جادو کے موضوع پر اللہ کی آخری کتاب قرآن اور نبی اکرم ﷺ کے واضح ارشادات موجود ہیں جن کا حوالہ ہم پہلے دے چکے ہیں، مسلم علماء اور فقہا نے بھی اس موضوع پر کھل کر اظہار خیال فرمایا ہے، یہ الگ بات ہے کہ علماء اور فقہا اگر چہ جادو کے حرام ہونے اور جادوگر کے کفر پر متفق ہیں لیکن جادو کی حقیقت اور اس قدیم علم و فن کے اسرار و رموز سے پوری طرح واقف و باخبر نہیں رہے ہیں اور شاید اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ انہوں نے شرعی احکام کا پاس کرتے ہوئے اس طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔ لہٰذا اکثریت کی رائے میں جادو سے متعلق مباحث میں اختلاف پایا جاتا ہے، موجودہ دور کے بین الاقوامی شہرت یافتہ سعودی عالم جن کی کتاب کا حوالہ ہم پہلے دے چکے ہیں ، اس اختلاف کی نشان دہی کرتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ امام رازیؒ اور امام راغبؒ نے جادو کی جو اقسام بیان کی ہیں ان کے مطالعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے جادو کے فن میں وہ چیزیں بھی داخل کردی ہیں جن کا جادو سے کوئی تعلق نہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے عربی زبان میں لفظ ’’سحر‘‘ کے معنی کو سامنے رکھا ہے اور عربی میں ’’سحر‘‘ ہر اس چیز کے بارے میں استعمال ہوتا ہے جو نہایت لطیف (باریک) ہو اور اس کا سبب بھی خفیہ ہو، چناں چہ انہوں نے نئی نئی ایجادات اور شعبدے بازی کو بھی جادو سمجھ لیا ہے، اسی طرح چغل خوری جیسی اخلاقی عاداتِ بد وغیرہ کو بھی جادو قرار دیا ہے، جب کہ ان سب چیزوں کا جادو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
شیخ وحید کے نزدیک تو جادو گر صرف وہ ہے جو جنات اور شیاطین سے کام لیتا ہے، انہوں نے اپنی کتاب میں سحرو جادو اور جنات و آسیب سے متعلق مسائل کو مکمل طور پر جادو گری کے فن سے منسلک کردیا ہے اور جادو کے اعمال میں کفر اور شرک کو ضروری قرار دیا ہے، یہ بات یقیناً درست ہے، جہاں بھی اللہ کے سوا کسی اور سے استعانت کی جائے گی ، شرک لازم ہوجائے گا اور اللہ کے سوا کسی اور کو کارساز تسلیم کرلیا جائے تو کُفر لازم ہوجائے گا۔
آیئے ایک نظر امام رازیؒ کی بیان کردہ جادو کی اقسام پر بھی ڈال لیں۔وہ فرماتے ہیں کہ جادو کی 8 قسمیں ہیں، اول ان لوگوں کا جادو جو 7 ستاروں کی پوجا کرتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہی ستارے کائنات کے امور کی تدبیر کرتے ہیں اور خیروشر کے مالک ہیں، اور یہی وہ لوگ تھے جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو نبی بناکر بھیجا۔
