علاج معالجہ
ہمارے پیش نظر زیر بحث مسئلہ درحقیقت یہ ہے کہ موجودہ معاملہ کسی جسمانی عضویاتی خرابی کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق بنیادی طور پر ذہن سے ہے اور اس حوالے سے جس قدر پروپیگنڈا پیشہ ور معالجین نے کر رکھا ہے، اصل معاملہ اس کے برعکس ہے، درحقیقت یہ کوئی مرض ہی نہیں ہے جس کے علاج کے لیے بیش قیمت اور تیر بہ ہدف نسخہ جات کی ضرورت پیش آئے، خود لذتی تو ایک عادت ہے اس عادت کو ترک کردیا جائے اور ذہن سے یہ وہم نکال دیا جائے کہ اس عادت کی وجہ سے فلاں محرومی پیدا ہوگی یا فلاں کمزوری نے جنم لے لیا ہے تو معاملہ خود بہ خود اصلاح و درستگی کی طرف مائل ہوجاتا ہے، یہ بات اکثر مشاہدے میں آئی ہے کہ طویل عرصے تک اس عادت میں مبتلا رہنے والے افراد شادی کے بعد خود بہ خود ٹھیک ہوگئے اور صاحب اولاد بھی ہوئے، یہ درست ہے کہ اس عادت کے سبب کچھ چھوٹی موٹی جسمانی خرابیاں بھی پیدا ہوئی ہیں مگر وہ قابل ذکر نہیں ہیں، ان خرابیوں کی موجودگی میں بھی لوگ کامیاب ازدواجی زندگی گزارتے پائے گئے ہیں،ان کی وجہ سے انسان کی بنیادی قوتیں متاثر نہیں ہوتیں کیوں کہ ان قوتوں کا اصل تعلق تو انسانی خواہش سے ہے اور خواہش ہمیشہ ذہن میں پیدا ہوتی ہے، اگر ذہن تندرست و توانا ہے تو باقی اعضائے جسمانی اس کے حکم پر ذہن میں جنم لینے والی خواہش کے مطابق عمل کریں گے بہ صورت دیگر کچھ بھی ممکن نہیں ہے، بد قسمتی سے اس عادت کی کثرت کا شکار ہونے والے افراد اپنی ذہنی قوتوں کو ہی سب سے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں، وہ احساس جرم و گناہ، شرمندگی، خوف وغیرہ کے زیر سایہ آکر خود کو ذہنی صحت کے لیے مفید تمام کاموں سے دور کرلیتے ہیں، تنہائی اور ایک تصوراتی و خیالی دنیا ان کی جنت بن جاتی ہے، جب کہ ذہنی صحت مندی کے لیے معاشرے میں سرگرم حیثیت اختیار کرنا اور حقائق کا سامنا کرنا بھی نہایت ضروری امر ہے، وہ بے حد حساس ہوجاتے ہےں، چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی گہرا اثر قبول کرتے ہےں پھر اس اثر کے ازالے کی ان کے پاس کوئی صورت بھی نہیں ہوتی کیوں کہ انہوں نے خود کو دوسروں سے الگ کرکے ایک نئی دنیا میں قید کرلیا ہوتا ہے، اس موقع پر فیض احمد فیض کا شعر بڑا برمحل ہے۔
مجھی سے میری صدا ہم کلام ہوتی رہی
یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا شخص اس صورت حال سے کیسے نکل سکتا ہے، کس راستے سے اسے اس کی حقیقی منزل کی طرف لایا جائے اور ایسا بھی ہوسکتا ہے یا نہیں؟
ہمارے معالجین تو خیر اس حوالے سے ہمیشہ ہی بڑے بڑے دعوے کرتے آئے ہیں اور اپنی زود اثر ادویہ کی نہایت زوروشور سے پبلسٹی بھی کرتے رہے ہیں مگر پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے ناکام و نامراد افراد کی تعداد میں کوئی کمی نہیں ہوتی بلکہ عموماً تو یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
