ابتدا ہی سے اس حقیقت کا اظہار کیا جارہا ہے کہ علم جفر سے کام لینے کے لیے علم نجوم سے واقفیت ضروری ہے، علم جفر حروف اور اعداد کی مخصوص خصوصیات اور قوت کو ضرورت کے مطابق ترتیب دینے کا نام ہے اور پھر ترتیب شدہ طلسم یا نقش وقت کی سعادت یا نحوست کا مرہون منت ہوتا ہے،وقت کی سعادت یا نحوست سے آگاہی علم نجوم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
وقت کیا ہے؟
اللہ رب العزت نے جب نظام کائنات کو ترتیب دیا تو اسے وقت کا پابند کیا ہے اور اس ضرورت کے لیے ہمارے نظام شمسی میں چاند اور سورج کی گردش کو مقرر کردیا جس کی نشان دہی قرآن کریم میں بھی کردی گئی ہے، دونوں کی روزانہ ، ماہانہ اور سالانہ گردش موسمی تغیر و تبدل ، صبح و شام ، دن اور رات کا اہتمام کرتی ہے،یہ اہتمام کرہ ارض پر طلوع غروب آفتاب کے ماتحت ہے،سورج اور چاند کی مخصوص گردش کے ساتھ ہی دیگر سیارگان بھی اللہ کے مقرر کردہ اصول و قواعد کے پابند ہیں اور اپنے اپنے دائروں میں اپنی اپنی مخصوص رفتار سے گردش کر رہے ہیں، تمام سیارگان کی اس گردش کے مطالعے کا نام علم نجوم ہے،اس گردش سے ہم وقت کی خوبیوں اور خامیوں یعنی سعادت و نحوست کے بارے میں جانتے ہیں،چناں چہ علم جفر سے کام لینے کے لیے علم نجوم سے آگاہی حاصل ہونا نہایت ضروری ہے،بہ صورت دیگر ہمارا بہترین ترتیب شدہ عمل ضائع ہوسکتا ہے،اس عمل میں تاثیر پیدا کرنے کے لیے مناسب اور موزوں وقت کا انتخاب ضروری ہے۔
ابتدائی ضروری نکات
پروردگار نے ہمارے نظام شمسی میں بے شمار سیارے اور ثوابت پیدا کیے ہیں جو اپنے اپنے مقام پر اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں، ان سے واقفیت کے علم کو ”علم الفلکیات“ کہا جاتا ہے، قدیم زمانوں سے علم فلکیات میں مشاہدے اور مطالعے کا عمل جاری ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ فلکیاتی تحقیق کے میدان میں نت نئے انکشافات سامنے آتے رہتے ہیں، علم فلکیات کی ایک برانچ علم نجوم ہے جو ثوابت و سیارگان کے مقام و گردش سے پیدا ہونے والے اثرات پر روشنی ڈالتی ہے،اس طرح علم نجوم کی بھی مختلف شاخیں وجود میں آگئی ہیں لیکن ہم یہاں صرف جاری موضوع کی مناسبت سے گفتگو کریں گے۔
سیارے
ہمارے نظام شمسی میں یوں تو بہت سے سیارے گردش کر رہے ہیں لیکن چاند اور سورج کے علاوہ جن سیارگان کی اہمیت اور اثرات کا مشاہدہ کیا گیا ہے، ان میں سرفہرست عطارد ، زہرہ، مریخ، مشتری ، زحل، یورینس، نیپچون اور پلوٹو ہیں،اس کے علاوہ راس و ذنب (راہو، کیتو)کی حیثیت اور اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں،یہ پرچھائیں سیارے ہیں یعنی انہیں سیارہ قمر کے سائے کہا جاتا ہے۔
والسمائے ذاتِ البُروج
