شادی سے پہلے اور شادی کے بعد پیدا ہونے والے حالات کی ایک جھلک
ہمارے موجودہ معاشرے میں دیگر مسائل کے علاوہ جن میں معاشی مسائل سرفہرست ہیں، لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ نہایت پے چیدہ اور خطرناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس مسئلے کے حوالے سے گزشتہ چند سالوں میں ہم کئی بار لکھ چکے ہیں اور اس کی مختلف وجوہات زیربحث لاچکے ہیں۔ بنیادی وجہ تو ظاہر ہے کہ معاشی ہی ہے۔ ملک میں بے روزگاری، کم علمی، بے ہنری روز بہ روز بڑھتی جا رہی ہے اور اس سے متاثر ہونے والی ہماری نوجوان نسل میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ چناںچہ لڑکیوں کے لیے مناسب رشتوں کا قحط ہے۔ ایسے نوجوانوں کی تعداد بہت کم ہے جو لڑکیوں کے والدین کے لیے اطمینان بخش ہوں۔ لڑکیوں کی تعداد بھی لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور تعلیمی میدان میں بھی یہ لڑکوں سے آگے ہیں، لہٰذا ایک تعلیم یافتہ لڑکی یا اس کے والدین تعلیمی حوالے سے کسی کم زور رشتے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ جو تعلیم یافتہ، باہنر اور باصلاحیت لڑکے موجود ہیں، ان کے والدین کے دماغ آسمان پر پہنچ جاتے ہیں اور لڑکوں کا بھی یہی حال ہوتا ہے۔ بعض لڑکے یا ان کے سرپرست تو اپنی اس کوالٹی کو کیش کرانے کا منصوبہ بنا لیتے ہیں اور پھر ایسے گھروں کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں جہاں لڑکی کے ساتھ مال و زر بھی موجود ہو۔ ایسی سوچ کے ساتھ کی گئی شادیاں عموماً مشکل سے کامیاب ہوتی ہیں اور ازدواجی زندگی میں حقیقی خوشیاں نہیں رہتیں۔ درحقیقت یہ شادی نہیں کاروبار ہوتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ دولت کے لالچ میں نوجوان لڑکے اپنی عمر سے زیادہ عمر کی لڑکی سے شادی کر لیتے ہیں، کنوارے ہوتے ہوئے بیوہ اور بچوں والی مطلقہ سے شادی کے لیے راضی ہو جاتے ہیں۔ یہ کام دولت کے لالچ میں نہ ہو تو بہترین ہے اور اللہ کو راضی کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ دونوں میں حقیقی محبت پیدا ہوتی ہے مگر دولت کے درمیان میں آنے سے بے شمار خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں جن کا مشاہدہ ہم نے خود اکثر کیسوں میں کیا ہے۔ ایسی شادیاں مجبوریوں کے بندھن میں بندھی زندگی کے اونچے نیچے راستوں پر اپنا سفر ضرور جاری رکھتی ہیں مگر ایسے جوڑوں کی ازدواجی زندگی میں حقیقی خوشیوں کا فقدان ہوتا ہے۔
فی زمانہ جہاں شادی ایک بہت مشکل اور الجھا ہوا مسئلہ بن چکی ہے، وہیں کامیاب و خوش گوار ازدواجی زندگی بھی کچھ کم پے چیدہ مسئلہ نہیں ہے۔ چناں چہ ہمارے معاشرے میں ناکام شادیوں کا تناسب بڑھتا چلا جار ہا ہے۔
شادی کی ناکامی کی بھی دو صورتیں ہیں۔ اوّل تو یہی کہ شادی مکمل طور پر ناکام ہو کر نوبت طلاق پر پہنچ جاتی ہے، لیکن دوسری صورت زیادہ عذاب ناک اور سخت ناپسندیدہ ہے۔ اس صورت میں سب سے زیادہ نقصان عموماً عورت اور اولاد کو اٹھانا پڑتا ہے۔
اس صورت میں شادی کا نتیجہ طلاق کی صورت میں نہیں نکلتا، بلکہ دونوں ساری زندگی لڑتے جھگڑتے، ایک دوسرے سے ناخوش اور بے زار رہتے ہیں۔ اس ناخوشی اور لڑائی جھگڑے کے اثراتِ بد سے بچے متاثر ہوتے ہیں اور ان کی زندگی میں بہت سے نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں جو اکثر تمام زندگی پریشان کرتے ہیں۔ ایسے بچوں میں اگر کچھ بری عادتیں جنم لینے لگیں تو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔
