یہ ایک درد ناک کہانی ہے۔
قسمت کی ستم ظریفیاں قدم قدم پر اس معصوم و مظلوم کی زندگی پر تاریکی کے سائے پھیلاتی رہیں اور وہ بڑے حوصلے سے ان کا مقابلہ کرتی رہی۔
آج کی نشست میں جو زائچہ ہمارے پیش نظر ہے ، وہ یہ سمجھنے میں یقیناً مددگار ہوگا کہ زائچے کی پیدائشی خرابیاں کس طرح مسائل در مسائل کا ایک سلسلہ شروع کرتی ہیں اور انسان نہ چاہتے ہوئے بھی خود بہ خود ایسے راستوں پر قدم رکھ دیتا ہے جن کی آخری منزل تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔
یہ کہانی اس جنت بی بی کی ہے جو ایک بڑے زمیں دار گھرانے میں پیدا ہوئی، ماں باپ کی دولت کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، زمینیں ، جائیداد، بھائی بہن سب موجود تھے ، اس نے بہترین تعلیم حاصل کی اور ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی، اس کے بعد ایک کالج میں پرنسپل کے عہدے تک ترقی کی، مسئلہ اس کی شادی کا تھا، والد کے انتقال کے بعد سب کچھ بھائیوں نے سنبھال لیا لیکن وہ اس کی شادی کے لیے آمادہ نہیں ہوتے تھے کیوں کہ ان کے رسم و رواج کے مطابق لڑکی کی شادی کا مطلب زمینوں میں سے حصہ دینا تھا اور یہ بات وہ برداشت نہیں کرسکتے تھے، سندھ میں اس رواج کی وجہ سے نامعلوم کتنی لڑکیاں کنواری ہی بوڑھی ہوجاتی ہیں۔
بالآخر ایک ایسے لڑکے سے اس کا نکاح پڑھا دیا گیا جو نفسیاتی مسائل کا شکار تھا اور اس کے گھر والوں نے یہ یقین دلا دیا تھا کہ ہم زمین یا جائیداد کا مطالبہ نہیں کریں گے لیکن ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ لڑکا اچانک کہیں چلا گیا، بہت عرصے تک وہ اس کی واپسی کا انتظار کرتے رہے اور بالآخر نکاح ختم کرادیا گیا۔
جنت بی بی کو ان معاملات سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی اور نہ ہی ایسے کسی معاملے میں دلچسپی لینے کی اسے اجازت تھی، بھائیوں نے نکاح پڑھوادیا تو اس نے بھی گردن جھکاکے قبول کرلیا، بھائیوں نے معاملہ ختم کرایا یعنی خلع لیا ، اس نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا، وہ اپنی جاب میں مگن رہی، عمر ڈھلتی رہی، عمر کا 38 واں یا 39 واں سال شروع ہوا تو ایک اور رشتہ سامنے آیا، وہ دل و جان سے شادی کے لیے تیار تھا، بھائیوں کی شرط یہی تھی کہ ہمیں یہ شادی اسی صورت میں منظور ہوگی جب نکاح سے پہلے وہ اپنے تمام حصے سے دستبردار ہوکر ایک حلف نامے پر دستخط کرے۔
وہ اب بچی نہیں رہی تھی، اپنی زندگی اور تمام صورت حال سے بہ خوبی واقف ہوچکی تھی، اس نے سوچا کہ اگر زندگی میں کوئی سچا اور کھرا انسان دولت کے لالچ کے بغیر اسے اپنانے کے لیے تیار ہے تو وہ سب کچھ چھوڑ کر ایک نئی زندگی کا آغاز کیوں نہ کرے، عورت کی زندگی شادی اور اولاد کے بغیر ادھوری ہے،چناں چہ اس نے بھائیوں کی شرط مان لی اور اپنے جائز حقوق سے دستبرداری کے لیے تیار ہوگئی، اس طرح اس کی زندگی میں ایک نئی بہار آگئی۔