نظام شمسی میں پروردگار نے 12 بروج بھی مقرر کیے ہیں اور ان بارہ بروج کے اندر قمر کی منزلیں مقرر کی گئی ہیں جن کا تذکرہ بھی قرآن کریم میں کیا گیا ہے،یہ بارہ بروج حمل سے حوت تک پھیلے ہوئے ہیں،ترتیب وار ان کے نام یہ ہیں۔
حمل (Aries)۔ ثور(Taurus)۔ جوزا(Gemini)۔ سرطان(Cancer)۔ اسد(Leo)۔ سنبلہ(Virgo)۔ میزان(Libra)۔ عقرب(Scorpio)۔قوس(Sagittarius)۔جدی(Capricorn)۔دلو(Aquarius)۔حوت(Pieses)
بارہ بروج سے متعلق سیارگان کی قدیم و جدید وابستگی کچھ یوں ہے، حمل و عقرب کا حاکم سیارہ مریخ کو تسلیم کیا گیا ہے،ثور اور میزان کا حاکم سیارہ زہرہ، جوزا اور سنبلہ کا حاکم سیارہ عطارد، جدی اور دلو کا حاکم سیارہ زحل، قوس اور حوت کا حاکم سیارہ مشتری لیکن جدید علم نجوم کے مطابق اس وابستگی میں فرق آجاتا ہے جو علم جفر کے حوالے سے اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔
بارہ برجوں کے اس دائرے کے لیے 360 درجات مقرر کیے گئے ہیں جب کہ ایک برج کے درجات تیس ہیں،اسی اصول کی بنیاد پر سیارہ شمس کی سالانہ گردش کو مدنظر رکھتے ہوئے شمسی کلینڈر ترتیب دیا گیا ہے جسے اب گریگری یا عیسوی کلینڈر بھی کہا جاتا ہے، اس کے مطابق سال کے 365 یا 366 دن مقرر کیے گئے ہیں اور ان دنوں کو 360 درجات پر پھیلا دیا گیا ہے۔
منازل قمر
بارہ بروج اپنے اندر 28 منازل قمر رکھتے ہیں، اس موضوع پر سیر حاصل معلومات کے لیے ہماری کتاب ”اک جہان حیرت“ کا مطالعہ کرنا چاہیے، 28 منزلوں کی تفصیل یہ ہے جو ہر برج میں واقع ہیں اور بعض منازل ایک برج سے دوسرے برج تک دراز ہیں یعنی ان کی ابتدا اگر ایک برج سے ہورہی ہے تو انتہا اس سے اگلے برج میں ہے، 28 منازل قمری سے 28 حروف تہجی منسوب ہیں، ان کی تفصیل بھی دی جارہی ہے۔
برج حمل : شرطین ، بطین، ثریا
منسوبی حروف: ا۔ ب۔ ج
برج ثور: ثریا، دبران، ہقعہ
منسوبی حروف: ج۔ د ۔ہ
برج جوزا: ہقعہ ، ہنعہ، ذراع
منسوبی حروف: ہ۔و۔ز
برج سرطان: نثرہ، طرفہ، جبہ
منسوبی حروف: ح۔ط۔ی
برج اسد: جبہ، زہرہ، صرفہ
منسوبی حروف: ی۔ک۔ ل
برج سنبلہ: صرفہ، عوا، سماک
منسوبی حروف: ل۔م۔ن
برج میزان: غفرہ، زبانہ، اکلیل
منسوبی حروف: س۔ع۔ف
برج عقرب: اکلیل، قلب، شولہ
منسوبی حروف: ف۔ص۔ق
برج قوس: شولہ، نعائم، بلدہ
منسوبی حروف: ق۔ر۔ش
برج جدی: زابح، بلعہ، سعدالسعود
منسوبی حروف: ت۔ث۔خ
برج دلو: سعود، اخبیہ، مقدم
منسوبی حروف: خ۔ذ۔ض
برج حوت: مقدم، موخر، رشا
منسوبی حروف: ض۔ظ۔غ
ہر قمری منزل اگرچہ کسی نہ کسی برج میں واقع ہے اور اُس برج کا حاکم سیارہ اس منزل پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن ہر منزل کا حکمران بھی ہے جو بنیادی طور پر منزل کا حاکم تصور کیا جاتا ہے،28 منزلوں کو سات سیارگان پر تقسیم کیا گیا ہے، اس طرح ایک سیارہ چار منزلوں پر حکمران ہے، اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
سیاروی حکمرانی