دیکھنے میں یہ بات آئی ہے کہ شادی کے بعد جب یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دونوں کے درمیان ذہنی ہم آہنگی نہیں ہے، دونوں مزاجی اور نظریاتی طور پر اختلافات کا شکار رہتے ہیں تو ان کے درمیان علیحدگی کی بات سوچنا بھی گناہ تصور کر لیا جاتا ہے۔ لڑکی کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ ہم نے غلطی سے تمہیں جس جہنم میں دھکا دے دیا ہے، اب جیسے تیسے اسی جہنم میں گزارا کرو، یہی تمہارا نصیب ہے۔ حالاں کہ اللہ رب العزت تو کسی کا نصیب خراب نہیں کرتا، یہ کام تو خود انسان ہی کرتا ہے اورپھر معاذ اللہ کھاتے میں پروردگار کے ڈال دیتا ہے۔
وہ لڑکیاں یا خواتین جو اپنی مرضی سے پسند کی شادی کرتی ہیں اورنتیجہ ان کے خیال اور توقع کے برعکس نکلتا ہے، وہ بھی قسمت کو کوستی نظر آتی ہیں اور جہاں داماد کا غلط انتخاب والدین یا سرپرست کر لیتے ہیں وہاں بھی یہی خیالات ہوتے ہیں کہ ہم نے تو اپنی دانست میں بہت دیکھ بھال کی تھی، بظاہر تو سب ٹھیک ہی نظر آتا تھا، اب شادی کے بعد اس نے یا اس کے گھر والوں نے نئے نئے رنگ دکھانا شروع کر دیئے ہیں لیکن یہ نئے رنگ ڈھنگ دیکھ کر بھی آنکھیں نہیں کھلتیں اور توقع رکھی جاتی ہے کہ شاید آگے چل کر سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لڑکی صابر و شاکر، ظلم و زیادتی برداشت کرنے والی ہو تو گاڑی آگے بڑھ جاتی ہے اور پھر اولاد کی پیدائش مزید مجبوریوں کو جنم دے کر اس کے پیروں میں بھاری زنجیریں ڈال دیتی ہے۔
اولاد کی پیدائش کے بعد کچھ صورت حال بدل بھی جاتی ہے، بعض افراد جو اولاد سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں وہ اپنی سخت مزاجی اور بے پروائی میں کمی کر لیتے ہیں۔ یہ سوچتے ہوئے کہ بیوی میرے بچوں کی ماں بھی ہوگئی ہے لیکن ایسے کیس بھی مشاہدے میں آئے ہیں کہ بعض لوگوں کو بچوں کی بھی زیادہ فکر نہیں ہوتی۔
یہ صورت حال یک طرفہ نہیں ہوتی بلکہ بعض جگہ صورت حال اس کے برعکس بھی ہوتی ہے، یعنی زیادتی لڑکی یا لڑکی والوں کی طرف سے ہو رہی ہو اور شوہر یا اس کے گھر والوں کی جان عذاب میں ہو۔ شوہر ایک بدمزاج، غصہ ور، ضدی و سرکش، بدزبان بیوی کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہو، مجبوری کی وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے۔
اس ساری صورت حال کی نقشہ کشی کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ہمارے سامنے اکثر ایسے حالات آتے رہتے ہیں اور جیسا کہ ہم نے ابتدا میں لکھا کہ ہمارے معاشرے میں شادی ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ کامیاب و خوش گوار ازدواجی زندگی گزارنا بھی ایک بڑا اور نہایت سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
یہاں یہ دل چسپ انکشاف ضروری ہے کہ دنیا بھر میں طلاق کا سب سے کم تناسب ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ہے۔ مغرب کی ہم کوئی مثال اس لیے نہیں دیں گے کہ وہاں کا جدید نظریاتی معاشرہ مذہبی اور روایتی اقدار سے آزاد ہے۔ وہاں نہ تو شادی کوئی بڑا مسئلہ ہے، نہ طلاق اور یہ دونوں معاملات والدین اور سرپرستوں کے رہے بھی نہیں کہ وہ اس حوالے سے فکرمند ہوں۔ بلکہ اس معاملے میں انہوں نے اصل فریقین، یعنی لڑکا لڑکی کو مکمل آزادی دے دی ہے۔ وہ ان کی پسند و ناپسند میں زیادہ مداخلت نہیں کرتے۔ اسی طرح جب وہ ناخوشی کا اظہار کرکے علیحدگی کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو اس پر بھی انہیں زیادہ فکر و تشویش نہیں ہوتی، کیوں کہ مغرب میںہر عورت شادی سے پہلے بھی اور بعد میں بھی ملازمت کرکے خود کفالت کا راستہ اختیار کر چکی ہوتی ہے اور وہ طلاق کے بعد ماں باپ یا بہن بھائیوں پر بوجھ نہیں بنتی۔ جب کہ ہمارے ہاں تو ایک بار لڑکی کو شادی کر کے گھر سے رخصت کرنے کے بعد یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ اب اس گھر سے اس کا واسطہ رسمی و روایتی ہی رہے گا کجا اس کی دوبارہ واپسی کے بارے میں سوچنا۔