اس عادت کا شکار ہوکر تباہی کے راستے پر گامزن ہونے والوں کو ہم بہ آسانی دو گروہوں میں تقسیم کرسکتے ہیں، ایک تو وہ جو جلد یہ احساس کرلیتے ہیں کہ وہ تباہی کی طرف جارہے ہیں اور انہیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینا چاہیے، دوسرے وہ ہوتے ہیں جنہیں بہت دیر میں یہ خیال آتا بھی ہے تو وقت بہت زیادہ گزر چکا ہوتا ہے اور وہ چاہتے ہوئے بھی اپنی اصلاح کے لیے کوئی قدم اٹھانے کے قابل نہیں رہتے، اول الذکر کا معاملہ زیادہ الجھن اور پریشانیوں کا باعث نہیں بنتا، اگر وہ درست معالج تک پہنچ جائیں یا کسی طور اپنی قوت ارادی سے کام لے کر اس عادت سے نجات پالیں تو مسئلہ حل ہوجاتا ہے، البتہ دوسرے گروہ کا معاملہ خاصا مشکل ہوجاتا ہے کیوں کہ ان میں سے زیادہ تر افراد ذہنی طور پر اس قدر کمزور اور ناکارہ ہوچکے ہوتے ہیں کہ وہ نہ تو خود کوئی اصلاح کی کوشش کرسکتے ہیں نہ دوسروں کی کوششوں میں ان سے تعاون کرنے کے قابل ہوتے ہیں لیکن ہمارے نزدیک ناقابل علاج وہ بھی نہیں ہیں۔
علاج کے حوالے سے ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس معاملے میں دوائیں( خواہ وہ حکمت کی ہوں یا ایلوپیتھی کی یا آیورویدک)ثانوی حیثیت رکھتی ہیں کیوں کہ یہ تینوں طریقہ علاج مادی اور جسمانی اعضاءکی اصلاح پر زور دیتے ہیں، نفسیات اور ہومیوپیتھی کا معاملہ ہمارے نزدیک اس سے مختلف ہے، ہم پہلے بھی ہومیو پیتھی کو روحانی علاج کا نام دے چکے ہیں، اس موقع پر ہمیں علامہ سید سلیمان ندوی کا ایک جملہ یاد آگیا ہے جو ہمارے اس دعوے میں ثبوت کا درجہ رکھتا ہے، خیال رہے کہ علامہ صاحب برصغیر کی بہت بڑی علمی شخصیت تھے، علامہ شبلی نعمانی کے شاگرد رشید اور جانشین، شبلی نعمانی کے بعد سیرت النبی جیسی بلند پایہ کتاب آپ ہی نے مکمل کی، فرماتے ہیں کہ”ہومیو پیتھی طب کا تصوف ہے“ بس اس تعریف کے بعد کچھ مزید کہنے کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ ہومیو پیتھی کا روحانیت سے کیا تعلق و واسطہ ہے، اب آجائیں اصل موضوع کی طرف۔
ہمارے تجربے اور مشاہدے کے مطابق ایسے افراد کا بہترین اور شافی علاج پیرا سائیکولوجی کے ذریعے ہی ممکن ہے اور سانس کی مشقیں اس سلسلے کی پہلی کڑی ہیں، دوسرے نمبر پر ارتکاز توجہ کی مشقیں ہیں جن میں شمع بینی اور مراقبہ شامل ہیں، سانس کی مشقوں میں ”مشق تنفس نور“ سب سے پہلے شروع کرنا چاہیے اور تین یا پانچ چکر روزانہ صبح و شام کا معمول بنالینا چاہیے، تین ماہ بعد دو چکر کا اضافہ کردیں یعنی تین چکر کر رہے تھے تو پانچ کردیں اور پانچ سے شروع کیا ہے تو سات چکر کردیں، عموماً تین ماہ کی مشق ایسے مریضوں کو راہ راست پر لے آتی ہے لیکن بہت زیادہ بگڑا ہوا کیس مزید عرصہ بھی لے سکتا ہے، خاص طور پر اگر ماہرین نفسیات یا ایلوپیتھ ڈاکٹروں نے خواب آور مسکن ادویہ پر نہ لگادیا ہو تو جلد راہ راست پر آنے کی امید ہوتی ہے ورنہ ایک خراب عادت کی وجہ سے دوسری خراب عادت میں مبتلا ہوکر مریض کہیں کے نہیں رہتے، بہر حال مشق ”تنفس نور“ مسکن ادویہ کی عادت چھڑانے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے، بہ شرط یہ کہ اسے پابندی سے کرتے رہیں۔
تین ماہ کے دوران میں اگر مطلوبہ نتائج سامنے آنے لگیں یعنی انسان مشق کی طرف راغب ہوجائے اور اسے دلچسپی سے کرنے لگے تو پھر شمع بینی یا مراقبہ ساتھ میں شروع کرنا چاہیے، سانس کی مشقیں ذہن کی ازسر نو تربیت کرتی ہیں اور ہر عادت بد کو چھڑانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں، یاد رکھیے کسی غلط اور خراب عادت کا نعم البدل کوئی صحت مند عادت ہی ہوسکتی ہے، ان مشقوں سے رفتہ رفتہ خود اعتمادی بحال ہونے لگتی ہے اور قوت ارادہ مضبوط ہوتی ہے اور یہی وہ جوہر بے مثال ہے جو ناممکن کو ممکن کر دکھاتا ہے اس کے ساتھ اگر ہومیو پیتھی کی ایسی دواو¿ں کا سہارا بھی لے لیا جائے جو انسان کی مزاجی کیفیات کے مطابق ہوں تو سونے پر سہاگہ ہوگا، یہاں ہم ایسی دواوں میں سے صرف ایک دوا کا نام لکھ رہے ہیں جو اس حوالے سے ممتاز حیثیت رکھتی ہے اور وہ ہے اسٹیفی سیگریا (Staphi sagria) ، یہ دوا عام ملتی ہے لیکن بہتر بات یہی ہوگی کہ کوئی بھی دوا کسی تجربہ کار ڈاکٹر سے مشورے کے بعد شروع کی جائے کیوں کہ مریض کی مزاجی کیفیت کے مطابق دوا کا انتخاب اور اس کی طاقت کا تعین بہر حال ایک ڈاکٹر ہی صحیح طور پر کرسکتا ہے، ہمارے خیال میں مندرجہ بالا دوا کم از کم ایک ہزار طاقت میں پندردہ دن میں ایک مرتبہ استعمال کرنی چاہیے، خیال رہے کہ ہومیو پیتھک دوائیں مختلف طاقتوں میں دستیاب ہوئی ہیں اور ان طاقتوں کا استعمال حسب ضرورت کیا جاتا ہے۔
اسٹیفی سیگریا ایک ایسی عجیب دوا ہے جس پر تفصیلی گفتگو کا تو یہ کالم متحمل نہیں ہوسکتا لیکن مختصراً اتنا عرض کردیں کہ یہ دوا حد سے بڑھی ہوئی حساسیت کو کنٹرول کرتی ہے یعنی انسانی ذہن کے انتشار اور خلفشار سے پیدا ہونے والے اثرات بد کو دور کرکے ذہن کو نارمل بنانے میں مددگار ہوتی ہے، وہ لوگ جو اپنے غصے کی وجہ سے پریشان ہیں اور شدید غصے میں آنے کی وجہ سے مختلف بیماریوں مثلاً ہائی بلڈ پریشر، ڈپریشن، تشنج، رعشہ جیسی شکایت کا شکار ہوتے ہوں، انہیں بھی اس دوا کو ہفتے میں ایک بار دو سو طاقت میں استعمال کرلینا چاہیے، غصے میں کمی آجائے گی اور غصے سے پیدا شدہ امراض کا علاج آسان ہوجائے گا۔
خود لذتی کی عادت میں مبتلا افراد کی بڑھی ہوئی حساسیت کے لیے ہم نے ابتدائی نوعیت کا جو علاج تجویز کیا ہے، اس سے وہ لوگ بھی فائدہ اٹھاسکتے ہیں جو کسی اور وجہ سے ذہنی و اعصابی کمزوری کا شکار ہوکر شدید حساسیت کی زد میں آگئے ہوں۔
