آیئے اب ذرا دیکھیں کہ مذہب اور الہامی کتب جادو کے بارے میں کیا کہتے ہیں ، عربی زبان میں ”سحر“ کے معنے ایسی شے کے ہیں جس کا وجود و اسباب پوشیدہ اور نہایت دقیق ہوں ، ایک عام ذہن کیوں کہ اپنی صلاحیتوں سے واقف نہیں ہوتا اس لےے جادو یا سحر اس کے نزدیک مافوق الفطرت امور ٹھہرتے ہیں ، حالانکہ جادو یا سحر کی حقیقت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ انسان اپنی خفیہ صلاحیتوں کے استعمال سے واقف ہوجائے ، دو رخوں کے قانون کے مطابق ذہنی صلاحیتوں کو مثبت طورپر انسانیت اور فلاح ، امن و ترقی کے لےے بےدار کرنے والوں کو ”عامل“ یا ”ولی“ کہا جاتا ہے ، جب کہ انہی صلاحیتوں کو تخریب اور باطلانہ عزائم کے لےے استعمال کرنے والوں کو ” جادو گر “ کہا جاتا ہے ، جادو کی اگر چہ بہت سی اقسام قدیم زمانوں سے مروج ہیں جن کا تذکرہ آئندہ آئے گا لیکن اولین اور حقیقی قسم کا تعلق نفسِ انسانی سے جڑا ہوا ہے چناں چہ حقیقی جادو گر وہی ہے جو اپنی قوت نفسانیہ سے کام لے کر عالمِ اسباب پر تصرف حاصل کرے۔
مذہب گوکہ سحر و جادو کے وجود کا انکاری نہیں ہے مگر اس کے نزدیک یہ کوئی پسندیدہ امر بھی نہیں ہے ، اس لےے جادو اور سحر کے رد میں کئی آیات و احادیث بھی موجود ہیں ۔
سورہ البقرہ کی آیت نمبر 102 ، کا ترجمہ کچھ یوں ہے:
” اور ان (ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان ؑ کے عہد سلطنت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے اور سلیمان ؑنے مطلق کفر کی بات نہیں کی بلکہ شیطان ہی کفر کرتے تھے کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور ان باتوں کے بھی (پیچھے لگ گئے ) جو شہر بابل میں دو فرشتوں یعنی ہاروت اور ماروت پر اتری تھیں اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو آزمائش ہیں تم کفر میں نہ پڑو غرض لوگ ان سے ایسا (جادو) سیکھتے جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے سوا وہ اس (جادو) سے کسی کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے تھے اور کچھ ایسے (منتر) سیکھتے جو ان کو نقصان ہی پہنچاتے اور فائدہ کچھ نہ دیتے اور وہ جانتے تھے کہ جو شخص ایسی چیزوں (یعنی سحر و جادو وغیرہ) کا خریدار ہوگا اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں اور جس چیز کے عوض انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا وہ بری تھی ۔ کاش وہ (اس بات کو ) جانتے ۔“
سورہ یونس کی آیت نمبر 77، کا ترجمہ کچھ یوں ہے :
” موسیٰ ؑ نے کہا کیا تم حق کے بارے میں جب وہ تمہارے پاس آیا یہ کہتے ہو کہ یہ جادو ہے حالانکہ جادوگر فلاح نہیں پائیں گے ۔“
اسی طرح حضرت موسیٰ ؑ کے واقعات میں سحر و جادو سے متعلق واقعات اور ان کا ابطال قرآن کریم میں جگہ جگہ موجود ہے ، سورہ یونس کی آیت نمبر 81-82 ، سورہ طٰہٰ کی آیت نمبر 67-69 ، اور دیگر آیات بھی سحر و جادو کی حقیقت پر روشنی ڈالتی ہیں ، خاص طورپر حضرت موسیٰ ؑ کے زمانے کا مصر تو سحریات کے حوالے سے عروج و کمال کو پہنچا ہوا تھا اور دنیا کے عظیم جادوگر وہاں موجود تھے جن کو فرعون مصر نے اکٹھا کیا اور حضرت موسیٰؑ کے مقابلے پر لے آیا لیکن پھر اس کا انجام کیا ہوا؟ یہ تمام تفصیل قرآن کریم میں موجود ہے ۔
