کسی دانش ور کا قول ہے ”آپ کی سوچ ہی آپ کی شخصیت ہے“۔
یہ ایک جملہ کتنے وسیع اور گہرے معنی رکھتا ہے،ا س پر جتنا غور کیجیے، اتنا ہی اپنے آپ کو سمجھنے اور اپنے مسائل سے آگاہ ہونے کا موقع ملے گا۔
انسان کی سوچ، فکر اور طریقہ عمل اس کی زندگی میں جس قدر اہم کردار ادا کرتے ہیں، کوئی دوسرا عنصر اس حوالے سے اتنا اہم کردار ادا نہیں کرتا ، سوچ کو ہم انسان سے الگ نہیں کرسکتے اس لیے کہ جس میں سوچ نہیں، غور و فکر کی صلاحیت نہیں، وہ انسان بھی نہیں۔ ایک زندہ، ہنستے کھیلتے، چلتے پھرتے، دنیا میں سانس لیتے ہوئے انسان کے لیے سوچ اتنی ہی ناگزیر ہے جتنی آگ ، ہوا، مٹی اور پانی۔ ان میں سے کسی ایک کے بغیر اس کا وجود صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ جائے گا، پس کہا جاسکتا ہے کہ انسان کی سوچ سمجھ ہی درحقیقت اسے آدمیت کے اعلیٰ درجے پر فائز کرتی ہے۔
ایک احتسابی نظر
اب ذرا اپنے آپ پر نگاہ ڈالیے، آپ بھی ایک انسان ہیں جو سوچ سمجھ اور ذہن رکھتا ہے، آپ دنیا میں خوش اسلوبی سے زندگی گزار رہے ہیں، اگر آپ نوکری پیشہ ہیں تو روز بروز ترقی کی جانب رواں ہیں، اگر طالب علم ہیں تو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اپنی علم کی پیاس بجھا رہے ہیں، اگر آپ کاروبار کرتے ہیں تو آپ کے لیے ہر آنے والا دن نئے امکانات کا دن ہوتا ہے، غرض آپ جو کچھ بھی کرتے ہیں یا کر رہے ہیں اس میں سرخوشی، طمانیت اور آسودگی کا احساس ساتھ ساتھ چل رہا ہوتا ہے، آپ کا ہر قدم ماضی سے منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل سے بھی پیوست ہوتا ہے، وہ مستقبل جو بہتر ہے، آج سے آگے ہے اور آپ کی کوششوں کی بدولت تابناک ہے۔
آپ کا مستقبل آپ کی کوششوں کا مرہون منت ہے ، جتنی کوشش آپ کرتے ہیں، اتنا ہی بہتر مستقبل جواب میں آپ کو ملتا ہے اور آپ کی کوششیں آپ کی سوچ کی مرہون منت ہیں، یہ ایک مستقل سلسلہ ہے، پہلے آپ سوچتے ہیں کسی کام کے بارے میں غور کرتے ہیں اور پھر مثبت رویہ اختیار کرکے فیصلہ کرتے ہیں، وہی فیصلہ جو کوئی قدم اٹھانے کے لیے، کسی کوشش کے لیے ضروری ہوتا ہے، اگر آپ کی سوچ درست تھی، آپ کا فیصلہ صحیح تھا تو آپ کی کوشش بھی کامیاب ہوگی، دوسری طرف اگر آپ کی سوچ غلط تھی، آپ کا طرز فکر منفی تھا تو آپ ناکام ہوں گے اور اس ناکامی کے نتیجے میں کچھ دیگر مسائل اور پریشانیوں کا شکار بھی ہوں گے یعنی آپ اپنی سوچ کے منفی و مثبت پہلوو¿ں کے ذریعے مستقبل کو تاریک یا تابناک بناسکتے ہیں، کیا آپ نے کبھی پوری نیک نیتی اور ایمانداری کے ساتھ اپنی سوچوں کا تجزیہ کیا ہے جن کی بنیادوں پر آپ کی شخصیت کی عمارت کھڑی ہے؟
اہم سوال
یہ سوال نہایت اہمیت کا حامل ہے اور زندگی میں کامیابی اور آسودگی کے حصول کے لیے نہایت ضروری ہے کہ آپ کیا سوچتے ہیں؟ آپ کی سوچ کا عمل کتنا ہم وار ہے؟ آپ کی فکر کتنی سادہ اور رکاوٹوں سے پاک ہے اور کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی سوچ آپ کے ارادوں کی تکمیل میں مددگار ہے؟
غلط یا صحیح فیصلے
