برسوں سے ملنے والی ڈاک یا ای میلز وغیرہ میں شاید ہی کوئی تحریر ایسی ہوتی ہو جسے لکھنے والا اپنی زندگی میں اطمینان و سکون اور خوشیوں کی نوید دیتا نظر آئے، اس کے برعکس ہر خط تڑپتی سسکتی اپنے گوناگوں عذابوں پر نوحہ خواں انسانیت کے کرب و اذیت کا نمونہ ہوتا ہے جسے پڑھ کر دل و دماغ ایک عجیب سی اضطرابی کیفیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
آخر ہر شخص اس قدر پریشان اور مصیبت زدہ کیوں ہے؟ وہ بھی جو لاکھوں کمارہا ہے اور ہزاروں خرچ کرکے بھی رات کو سکون کی نیند نہیں سو سکتا، دن میں اپنی تفریحات اور اہل خانہ کے لیے فرصت کے چند لمحات نہیں نکال سکتا اور وہ بھی جو قلیل آمدنی میں روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے روزوشب محنت و مشقت میں مصروف ہے، اپنی صحت کی خرابیوں کی جانب سے بے پروا اس مختصر سی زندگی کو مزید مختصر کیے جارہا ہے، ایسے ہی افراد کے لیے کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا۔
مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے
ہمارے مذکورہ بالا سوال پر اگر دانش وران وقت کو اظہار خیال کی دعوت دی جائے تو وہی روایتی تقریریں سننے کو ملیں گی جن میں سیاست و معاشیات کی کھچڑی میں نئے وقت کے ترقیاتی تقاضوں کا تڑکا لگا ہوگا، تعلیم کی کمی اور جدید سائنسی نظریات سے ناآشنائی کا رونا ہوگا تو کیا واقعی ہمارے موجودہ معاشرے کی بدحالی ، دلی اضطراب اور ذہنی خستہ حالی اقدار کی تباہی، دلوں سے محبت کا فقدان وغیرہ کے اسباب و عوامل مندرجہ بالا امور وجوہات ہی میں پوشیدہ ہیں یا ان کا کوئی اور سبب بھی ممکن ہوسکتا ہے؟
آئیے اس سوال پر پیراسائیکولوجی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں کیوں کہ پیراسائیکولوجی کا عقیدہ انسانیت، اخلاق حسنہ اور مذاہب عالم کی تعلیمات کو علمی اور سائنسی انداز میں پرکھتے ہوئے ہمارے آج کے معاشرے میں مذہب اور سائنس کے درمیان پائے جانے والے خلا کو پرکرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
پیراسائیکولوجی کا ہر طالب علم انفرادی سطح پر تو کسی بھی نظریے، مسلک یا مذہب کا پیروکار ہوسکتا ہے مگر اجتماعی طور پر وہ ہر قسم کی پابندی سے بلند ہوکر نوع انسانی بلکہ تمام مخلوقات عالم کی بہتری، بہبود اور خدمت کے لیے ہمہ وقت مستعد اور تیار رہتا ہے۔
ہمارا آج کا معاشرہ دو انتہاوں میں بٹ کر رہ گیا ہے، نتیجتا ہم اپنے تمام تر مادی وسائل، ترقی اور تعیشات کے باوجود ذہنی کرب اور بے سکونی کی آگ میں جل رہے ہیں،مسائل کا ایک سمندر ہے جو انسان پر اس کی تمام تر قوتوں اور صلاحیتوں کے باوجود حاوی نظر آتا ہے، کہیں انسان صاحب اقتدار ہوکر اپنی حیوانی خواہشوں، انا پرستی اور ظلم و جبر کے زور پر اپنے ہی ہم جنسوں کا استحصال کر رہا ہے ، کہیں صاحب زر ہوکر اور کہیں مذہب کی آڑ لے کر ذاتی مفاد کی خاطر اجتماعیت کو قربان کیے دے رہا ہے، یہ جوہری بم نیو کلیئر اور کیمیاوی ہتھیاروں کی بھرمار اور ان کے زور پر دی جانے والی دھونس دھمکیاں انسانیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہیں، ناگاساکی کے محروموں کی سسکیاں ابھی تک فضا میں سر سرارہی ہیں، ہیروشیما کے سینے کا زخم انسان کا سرشرم سے جھکانے کو اب بھی بہت ہے۔