حضورِ اکرم پر جادو
صحیح بخاری شریف اور صحیح مسلم وغیرہ کُتبِ احادیث میں حضورِ اکرم پر کیے گئے جادو کا تذکرہ موجود ہے،حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ بنو زریق کے ایک شخص نے جس کا نام لبید بن اعصم تھا، رسول اللہ پر جادو کردیا، آپ کو یوں لگتا تھا کہ آپ نے کوئی کام کیا ہے لیکن حقیقت میں آپ نے نہیں کیا ہوتا تھا، پھر ایک دن یا شاید رات تھی آپ میرے پاس تھے، آپ بہت دیر تک دعا کرتے رہے پھر فرمایا ”اے عائشہؓ ! کیا تمہیں پتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بات کا جواب دیا ہے جو میں نے اُس سے پوچھی تھی،میرے پاس دو آدمی آئے ، ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاو¿ں کے پاس بیٹھ گیا، ایک نے اپنے ساتھی سے کہا ، اس آدمی کو کیا ہوا ہے ؟ دوسرے نے جواب دیا اس پر جادو کیا گیا ہے،پہلے نے پوچھا کس نے جادو کیا ہے ؟ دوسرے نے کہا لبید بن اعصم نے۔پہلے نے پوچھا کس چیز میں ؟ دوسرے نے کہا کنگھی میں، کنگھی میں پھنس کر ٹوٹنے والے بالوں میں اور نر کھجور کے چھلکے میں جادو کیا ہے،پہلے نے پوچھا وہ کہاں ہے ؟ دوسرے نے کہا ذروان کے کنویں میں ہے، آپ چند صحابہ کے ساتھ اس کنویں پر تشریف لے گئے، آپ نے فرمایا، اے عائشہ ؓ! اُس کا پانی ایسا تھا جیسے اُس میں مہندی گھولی ہوئی ہو اور وہاں کھجور کے درختوں کی چوٹیاں ایسی تھیں جیسے شیطانوں کے سر ہوتے ہیں۔
مندرجہ بالا واقعہ مزید تفصیلات کے ساتھ کُتب حدیث و تاریخ میں صراحت کے ساتھ موجود ہے،اس واقعہ کے حوالے سے علماءکے درمیان کچھ اختلافی مباحث بھی موجود ہیں، بہر حال ہم کسی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے،اتنا کافی ہے کہ یہ واقعہ مستند کتب حدیث میں موجود ہے۔
جادو کے موضوع پر اللہ کی آخری کتاب قرآن اور نبی اکرم کے واضح ارشادات موجود ہیں جن کا حوالہ ہم دے چکے ہیں، مسلم علماءاور فقہا نے بھی اس موضوع پر کھل کر اظہار خیال فرمایا ہے، یہ الگ بات ہے کہ علماءاور فقہا اگر چہ جادو کے حرام ہونے اور جادوگر کے کفر پر متفق ہےں لیکن جادو کی حقیقت اور اس قدیم علم و فن کے اسرار و رموز سے پوری طرح واقف و باخبر نہیں رہے ہیں اور شاید اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ انہوں نے شرعی احکام کا پاس کرتے ہوئے اس طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔ لہٰذا اکثریت کی رائے میں جادو سے متعلق مباحث میں اختلاف پایا جاتا ہے، موجودہ دور کے بین الاقوامی شہرت یافتہ سعودی عالم شیخ بالی جن کی اس موضوع پر مشہور کتاب موجود ہے، اس اختلاف کی نشان دہی کرتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ امام رازیؒ اور امام راغبؒ نے جادو کی جو اقسام بیان کی ہیں ان کے مطالعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے جادو کے فن میں وہ چیزیں بھی داخل کردی ہیں جن کا جادو سے کوئی تعلق نہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے عربی زبان میں لفظ ”سحر“ کے معنی کو سامنے رکھا ہے اور عربی میں ”سحر“ ہر اس چیز کے بارے میں استعمال ہوتا ہے جو نہایت لطیف (باریک) ہو اور اس کا سبب بھی خفیہ ہو، چناں چہ انہوں نے نئی نئی ایجادات اور شعبدے بازی کو بھی جادو سمجھ لیا ہے، اسی طرح چغل خوری جیسی اخلاقی عاداتِ بد وغیرہ کو بھی جادو قرار دیا ہے، جب کہ ان سب چیزوں کا جادو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