اب ایک آخری سوال اور باقی رہتا ہے، اس حوالے سے کچھ ایسے مریض بھی سامنے آتے ہیں جو اپنا علاج کرانا ہی نہیں چاہتے یا چاہتے بھی ہیں تو ان میں اتنی ہمت اور مستقل مزاجی ہی نہیں ہے کہ وہ پابندی سے کوئی مشق وغیرہ کرسکیں یا دوائی کھاسکیں، دوا کھانے کے لیے تیار بھی ہوتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ بس ہفتہ دو ہفتہ میں بالکل بھلے چنگے ہوجائیں اور ابتدائی دو تین دن ہی میں انہیں بہتر نتائج نظر آنے لگیں، ایسے لوگ اپنی ایب نارمل ذہنی کیفیت کے سبب بہت بڑا مسئلہ ہوتے ہیں، وہ یا تو نام نہاد ڈاکٹروں اور حکیموں کے چکر میں پھنس ک ر خود کو مزید برباد کرتے ہیں یا پھر نام نہاد پیشہ ور عاملوں، پیروں اور فقیروں کا تختہ ءمشق بن کر ہمیشہ کے لیے آسیبی، جناتی یا سحرزدہ مریض بن جاتے ہیں۔
یہاں ہم یہ وضاحت بھی کرتے چلیں کہ کسی بھی وجہ سے بڑھی ہوئی شدید حساسیت ہی سحروجادو اور آسیب و جنات کے مریض سامنے لاتی ہے جنہیں اوج کمال تک ہمارے نام نہاد عاملین و کاملین اور جاہل پیر فقیر پہنچادیتے ہیں، ملک بھر کے مزارات ایسے مریضوں سے بھرے پڑے ہیں، ایسے مریضوں کی ایک قسم اور بھی ہے، وہ روحانیت کا چولا پہن کر بابا یا باجی اللہ والی بن بیٹھتے ہیں، ان پر مشہور صوفی بزرگوں کی حاضری یا سواری آنے لگتی ہے، لاحول ولا قوة، یہ بات ان بزرگ پر بھی ایک تہمت ہی ہے
شدید حساسیت کے اسباب و عوامل کا ایک جائزہ
عزیزان من! گزشتہ کالموں میں ہم نے بے پناہ حساسیت کا شکار ہونے والے افراد سے بڑھی ہوئی حساسیت کے ایک سبب ”خودلذتی کی عادت“ پر بحث کی اور اس کے ابتدائی علاج کا طریقہ بھی بتایا، گزشتہ کالم کے آخر میں یہ ذکر بھی آگیا تھا کہ بڑھی ہوئی حساسیت کا سبب صرف خودلذتی ہی نہیں ہوسکتا بلکہ اس کی دیگر وجوہات بھی ہوسکتی ہیں، ہماری نظر میں اس کی پہلی اور بنیادی وجہ تو پیدائشی ہوتی ہے یعنی انسان جب دنیا میں پہلی سانس لیتا ہے تو اپنے ساتھ کچھ موروثی اثرات و خواص ساتھ لے کر آتا ہے جو اسے اپنے ماں باپ سے ملے ہوتے ہیں اور اس کے ماں باپ کو اپنے ماں باپ سے ورثے میں حاصل ہوئے ہوتے ہیں، عام زبان میں اسے خون یا نسل کے اثرات کہا جاتا ہے مگر علم نجوم کے ماہرین اسے مختلف بروج کے ماتحت پیدا ہونے والا نسلی سلسلہ قرار دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ماں باپ جن بروج کے تحت پیدا ہوئے ہیں، بچے بھی ان کی مخصوص ترتیب کے تحت ہی پیدا ہوں گے، اب یہ مسئلہ بڑا پیچیدہ ہوجاتا ہے کیونکہ ہر شخص اپنے تین بروج یا دو بروج ضرور رکھتا ہے، صرف ایک برج کے تحت پیدا ہونے والے خال خال ہی نظر آتے ہیں، تین بروج کے زیر اثر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان پہلے نمبر پر اپنے شمسی برج اور دوسرے نمبر پر قمری برج اور تیسرے نمبر پر پیدائشی برج کے زیر اثر ہوتا ہے، شمسی برج سے مراد وہ برج ہے جس میں اس کی پیدائش کے وقت شمس (سورج) حرکت کر رہا تھا، قمری برج وہ ہوگا جس میں قمر (چاند) موجود تھا اور پیدائشی برج کسی بھی نومولود کی پیدائش کے وقت، پیدائش کے مقام کے مقابل طلوع برج کو قرار دیا جائے گا، لہٰذا کسی بھی شخص کی تاریخ پیدائش یعنی تاریخ مہینہ اور سن سے شمسی اور قمری برج معلوم کیے جاتے ہیں اور وقت پیدائش سے پیدائشی برج اور اس کا متعلقہ سیارہ معلوم ہوتا ہے جسے طالع پیدائش، لگن یا رائزنگ سائن کہا جاتا ہے، اب یہ ممکن ہے کہ ایک شخص کا شمسی برج حمل، قمری برج ثور اور پیدائشی برج جوزا ہو، اسی مناسبت سے کوئی بھی کمبی نیشن بن سکتا ہے یعنی کسی بھی تین برجوں کے اثرات و خواص ہلکے یا گہرے اس شخص کی ذات، شخصیت ، فطرت اور کردار پر پڑ رہے ہوں گے اور بعد میں یہی تین برج اور ماہیت کے اعتبار سے ان کے سلسلے کے برج اولاد پر بھی اثرانداز ہوں گے، مثلاً اگر آپ کے مندرجہ بالا تین بروج ہیں تو اولاد میں حمل، ثور اور جوزا کے علاوہ سرطان، جدی، میزان یا ثور کی ماہیت کے سلسلے کے بروج اسد، عقرب اور دلو یا پھر جوزا کے سلسلے کے سنبلہ، قوس اور حوت میں سے کوئی ایک یا ایک سے زیادہ بروج اولاد کو ورثے میں ملیں گے۔ یہ معاملہ صرف باپ تک محدود نہیں ہے، ماں سے بھی اسی طرح ورثہ ملتا ہے، اب یہ الگ الگ مسئلہ ہے کہ اولاد میں سے کون سا بچہ باپ کے بروج زیادہ ورثے میں پاتا ہے یا ماں کے، اسی مناسبت سے اس میں باپ کے یا ماں کے ذاتی خواص کی نمود ہوگی۔
اس ساری وضاحت کا مقصد یہ تھا کہ بعض خصوصیات انسان پیدائشی طور پر اپنے اندر رکھتا ہے اور ان میں سے ایک حساسیت بھی ہوسکتی ہے، عموماً تجربے اور مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ دائرةالبروج کے بارہ بروج میں سے تین برج اپنے اندر گہری اور شدید حساسیت رکھتے ہیں، وہ تین برج سرطان، عقرب اور حوت ہیں، دوسرے درجے پر حمل، اسد اور قوس مشاہدے میں آئے ہیں، میزان اور دلو بھی حساس ہوتے ہیں مگر اولین حیثیت سرطان، عقرب اور حوت ہی کو حاصل ہے، ثور، جوزا، سنبلہ اور جدی کسی بات کا گہرہ اور دائمی اثر قبول نہیں کرتے، یہ الگ بات ہے کہ ان کے ساتھ کوئی حساس برج بھی ہو تو بات دیگر ہوگی۔
اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے دوران میں ہم نے کئی بار اپنی زیر ادارت ماہنامہ سرگزشت کے خصوصی موضوعاتی نمبر مرتب کیے ہیں، مثلاً ”دوسری شادی نمبر“ جس میں ایسے افراد کی سرگزشت تھی جنھوں نے ایک سے زائد شادیاں کیں ”خود کشی نمبر“ یا ”کنوارا کنواری نمبر“ وغیرہ ۔
