معاشرے میں اخلاقی اقدار کا فقدان
اخلاقی انحطاط قوموں کے زوال اور تباہی کاسبب بنتاہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرے میں اخلاقی اقدار کا فقدان ہے۔ حضورِ اکرمﷺ کا قولِ اطہر و افضل ہے کہ”تم میں سے بہترین مومن وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں”۔
آپ سرکارِ دوعالمﷺ کے ہر ارشادِ پاک میں آفاقی سچائی کے ساتھ علم و حکمت کی ایسی گہرائی موجود ہے جس کی تہہ تک پہنچنے میں اکثر لوگوں کو صدیوں کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔
اگر ہم تاریخ عالم پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں تباہی و بربادی کا شکار وہی قومیں ہوئیں جو اخلاقی اقدار کے آخری درجے پر پہنچ چکی تھیں اور ایسی ہی قوموں کی طرف اصلاح احوال کے لیے انبیاء بھیجے گئے لیکن جب ان قوموں نے اللہ کے نبیوں کی بات پر توجہ نہ دی، انہیں جھٹلایا تو پھر قہرِ خداوندی جوش میں آگیا اور ایسی قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا گیا۔
اخلاقی انحطاط قوموں کے عروج وزوال میں ہمیشہ اہم کردار ادا کرتارہا ہے۔ نبوت کے اختتام کے بعد بھی قوموں کا عروج وزوال اخلاقی خوبیوں اور خامیوں کا مرہونِ منت رہاہے۔
مسلمانوں کا عروج اس وقت تک ہی برقرار رہا جب تک ان میں اخلاقی اقدار اعلی سطح پر موجود رہیں اور جب اخلاقی پستی شروع ہوئی تو عالمِ اسلام کا نصف النہار پر جگمگاتا سورج اپنی روشنی کھونے لگا۔
تقریباً ایک ہزار سال مسلمانوں نے پوری دنیا پر حکمرانی کی اور وہ ہمیشہ ایک عالمی لیڈر کے طورپر نمایاں رہے۔ شاید اٹھارہویں صدی عیسوی سے عالمِ اسلام مائل بہ زوال ہوچکا تھا۔
سترہ سو سات عیسوی اورنگزیب عالمگیر کی وفات کا سال ہے۔ اس کے بعد برِصغیر میں بھی مسلمانوں کی قیادت واقتدار کاسورج غروب ہوگیا۔ اخلاقی انحطاط بڑھنے لگا جس کے نتیجے میں اخلاقی برائیاں بھی معاشرے میں پھیلنے لگیں اور بالآخر پورا برصغیر سات سمندر پار سے آنے والے تاجروں کا محکوم اور غلام بن گیا۔
انیسویں صدی کے آخری پچیس سالوں میں اس خطے کی خوش نصیبی کے سبب چند ایسے نابغہ روزگار پیدا ہوئے جو روحِ حُرّیت سے سرشار تھے اور اخلاقیات کے حوالے سے اپنی مثال آپ تھے۔ ان میں سرِ فہرست ڈاکٹر محمد اقبالؒ، محمد علی جناحؒ، کرم چند گاندھی، محمد علی جوہرؒ، مولانا حسرت موہانیؒ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ لوگ اخلاقیات کے اعلی معیار کی پاسداری کرتے تھے لہذا قوم ان کے اردگرد اکٹھا ہوگئی اور ان کی قیادت میں بالآخر غلامی سے نجات حاصل کرلی۔
زندگی کا کو ئی بھی شعبہ ہو، اخلاقی معیار کا فلسفہ اس پر لاگو ہوتاہے۔ ایک دکان دار اگر بااخلاق نہیں ہے تولوگ اس کی دکان پر آنا چھوڑ دیں گے۔ اخلاقیات کا ایک اہم ترین پہلو یہ ہے کہ آپ کسی بھی شعبے سے وابستہ ہوں، اپنے کام سے مخلص رہیں اور آپ کو اپنے پروفیشن کے حوالے سے اپنی عزت اور وقار کا پاس رہے۔ صرف دولت کمانا ہی آپ کا اصل مقصد نہ ہو۔
