں کی شکایت نہیں کرنی چاہیے،حیرت کی بات یہ ہے کہ آپ نے اپنے پورے خط میں اپنی ازدواجی زندگی اور شوہر کے بارے میں کچھ نہیں لکھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ازدواجی زندگی اطمینان بخش ہے،صرف ایک جگہ یہ جملہ موجود ہے ”شادی کے بعد سے کرائسز اور نئی نفرتیں مل گئی ہیں
خدا معلوم کون سی نفرتیں اور کرائسز کی طرف اشارہ ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ آپ کو اپنی اصلاح پر توجہ دینی چاہیے، آپ خود حسد، خودغرضی کا شکار ہیں،خدا معلوم کیوں آپ یہ چاہتی ہیں کہ آپ کی والدہ آپ کی تعریف کرں۔ یہاں ہم ایک بات کی اور وضاحت کردیں کہ عموماً مائیں بیٹوں کو زیادہ چاہتی ہیں اور باپ بیٹیوں کو،ہوسکتا ہے۔
آپ کی والدہ اپنی مزاج اور فطرت کے اعتبار سے بیٹوں کو زیادہ اہمیت دیتی ہوں،آپ نے اپنی والدہ کی کسی ایسی زیادتی یا ظلم کی نشان دہی نہیں کی جو واقعی اہمیت کی حامل ہو بلکہ آپ کے خط سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ خود کو بہت ہی مظلوم اور والدہ کو ظالم ترین بلکہ گناہ گار سمجھتی ہیں کیوں کہ نماز پڑھ کے اُن کی زندگی ہی میں اُن کی مغفرت کی دعا مانگتی ہیں اور اپنے ساتھ کی گئی زیادتیوں کے لیے انہیں معاف کردیتی ہیں، کاش آپ کسی ایک زیادتی کی نشان دہی بھی کردیتیں۔آپ کا شمسی برج سرطان اور قمری برج ثور ہے جب کہ پیدائشی برج جوزا ہے۔
یہ درست ہے کہ سرطان افراد ماں کی زیادہ محبت و توجہ چاہتے ہیں اور اس حوالے سے بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ماں اگر زیادہ توجہ نہ دے تو اس کو دشمن سمجھ لیا جائے، قمری برج ثور اور شمسی برج سرطان، پیدائشی برج جوزا کا کمبی نیشن ایسا نہیں ہے کہ آپ کوئی ظلم و زیادتی خاموشی سے برداشت کرلیں جوابی کارروائی میں آپ اپنی مدافعت کرنا جانتی ہیں ۔
بہر حال آپ کا زائچہ بہت اچھا ہے، اسی لیے آپ کی زندگی میں وہ سب کچھ ہے جو ہونا چاہیے،صرف ایک بات ایسی ہوسکتی ہے جوآپ کے عدم اطمینان کا باعث ہوسکتی ہے، اپنے زائچے کی روشنی میں آپ کے لیے دولت اور آرام و آسائش بہت اہم ہیں،ممکن ہے اس حوالے سے کوئی محرومی آپ کی پریشانی کا باعث ہو۔
آپ کے شوہر کی آمدن کم ہو یا وہ آپ کو تنگ دستی میں رکھتا ہو،آپ کے زائچے سے شوہر کی سخت مزاجی ظاہر ہوتی ہے۔ آپ کے مزاج میں بھی غصہ اور اشتعال بہت ہے جس پر کنٹرول رکھنے کی ضرورت ہے بہر حال اب آپ کا زیادہ بہتر وقت شروع ہوگا اور آئندہ زندگی کامیاب گزرے گی، بہتر ہوتا کہ شوہر کی تاریخ پیدائش بھی لکھتیں تاکہ آپ دونوں کے باہمی تعلقات پر بھی روشنی پڑتی، آپ کے لیے وظیفہ یہ ہے کہ پورا پانچواں کلمہ روزانہ ایک تسبیح پڑھ لیا کریں اور اللہ سے اپنی دانستہ و نادانستہ کی گئی غلطیوں کی معافی مانگا کریں،بجائے اس کے کہ آپ اپنی والدہ کو معاف کرتی رہیں،خیال رہے کہ ہر انسان کو اپنے اعمال کا جواب دینا ہے، دوسرے کے اعمال کا نہیں۔
آپ کے لئے لکی اسٹون لاجورد ہے اسے ہفتے کے روز پہن لیںاو لکی انگوٹھی بھی آپ کے لیے فائدے مند ثابت ہوگی ۔
کیا کروں، کیا نہ کروں ؟
امجد علی ،جگہ نا معلوم،لکھتے ہیں ” میں موٹر سائیکل کا کام جانتا ہوںاور مزید تجربے کار ہونا چاہتا ہوں،کیا اسی کام کو سیکھ کر روزی کمانے کا کام کروں؟یا مجھے نیوی میں بھرتی ہونا چاہےے؟میں باہر ملک جا سکتا ہوں، اگر جا سکتا ہوں تو کب تک اور زندگی میں روپے کی ریل پیل ہے یا نہیں؟میں نے سیکنڈ ائیر کا امتحان دیا ہے،میری تعلیم مزید کہا ں تک ہے، میںکار مکینک کا کام سیکھوں یا نہیں؟“
جواب:عزیزم ! آپ کو سارے کاموں کو پس پشت ڈال کر اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہےے اور ابھی سے پیسہ کمانے کی ہوس میں مبتلا نہیں ہونا چاہےے، ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے کہ آپ روپے کی ریل پیل کے چکر میں پڑ گئے ہیں،آپ کا زائچہ بہت اچھا ہے اور آپ اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں مگر چونکہ آپ کا شمسی برج عقرب اور پیدائشی برج حمل ہے جس کا حاکم سیارہ مریخ ہے لہٰذا آپ کی طبیعت میں بے صبری، جلد بازی اورنا فرمانی کا عنصر بھی موجود ہے۔
ممکن ہے حالات بھی آپ کو فوری طور پر پیسہ کمانے کے لئے مجبور کررہے ہوں مگر یاد رکھیں جو لوگ اپنی تعلیمی اور تربیتی بنیادوں کے مضبوط ہونے سے پہلے ہی دولت کے پیچھے دوڑنا شروع کر دیتے ہیں وہ ساری زندگی پھر دوڑتے ہی رہتے ہیںکیونکہ ان کی بنیاد کمزور ہوتی ہے جس کی وجہ سے انہیں زندگی میں ملنے والے بہترین چانس حاصل نہیں ہوپاتے اور وہ اپنی تعلیمی کمی کی وجہ سے دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔
اگر مالی مسائل کی وجہ سے آپ کار مکینک کا کام سیکھ رہے ہیں اسے ایک پارٹ ٹائم جاب کے طور پر کرتے رہیں مگر اپنا تعلیمی کرئر جاری رکھیں اسے کسی قیمت پر نہ چھوڑیں اگر نیوی میں کوئی چانس مل رہا ہے تو وہ بھی اچھا ہے لیکن ہمیں امید نہیں ہے کہ آپ کو فی الحال کوئی سرکاری جاب مل سکے گی، بے شک آپ مستقبل میں باہر بھی جا سکتے ہیں مگر باہر جا کر کیا کریں گے، ٹیکسی چلائیں گے یا کسی ہوٹل میں پلیٹیں صاف کریں گے؟آپ کے لئے بہترین مشورہ یہی ہے کہ اپنی تعلیم مکمل کریں خواہ اس کے لئے آپ کو کچھ بھی کرنا پڑے، بے شک آپ ٹیکنیکل مائنڈ ہیں لہٰذا اگر کمپیوٹر کورسز کریں تو زیادہ بہتر ہوگا، موٹر سائیکل یا کار مکینک ہونا آج کے زمانے میں زیادہ فائدہ بخش کام نہیں ہے۔
پیدائشی کمزوری
راشد علی، حیدرآباد:عزیزم !آپ کا زائچہ کافی کمزور ہے جس کی وجہ سے ابتداءہی سے زندگی میں مشکلات اور محرومیاں نظر آتی ہیں‘آپ کا شمسی برج جدی اور پیدائشی برج جوزا ہے جبکہ قمری برج قوس ہے زائچے کے آٹھوےں گھر میں شمس، زہرہ اور مریخ موجود ہیں جبکہ سیارہ مشتری بارھویں گھر میں ہے چار اہم سیار گان زائچے میں اگر منحوس گھروں میں ہوں تو زندگی کافی مشکل ہو جاتی ہے۔ خوشیاں اورکامیابیاں خواب و خیال بن جاتی ہیں۔ آپ کی تو ازدواجی زندگی بھی اطمینان بخش نظر نہیں آتی۔