دونوں میاں بیوی اپنے آبائی شہر کو چھوڑ کر کراچی آگئے جہاں ایک کرائے کے مکان میں رہائش اختیار کی، اس کا شوہر کسی سرکاری محکمہ میں ملازم تھا، اس نے اپنا ٹرانسفر کراچی کرالیا، کوٹھی بنگلوں میں پروان چڑھنے والی دو کمروں کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں ہی خوش تھی کہ اس کی زندگی فطرت کے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھ رہی ہے۔
کچھ عرصہ ہنسی خوشی گزرا اور پھر شوہر صاحب نے اپنے اصل عزائم کا اظہار کردیا، اس کا خیال تھا کہ ایک بار شادی ہوجائے تو بعد میں کچھ قانونی طریقے اختیار کرکے بیوی کے حصے کی جائیداد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی،اس معاملے میں اس کی بیوی نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کردیا، وہ اپنے بھائیوں سے کیا ہوا وعدہ توڑنا نہیں چاہتی تھی اور مزید کسی فتنہ و فساد کو دعوت دینا اسے پسندنہیں تھا، وہ جانتی تھی کہ اس کے بھائی خاصے طاقت ور اور اثرورسوخ رکھنے والے لوگ ہیں، وہ اس کے شوہر کے ساتھ اسے بھی جان سے مار دیں گے،اس عدم تعاون کے نتیجے میں دونوں کے تعلقات میں کشیدگی شروع ہوئی اور نتائج مار پیٹ تک چلے گئے لیکن اس کے پاس اب کوئی دوسرا راستہ بھی نہ تھا، وہ جاتی تو کہاں جاتی، کس سے فریاد کرتی، اس عرصے میں ان کے ہاں ایک بچہ بھی ہوا جو زندہ نہ رہا، اس نئے غم کو دل سے لگائے وہ جیسے تیسے گزارا کر رہی تھی کہ ایک روز گویا ایٹم بم اس کے سر پر پھٹا، شوہر نے طلاق کے کاغذات اس کے سامنے رکھ دیے اور صاف کہہ دیا کہ میں جارہا ہوں ، کبھی نہ آنے کے لیے، تم چاہو تو دوسری شادی کرلو اور وہ چلا گیا۔
مکان کرائے کا تھا، اس نے اپنے لیے جاب ڈھونڈنے کی کوشش شروع کی، تعلیم یافتہ تھی لیکن حیرت انگیز طور پر کہیں جاب نہ ملی، حالات اتنے خراب ہوگئے کہ بالآخر وہ فلیٹ چھوڑ کر ایک نیک اور شریف فیملی کی چھت پر بہت کم کرائے پر شفٹ ہوگئی، چھت پر صرف ایک کمرا بنا ہوا تھا۔
عزیزان من! یہ تمام جگ بیتی ہماری دیدہ شنیدہ ہے، شاید سال 2002 ءتھا، جب سندھ کے ایک شہر سے ایک لڑکی نے ہم سے رابطہ کیا تھا، وہ اپنی بہن کے علاج کے سلسلے میں ایک بار ہمارے کلینک بھی آئی تھی، اپنی شادی سے متعلق سوالات بھی اس نے کیے تھے، اس وقت اس کی عمر 28,29 سال تھی اور وہ کالج میں پڑھا رہی تھی ، بعد میں بھی کئی مرتبہ فون پر مشورے ہوتے رہے ، پھر اچانک ہم سے رابطہ ختم ہوگیا، ہم بھی بھول بھال گئے۔
2015 ءکی ابتدا تھی جب ایک روز اس کا فون آیا، اس نے ہمیں یاد دلایا کہ وہ کبھی ہمارے کلینک آئی تھی اور فلاں فلاں مسئلے میں مشورہ بھی کیا تھا، اب دوبارہ وہ ہم سے ملنا چاہتی تھی، ہم نے اسے ملاقات کے لیے کلینک کے اوقات بتائے اور خوش دلی سے آنے کی دعوت دی، اس نے پوچھا کہ آپ کی فیس اب کتنی ہے تو ہم نے اسے اپنی فیس بتائی، جواباً اس نے کہا کہ اب میں اس قابل نہیں ہوں کہ آپ کو کوئی فیس دے سکوں، اگر آپ یہ رعایت دے سکتے ہیں تو میں آجاو¿ں گی، ہم جانتے تھے کہ وہ ایک بڑے دولت مند گھرانے سے تعلق رکھتی ہے لہٰذا تھوڑا سا حیران ہوئے اور سمجھ لیا کہ وہ یقیناً کسی مصیبت میں گرفتار ہے، ہم نے اسے بلالیا، وہ آئی اور اپنی ساری بپتا ہمیں سناکر ملول و سوگوار کردیا، ہم نے اسے تسلی دی اور یہ بھی وعدہ کیا کہ اپنے تعلقات سے اس کے لیے کسی جاب کی کوشش بھی کریں گے۔