ہمارے معاشرے میں یہ مسائل اس قدر پے چیدہ اور گمبھیر نوعیت کیوں اختیار کر رہے ہیں؟ اس کے معاشرتی، اقتصادی عوامل خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہوں، ہماری نظر میں بنیادی مسئلہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ رشتے طے کرتے ہوئے ہم نہایت منافقانہ کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں جس میں لڑکا لڑکی کے حقیقی مفادات کو پس پشت ڈال کر صرف اور صرف اپنی روایتی ذمے داریوں کو ہی سامنے رکھتے ہیں یا بعض جگہ ان کو بھی نظرانداز کر دیتے ہیں۔
دو افراد کو زندگی کے ایک نئے سفر کے لیے اکٹھا کرنے کی کوششوں میں ہم اس اہم حقیقت کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ ان دونوں کے مزاجوں اور فطرتوں میں بھی ہم آہنگی ہے یا نہیں؟ ہم صرف یہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ظاہری طور پر لڑکا یا لڑکی اور اس کے گھر والے کیسے نظر آرہے ہیں تو ہمیں معذرت کے ساتھ یہ کہنے دیجیے کہ رشتے کی بات چیت کا آغاز ہوتے ہی دونوں فریقین ایک دوسرے کو مطمئن کرنے کے لیے خود کو بہترین ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ بہت سی خرابیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش اور خوبیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ اگر کسی تیسرے ذریعے سے کوئی خرابی سامنے آبھی جائے تو اس کے لیے جواز و دلیل گھڑ کر دل کو مطمئن کر لیا جاتا ہے۔ حقیقی عمریں چھپائی جاتی ہیں اور اس چکر میں تاریخ پیدائش کو سرے سے گول کر دیا جاتا ہے یا غلط بتا دی جاتی ہے۔ ہاں نام سے ستارہ ملوانے یا استخارہ نکلوانے کی رسم پوری کر لی جاتی ہے۔
ہم شاید پہلے بھی کبھی لکھ چکے ہیں کہ نام سے ستارہ ملوانے کا کوئی فائدہ نہیںہوتا۔ نام انسانوں کا رکھا ہوا ہے، اس سے متعلقہ ستارہ اس قدر اہم نہیں جس قدر تاریخ پیدائش سے حاصل کردہ سیارگان کی پوزیشن ہے۔ یہی پوزیشن کسی جوڑے کی آئندہ ازدواجی زندگی، کامیابیاں، ناکامیاں، بیماری اور صحت پر درست روشنی ڈال سکتی ہے۔ بھارت میں چوں کہ علم نجوم عام ہے اور ہندو مذہب کا ایک حصہ ہے لہٰذا وہاں جب تک دونوں فریقین کے زائچہ پیدائش کا معائنہ نہ کرلیا جائے رشتہ طے نہیں ہوتا، دوسری بڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ شادی و نکاح کا وقت بھی علم نجوم کی روشنی میں مقرر کیا جائے۔ وقت کی سعادت و نحوست سے انکار ممکن نہیں۔ سعد اوقات میں انجام دیے گئے کاموں کے نتائج بہتر ہوتے ہیں اور نحس اوقات میں کیے گئے کاموں کے خراب نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔
رہا سوال استخارے کا تو ہمارا تجربہ یہ ہے کہ استخارہ بھی اسی صورت میں بہتر نتائج دیتا ہے جب کوئی غیر متعلق اور مخلص و ایمان دار شخص جو صاحب تقویٰ ہو، اللہ سے استخارہ کرے۔ بہ صورت دیگر ہماری ذاتی پسند و ناپسند ہمارے لاشعوری نظام پر اثرانداز ہو کر درست جواب کے حصول میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔ ہمارے نزدیک دونوں فریقین کی تاریخ پیدائش سے حساب لگا کر دونوں کی مزاجی اور فطری ہم آہنگی معلوم کرنا سب سے بہتر ہے۔ اگر دونوں میں فطری ہم آہنگی موجود ہے تو وہ ہر صورت میں خوش اور مطمئن رہیں گے۔ ازدواجی زندگی کی حقیقی خوشیاں انہیں حاصل رہیں گی۔ ایسے جوڑے عموماً بے اولادی کا شکار بھی نہیں ہوتے مگر کیا کیا جائے کہ ہم اس علمی اور سائنٹفک طریقے سے فائدہ اٹھانے کی بجائے کم زور اور نامناسب طریقوں پر عمل کرتے ہیںا ور بعد میں الزام قسمت کو دیتے ہیں۔