آپ کا حاکم سیارہ عطارد ہے وہ زائچے کے ساتویں گھر میں کمزور ہے، آپ کے زائچے میں واحد طاقت ور سیارہ زحل ہے یا قمر ہے۔بہر حال ایسی صور ت حال میں خاتم عطارد یا لوح عطارد یقیناً فائدے مند ہو سکتی ہے مگر ایسے زائچوں کو دیکھتے ہوئے کچھ خصوصی روحانی علاج کی ضرورت ہوتی ہے جو بہر حال آسان نہیں ہوتا۔لہٰذا اس وقت تک جو کام بھی کررہے ہیں کرتے رہیں، باقی مشورہ براہ راست فون پر کر لیں۔
اتنے بدقسمت کیوں ؟
ت، الف جگہ نامعلوم لکھتی ہیں ”میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر دنیا میں کچھ لوگ لا علاج کیوں ہوتے ہیں، ان کے ساتھ اتنے مسائل کیوں ہوتے ہیں، آخر ہم جیسے مایوس لوگ اپنی آخری سانسوں تک زندگی کا مقابلہ کیوں کرتے رہتے ہیں؟ میں بہت پریشان اور مایوس ہوں ہمارے ساتھ پیدائش کے بعد سے ہی نا معلوم کون کون سے مسئلے ہیں جو کہ تمام تر کوششوں کے باوجود حل ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں اور شاید حل بھی نہ ہوں، یہ زندگی تمام ہوجائے۔
گناہ تو سب سے ہوتے ہیں مگر معاف بھی ہوجاتے ہیں، ہم سے نامعلوم کون سی غلطی یا گناہ ہوگیا ہے کہ ابھی تک ہم تمام گھر والے گرفت میں ہیں، سب بہن بھائیوں کی قسمت آخر ایک جیسی کیوں ہوتی ہے ؟میرا بھائی ابھی تک شادی جیسی سعادت سے محروم ہے اور میرا مسئلہ بھی یہی ہے، بھائی کی تعلیم میٹرک ہے، گورنمنٹ کی ملازمت ہے۔ پانچ وقت کا نمازی ہے،عادت کا بھی بہت اچھا ہے، ہر کسی کا خیال رکھنے والا مگر جس جگہ بھی اس کا رشتہ لے کر جاتے ہیں، مایوسی ملتی ہے۔
حد یہ کہ ان گھروں سے بھی انکار ہوجاتا ہے جہاں لڑکی پڑھی لکھی نہیں ہوتی۔میرے بھائی میں کوئی برائی نہیں ہے، میں جھوٹ نہیں لکھ رہی ہوں، یہ بالکل سچ ہے، جو بھائی اپنی بہنوں کی کفایت کرنے والا ہو، ایک بیوہ ماں اور دو بھانجیوں کا سرپرست ہو وہ آخر کیوں ہر چیز سے محروم ہو، اس کے ساتھ والے تمام دوست و احباب جوان بچوں کے باپ بن چکے ہیں، میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ آپ بتایئے بھائی کی شادی ہوجائے گی یا نہیں ؟ کب تک ہوگی اور کس سے ہوگی ؟پلیز میں اس وقت بہت ٹینشن میں آپ کو یہ خط لکھ رہی ہوں کیوں کہ کل شام کو ہی ایک جگہ سے انکار ہوا ہے حالاں کہ لڑکی کی تعلیم بھی کچھ نہیں ہے وہ لوگ بھی بس واجبی سے ہیں مگر افسوس! ہم اور ہماری قسمت ۔
خدا ایسی قسمت کسی کی بھی نہ بنائے، آپ کو میرے الفاظ شاید بہت ناگوار لگیں مگر آپ بتایئے آخر ہم ہر معاملے میں کیوں اتنے بد قسمت ہیں ؟ محاورہ ہے کہ کوشش سے ہر چیز مل جاتی ہے مگر ہمارے ساتھ معاملہ کچھ الگ ہے، جتنی کوشش کرو اتنے ہی محروم بن جاتے ہیں