خودکشی نمبر میں خودکشی کرنے والوں، شدید اور گہری محبت کرنے والوں کی داستانیں تھیں، اس کام کے دوران میں ایسے بے شمار افراد کے زائچے بھی مطالعے میں آئے اور ان میں کچھ باتیں مشترک ملیں، مثلاً تمام خودکشی کرنے والے، شدید محبت کرنے والے، انتقامی جذبات کا شکار ہونے والے یا کسی بھی انتہا پسندی کا شکار ہونے والے افراد کے بروج میں سرطان، عقرب اور حوت کا امتزاج ضرور تھا، اسی طرح ایک سے زائد شادیاں کرنے والے افراد کی اکثریت جوزا،عقرب،میزان، سنبلہ، قوس اور حوت سے تعلق رکھتی تھی، ان سے متعلق افراد اپنی شخصیت میں بھی دہرے کردار یا حساس فطرت کے حامل ہوتے ہیں۔
سرطان، عقرب اور حوت کے زیر اثر پیدا ہونے والے افراد بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں، وہ ہر بات کا بہت گہرا اثر جلد قبول کرلیتے ہیں اور یہ اثر دائمی نوعیت بھی اختیار کرسکتا ہے، اسی لیے ان لوگوں میں نفسیاتی اور روحانی بیماریاں زیادہ پھلتی پھولتی اور نت نئے تماشے دکھاتی ہیں، یہ خودلذتی کی طرف راغب ہوجائیں تو اس عادت سے چھٹکارہ مشکل ہوجاتا ہے، محبت، نفرت، انتقام غرض کوئی جذبہ بھی ہو ان کے اندر حد کمال کو پہنچا ہوا ہوگا جو سودا بھی سر میں سما جائے، رات دن اسی کی دھن سوار رہے گی، پھر دنیا میں مزید کسی بات کا ہوش نہیں رہے گا، یہی لوگ اپنی عمر کے آخری دور یعنی بڑھاپے میں خبطی مشہور ہوجاتے ہیں مگر ہمارے مشاہدے میں آیا ہے کہ خبط کے لیے زندگی کا کوئی دور مقرر نہیں کیا جاسکتا، ان لوگوں کو زندگی میں ابتدا ہی سے کچھ نہ کچھ خبط رہتے ہیں، لہٰذا ایسے بچوں کی پرورش اور تربیت خصوصی توجہ چاہتی ہے، ورنہ ابتدا ہی سے وہ منفی حساسیت کا شکار ہوکر کسی پیچیدہ نفسیاتی، جنسیاتی یا روحانی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور جوں جوں وقت گزرتا ہے ان کا علاج مشکل ترین اور دقت طلب ہوتا جاتا ہے۔
عزیزان من! بڑھی ہوئی حساسیت کی پہلی وجہ ہماری نظر میں یہ ہے، دوسری وجہ اکثر گھریلو اور بیرونی ماحول ہوتا ہے، کہا جاتا ہے کہ بچے کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود اور اس کے بعد گھر کا ماحول، جن گھروں میں ماں باپ کے درمیان عمدہ ذہنی ہم آہنگی نہ ہو، اکثر اختلافات کے سبب فتنہ فساد برپا رہتا ہو، خاندانی تنازعات عروج پر ہوں، ایسے گھروں میں پرورش پانے والے بچے مختلف ذہنی و نفسیاتی پیچیدگیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں، منفی اور مثبت سوچوں کے درمیان ہونے والی جنگ ان کے معصوم ذہنوں کو شدید نقصان پہنچاتی ہے جس کے باعث وہ ابتدا ہی میں درست قوت فیصلہ کی صفت سے محروم ہوجاتے ہیں، ہر معاملے میں جھجک، تذبذب، الجھن اور خوف ان کے پیش نظر رہتے ہیں، لہٰذا ایسے بچے بلوغت تک پہنچتے پہنچتے کسی بھی کجروی اور عادت بد کی لپیٹ میں آسکتے ہیں اور ہر کجروی و عادت بد کی بے شمار ذیلی شاخیں بھی ہوتی ہیں۔