امام رازیؒ کے بقول وہم بھی جادو کی ایک قسم ہے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ ایک درخت کا تنا جب زمین پر پڑا ہو تو انسان اس پر چل سکتا ہے مگر جب اسے کسی نہر پر پل بناکر رکھ دیا جائے تو انسان اس پر نہیں چل سکتا، اسی طرح ڈاکٹروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس شخص کی نکسیر جاری ہو اسے سرخ رنگ کی چیزوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے ورنہ خون کا بہاؤ مزید بڑھ جائے گا، بعض لوگوں کو پانی یا چمک دار یا گھومنے والی چیزوں کو دیکھنے سے مرگی وغیرہ کا دورہ پڑ جاتا ہے، یہ روک ٹوک اس لیے ہے کہ انسانی نفسیات توہمات کے اثرات شدت سے قبول کرتی ہے۔
امام رازیؒ کے نزدیک جادو کی تیسری قسم یہ ہے کہ گھٹیا ارواح یعنی شیطان قسم کے جنوں سے مدد حاصل کرکے جادو کا عمل کیا جائے اور جنات کو قابو میں لانا چند آسان کاموں کی مدد سے ممکن ہے، بشرط یہ کہ ان میں کفر و شرک پایا جاتا ہو۔
خدا معلوم امام رازیؒ جیسے مفسر قرآن نے جنات اور اروا ح کے درمیان فرق کو کیوں ملحوظ نہیں رکھا ؟ اور جنات کو قابو میں لانا آسان کاموں میں شمار کیا ہے اور اس کے لیے صرف اتنی شرط کافی ہے کہ انسان کفر اور شرک کا مرتکب ہو، یہ گناہ تو اجتماعی طور پر تمام غیر مسلم کرتے ہی ہیں۔
چوتھی قسم کے بارے میں امام رازیؒ فرماتے ہیں کہ چند کام شعبدہ بازی اور برق رفتاری سے کرکے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کرنا چناں چہ ایک ماہر شعبدہ باز ایک عمل کرکے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے اور جب لوگ مکمل طور پر اپنی نظریں اس عمل پر ٹکائے ہوئے ہوتے ہیں تو وہ اچانک اور انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ ایک اور عمل کرتا ہے جس کی لوگوں کو ہر گز توقع نہیں ہوتی، سو وہ حیران رہ جاتے ہیں اور لوگوں کی اسی حیرانی میں وہ اپنا کام کرجاتا ہے۔
پانچویں قسم یہ بیان کی ہے کہ عجیب و غریب چیزوں کا استعمال جو بعض آلات کی فٹنگ سے سامنے آتی ہیں مثلاً وہ بگل جو ایک گھڑ سوار کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور وقفے وقفے سے خود بخود بجتا رہتا ہے۔
چھٹی قسم دواؤں کے یا جڑی بوٹیوں کے عجیب و غریب خواص سے متعلق ہے جن کے ذریعے مشکل اور پیچیدہ بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ حیرت ہے کہ بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دواؤں کے اثرات کو بھی جادو قرار دے دیا ، ممکن ہے اس زمانے میں بعض جڑی بوٹیوں کے بارے میں کچھ ایسے تصورات موجود ہوں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض جڑی بوٹیوں کے باطنی خواص سحری اثرات رکھتے ہیں جیسے بالچھڑ کی خوشبو پر بلی مستانہ وار جھوم اٹھتی ہے،ان کا غلط استعمال شرعاً ممنوع ہوسکتا ہے مگر کسی کی زندگی بچانے کے لیے تو یقیناً جائز ہوگا۔