آج اور ہزاروں سال قبل کے آدمی میں کیا فرق پیدا ہوا ہے؟ کیا یہ کہ پہلے وہ پتھروں اور کُند نیزوں سے ہلاک کیا کرتا تھا اور اب ان کی جگہ مشینی ہتھیاروں نے لے لی ہے یا پھر یہ کہ وہ سفر کے لیے گدھے گھوڑے استعمال کیا کرتا تھا جب کہ آج ہم سپر سانک طیاروں کی بات کرتے ہیں، وہ تنگ و تاریک غاروں میں رہا کرتا تھا اور ہم کشادہ اور ہوادار مکانات میں رہتے ہیں، کیا یہ حقیقت نہیں کہ بابل، یونان، مصر اور قدیم تہذیبوں کے آدمی میں جو حیوانی خواہشات پائی جاتی تھیں، وہی آج ہم میں مزید شدت کے ساتھ پائی جاتی ہیں، کیا یہی ہماری وہ ”ترقی“ ہے جس پر ہمیں ناز ہے، جب تک آج کا انسان اپنے نظریات میں انتہا پسند رہے گا اور اعتدال یا میانہ روی اختیار نہیں کرے گا وہ صحیح معنوں میں ترقی کے مراحل طے نہ کرسکے گا، انتہا پسندی خواہ نظریاتی ہو، مذہبی ہو، لسانی ہو، ثقافتی ہو یا سائنسی، یہ انسان کی آفاقیت کو محدود کردیتی ہے اور وہ انتہا پسندی کے خول میں بند ہوکر بعض ثابت شدہ عقلی اور سائنسی طور پر معقول حقائق کو بھی جھٹلانے لگتا ہے، مذہب اور سائنس کے درمیان پایا جانے والا خلا اسی انتہا پسندی کی واضح مثال ہے، پیراسائیکولوجی ایک ایسا سائنسی علم ہے جو اس خلا کو پر کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتا ہے کیوں کہ یہی خلا انسان کے تعمیری اور تخلیقی ارتقا کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہی رکاوٹ شاید روز بروز نت نئے مسائل کو جنم دے رہی ہے۔
یاد رکھیے! ارتقاءفطرت کا اٹل قانون ہے، کائنات ہر لمحہ ایک نئی جہت، ایک نئے رخ کی طرف بڑھ رہی ہے۔
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
جو لوگ فطرت کے اس قانون کو نہیں سمجھ پاتے یا سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں انہیں اس کا خمیازہ تنزل، پستی، جہالت اور گمنای کے اندھیروں کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے،ا نسان اگر مخلوقات کی بقیہ اقسام سے ممتاز، افضل یا ان پر فائق ہے تو اس کی وجہ بھی ”شعوری ارتقائ“ کی یہی صلاحیت ہے، اس کا ذوق تجسس اسے کشاں کشاں نئے نئے حقائق تک رسائی دلاتا اور علم و آگہی کے نئے نئے در وا کرتا چلاجاتا ہے ، مخلوقات کی تمام انواع قوانین فطرت کی پابند ہےں جب کہ فطرت انسان کی پابند اور بشر کے تحت ہے، اگر وہ حقیقی بشر ہو تب!
انسان اگر اپنی ارتقائی صلاحیت کو بھلا بیٹھے یا اسے پس پشت ڈال دے اور محض حیوانی اور نفسانی خواہشات کی تکمیل ہی کو اپنا مقصد حیات ٹھہرائے تو پھر ایک جانور میں اور اس میں کیا فرق باقی رہا۔
کائنات کی ارتقائی تیزی کا عالم یہ ہے کہ ”کلُ یوم ہوفی شان“ طلوع ہونے والا، ہر نیا دن ارتقاءکی نئی شان کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے اور ہم ابھی تک اپنی خواہشات و حواس میں الجھے بیٹھے ہیں، اپنی محدود فکری صلاحیت کو لامحدود ثابت کرنے میں مصروف ہیں، ترقی و حرکت کی اہمیت کے بارے میں ایک اور ارشاد رسول اکرم سنتے چلیے۔
”جس شخص کے تین دن یکساں حالت میں گزر جائیں، سمجھ لو کہ وہ شخص خسارے میں ہے“
جدید سائنس کی طوفانی رفتار مستقبل کے خوابوں کو حال کی حقیقت اور آج کی حقیقتوں کو خیال اور اوہام بناتی چلی جارہی ہے، موجودہ ترقی کی رفتار کا اگر یہی حال رہا تو بہت ممکن ہے کہ صرف چند برسوں میں ہی سائنس اور مذہب کا موجودہ خلا ختم ہوجائے، کثافت تقسیم کے بتدریج عمل سے لطافت میں بدل ہی چکی ہے اور اب وہ دن بھی دور نہیں جب لطافت کو کسی عمل کے ذریعے کثافت میں بدلا جاسکے گا۔