تیسری وجہ بڑھی ہوئی حساسیت کی نوجوانی میں پیش آنے والا کوئی جذباتی سانحہ، حادثہ یا واقعہ بھی ہوسکتا ہے، یا کرئر کے ابتدائی مرحلوں میں ناکامیوں اور محرومیوں سے واسطہ پڑنا، لوگوں کے خود غرضانہ، فریب کارانہ، ظالمانہ رویے بھی اس سلسلے میں خصوصی کردار ادا کرتے ہیں اور پیدائشی طور پر حساس افراد ایسی باتوں کا گہرا اثر قبول کرکے خود بھی منفی سوچوں اور منفی راستوں پر چل پڑتے ہیں، الغرض زندگی کے کسی بھی حصے میں انسان شدید حساسیت کا شکار ہوسکتا ہے
چوتھی وجہ جو کسی بھی عمر میں پیش آسکتی ہے وہ کسی طویل بیماری کا حملہ ہوسکتا ہے، طویل عرصہ کسی بیماری کا شکار رہنے کے سبب انسان جسمانی اور اعصابی طور پر کمزور ہوکر بے حد حساس ہوجاتا ہے، بیماری سے نجات کے بعد اگر جسمانی اور اعصابی توانائی کے لیے معقول خوراک، ورزشیں اور دوائیں نہ استعمال کی جائیں تو یہ کمزوریاں نہ صرف حساسیت کو بڑھا دیتی ہیں بلکہ رفتہ رفتہ اس میں پختگی بھی آجاتی ہے، ایسی بیماریوں میں سرفہرست ٹی بی، ملیریا، ٹائیفائیڈ، نمونیا، دمہ، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، خواتین میں ماہانہ نظام کی خرابی سے پیدا ہونے والے امراض، فالج، مرگی، اور یرقان وغیرہ ہیں، مزید طرفہ تماشہ یہ ہوتا ہے کہ ان تمام بیماریوں کا علاج عموماً ایلوپیتھک طریقہ کار کے طور پر کیا جاتا ہے، جو درحقیقت ایک مکمل علاج ہی نہیں ہے، نتیجے کے طور پر یہ بیماریاں مصنوعی طریقے سے جسم کے اندر دبا دی جاتی ہیں، ختم نہیں ہوتیں اور وقتاً فوقتاً دوبارہ ابھر کر سامنے آتی رہتی ہیں، ان بیماریوں کے زہریلے مادے جسم میں دفن ہونے کے بعد اندر ہی اندر انسان کو گھن کی طرح کھانا شروع کردیتے ہیں جس کی وجہ سے انسان مختلف نت نئی بیماریوں کا شکار ہوتا رہتا ہے، جن کا علاج بھی وہ کبھی مکمل طور پر نہیں کرا پاتا کیونکہ جس انداز میں ہمارے ہاں ایلوپیتھک علاج مروج ہے اس میں اول تو یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی انسان زیادہ دن اس کے اخراجات برداشت کرے بلکہ ہمارے ملک کی اکثریتی آبادی تو زیادہ دن کیا، چند دن بھی ایلوپیتھک علاج کے اخراجات کی متحمل نہیں ہوسکتی، نتیجے کے طور پر بڑے بڑے خطرناک امراض ایک بار جسم و جاں پر اپنا قبضہ جمانے کے بعد ہمیشہ کے لیے قیام پذیر ہوجاتے ہیں، طب و صحت کے حقیقی اصولوں سے ناواقف اکثریت بے صبرے پن اور جلد بازی میں ان کا عارضی علاج عمر بھر کراتی رہتی ہے، مگر ان سے مکمل نجات نہیں مل پاتی بلکہ اب تو صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ کسی کہنہ یا گہرے مرض کے علاج کے لیے اگر کوئی مخلص ڈاکٹر یا حکیم کوشش بھی کرنا چاہے تو مریض اس سے تعاون نہیں کرتا کیونکہ نہ تو اس کے پاس اتنا وقت ہے اور نہ فالتو پیسہ کہ وہ طویل عرصے کے لیے خود کو کسی ایسے علاج کے لیے وقف کرے اور اس دوران میں مرض کے اتار چڑھاو کی پریشانیاں مول لے۔