سیارہ زحل کی حکمرانی منزل ذراع۔سماک۔ بلدہ اور ذابع پر ہے۔
سیارہ مشتری کی حکمرانی منزل شرطین۔ طرفہ۔ مقدم اور شولہ پر ہے۔
سیارہ مریخ کی حکمرانی منزل اکلیل۔جبتہ۔ ثریہ اور بلعہ پر ہے۔
سیارہ شمس کی حکمرانی منزل ہنفعہ۔ صرفہ۔ قلب اور موخر پر ہے۔
سیارہ زہرہ کی حکمرانی بطین۔ دبران۔ عوا اور اخبیہ پر ہے۔
سیارہ عطارد کی حکمرانی زبانہ۔ نعائم۔ سعود اور غفرہ پر ہے۔
سیارہ قمر کی حکمرانی منزل ہقعہ۔ نثرہ۔ زبرہ اور رشا پر ہے۔
ہر منزل قمر اپنا مخصوص اثر رکھتی ہے اور اُس پر حکمرانی کرنے والا سیارہ اُس اثر کی نشان دہی کرتا ہے، مزید یہ کہ وہ منزل جس برج میں واقع ہے، اُس برج اور سیارے کے اثرات بھی اہمیت رکھتے ہیں، منازل قمری کے خواص اور اثرات اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں، خصوصاً ہر منزل سے متعلق طلسمات و نقوش اور منزلوں میں موجود دیگر ثوابت و سیارگان کی حرکات بھی اہمیت کی حامل ہیں، ان سے متعلق اعمال نہایت دقیق اور پُرتاثیر ہیں، ہم نے اپنی کتاب ”اک جہان حیرت“ میں منازل قمری کی خصوصیات پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے اور منزل سے متعلق اہم طلسمات کی تیاری کا طریقہ بھی واضح کیا ہے،اس میدان میں قدیم رکھنے والوں کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
علم الحروف اور منازل قمر
واضح رہے کہ قمر کی منزلیں 28 ہیں اور عربی زبان کے حروف تہجی بھی 28 ہیں، اس طرح ہر منزل سے ایک حرف منسوب ہے جس کی تفصیل اوپر بیان ہوچکی ہے،اگر کوئی شخص تمام حروف تہجی کی زکات ادا کرنا چاہے تو متعلقہ منزل کے دوران میں ہی یہ زکات ادا کی جائے گی، اس کا طریقہ کار علم جفر کی کتابوں میں موجود ہے،ہم یہاں اس لیے نہیں دے رہے کہ موجودہ زمانے میں اتنا وقت اور فرصت عام آدمی کو نہیں ہے کہ وہ تمام حروف تہجی کی زکات ادا کرے، البتہ یہ ممکن ہے کہ ضرورت کے مطابق چند حروف کی زکات ادا کرلی جائے ابتدا میں حروف تہجی کی مختلف اقسام بیان کی گئی ہیں جن میں حروف نورانی ، ظلمانی، حروف صوامت وغیرہ نمایاں ہیں، عام طور پر لوگ حروف صوامت کی زکات ادا کرنے کے شوقین ہوتے ہیں اور اس سلسلے میں سورج یا چاند گہن کے موقع پر حروف صوامت کی زکات ادا کرتے ہیں لیکن اکثریت ناکام ہوتی ہے،اثر جاری نہیں ہوتا، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ کتابوں یا رسالوں میں زکات کے طریقے پڑھ کر یا کسی اپنے ہی جیسے اُستاد سے مشورہ کرکے زکات ادا کرلیتے ہیں، انہیں جس ابتدائی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے،وہ انہیں حاصل نہیں ہوتی، سنی سنائی باتوں سے متاثر ہوکر اس میدان میں اندھا دھند چھلانگ لگا بیٹھتے ہیں اور بعد میں شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں تو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔
اگر کوئی شخص حروف صوامت کے 13 حروف کی زکات متعلقہ منازل قمری میں ادا کرلے تو سورج یا چاند گہن میں ادا کی گئی زکات سے زیادہ پُرتاثیر قوت حاصل ہوجائے گی لیکن خیال رہے کہ ایسے تمام کام کسی قابل اور تجربے کار اُستاد کی نگرانی میں کرنا ضروری ہے ورنہ بعض چھوٹی چھوٹی غلطیاں بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں اور تمام محنت اور وقت کے ضائع ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ وہ لوگ جو خود کو اس شعبے کے لیے وقف کردیتے ہیں اور خدمت خلق جن کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے، ان کے لیے لازم ہے کہ اگر تمام نہیں تو ضرورت کے مطابق حروف کی زکات ادا کریں لیکن وہ لوگ جو اپنی بعض ضروریات میں مختلف جفری اعمال سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں،انہیں خود کو اس کڑی آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہیے،ان کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ بنیادی اصول و قواعد سے واقف ہوں اور وقت کی سعادت و نحوست کا ادراک رکھتے ہوں تاکہ مناسب عمل کو مناسب وقت پر تیار کرسکیں، اسی لیے ہم یہاں حروف تہجی کی زکات ادا کرنے کا طریقہ ءکار نہیں دے رہے۔
قدیم و جدید علم نجوم
جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ علم جفر اور علم نجوم لازم و ملزوم ہیں، قدم قدم پر علم جفر میں علم نجوم کی ضرورت محسوس ہوتی ہے،عام طور پر علم جفر میں علمائے جفر نے یونانی علم و نجوم کو اہمیت دی ہے اور نجوم کے یونانی طریقہ ءکار سے کام لیا ہے کیوں کہ عربوں تک علم نجوم کا جو مواد بھی پہنچا، وہ یونانی ، مصری یا بابلی تھا، یونانی یا موجودہ دور کی اصطلاح کے مطابق مغربی علم نجوم کا باوا آدم پٹولومی کو قرار دیا جاتا ہے جسے عرب بطلیموس کہتے ہیں،پٹولومی وہ پہلا ستارہ شناس ہے جس نے علم نجوم کے اصول و قواعد مرتب کیے اور انہیں ایک باضابطہ کتابی شکل دی، یہ کتاب آج بھی اہم سمجھی جاتی ہے۔
پٹولومی کے زمانے میں سائنس نے زیادہ ترقی نہیں کی تھی، اُس وقت تک زمین کو ایک گردش کرتا ہوا سیارہ تسلیم نہیں کیا گیا تھا لہٰذا پٹولومی نے جو نظریہ پیش کیا، اس کے مطابق زمین کو ساکت و جامد قرار دیتے ہوئے تمام سیارگان کو زمین کے گرد گردش کرتے ہوئے بتایا گیا جس میں سورج بھی شامل ہے،سب سے پہلے بغداد کی بنیاد کے لیے سعد وقت مقرر کرنے والے ایک منجم نے پٹولومی کے نظریے پر شک و شبہے کا اظہار کیا، اس کے بعد البیرونی کا خیال بھی یہی تھا کہ اس نظریے کے بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے، بہر حال صدیوں بعد گیلیلو اور کوپرنیکس نے اس نظریے کو غلط ثابت کیا ہے اور بتایا کہ زمین بھی ایک سیارہ ہے جو سورج کے گرد گردش کر رہا ہے۔