پیراسائیکولوجی پر مشرق میں کی جانے والی صدیوں پر محیط تحقیق کے نتائج جدید سائنس درست تسلیم کر رہی ہے مثلاً یہ نظریہ کہ انسان ابھی تک اپنی عام زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا ایک حقیر حصہ ہی استعمال کرپاتا ہے، ثابت ہوچکا ہے اس دور کا جدید انسان اور عام نوعیت کی سائنسی معلومات رکھنے والا ذہن بھی یہ بات جانتا ہے کہ انسان کی تمام زندگی میں اس کے دماغ کا ایک بڑا حصہ قطعی غیر مستعمل رہ جاتا ہے اور اس کے ساقتھ ہی قبر میں چلا جاتا ہے، فرض کیجیے دماغ کو سو فیصد تصور کیا جائے تو جدید تحقیق کے مطابق ایک عام آدمی اپنی تمام زندگی میں اس کا صرف چار سے چھ فیصد ہی استعمال کرپاتا ہے،نیوٹن جیسا ذہین ترین سائنس داں بھی اس سو فیصد کا صرف تقریباً دس فیصد ہی استعمال کرپایا تھا، واضح رہے کہ آئزک نیوٹن وہ شخص ہے جسے مشہور کتاب ”دنیا کے سو بڑے انسان“ (جنہوں نے دنیا کو سب سے زیادہ متاثر کیا) میں درجات کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہے، پہلے نمبر پر آقائے کائنات ہمارے رسول اکرم ہیں، یہ کتاب دنیا بھر کے اہل علم کی مشورت سے مائیکل ایچ ہارٹ نے مرتب کی تھی۔
اب جب کہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے اور جدید سائنس بھی اس حقیقت کو مان چکی ہے کہ ہم ابھی تک اپنی ذہنی صلاحیتوں کا صرف چند فیصد ہی استعمال کرپاتے ہیں اور ہماری دماغی قوت کا بڑا حصہ خوابیدہ ہی رہتا ہے، اس کے باوجود انسان کی موجودہ حواسی صلاحیت اور حس و حرکی رینج کو نقطہ آخر مان لینا بھلا کہاں کا انصاف ہے؟ بڑے بڑے سائنس داں اپنی تمام تر ترقی کے باوجود ابھی تک یہی اعتراف کر رہے ہیں کہ ”یہ کائنات ایک سمندر ہے اور ہم ابھی تک کناروں پر سیپیاں ہی چن رہے ہیں“
ہم اپنے ابتدائی کالموں میں یہ بات بتاچکے ہیں کہ مغرب کے مادیت زدہ معاشرے میں بھی انیس ویں صدی کے شروع سے پیراسائیکولوجی کے متعلق ٹھوس کام شروع ہوچکا ہے مگر مغرب ابھی تک اس کے ابتدائی درجوں میں ہے جب کہ مشرق میں اسے باقاعدہ ایک علم کے طور پر صدیوں سے تسلیم کیا جاتا رہا ہے اور اس سلسلے میں ایسے ایسے طریقے وضع کیے جاچکے ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہوکر ایک عام فرد میں موجود پوشیدہ صلاحیتیں بے دار ہونے لگتی ہیں، اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ دماغ کا ناقابل استعمال حصہ استعمال ہونے لگتا ہے، یہ ضرور ہے کہ مشرق میں اسے ”روحیت، گیان دھیان یا نفس کشی“ کے ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے جب کہ ”پیراسائیکولوجی“ اس علم کے لیے مغربی اصطلاح ہے۔
پیراسائیکولوجی کے تجویز کردہ طریقوں اور عرف عام میں”ماورائی“ کہلائے جانے والے علوم کا مقصد یہی ہے کہ انسان میں ایسی جرات رندانہ پیدا ہو کہ وہ اس کائناتی سمندر کی عظمت ورفعت کا طلسم پاش پاش کردے لیکن اس سے پہلے ہمیں چاہیے کہ اپنی ذات کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہوکر اس در نایاب اور گوہر آب دار کو حاصل کرلیں کہ جسے پاکر انسان اپنے حقیقی اور ازلی شرف سے ہم کنار ہوتا ہے تب زمان و مکان ایسے شہ زور بھی اس کے آگے سر جھکا دیتے ہیں، اس کی نظریں لامکانی پردوں کو الٹ دیتی ہیں اس کی زبان رموز ہائے نہاں کو بیان کرتی اور اس کا زور بیان کائناتی طنابوں کو تھام لیتا ہے پھر اس کے لیے کوئی مسئلہ ، مسئلہ نہیں رہتا، ذہن و دل کو وہ سکون اور اطمینان حاصل ہوجاتا ہے جس کی ہر روح انسانی متلاشی ہے، خلاصہ اس کلام کا یہ ہے کہ نوع انسان کو بہ حیثیت مجموعی اپنی تعمیر، تشکیل اور مفید وجود کے لیے پیراسائیکولوجی میں بہر حال دلچسپی لینی چاہیے تاکہ ہماری شخصیت مکمل بھرپور اور جامع انداز میں سامنے آسکے اور ہم ارتقائی منازل میں فطرت کے شانہ بشانہ چل سکیں، اس کے بغیر شاید یہ کبھی ممکن نہ ہوسکے کہ ہم ایک خوش حال، مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے میں سانس لے سکیں، انشاءاللہ اس موضوع پر مزید گفتگو آئندہ بھی جاری رہے گی۔