ہمارے ملک میں ایلوپیتھک طریقہ علاج کی شدید یلغار کے بعد جب طب یونانی کا زوال شروع ہوا (طب یونانی کے زوال سے مراد اعلیٰ درجے کے حکیموں اور طبیبوں کی کمی اور جعلی و نیم حکیموں کی زیادتی ہے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ طب یونانی کی اہمیت افادیت ختم ہوگئی ہے) تو ہم نے نزلے جیسے مرض کو بھی لوگوں میں دائمی طور پر برسوں پروان چڑھتے اور پھر سینے، حلق، ناک، کان، آنکھ یا دماغ کی کسی مہلک بیماری میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے، یہی صورت حال دیگر تمام امراض کی بھی مشاہدے میں آتی ہے، الغرض مختلف بیماریوں میں پھنس کر جب انسان جسمانی طور پر کمزور ہوتا ہے تو اس کمزوری کی وجہ سے اس کے اعصاب بھی متاثر ہوتے ہیں، اعصاب کا متاثر ہونا حساسیت میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
پانچویں وجہ اقتصادی مسائل میں طویل عرصے الجھ کر ناگوار ماحول میں زندگی بسر کرنا اور عمر کا آخری حصہ ہے، جب نہ جسم میں زائد توانائیاں ہوتی ہیں اور نہ اعصاب میں قوت۔ عمر کا یہ زمانہ بھی حساسیت میں اضافہ لاتا ہے، حساسیت کے اسباب پر فی الحال گفتگو یہیں ختم کرتے ہوئے آئندہ ہفتے تک کے لیے اجازت دیجیے۔
ایک اہم معاملے میں غفلت کا رجحان اور اس کے نتائج بد
حساسیت کا موضوع خاصی طوالت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ممکن ہے کہ ہمارے بعض قارئین پر اس کی طوالت گراں گزر رہی ہو۔ مگر ہمارے نزدیک یہ ایک نہایت اہم اور ہمہ جہت موضوع ہے۔ کیونکہ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ انسان درحقیقت احساسات اور جذبات سے کبھی خالی نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوجائے تو پھر انسان صرف گوشت و پوست اور ہڈیوں کا ایک پتلا ہی رہ جائے گا۔ یہ احساسات اور جذبات ہی تو ہیں کہ جو اسے ہر دم مصروف عمل اور سرگرم رکھتے ہیں مگر جب یہی احساسات اور جذبات کسی بھی اندرونی یا بیرونی دبا¶ کے تحت ابتری اور انتشار کا شکار ہوتے ہیں تو انسان نت نئی جسمانی، نفسیاتی یا روحانی بیماریوں کا شکار ہوتا ہے۔
گزشتہ کالموں میں انسانی جذبات و احساسات کے ایسے ہی پہلووں کا جائزہ لیا گیا تھا اور یہ ایک بے حد مختصر جائزہ تھا۔ اس سے پہلے خوف کا موضوع بھی انسان کے احساسات ہی کے ذیل میں تھا اور شاید آئندہ بھی احساسات کا یہ معاملہ وقتاً فوقتاً زیر بحث آتا رہے گا۔ اس موضوع سے فرار ممکن نہیں ہے۔
لیکن درحقیقت بڑھی ہوئی حساسیت ہی کا شاخسانہ ہوتی ہیں۔ مثلاً ہسٹریا، براق، مالیخولیا، مرگی، جنون، خبط، شیزو فرینیا وغیرہ انشا اللہ بہت جلد ان سب حوالوں سے گفتگو کا آغاز ہوگا۔ کیونکہ ہمارے بہت سے پڑھنے والوں کی فرمائش بھی ہے۔