دنیا کا ہر فرد ذہنی رکاوٹوں کا شکار رہتا ہے، یہ تقریباً ناممکن ہے کہ کسی شخص میں کوئی خامی نہ ہو ،(صرف انبیاءہی کی ذات والا صفات کو ہر خامی سے پاک قرار دیا جاسکتا ہے) تاریخ کے بڑے بڑے ہیرو، لیڈر، فاتح، جنگجو، حکمران، دولت مند ، دانشور، فلسفی اور سائنسداں جو زمانے کو اپنے کارناموں سے حیران کیے رکھتے تھے وہ بھی سوچ کی رکاوٹوں اور خامیوں سے مبرانہ تھے اور ان سے بھی غلطیاں سرزد ہوتی تھیں، تاہم آج سیکڑوں ہزاروں سال گزر جانے کے بعد بھی ان کی ہمارے درمیان موجودگی اور اہمیت کا واحد سبب صرف یہی ہے کہ انہوں نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرکے ان سے سبق حاصل کیا اور ان کی زندگی میں درست فیصلوں کی تعداد غلط فیصلوں کی نسبت بہت زیادہ تھی لیکن ایک عام آدمی ہیرو نہیں ہوتا شاید اسی لیے اس کے جذبات، احساسات، تفکرات، عادات اور اعتقادات منفی طرز فکر کا شکار ہوتے ہیں، اس کی سوچ ذہنی رکاوٹوں کی بدولت بار بار ٹھوکر کھاتی ہے، منفی طرز فکر کی بدولت وہ ہر موقع پر غلطی کرتا ہے اور نامناسب انداز فکر کی بدولت زندگی کے ہر مقام پر غلطیاں کرتا ہی چلا جاتا ہے۔
شعور اور لاشعور کی جنگ
زندگی میں بہت سی باتوں کی کوئی منطق نہیں ہوتی، خود اگر ہم اپنے اوپر نظر ڈالیں تو یہ بات نمایاں طور پر محسوس کریں گے کہ ہمارے اعمال منطق سے زیادہ خواہش پر مبنی ہوتے ہیں، یعنی جو ہم چاہتے ہیں وہی کرتے ہیں، دوسرے معنوں میں ذہن سے زیادہ دل کے غلام بنے رہتے ہیں، اس میں منطقی یا غیر منطقی، اچھے یا برے، خوش گوار یا ناخوش گوار کا دخل کم ہی ہوتا ہے، مثلاً ہماری بہت سی عادتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں ہم پسند نہیں کرتے اور انہیں درست کرنا چاہتے ہیں،د وسری طرف بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم میں غلطی کرنے کی شدید خواہش ابھرتی ہے اور ہم جانتے بوجھتے بھی نقصان کرگزرتے ہیں،ا س میں دلیل اور منطق کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔
ہمارے اندر ”ہے اور ہونا چاہیے“ کی یہی کشمکش ذہنی رکاوٹوں کا بنیادی سبب ہے، ہمارے شعور اور لاشعور کی قوتیں اپنی من مانی کرنا چاہتی ہیں، دونوں میں سے ہر ایک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہمیں اپنے زیر اثر کرلے اور دوسرے کو نابود کردے، یوں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم غلطی کر رہے ہیں، فلاں قدم اٹھانے سے ہمیں نقصان ہوگا مگر پھر بھی ہم وہ قدم اٹھالیتے ہیں یعنی ایک پہلو دوسر ے پہلو پر غالب آجاتا ہے اور اسے خاموش کرکے ہمیں آگے بڑھتا دیکھتا رہتا ہے۔
شعور اور لاشعوری تحریکات، کشمکش اور بالادستی کی جنگ کو ہم مکڑی کے ایک جالے اور اس میں پھنسے ہوئے کسی کیڑے کی مثال سے با آسانی سمجھ سکتے ہیں، یہ کشمکش درحقیقت اتنی ہی جان لیوا ہے جتنا کہ کیڑے کے لیے مکڑی کا جال، کوئی بھی معصوم، بے خبر، بے ضرر سا کیڑا اگر ایک مرتبہ مکڑی کے جال میں گرفتار ہوجائے تو پھر اس کے لیے رہائی تقریباً ناممکن ہوتی ہے اور اس کی رہائی کے لیے زور آزمائی مزید ضرر رساں بلکہ قاتل ثابت ہوتی ہے، وہ جتنا زیادہ ہلتا جلتا ہے، ہاتھ پاوں چلاتا ہے، اتنا ہی زیادہ پھنستا چلا جاتا ہے اور بالآخر ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں اس کے لیے آزادی کی کوئی آس، کوئی امید باقی نہیں رہتی۔
ہمارے شعور اور لاشعور کا جال بھی اتنا ہی مہلک ہے، ایک مرتبہ اگر ہم اس میں گرفتار ہوجائیں تو اس سے رہائی خاصی دشوار ہوتی ہے۔ ہم جو چاہتے ہیں وہ نہیں کرتے، جو کرنا چاہیے اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے، غرض ہمارے خیالات میں دو رخی کی کیفیت آجاتی ہے اور اعمال و افعال میں فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ اگر ہم اس دورخی کیفیت، دوہرے پن کی طرف متوجہ نہ ہوسکیں،ا س کا ادراک نہ کرسکیں تو ساری کوششیں بے کار رہیں گی اور ہم کامیابی سے ہم کنار نہ ہوسکیں گے، یوں ہم خود بخود خود کار عمل کے تحت جال میں پھنستے جاتے ہیں اور پھر ہمارا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔
بیشتر افراد، شعور اور لاشعور کی باہمی کشمکش کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور اپنی زندگی کو جہنم بنالیتے ہیں، دوسری طرف چند ایسے افراد بھی موجود ہیں جو اپنے لاشعور کو شعور کے ذریعے چلاتے ہیں، ان کا لاشعور ان کے شعور کے ماتحت ہوتا ہے اور وہ اس کی بے پناہ مخفی قوتوں کو باآسانی استعمال کرتے ہیں، درحقیقت مثبت طرز فکر بھی یہی ہے کہ آپ کے شعور میں اختلافات یا دوریاں نہیں ہونی چاہئیں بلکہ انہیں ایک دوسرے کا ساتھی اور ہم قدم ہونا چاہیے، انہیں ایک دوسرے کی نفی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے وجود کا تحفظ کرنا چاہیے، صرف یہی وہ ایک مثبت طریقہ عمل ہے جس کے ذریعے سوچ کی رکاوٹیں دور کی جاسکتی ہیں اور فکر کو مضبوط مرتکز کیا جاسکتا ہے۔
مذکورہ بالا تمام معروضات اور بحث کا مقصد یہ تھا کہ آپ اپنی سوچ اور اس کے تابع اپنے رویوں اور اعمال کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہیں، کھلے دل و دماغ کے ساتھ پوری دیانت داری کے ساتھ تب ہی یہ ممکن ہے کہ آپ موجودہ دور میں درپیش اپنے مسائل سے درست طریقے پر نمٹ سکیں اور ایک آسودہ اور کامیاب زندگی گزار سکیں۔
خطوط یا ای میلز کے ذریعے اور براہ راست ملاقات میں ہمیں اکثر ایسے افراد سے وابستہ پڑتا ہے جو صرف اپنی خواہشات کے غلام ہوتے ہیں اور یہ خواہشات عموماً منفی سوچ اور طرز فکر کے تابع ہوتی ہے، ایسے افراد ہماری کسی مثبت بات پر کوئی دھیان نہیں دیتے، کوئی درست مشورہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا، ان کی زبان پر تو صرف ایک ہی بات ہوتی ہے کہ وہ جو کچھ چاہتے ہیں، وہ ہو جائے، ہم اس سلسلے میں ان کے لیے جو کچھ کرسکتے ہیں، کردیں، وہ اپنے ماضی کی ان غلطیوں کو اگر تسلیم بھی کرلیں جن کی بدولت وہ موجودہ حال کو پہنچے ہیں تو بھی ان کی ضد یہی ہوتی ہے کہ بس اب جو کچھ ہونا تھا ہوچکا مگر فوری طور پر آپ ہمیں کوئی ایسا عمل، نقش یا وظیفہ وغیرہ بتادیں کہ ہم اپنا مقصد حاصل کرلیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر تو ان کا مقصد ہی فساد اور ساری خرابی کی جڑ ہوتا ہے جس کی اندھی محبت اور خواہش نے انہیں پے درپے غلط راہوں پر چلنے کے لیے مجبور کیا اور وہ بالآخر تباہی و بربادی کے دہانے تک پہنچ گئے مگر اس منفی مقصد سے دست بردار ہونے کو وہ پھر بھی تیار نہیں ہوتے۔
ایک صاحب لکھتے ہیں کہ ”میں ہر صورت میں دولت حاصل کرنا چاہتا ہوں لیکن اپنی ذات کے لیے نہیں، دوسروں کی مدد کرنے اور خلق خدا کو فائدہ پہنچانے کے لیے“ہم نے جواب دیا کہ آپ کوئی قومی رہنما ہیں جو خلق خدا کی فکر میں گھلے جارہے ہیں، آپ کو اپنی ذات اور ذات سے متعلق جڑے ہوئے افراد کی فکر کرنی چاہیے۔
کوئی روحانی قوتوں کا حصول صرف اس لیے چاہتا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں سے اپنا بچاو کرے اور انہیں ان کے کالے کرتوتوں کی سزا دے سکے۔
بعض لڑکے لڑکیاں من پسند شادی یا اپنی محبت کے حصول کے لیے زندگی کے تمام تقاضوں، تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف اپنی اسی خواہش کی تکمیل کے لیے اپنی بہترین صلاحیتوں اور عمر عزیز کے بہترین سالوں کو فضول سرگرمیوں کی نذر کردیتے ہیں، الغرض منفی طرز فکر کی بے شمار مثالیں ہیں جو اگر تفصیل سے بیان کی جائیں تو کئی صفحات کالے ہوجائیں۔