پٹولومی نے سات سیارگان اور بارہ بروج کی جو فلاسفی پیش کی، وہ آج بھی اہم سمجھی جاتی ہے،اس میں مزید تحقیق و جستجو جاری رہے اور آج کے دور میں برجوں اور سیارگان سے متعلق علم ماضی کے مقابلے میں بہت آگے بڑھ چکا ہے،اسی طرح سابق سیارگان (Fixed Stars) اور منازل قمری کے حوالے سے بھی جدید تحقیقات ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر ہیں جب کہ ہمارے اکثر منجم و جفار کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ قدیم نظریات کے پابند نظر آتے ہیں یعنی صدیوں پہلے مسلمان عربوں نے جن اصول و قواعد کو مرتب کیا تھا، ان پر سختی سے کاربند ہیں،جدید تحقیقات کو ضروری نہیں سمجھتے یا انہیں اہمیت نہیں دیتے جب کہ ماضی کے عرب منجمین بھی قدیم نظریات سے مطمئن اور آسودہ نہ تھے۔
ایک اور اہم مسئلہ جو ہمارے منجمین کو درپیش ہے، وہ علمی تعصب کا ہے اور یہ تعصب صرف اس وجہ سے ہے کہ ہندو منجم جس اصول پر کاربند ہیں، بحیثیت مسلمان ہم اس اصول کو تسلیم نہیں کرتے اور ماضی کے عرب مسلمانوں کی تقلید کرتے ہیں یا مغربی منجمین کی پیروی کرتے ہیں جو یہودی یا عیسائی ہیں۔
قطبی زمینی جھکاو
یہ مسئلہ زمین کے ایک طرف جھکاو کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جو رفتہ رفتہ بڑھتا جارہا ہے، ماضی میں یعنی شاید پٹولومی کے زمانے میں زمین کا جھکاو اس طرح نہیں تھا جیسا کہ بعد میں جدید سائنس نے اس جھکاو کی اہمیت کو ثابت کیا ہے،پٹولومی اور اُس کے جانشین تو زمین کو متحرک ہی نہیں سمجھتے تھے لہٰذا اس اہم مسئلے کی طرف انہوں نے کوئی توجہ ہی نہ دی، یہی حال ہمارے عرب منجمین کا بھی رہا اور مغربی منجمین کا بھی،البتہ جب سائنس کی مزید باریکیوں کا مغرب کو ادراک ہوا تو مغرب میں بھی اس بات کو اہمیت دی جانے لگی اور جدید سائنسی نظریات کے زیر اثر ہی ہندوستان میں بھی اس اہم مسئلے پر سنجیدگی سے غوروفکر شروع ہوا اور ہندوستانی ویدک سسٹم کے ماہرین نے زمین کے جھکاو کو اہمیت دی اور اس حوالے سے مختلف ماہرین نے نہایت تحقیقی کام کیا، یہ الگ بات ہے کہ اس تحقیق کے نتیجے میں بہت سے اختلافات نے جنم لیا لہٰذا زمین کے جھکاو کا درست اندازہ لگانے والوں میں مختلف گروپ بن گئے، آخر کار ہندوستان کی آزادی کے بعد اس حوالے سے ایک ماہرین کی کمیٹی بنائی گئی جس نے نہایت ماہرانہ طور پر ایک متفقہ طریق کار وضع کیا جسے سرکاری طور پر تسلیم کرلیا گیا اور اب زمین کے جھکاو¿ کا یہ مسئلہ بھارت میں حل ہوچکا ہے،اگرچہ اس کے بعد بھی بعض ہندو منجمین نے اپنا اختلاف برقرار رکھا لیکن اکثریت اسی فیصلے کو مانتی ہے جو پروفیسر لہری کی کمیٹی نے پیش کیا تھا اور جسے سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا، اس کے مطابق زمین کا جھکاو اب تقریباً چوبیس درجہ ہے، اسے اصطلاحاً عقلِ تعدیل یا ”ایانامسا“ کہا جاتا ہے۔