بدقسمتی سے اخلاقیات کا یہی پہلو ہمارے معاشرے سے رخصت ہوچکا ہے۔ کوئی بھی شعبہ لے لیجئے، لوگ صرف دولت کے حصول میں مصروف نظر آتے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ وہ جو کام بھی کر رہے ہیں اس کے حوالے سے معاشرے میں ان کاقدوقامت اور مقام کیا ہے؟ بلکہ اپنے قد کو مصنوعی طورپر بڑا کرنے کے لیے پبلسٹی کا سہارا لیا جاتاہے اور اس حوالے سے زرِ کثیر خرچ کیا جاتاہے۔ گویا ایک طرح سے اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی پریکٹس ہوتی ہے۔ سادہ لوح عوام ایسے مصنوعی قدوقامت کے حامل کاروباری افراد کے جال میں پھنس کر نقصان اٹھاتے ہیں اور یہ نقصان کبھی کبھی جان لیوا بھی ثابت ہوتاہے۔
میڈیکل کا شعبہ خاص طورپر ملک بھر میں ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ بڑے بڑے نام محض دولت بٹورنے میں مصروف ہیں۔ معالج جس کو مریض کی صحت اور شفا یابی کے عمل سے دلچسپی ہونی چاہیے، محض اپنے وقت کی قیمت وصول کرنے میں مصروف رہتاہے۔ جب تک مریض کسی ایمرجنسی کی حدود میں داخل نہیں ہوتا اس وقت تک اس پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی اور ایمرجنسی کی حدود میں داخل ہونے کے بعد بھی وہ صرف اتنی ہی توجہ کا مستحق ٹھہرتا ہے جتنا معالج کے پاس اس کے لیے وقت ہے۔ دوسری طرف مارکیٹ میں پھیلا ہوا دونمبر دواوں کاکاروبار بھی عروج پر ہے۔ یہ بھی اخلاقی انحطاط کی نشانی ہے کہ لوگ صرف پیسہ کمانے کے لیے انسانی زندگی سے کھیلنے لگیں۔
ہمارے مشاہدے میں اکثروبیشتر ایسے مریض آتے رہتے ہیں جن کی تکلیف یا بیماری ابتدائی مرحلے میں بڑی معمولی نوعیت کی تھی لیکن معالجین کی غفلت اور بے پروائی یا غلط دواوں کے استعمال کی وجہ سے سنگین نوعیت اختیار کرگئی۔
تھوڑے دن پہلے ایک نوعمر لڑکی جس کی عمر بمشکل بیس اکیس سال ہوگی، اپنے والد کے ساتھ ہمارے پاس آئی۔ اس کی شادی کو تھوڑے ہی دن ہوئے تھے۔ معلوم ہوا کہ آرتھرائیٹس کی مریضہ ہے۔ بڑی حیرت ہوئی۔ یہ بیماری اتنی کم عمر میں تو خال خال ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ پھر اس بچی کو کیسے ہو گئی؟
در حقیقت یہ بھی غفلت اور بے پروائی کے سبب بگاڑا ہوا ایک کیس تھا۔ شادی سے پہلے اسے ٹائیفائیڈ ہوا تھا جس کے علاج میں کافی وقت لگا اور بعد میں یہ بیماری شروع ہوگئی۔ اب چوںکہ ایلوپیتھک طریقہ علاج میں آرتھرائیٹس کا کوئی شافی علاج موجود نہیں ہے لہذا آخری حربے کے طورپر کارٹیزون کے مرکبات استعمال کرائے جارہے تھے۔