شیخ وحید بالی کے نزدیک تو جادو گر صرف وہ ہے جو جنات اور شیاطین سے کام لیتا ہے، انہوں نے اپنی کتاب میں سحرو جادو اور جنات و آسیب سے متعلق مسائل کو مکمل طور پر جادو گری کے فن سے منسلک کردیا ہے اور جادو کے اعمال میں کفر اور شرک کو ضروری قرار دیا ہے، یہ بات یقیناً درست ہے، جہاں بھی اللہ کے سوا کسی اور سے استعانت کی جائے گی ، شرک لازم ہوجائے گا اور اللہ کے سوا کسی اور کو کارساز تسلیم کرلیا جائے تو کُفر لازم ہوجائے گا۔
آیئے ایک نظر امام رازیؒ کی بیان کردہ جادو کی اقسام پر بھی ڈال لیں۔وہ فرماتے ہیں کہ جادو کی 8 قسمیں ہیں، اول ان لوگوں کا جادو جو 7 ستاروں کی پوجا کرتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہی ستارے کائنات کے امور کی تدبیر کرتے ہیں اور خیروشر کے مالک ہیں، اور یہی وہ لوگ تھے جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو نبی بناکر بھیجا۔
امام رازیؒ کے بقول وہم بھی جادو کی ایک قسم ہے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ ایک درخت کا تنا جب زمین پر پڑا ہو تو انسان اس پر چل سکتا ہے مگر جب اسے کسی نہر پر پل بناکر رکھ دیا جائے تو انسان اس پر نہیں چل سکتا، اسی طرح ڈاکٹروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس شخص کی نکسیر جاری ہو اسے سرخ رنگ کی چیزوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے ورنہ خون کا بہاو¿ مزید بڑھ جائے گا، بعض لوگوں کو پانی یا چمک دار یا گھومنے والی چیزوں کو دیکھنے سے مرگی وغیرہ کا دورہ پڑ جاتا ہے، یہ روک ٹوک اس لیے ہے کہ انسانی نفسیات توہمات کے اثرات شدت سے قبول کرتی ہے۔
امام رازیؒ کے نزدیک جادو کی تیسری قسم یہ ہے کہ گھٹیا ارواح یا ہمزاد یعنی شیطان قسم کے جنوں سے مدد حاصل کرکے جادو کا عمل کیا جائے اور جنات کو قابو میں لانا چند آسان کاموں کی مدد سے ممکن ہے، بشرط یہ کہ ان میں کفر و شرک پایا جاتا ہو۔
خدا معلوم امام رازیؒ جیسے مفسر قرآن نے جنات اور اروا ح کے درمیان فرق کو کیوں ملحوظ نہیں رکھا ؟ اور جنات کو قابو میں لانا آسان کاموں میں شمار کیا ہے اور اس کے لیے صرف اتنی شرط کافی ہے کہ انسان کفر اور شرک کا مرتکب ہو، یہ گناہ تو اجتماعی طور پر تمام غیر مسلم کرتے ہی ہیں۔
چوتھی قسم کے بارے میں امام رازیؒ فرماتے ہیں کہ چند کام شعبدہ بازی اور برق رفتاری سے کرکے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کرنا چناں چہ ایک ماہر شعبدہ باز ایک عمل کرکے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے اور جب لوگ مکمل طور پر اپنی نظریں اس عمل پر ٹکائے ہوئے ہوتے ہیں تو وہ اچانک اور انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ ایک اور عمل کرتا ہے جس کی لوگوں کو ہر گز توقع نہیں ہوتی، سو وہ حیران رہ جاتے ہیں اور لوگوں کی اسی حیرانی میں وہ اپنا کام کرجاتا ہے۔