موجودہ دور میں اس بنیاد پر علم نجوم کے دو اسکول آف تھاٹ وجود میں آچکے ہیں، اول کو سیڈرل سسٹم قرار دیا گیا جس میں چوبیس درجہ زمین کے جھکاو کو تسلیم کیا گیا ہے، بھارت میں اسے ویدک سسٹم کہا جاتا ہے،مغرب میں سیڈرل سسٹم۔
دوسرے سسٹم کو ٹراپیکل سسٹم کہا جاتا ہے جس میں 24 درجہ زمین کا جھکاو شمار نہیں ہوتا، یہ مغرب میں رائج ہے اور پاکستانی منجمین کی اکثریت بھی اس کی پیروی کرتی ہے، پاکستان میں شائع ہونے والی تمام جنتریاں اور تقاویم اسی سسٹم کے تحت شائع ہوتی ہیں اور ہمارے ماہرین جفر اسی سسٹم کے تحت رفتارِ سیارگان کا مطالعہ کرتے ہیں، مختلف بروج میں سیارگان کے داخلے یا شرف و اوج وغیرہ کے اوقات مقرر کرتے ہیں لہٰذا دونوں سسٹم میں طریق کار کا یہ اختلاف بہت سے مسائل اور پیچیدگیاں پیدا کردیتا ہے، اس موضوع پر ہم نے اپنی کتاب پیش گوئی کا فن حصہ اول و دوم میں تفصیلی بحث کی ہے، یہاں یہ موضوع زیادہ تفصیل سے بیان کرنا درست نہیں ہے، مختصراً مندرجہ بالا صورت حال کا جائزہ اس لیے پیش کیا گیا ہے کہ ہمارے قارئین اندازہ لگالیں کہ درست وقت کا حصول علم جفر میں ضروری ہے اور اسے پانے کے لیے دونوں سسٹم کے اختلافات کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے اور اگر تجربے کی کسوٹی پر اول سسٹم پورا اترتا ہو تو صرف اس وجہ سے اسے نظر انداز کرنا ایک علمی بددیانتی ہوگی کہ اس سسٹم پر پڑوسی ملک بھارت میں عمل کیا جاتا ہے حالاں کہ یہ بات بھی پوری طرح درست نہیں ہے ، حقیقت یہ ہے کہ اب مغرب میں بھی دونوں سسٹم رائج ہےں اور اس موضوع پر صرف ہندو ماہرین نجوم نے ہی کام نہیں کیا بلکہ برسوں پہلے ایک مغربی ماہر نجوم کارل فیگن کا نام بھی سرفہرست ہے لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم یہودیوں اور عیسائیوں کی پیروی اس خوش خیالی کے ساتھ کرلیتے ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے ماضی میں عرب مسلمانوں سے استفادہ کیا تھا لیکن ہندو ماہرین نجوم کی علمی کاوشوں کو اس لیے نظر انداز کرتے ہیں کہ وہ ”سخت کافر“ ہیں، حالاں کہ یہ سوچنا چاہیے کہ انسان ہندو مسلم ، سکھ، عیسائی، یہودی، بڈھسٹ وغیرہ ہوسکتا ہے لیکن کوئی علم مسلم یا غیر مسلم نہیں ہوتا، علم صرف علم ہوتا ہے جیسا کہ جدید میڈیکل ، انجینئرنگ یا خلائی تحقیق سے متعلق علوم کو ہم یہودی یا عیسائی علوم قرار نہیں دے سکتے لیکن پاکستان میں ”ملائیت“ماضی کے یورپی کلیسائی نظام کی صورت اختیار کرچکی ہے جس میں مختلف علوم پر بھی ”اسلامی“ ہونے کا ٹھپا لگانا ضروری ہے،چناں چہ ہمارے منجم و جفار یونانی یا ویسٹرن علم نجوم کو اسلامی علم نجوم قرار دے کر مطمئن ہیں کہ ملائیت کے جبرواستبداد سے نجات مل گئی ہے۔