ساتویں قسم دل کی کمزوری یا عقیدہ و ایمان کی کمزوری قرار دی گئی ہے اور وجہ یہ بتائی ہے کہ جب کوئی جادو گر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے ’’اسم اعظم‘‘ معلوم ہے اور جنات اس کی اطاعت کرتے اور اس کی ہر بات پر عمل کرتے ہیں، تو اس کے اس دعوے پر کمزور دل انسان یقین کرلیتا ہے اور خواہ مخواہ اس سے ڈرنے لگ جاتا ہے،چناں چہ اس حالت میں جادو گر جو چاہتا ہے اسے کرگزرنے کی پوزیشن میں آجاتا ہے۔
آٹھویں قسم چغل خوری کرکے لوگوں میں نفرت کے جذبات بھڑکا دینا اور ان میں سے خود کو اپنے قریب کرلینا اور ان سے اپنا مطلب نکالنا۔
حافظ ابنِ کثیرؒ ؒ ؒ بھی مفسر اور مؤرخ ہیں، انہوں نے امام رازیؒ ؒ ؒ کی بیان کردہ جادو کی اقسام کے حوالے سے یہ وضاحت فرمائی ہے ’’ان اقسام میں سے بہت ساری قسموں کو امام رازیؒ نے فن جادو میں اس لیے شامل کردیا ہے کہ ان کو سمجھنے کے لیے انتہائی باریک بین عقل درکار ہوتی ہے اور سحر عربی زبان میں ہر اُس چیز کو کہا جاتا ہے جو باریک ہو اور اس کا سبب مخفی ہو۔
قصہ مختصر یہ کہ جادو کی حقیقت اور اس کی اقسام میں قدیم زمانے سے ہی مختلف نظریات موجود ہیں اور ایسی باتوں یا ایسی چیزوں کو بھی سحریات میں شامل کردیا گیا ہے جو درحقیقت جادو کے ذیل میں نہیں آتیں، البتہ اپنی خصوصیات کی وجہ سے اس قدر لطیف اور ناقابل فہم ہوتی ہیں کہ انسان انہیں جادو ہی سمجھتا ہے، موجودہ سائنسی ترقی کے زمانے میں تو بہت سی چیزیں اور باتیں ایسی ہیں جنہیں قدیم زمانے کے لوگ تو جادو ہی سمجھتے لیکن مسئلہ اس وقت زیادہ پیچیدہ اور پریشان کن ہوجاتا ہے جب دین سے آگاہی رکھنے والے جادو کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہیں اور اپنی محدود معلومات کے سبب موضوع سے انصاف نہیں کرپاتے جس کی وجہ سے عام لوگوں میں گمراہی جنم لیتی ہے جیسا کہ امام رازیؒ کی تشریحات سے ظاہر ہے یا خود شیخ وحید صاحب بھی سحرو جادو کو جنات و شیاطین تک محدود کرتے ہیں،ایسی صورت میں ایک عام انسان کے وجدانی اور نفسی مظاہر کو کیا نام دیا جائے گا؟ آج کے دور میں ٹیلی پیتھی ، ہیپناٹزم، ریکی اور دیگر ایسی ہی محیر العقول صلاحیتوں کے اظہار کو سحر کی بنیادی تعریف سے کیسے الگ کیا جائے گا؟ حالاں کہ آج کل تو اس کے لیے ’’مائنڈ سائنسز‘‘ کی اصطلاح رائج ہوچکی ہے گویا انسان کی ایسی نفسی صلاحیتوں کے اظہار کو جادو نہیں کہا جاسکتا۔
جادو اور مظاہرِ نفس
جادو کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے انسانی ذات یا نفس انسانی کو سمجھنا ضروری ہے کیوں کہ یہ تمام کائنات اپنی تمام تر وسعتوں اور عظمتوں کے ساتھ ’’نفس انسانی‘‘ کے سامنے صرف ایک نقطے کی سی حیثیت رکھتی ہے یا اس بات کو یوں سمجھ لیں کہ یہ دنیائے آب و گل محض ایک ثانوی مظہر ہے جس کا مقصد و مدعا صرف اور صرف انسان کی ضروریات کا پورا کرنا اور اس کی وابستگی کا سامان مہیا کرنا ہے۔