جب کسی مریض کو کارٹیزون استعمال کرا دی جائے تو پھر کسی اور دوا کی گنجائش نہیں رہتی۔ ایک اور مریضہ کامعاملہ یہ تھا کہ اسے ملیریا ہواتھا اور ملیریے کے علاج کے بعد شدید قسم کے دست شروع ہوگئے جو رکنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ اسے بھی بالآخر کارٹیزون پر ڈال دیا گیا۔ تاحال اس کے دستوں کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ جب بھی موشن شدت اختیار کرتے ہیں ڈیلٹا کارٹیئل دے دی جاتی ہے۔ یہ ٹیبلٹ کارٹیزون کا مرکب ہے۔
آئیے ایک کیس کا مطالعہ کیجئے اور دیکھئے ہمارے ملک میں میڈیکل کے شعبے کی کارکردگی کیا ہے؟
ع۔ ن، نامعلوم مقام سے لکھتی ہیں میرا پہلا مسئلہ جو زندگی کو ختم کرکے ہی ختم ہوگا، میں تفصیل سے لکھ رہی ہوں، یہ میری ناک کی سوجن کا مسئلہ ہے۔
گرمیوں کا موسم تھا، بیٹھے بیٹھے سوجن ہوئی، ناک کی بائیں طرف جس طرف ناک کو چھدوایا جاتاہے اور لونگ ڈالا جاتاہے۔ آج پانچ چھ سال ہوگئے ہیں، علاج بھی بہت کروایا لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا ابتدا میں جب سوجن ہوئی تو میں نے آئینے میں ناک کو تھوڑا اندر کی طرف دیکھا تو ہلکی سے جگہ سرخ تھی اور نہ ہونے کے برابر ایک پھنسی تھی۔ پھر بڑھتے بڑھتے کام زیادہ لمبا ہوگیا۔ ڈاکٹروں کے پاس گئی۔ انگریزی گرم دوائیں کھائیں کہ اگر اس کے اندر مواد وغیرہ ہے تو ختم ہوجائے لیکن اس سوجن پر کسی بھی چیز کا اثر نہ ہوا۔
ایسا لگتا ہے کہ پہاڑ رکھا ہوا ہے۔ میں نے یہ پانچ سال بڑی اذیت میں گزارے ہیں اور اب بھی گزار رہی ہوں۔ سوال یہ ہے، کوئی دوائی اس پر اثر کیوں نہیں کرتی۔ گھر کے قریب ایک فوجی ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹا سا آپریشن ہوگا۔
ہم نے ڈاکٹر کو بتایا تھا کہ پھنسی سی نکلی ہے اور سوجن ہو گئی ہے۔ میں نے بہت عرصہ پہلے ناک چھدوائی تھی۔ بعد میں وہ سوراخ بند ہو گیا اور اس جگہ سختی آگئی تھی۔ ڈاکٹر نے ہاتھ لگا کر انگلی سے دبایا تو وہ جگہ سخت تھی۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اندر گند جمع ہوگیا ہے اس کا آپریشن ہوگا۔ جب قسمت ساتھ نہ دے تو کوئی چیز فائدہ نہیں کرتی۔ بلکہ الٹا ہی نتیجہ نکلتا ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔
ڈاکٹر صاحب نے اندر ذرا سا کٹ لگا کر آپریشن کردیا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا بلکہ سوجن اور بڑھ گئی۔ سب نے کہا ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اب اس سوجن نے زندگی عذاب بنا رکھی ہے۔ کوئی دوا کوئی دعا اس پر اثر نہیں کرتی۔
مجھے خواب میں اکثر بلکہ روزانہ بھینس، گائے نظر آتی ہیں۔ یہ سلسلہ بھی چارپانچ سال سے چل رہاہے۔ کوئی کہتا ہے کہ جادو سے چہرے کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ بھی ہوسکتاہے کیوں کہ ہمارے رشتے دار سارے دشمن کی طرح ہیں۔ کسی پر کوئی اعتبار نہیں۔
ایک ڈاکٹر کہتا ہے بال کی جڑ خراب ہوئی ہے۔ ایک بزرگ نے بتایا کہ سائے کی نظر لگی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ دوائیوں کا کام ہی نہیں ہے۔ سورہ فلق پڑھ کر چہرے پر پھونک ماریں۔ پھر کسی نے کہا کہ سیارگان کی نحوست اور گردشِ ایام کے بد اثرات ہیں۔