جواب: عزیزم ! ضروری ہے کہ آپ کو بہت صاف اور کھرے انداز میں جواب دیا جائے، اس صورت میں اگر ہماری کوئی بات ناگوار گزرے تو ہم پہلے سے معذرت خواہ ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے اپنے بھائی کی جو خوبیاں بیان کی ہیں وہ آج کے زمانے میں خوبیاں نہیں بلکہ خامیاں ہیں، آج کل لوگ دوسرے کی مالی پوزیشن پہلے دیکھتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں، صورت،شکل ،سیرت وغیرہ کوئی نہیںدیکھتا، آپ کا بھائی زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہے، میٹرک تو کیا آج کل گریجویٹ کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
گورنمنٹ ملازمت یقیناً ایک اچھی بات ہے مگر تعلیم کی کمی کے سبب میٹرک پاس اگر چپراسی بھرتی ہوگا تو زندگی بھر چپراسی ہی رہے گا،وقت کے ساتھ ساتھ اُس کی تنخواہ ضرور بڑھے گی مگر کس حد تک؟ یہ آپ بھی جانتی ہیں اور وہ لوگ بھی جانتے ہوں گے۔
جہاں رشتے کی بات شروع ہوگی پھر اسی تنخواہ میں وہ بقول آپ کے اپنی والدہ ، بہنوں اور دو بھانجیوں کا بھی سرپرست ہے، اس کے بعد اُس کی تنخواہ میں سے بیوی کے لیے کیا بچے گا ؟عزت سے دو وقت کی روٹی تو وہ اپنے ماں باپ کے گھر میں بھی کھا رہی ہے۔آخر ہر لڑکی اور اس کے ماں باپ کے کچھ خواب ہوتے ہیں کہ وہ اپنے شوہر کے گھر جاکر زیادہ عیش و آرام کی زندگی گزارے گی اس کا ہاتھ مالی طور پر تنگ نہیں رہے گا۔ وہ اپنی مرضی سے خرچ کرسکے گی اور یہ خواب ناجائز بھی نہیں ہےں،ہمارا خیال ہے کہ رشتوں میں انکار کی پہلی وجہ تو یہی صورت حال ہے اور دوسری وجہ آپ کے بھائی کی عمر ہوسکتی ہے کیوں کہ بہر حال بقول آپ کے ان کے دوست احباب اب جوان بچوں کے باپ بن چکے ہیں اور آپ اب بھی ان کے لیے شاید کم عمر کنواری لڑکیاں دیکھتی پھر رہی ہیں۔
خدا ترسی اور نیکی تو یہ ہوگی کہ آپ کسی بیوہ یا مطلقہ عورت کے سر پر ہاتھ رکھیں، اگر اس کے ایک دو بچے بھی ہوں تو انہیں بھی دل سے قبول کریں پھر دیکھیں اللہ ان کے نصیب سے اور آپ کے اس کار خیر کے صلے میں آپ کے خاندان پر کیسی نوازشیں کرتا ہے، وہ کسی کا ادھار رکھنے کاقائل ہی نہیں ہے مگر یہ سوچ پیدا کرنا بڑا مشکل کام ہے،یہاں تو اپنی انا اور عزت کے مسائل کھڑے ہوجائیں گے کہ ہم اپنے کنوارے بھائی کے لیے کوئی بچوں والی، مطلقہ یا بیوہ کیوں لے کر آئےں؟ دنیا اور خاندان والوں کو کیا منہ دکھائیں گے؟
جب بات پوری سچائی کے ساتھ ہورہی ہے تو ایک حقیقت اور بھی بیان کرتے چلیں جو ظاہر ہے آپ تو شاید نہ سمجھ سکیں مگر ہمارا تجربہ یہ ہے کہ بڑے بڑے تجربہ کار اور بزعم خود دانش مند بھی نہیں سمجھتے یا اسے نظر انداز کردیتے ہیں کیوں کہ اس حقیقت کا تعلق میڈیکل کے علم سے بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کے بھائی عمر کی جس منزل میں ہیں ، ضروری نہیں ہے کہ شادی کے بعد ان کے ہاں اولاد کی پیدائش یقینی ہو، خدا نخواستہ اگر شادی کے بعد ایسی کوئی پرابلم پیدا ہوتی ہے تو بھی پہلے سے موجود بچوں کی وجہ سے کوئی کمی محسوس نہیں ہوگی۔
یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ اگر آپ زیادہ عمر کی کوئی کنواری لڑکی بیاہ کرلاتی ہیں تو اس صورت میں بھی اولاد کے حوالے سے مسائل سامنے آسکتے ہیں، میڈیکل کا علم رکھنے والے افراد ان باریکیوں کو سمجھتے ہیں، ہمارا خیال ہے کہ ہم نے آپ کے ایک مسئلے پر درست روشنی ڈال دی ہے،اب اسے حل کرنا یا نہ کرنا، آپ کے اور آپ کے گھر والوں کے اختیار میں ہے، بظاہر یہ بڑی کڑوی گولی ہے مگر اس کی حقیقی مٹھاس کا اندازہ اسے نگلنے کے بعد ہوسکے گا۔
ممکن ہے آپ کا جوابی سوال اور اعتراض یہ ہو کہ آخر ہم نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے یا ہم سے کیا غلطی ہوئی ہے کہ ہم اگر بھائی کی شادی بھی کریں تو اس طرح کریں کہ ہمارے دل کے ارمان دل ہی میں رہ جائیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ پوری ایمانداری سے یہ یاد کرنے کی کوشش کریں کہ آپ کو یا آپ کے بھائی کو شادی کا خیال پہلی بار کب آیا اور اس کے لیے آپ نے سنجیدہ کوششیں کب شروع کی تھیں؟
ہمارا اندازہ ہے کہ خاندانی مسائل اور پریشانیوںکی وجہ سے آپ کے بھائی کو گھر کے سرپرست کی حیثیت سے جو ذمہ داریاں اٹھانا پڑی ہوں گی ان میں شادی کے مسئلے کو ہمیشہ دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہوگا اور جب یہ احساس ہوا ہوگا کہ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے، عمر کی ڈور تیزی کے ساتھ ہاتھ سے نکل رہی ہے تو پھر حسب منشا رشتے ملنا مشکل ہوگئے ہوں گے،آخری بات یہی ہے کہ اگر آپ کے گھر میں دولت کی ریل پیل ہو تو بھائی کے لیے پسندیدہ رشتوں کی لائن لگ جائے گی،یہ بڑی سیدھی سچی اور سامنے کی بات ہے لہٰذا اپنی بدقسمتی کا رونا رو کر اللہ کو (معاذ اللہ) موردِ الزام نہ ٹھہرائیں ، سمجھ لیں کہ آپ نے اور آپ کے اہل خانہ نے خدا معلوم کن مجبوریوں اور مصلحتوں کی وجہ سے زندگی کے اہم فیصلوں میں تاخیر کی ہے تو اب اس تاخیر کا خمیازہ تو سامنے آئے گا۔
آپ کا ذاتی مسئلہ بھی تقریباً بھائی کے مسئلے سے ملتا جلتا ہے اور وقت آپ کے ہاتھ سے نکل چکا ہے،پچھلے چند سال سے آپ زحل کی نحوست کا شکار بھی ہیں لہٰذا غلط جگہ امید لگائے بیٹھی ہیں، اس سلسلے میں کامیابی اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب آپ اور فریق ثانی کوئی بولڈ اسٹیپ لیں یعنی کورٹ میرج وغیرہ کرلیں،دوسری کوئی صورت نارمل انداز میں ممکن نہیں ہوگی، اگر آپ یا وہ صاحب یہ سوچتے ہوں کہ کبھی نہ کبھی تو گھر والے مان جائیں گے تو اس کا امکان نہیں ہے۔
آپ لوگوں کو اگر کچھ کرنا ہے تو کر ڈالیں ورنہ اس سلسلے کو ختم کردیں تاکہ اللہ آپ کے لیے کوئی دوسرا راستہ کھول دے،آخری بات آپ کے لیے یہ ہے کہ فریق ثانی آپ سے شادی کے سلسلے میں ہمیں مخلص نظر نہیں آتے، آپ کو چاہیے کہ مرجان اور سفید پکھراج کے نگینے پہن لیں ، مزید کوئی بات وضاحت طلب ہو تو فون پر رابطہ کرسکتی ہیں۔