پانچویں قسم یہ بیان کی ہے کہ عجیب و غریب چیزوں کا استعمال جو بعض آلات کی فٹنگ سے سامنے آتی ہیں مثلاً وہ بگل جو ایک گھڑ سوار کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور وقفے وقفے سے خود بخود بجتا رہتا ہے۔
چھٹی قسم دواو¿ں کے یا جڑی بوٹیوں کے عجیب و غریب خواص سے متعلق ہے جن کے ذریعے مشکل اور پیچیدہ بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ حیرت ہے کہ بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دواو¿ں کے اثرات کو بھی جادو قرار دے دیا ، ممکن ہے اس زمانے میں بعض جڑی بوٹیوں کے بارے میں کچھ ایسے تصورات موجود ہوں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض جڑی بوٹیوں کے باطنی خواص سحری اثرات رکھتے ہیں جیسے بالچھڑ کی خوشبو پر بلی مستانہ وار جھوم اٹھتی ہے،ان کا غلط استعمال شرعاً ممنوع ہوسکتا ہے مگر کسی کی زندگی بچانے کے لیے تو یقیناً جائز ہوگا۔
ساتویں قسم دل کی کمزوری یا عقیدہ و ایمان کی کمزوری قرار دی گئی ہے اور وجہ یہ بتائی ہے کہ جب کوئی جادو گر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے ”اسم اعظم“ معلوم ہے اور جنات اس کی اطاعت کرتے اور اس کی ہر بات پر عمل کرتے ہیں، تو اس کے اس دعوے پر کمزور دل انسان یقین کرلیتا ہے اور خواہ مخواہ اس سے ڈرنے لگ جاتا ہے،چناں چہ اس حالت میں جادو گر جو چاہتا ہے اسے کرگزرنے کی پوزیشن میں آجاتا ہے۔
آٹھویں قسم چغل خوری کرکے لوگوں میں نفرت کے جذبات بھڑکا دینا اور ان میں سے خود کو اپنے قریب کرلینا اور ان سے اپنا مطلب نکالنا۔
حافظ ابنِ کثیرؒؒؒ بھی مفسر اور مو¿رخ ہیں، انہوں نے امام رازیؒؒؒ کی بیان کردہ جادو کی اقسام کے حوالے سے یہ وضاحت فرمائی ہے ”ان اقسام میں سے بہت ساری قسموں کو امام رازیؒ نے فن جادو میں اس لیے شامل کردیا ہے کہ ان کو سمجھنے کے لیے انتہائی باریک بین عقل درکار ہوتی ہے اور سحر عربی زبان میں ہر اُس چیز کو کہا جاتا ہے جو باریک ہو اور اس کا سبب مخفی ہو۔
قصہ مختصر یہ کہ جادو کی حقیقت اور اس کی اقسام میں قدیم زمانے سے ہی مختلف نظریات موجود ہیں اور ایسی باتوں یا ایسی چیزوں کو بھی سحریات میں شامل کردیا گیا ہے جو درحقیقت جادو کے ذیل میں نہیں آتیں، البتہ اپنی خصوصیات کی وجہ سے اس قدر لطیف اور ناقابل فہم ہوتی ہیں کہ انسان انہیں جادو ہی سمجھتا ہے، موجودہ سائنسی ترقی کے زمانے میں تو بہت سی چیزیں اور باتیں ایسی ہیں جنہیں قدیم زمانے کے لوگ تو جادو ہی سمجھتے لیکن مسئلہ اس وقت زیادہ پیچیدہ اور پریشان کن ہوجاتا ہے جب دین سے آگاہی رکھنے والے جادو کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہیں اور اپنی محدود معلومات کے سبب موضوع سے انصاف نہیں کرپاتے جس کی وجہ سے عام لوگوں میں گمراہی جنم لیتی ہے جیسا کہ امام رازیؒ کی تشریحات سے ظاہر ہے یا خود شیخ وحید صاحب بھی سحرو جادو کو جنات و شیاطین تک محدود کرتے ہیں،ایسی صورت میں ایک عام انسان کے وجدانی اور نفسی مظاہر کو کیا نام دیا جائے گا؟ آج کے دور میں ٹیلی پیتھی ، ہیپناٹزم، ریکی اور دیگر ایسی ہی محیر العقول صلاحیتوں کے اظہار کو سحر کی بنیادی تعریف سے کیسے الگ کیا جائے گا؟ حالاں کہ آج کل تو اس کے لیے ”مائنڈ سائنسز“ کی اصطلاح رائج ہوچکی ہے گویا انسان کی ایسی نفسی صلاحیتوں کے اظہار کو جادو نہیں کہا جاسکتا۔