زائچہ دیکھنے کے بعد ہم نے بعض ریمیڈیز بھی اسے بتائیں اور ان کا انتظام بھی خود ہی کیا لیکن حیرت انگیز طور پر ہماری انتہائی کوششوں کے باوجود اسے کوئی جاب نہ مل سکی، وہ جس مکان کی چھت پر رہتی تھی اس کے معمر مالک بہت ہی نیک دل انسان تھے کیوں کہ جب اس پر تقریباً ایک سال کا کرایہ واجب ہوگیا اور مالکہ مکان نے اسے الٹی میٹم دے دیا کہ اب بہت ہوگئی، مکان خالی کردو تو ایک روز اس اللہ کے نیک بندے نے ایک سال کے کرائے کے پیسے اسے دیے، کہا کہ میرا نام لیے بغیر میری بیوی کو دے دینا، پھر ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ وہ لوگ چھت پر ایک منزل اور تعمیر کرنا چاہتے تھے اور اب جگہ خالی کرنے کے سوا کوئی صورت نہ تھی لیکن اللہ بڑا مسبب الاسباب ہے، مالک مکان کے ایک پرانے دوست جو فوج سے ریٹائر تھے ، قریب ہی رہتے تھے، انھوں نے اپنے دوست سے ذکر کیا کہ یہ مظلوم لڑکی اب کہاں جائے گی، آپ کا مکان کشادہ ہے، ایک کمرے کا پورشن اسے دے دیں، وہ بھی کوئی بہت ہی نیک فرشتہ انسان تھے ، انھوں نے اسے اپنے گھر میں نہ صرف جگہ دی بلکہ وعدہ کیا کہ تمہاری شادی کے لیے بھی میں کوشش کروں گا اور جاب کے لیے بھی، جاب تو پھر بھی نہ مل سکی لیکن ان کی کوشش سے 2017 ءمیں شادی ہوگئی، شوہر بھی ریٹائر فوجی تھے اور اپنے بیوی بچوں سے لاتعلق ہوکر کراچی میں رہ رہے تھے، قصہ مختصر یہ کہ شادی ہوگئی، ہم بھی بہت خوش ہوئے لیکن یہ شادی بھی زیادہ دن نہ چل سکی اور بالآخر گزشتہ سال کی ابتدا میں وہ بندہ بھی چھوڑ کر بھاگ گیا، اچھی بات یہ تھی کہ مالک مکان باپ کی حیثیت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھ چکے تھے، شادی انھوں نے ہی کرائی تھی، مضبوط پوزیشن کے آدمی تھے ،انھوں نے بھاگنے والے کو خالی نہیں جانے دیا کیوں کہ وہ بھی ایک بڑی پوسٹ پر فوج میں رہ چکے تھے، قصہ مختصر یہ کہ ایک بار پھر تنہا اور بے آسرا ہوگئی،آئیے اس بدقسمت کے زائچے پر ایک نظر ڈالتے ہیں جس کا دکھ ہمارے دل کی گہرائیوں میں ہے۔
زائچہ جنت بی بی
پیدائشی برج حمل 12:40 درجہ ،حاکم سیارہ مریخ پہلے گھر میں موجود ہے، اس سے کردار کی مضبوطی، ہمت، حوصلہ اور مسلسل جدوجہد کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، ایسے لوگ انتھک محنت کرنے والے اور حالات سے مقابلہ کرنے والے ہوتے ہیں، سیارہ قمر بھی برج حمل میں ہے لیکن نوامسا چارٹ (D-9) میں اپنے برج ہبوط عقرب میں ہے، چناں چہ والد والدہ کی زیادہ سپورٹ نہیں مل سکی، سیارہ زحل پر راہو کی نظر سے بڑے بہن بھائیوں نے بھی منہ پھیر لیا، تیسرے گھر برج جوزا میں سیارہ زحل اور کیتو چوتھے گھر میں عطارد ، پانچویں گھر میں سیارہ شمس،چھٹے گھر برج سنبلہ میں سیارہ زہرہ ، نویں گھر برج قوس میں راہو، دسویں گھر برج جدی میں سیارہ مشتری قابض ہے۔