ازدواجی ناچاقی
م، ن، حیدرآباد: آپ نے اپنا نام اور مقام لکھنے کی کوئی زحمت نہیں کی۔ خط کے آخر میں ایک مجبور بہن لکھ دیا ہے۔ بہرحال چونکہ اپنی اور شوہر کی تاریخ پیدائش لکھ دی ہے لہٰذا آپ کے مسئلے کا جواب ہم دے رہے ہیں۔
بنیادی طور پر ایسا نہیں ہے کہ آپ دونوں کے درمیان موافقت اور ہم آہنگی نہ ہو۔ آپ کا شمسی برج قوس اور شوہر کا شمسی برج میزان ہے۔ یہ دونوں باہمی موافقت اور ہم آہنگی رکھنے والے بروج ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہ گاڑی خاصی کامیابی کے ساتھ اب تک چل رہی ہے اور ماشاءاﷲ اب تو بچے بھی بڑے ہو چکے ہیں۔ آپ کا جو مسئلہ ہے اس کا تعلق آپ دونوں کے مزاج سے نہیں، فطرت سے تعلق رکھتا ہے۔ دونوں کا قمری برج آبی ہے اور آپ کے مقابلے میں آپ کے شوہر زیادہ حساس اور جذباتی ہیں۔ ان کی یہ حساسیت منفی رخ پر ہے جس کی وجہ سے وہ دنیا کے ہر معاملے کو ایک منفی انداز سے دیکھتے ہیں خصوصاً ایسے معاملات ان کے لیے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں جن کا تعلق ان کی انتہائی نجی زندگی سے ہو اور آپ بھی ان کا ایک ایسا ہی معاملہ ہیں لہٰذا آپ کی ذرا سی بات بھی انہیں بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے اور وہ اسے بہت زیادہ منفی انداز میں دیکھتے ہیں۔
چونکہ ان کی یہ خصوصیت ان کی فطرت کا حصہ ہے لہٰذا کبھی تبدیل نہیں ہو سکی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی اور اب بہت پختہ ہو چکی ہے۔ بہرحال ان کی عادات بد کو روکنے کے لیے آپ حروف صوامت سے کام لے سکتی ہیں اس کے لیے بہترین موقع آنے والے چاند اور سورج گرہن ہوں گے یا ہر ماہ قمر در عقرب کا جو وقت دیا جاتا ہے اس میں عمل کیا جاسکتا ہے،اس عرصے میں آ پ تالے والا عمل کر سکتی ہیں یا اور بھی ایسے طریقوں سے کام لے سکتی ہیں جو ہم اکثر چاند یا سورج گرہن کے موقع پر دیتے رہے ہیں۔
میاں بیوی میں محبت کے لیے عمل خاص
زن و شوہر میں اختلافات، مزاجی ناہمواری، باہمی لڑائی جھگڑا، محبت کی کمی وغیرہ کے لیے یہ ایک مجرب طریقہ ہے اور صرف شادی شدہ خواتین و حضرات ہی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ نہایت آسان بھی ہے۔ گرہن کے درمیانی وقت میں ایک سفید کاغذ پر کالی یا نیلی روشنائی سے پوری بسم اﷲ لکھ کر سورہ الم نشرح پوری لکھیں پھر یہ آیت لکھیں۔
والقیت علیک محبة فلاں بن فلاں (یہاں مطلوب کا نام مع والدہ لکھیں) علیٰ محبة فلاں بنت فلاں (یہاں طالب کا نام مع والدہ لکھیں) کما الفت بین آدم و حوا و بین یوسف و زلیخا و بین موسیٰ و صفورا و بین محمد و خدیجة الکبریٰ و اصلح بین ھما اصلاحاً فیہ ابداً
اب تمام تحریر کے ارد گرد حاشیہ ( چاروں طرف لکیر) لگا کر کاغذ کو تہہ کر کے تعویز بنا لیں اور موم جامہ کر کے بازو پر باندھ لیں یا پھر اپنے تکیے میں رکھ لیں۔
خیال رہے کہ مندرجہ بالا نقوش لکھتے ہوئے باوضو رہیں، پاک صاف کپڑے پہنیں، علیحدہ کمرے کا انتخاب کریں، لکھنے کے دوران مکمل خاموشی اختیار کریں اور اپنے مقصد کو ذہن میں واضح رکھیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں، رجال الغیب کا خیال رکھیں کہ آپ جس طرف رخ کر کے بیٹھے ہوں وہ آپ کے سامنے نہ ہوں، رجال الغیب کا نقشہ ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے ، اس سے مدد لیں۔