اب میں کیا کروں؟ ہرطرح کا علاج کرکے تھک چکی ہوں لیکن اس پر کوئی چیز اثر ہی نہیں کرتی۔ سوجن کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ناک موٹی ہو گئی ہے۔ اس میں غبارے کی طرح ہوا بھر گئی ہے۔ اب پھر ایک ڈاکٹر نے آپریشن کے لیے کہا ہے لیکن میں اب آپریشن نہیں کرانا چاہتی۔
کیا کلامِ الٰہی میں ایسی طاقت نہیں ہے کہ میرا یہ مسئلہ حل ہو سکے۔ آپ کوئی آیت یا اسمِ الٰہی بتا دیں۔ ویسے تو میں بہت کچھ پڑھتی رہی ہوں مگر معلوم نہیںکیوں میری دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔“
جواب: عزیزم ! بے شک آپ کا مسئلہ ناک چھدوانے سے شروع ہوا ہے۔ اکثر ناک چھیدنے والے احتیاط نہیں کرتے، جس کی وجہ سے انفیکشن ہو جاتاہے۔
اگر آپ اس وقت کسی ہومیوپیتھک ڈاکٹر سے رجوع کرتیں تو شاید صورتِ حال آج کچھ اور ہوتی اور یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ نہ ہوتا۔ اب بھی اگر آپ ہومیوپیتھک علاج کریں تو آپ کو مکمل شفا ہوسکتی ہے۔ باقی جہاں تک جادو یا سائے وغیرہ کی بات ہے تو وہ غلط ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ ناک چھدوائی میں بے احتیاطی سے جو خرابی پیدا ہوئی وہ نشتر لگنے سے مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔
اگر اب بھی معقول علاج نہ کیا گیا تو یہ مسئلہ بالآخر کینسر بن سکتا ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ اب تک کہیں ایسا ہونہ چکا ہو۔ جتنی جلدی ممکن ہوسکے کسی قابل اور تجربہ کار ہومیو پیتھک ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
آپ نے روحانی علاج کے لیے بھی مشورہ مانگا ہے لہذا ہم ایک طریقہ لکھ رہے ہیں جو ضدی اور مہلک امراض میں شفایابی کے سلسلے میں اچھا وسیلہ بنتا ہے۔ آپ اس پر عمل کریں۔
عمل برائے مہلک امراض
یہ عمل مہلک اورضدی بیماریوں کے علاج میں مفید ہے۔ اس کے علاوہ سحر جادو یا آسیب زدہ مریضوں کے لیے بھی فائدہ بخش ہے۔
نوچندے اتوار، منگل یا بدھ سے شروع کریں۔ چینی کی پلیٹ پر زعفران کی روشنائی سے پہلے پوری بسم اللہ لکھیں۔ پھر پوری سورہ فاتحہ لکھیں۔ پھر چہل اسماءکا یہ اسم لکھیں اور پوری پلیٹ بھر دیں۔ پھر اس پلیٹ پر عرقِ گلاب ڈال کر دھو لیں۔ وہ عرقِ گلاب ایک پیالی میں نکال لیں اور اس میں شہد ملا کر پی لیں۔
یہ عمل ہر مہینے عروجِ ماہ میں سات دن کریں اور تین ماہ تک یا ضرورت محسوس ہو تو سات ماہ تک جاری رکھیں۔ انشااللہ مہلک سے مہلک بیماری یا خطرناک سے خطرناک سحر جادو کا زور بھی ٹوٹ جائے گا۔ جسمانی بیماریوں کے علاج میں مادی علاج بھی ساتھ ساتھ جاری رکھیں۔ اس اسم کو زبانی یاد کرلیں اور چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے اپنے ورد میں رکھیں۔
یَاحَیُّ حِینَ لَاحَیُّ فِی دَ یمُومَةِ مُلکِہ وَبَقَآئِہ یَا حَیُّ