گزشتہ کالم میں ازدواجی زندگی اور شادی کے حوالے سے بنیادی اصول دیے گئے تھے،انھیں ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے، پہلے گھر کا حاکم مریخ اگرچہ اپنے گھر میں اچھی جگہ ہے لیکن بری طرح سے راہو کی نظر میں ہے، راہو کی نظر پہلے ، تیسرے، پانچویں، نویں گھر پر بھی ہے جب کہ کیتو کی نظر تیسرے ، ساتویں، نویں اور گیارھویں گھر پر بھرپور ہے، یہ صورت حال ذاتی زندگی میں دھوکے اور فراڈ کے علاوہ، اولاد سے محرومی، پارٹنر یا لائف پارٹنر سے اختلافات، بدقسمتی وغیرہ کی نشان دہی کرتی ہے۔
گیارھویں منفعت کا حاکم سیارہ زحل بھی راہو کی نظر میں ہے اور کیتو سے قران رکھتا ہے جس کی وجہ سے دنیاوی دولت ہوتے ہوئے بھی نہ مل سکی، نویں گھر کا حاکم سیارہ مشتری اپنے برج ہبوط میں ہے،نواں گھر بھاگیا استھان ہے اور شوہر کا نمائندہ مشتری ہے، مشتری کی یہ پوزیشن بدقسمتی کو مزید گہرا کر رہی ہے اور تین بار نکاح کے باوجود شوہروں کا رویہ مشتری کی پوزیشن سے ظاہر ہوتا ہے،شادی اور ازدواجی زندگی کا نمائندہ سیارہ زہرہ اپنے برج ہبوط سنبلہ میں ہے، چناں چہ پہلی شادی ، دوسری شادی اور پھر تیسری شادی ، کوئی خوشی نہ دے سکی، انجام طلاق کی صورت میں نکلا۔
سیارہ زحل جو زائچے کے دسویں گیارھویں گھرکا حاکم ہے اور اس کا گھر کا تعلق پروفیشن اور مالی مفادات سے ہے، نومبر 2014ءمیں زائچے کے آٹھویں گھر برج عقرب میں داخل ہوا اور تقریباً ڈھائی سال یعنی 2017 ءکے آغاز تک اسی گھر میں رہا، چناں چہ جاب کا مسئلہ حل نہ ہوسکا، زائچے میں راہو کا دور اکبر جاری تھا اور 9 نومبر 2014 ءسے قمر کا دور اصغر جاری تھا جب طلاق ہوئی اور تنہا اور بے آسرا ہوگئی۔
راہو کے مین پیریڈ میں سیارہ مریخ کا سب پیریڈ جاری تھا جب تیسری شادی ہوگئی مگر فوراً ہی 28 مئی 2017 ءسے سیارہ مشتری کا دور اکبر اور دور اصغر شروع ہوئے،تقریباً 6 ماہ بعد ہی شوہر نے اپنے رنگ ڈھنگ دکھانے شروع کردیے تھے ، ہم ابتدا ہی سے اس کی طرف سے مشکوک تھے، بہر حال مشتری ہی کے دور میں جب کہ وہ زائچے کے آٹھویں گھرمیں ٹرانزٹ کر رہا تھا ، طلاق ہوگئی۔
عزیزان من! اس کہانی کی دیگر تفصیلات بیان کرنے کی ہم ضرورت نہیں سمجھتے کیوں کہ ہمارا مقصد صرف زائچے کی بنیادی خرابیوں کی نشان دہی کرنا ہے،زائچے میں قمر چوتھے یعنی والدین ، جمع شدہ سرمایہ، سر چھپانے کا ٹھکانہ یعنی انسان کی پناہ گاہ کا مالک نوامسا میں ہبوط یافتہ ہے،شمس پانچویں گھر برج اسد ہی میں اچھی پوزیشن رکھتا ہے لہٰذا اعلیٰ تعلیم کا حصول ممکن ہوا، سیارہ مریخ طالع کا حاکم اور اپنے ہی گھر میں ہے لہٰذا زندہ رہنے کا حوصلہ اور اچھی خصوصیات حاصل ہوئیں، البتہ راہو کی نظر سے خرابی یہ پیدا ہوئی کہ ذہنی انتشار اور عدم اعتماد ، فریب خوردگی موجود ہے، سیارہ زہرہ نہ صرف یہ کہ شادی اور ازدواجی زندگی کا نمائندہ ہے بلکہ زائچے میں ساتویں گھر کا حاکم بھی ہے، برج سنبلہ میں ہبوط یافتہ اور چھٹے گھرمیں ہے، چناں چہ شادی میں تاخیر اور ازدواجی زندگی ناکام ، نویں گھر کا حاکم سیارہ مشتری ہبوط میں بدقسمتی اور کمزوریاں، ذہنی بیمار یا ناقابل اعتبار شوہر ۔
امید ہے ہمارے قارئین اس قدر تفصیل کے ساتھ زائچے کی ریڈنگ سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں گے۔