ہمارے موجودہ جدید معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے بنیادی حقائق کو چھوڑ کر ایک ثانوی شے یعنی مادے میں دلچسپی لینا شروع کردی ہے،ہماری تحقیق کا مرکز و محور ’’اصلِ حیات‘‘ کے بجائے ’’لوازم حیات‘‘ قرار پاچکے ہیں اور مظہر حیات یا نفس انسانی کا عرفان حاصل کرنے کی کوشش اوہام ، فرسودہ یا فضول خیال کی جاتی ہے۔
یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ انسان کے تمام افعال و کردار اور خصوصاً روحانی یا روحی صلاحیتوں کے پیچھے نفس انسانی کی خفیہ اور بے پناہ قوت موجزن ہوتی ہے،چناں چہ جب تک ہم نفس انسانی کی ہیّت یا اس کی حقیقت کے بارے میں تھوڑا بہت نہ جان لیں گے ، کسی بھی سحری مظاہرے کی توجیح کرنا ممکن نہ ہوگا مگر اس دور جدید میں تجربہ پسندی کا رجحان اس قدر بڑھ گیا ہے کہ حکمت نفس کی جگہ نفسیات نے لے لی ہے اس پر طرّہ یہ کہ نفسیات داں حضرات مظاہر نفس کے بجائے انسانی کردار کی نیرنگیوں کے مطالعے پر زور دے رہے ہیں، جدیدیت کے دعوے دار ذہن اور مادّہ پرست تو خیر محسوسات ہی کو تمام علوم و فنون کی بنیاد سمجھتے ہوئے اس سے آگے سوچنا ضروری نہیں سمجھتے، وہ تصوریت کو غیر منطقی جانتے ہیں، انسانی نفسیات کے مسائل کو اس کے دماغ تک محدود کرکے روح اور روحیات کا باب بند کردیا گیا ہے۔
ایسی صورت میں نفسِ انسانی کو سمجھنے کے لیے ایک ہی ذریعہ باقی رہتا ہے یعنی ’’وجدانیات‘‘ مگر مسئلہ تو یہ ہے کہ وجدانیات بھی اہل علم کے درمیان ایک متنازع مسئلہ ہے ، مختلف ذہن وجدان کی تعریف اپنے اپنے انداز میں مختلف کرتے ہیں، اگر ہم کسی ایک تعریف کے حوالے سے وجدان کو سمجھ لیں اور اس کے ذریعے کائناتی حقیقت کو پانے کی کوشش کریں گے تو خواص کا مخصوص گروہ معترض ہوگا، اسی طرح اگر ہم وجدان کو کسی دوسرے زاویے سے بیان کرنا چاہیں تو بھی مشکلات موجود ہیں۔
اس تمام بحث کے دوران میں ہماری کوشش ہوگی کہ ’’جادو‘‘ کے بارے میں تمام گروہی و فکری میلانات سے بچتے ہوئے ممکنہ حد تک حقائق پر گفتگو کرسکیں۔
جادو کی حقیقت کو سمجھنے یا سمجھانے کے لیے اولاً انسان کو سمجھنا ہوگا، اس کے نفس کی کٹھنائیوں سے گزرنا ہوگا، نفس کی پُر پیچ گہرائیوں میں اترنا ہوگا اور فکر و عمل کے ساتھ روح اور وجدان کی شمع کو بھی روشن کرنا ہوگا، تب کہیں جاکر حقائق کے خزانے سے چند درِ آبدار ہاتھ لگیں گے، انشاء اللہ یہ گفتگو جاری رہے گی، فی الحال آیئے اپنے خطوط اور ان کے جوابات کی طرف مگر اس سے پہلے ایک غلطی کی نشان دہی ضروری ہے، گزشتہ کالم میں قمر کے شرف و ہبوط کے اوقات اور تاریخ غلط شائع ہوگئی ہیں، اس کی اصلاح ضروری ہے۔
آئیے پہلے چند نکات ’’نفس انسانی‘‘ کی ہیّت و حقیقت کے بارے میں بیان کرتے چلیں تاکہ جادو سے متعلق مباحث کو سمجھنے میں انسان کے کردار اور مقام کا تعین ہوسکے۔