آپ کے زائچے میں سیارہ مریخ چھٹے خانہ ء صحت کا حاکم ہوکر زائچے کے بارہویں گھر میزان میں بیٹھا ہے۔
چھٹے گھر کا حاکم بہت نحس ہوتا ہے۔ یہ جس گھر میں بھی موجود ہو اس کی منسوبات کو نقصان پہنچاتا ہے۔
بارہویں گھرکا تعلق چہرے کے بائیں حصے سے ہے لہذا بائیں ناک متاثر ہوئی ہے۔ پھوڑے پھنسیاں اور جلدی امراض، انجری، تیزدھار آلے سے زخم لگنا یا آگ سے جلنا وغیرہ مریخ کی منسوبات میں شامل ہیں۔
آپ کو آپریشن سے ہر صورت میں پرہیز کرنا چاہیے۔ منگل کے دن کسی سرخ چیز کا صدقہ دیا کریں اور منگل کو نفلی روزہ رکھا کریں۔
شادی نہیں ہوتی
س۔ی۔ل، نواب شاہ سے لکھتی ہیں میری شادی میں بہت تاخیر ہوگئی ہے اور میں اس کی وجہ سے بہت پریشان ہوں۔ آپ بتائیں کہ اس کی وجہ کیاہے؟ اور شادی کب تک ہوگی؟
جواب: عزیزم! آپ کا شمسی اور قمری برج جدی جبکہ پیدائشی برج عقرب ہے۔ بے شک آپ کا زائچہ پیدائشی طور پر خاصا کمزور ہے۔ جس کی وجہ سے زندگی کے ہر معاملے میں تاخیر نظر آتی ہے۔
آپ کی شادی کا ستارہ مریخ ہے، جو زائچے کے آٹھویں گھرمیں اور قمر سے چھٹے گھرمیں ہے لہذا آپ منگلیک بھی ہیں۔
اگر آپ کی شادی ہو گئی ہوتی تو ناکامی کا امکان موجود تھا کیوں کہ منگلیک افراد کی شادی اگر تینتیس سال کی عمر سے پہلے ہو جائے تو اکثر ناکام ہوتی ہے یا پھر کسی منگلیک سے ہی شادی ہو تو کامیاب رہتی ہے۔ بہر حال اب آپ عمر کے چوتینسویں سال میں قدم رکھ چکی ہیں لہذا منگلیک کا اثر ختم ہوگیا ہے۔ زائچے میں سیارہ زحل کا موافق دور چل رہا ہے۔ لہذا آپ کی شادی آئندہ سال ہوجائے گی لیکن غیروں میں ہوگی اور پسند سے ہوگی۔
یہ الگ بات ہے کہ آپ کی پسند ضروری نہیں ہے کہ بہت اچھی ہو۔ آپ کا شوہر سخت مزاج اور جارحانہ فطرت کا مالک ہوگا۔ اگرچہ منگلیک کا اثر ختم ہوگیا ہے لیکن آپ کے زائچے میں بعض خرابیاں ایسی موجود ہیں جن کی وجہ سے آپ کی ازدواجی زندگی خوشگوار نظر نہیں آتی اور شادی کے بعد شوہر سے علیحدگی یا طلاق کا خطرہ موجودہے۔
بہتر ہوگا کہ شادی سے پہلے اس کا زائچہ اپنے زائچے سے میچ کرائیں۔ آپ کے لیے نیلم یا نیلا ترملین پہننا انتہائی مبارک ثابت ہوگا۔
عزیزم! حقیقت یہ ہے کہ آپ کا زائچہ خاصا مشکل اور سخت زائچہ ہے۔ جس کا صرف ایک ہی پہلو ہمیں بہتر نظر آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر آپ اپنا کرئیر بنانا چاہیں تو اس میں بہت آگے جاسکتی ہیں۔
اگر اپنا کوئی ذاتی کاروبار کریں تو اس میں بھی بہت ترقی کریں گی۔ اس طرح اولاد کے سلسلے میںبھی آپ خوش قسمت رہیں گی۔
زندگی کے دیگر شعبوں سے متعلق پہلو بہر حال کمزور ہیں۔ ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ آپ کے زائچے کے مطابق آپ کے اندر نسوانی مزاج سے زیادہ مردانہ مزاج اور خصوصیات نظر آتی ہیں۔ آپ کسی کی ماتحتی یا غلامی نہیں کرسکتیں۔ یہ بات بھی کامیاب ازدواجی زندگی کے لیے ایک خطرہ ہے۔