صاحبان علم و دانش اور ماہرین نفسیات نے ’’مظاہرِ نفس کلّی‘‘ کی سات اقسام بیان کی ہیں، اول ایسی کیفیت یا حالت جس کا احساس ’’لمس‘‘سے ہو گویا یہ قسم چھونے سے تعلق رکھتی ہے،مثلاً گرمی سردی، نرم و سخت اور جسم کا حجم وغیرہ ’’لمس‘‘ کے جادو اور اعجاز سے انکار ممکن نہیں۔
دوسری ضمنی قسم میں ’’ذوقِ زبان‘‘ ہے، ہر قسم کا ذائقہ مثلاً تلخ و ترش، میٹھا سیٹھا اور نمکین وغیرہ زبان کا مصرف تو اور بھی ہے لیکن یہاں وہ زیر بحث نہیں ۔
تیسری قسم میں وہ اشیاء یا مظاہر آتے ہیں جن کا ادراک نگاہوں کے ذریعے ہوتا ہے مثلاً دشت و کوہسار، کھیت و کھلیان ، اٹکھیلیاں کرتے غزالانِ دشت، یہ سب ہی ایسے مظاہر ہیں کہ جن کا احساس بذریعہ بصارت ہوتا ہے۔
چوتھے نمبر پر ایسی تمام حالاتیں یا اعراض جن کا احساس سماعت سے ہو، مظاہرِ نفس کی چوتھی قسم میں شامل ہیں، آواز تو بجائے خود ایک جادو ہے، سُر جب کائنات کی وسعتوں میں پھیلتے ہیں تو پھر انسان بے اختیارانہ کیفیت و جذب کے عالم میں تھرکنے لگتا ہے،آواز کا جادو تن بدن میں آگ لگادیتا ہے، سُر کی طاقت کہیں توڑتی ہے تو کہیں روٹھے ہوئے دلوں کو جوڑتی بھی ہے،عشقیہ نغمے ہوں یا آزادی کے ترانے، یہ سب ہی سماعت سے متعلق ہیں، محفل سماع تو یوں بھی بعض روحانی سلسلوں میں باقاعدہ عبادت کا سا درجہ رکھتی ہے اور دنیا میں ایسے مذاہب و عقائد بھی موجود ہیں جن میں موسیقی عبادت و مذہبی رسومات کا لازمی جز قرار دی گئی ہے اور اس کا جادو بھی سر چڑھ کر بولتا ہے۔
پانچویں قسم ’’حسِ شامہ‘‘ کہلاتی ہے یعنی سونگھنے کی حس، جس میں ہر طرح کی خوشبو و بدبو وغیرہ شامل ہیں۔
چھٹی قسم میں ایسے تمام مظاہر و اعراض شامل ہیں جو محسوس بالحواس نہیں ہیں،یعنی انہیں اپنے حواس کے ذریعے ہم محسوس نہیں کرسکتے اور جن کا ادراک و احساس دائرۂ حواس سے زیادہ صرف عقلی طور پر ثابت و مسلّم ہے، مثلا الٹرا ساؤنڈ لہریں یا فضائے بسیط میں پائی جانے والی دیگر اسی قسم کی شعائیں ، کاسمک شعائیں اور سیارگان سے آنے والے اثرات وغیرہ جیسا کہ چاند کے اثرات جو پانی میں اتار چڑھاؤ لاتے ہیں۔
ساتویں قسم میں ایسے اعراض یا معاملات و حقائد شامل ہیں جو نہ تو محسوس بالحواس ہیں اور نہ ہی مدرک بالعقل یعنی ایسے تمام معاملات جنہیں نہ تو حواسِِ خمسہ کے ذریعے محسوس کیا جاسکے اور نہ ہی عقل کی رسائی ان تک ہو مگر انسانی وجدان کے لیے وہ ناقابل انکار ہوں، مثلاً ’’احساسِ ذات ‘‘یا ’’انسانی انا‘‘ اور اس کے ’’احساساتِ نفسی‘‘ وغیرہ ۔محبت، نفرت اور انتقام کے جذبات وغیرہ۔
مظاہر کی اس تقسیم سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مظاہرِ مادّی کے علاوہ ایک قسم ایسے مظاہرو اعراض کی بھی ہے جو ہر طرح کے حجم و جسم سے بری ہے اور ناقابل تجزیہ و اقسام ہے، اس کا تعلق براہِ راست نفسِ انسانی سے ہے، سامنے کی بات ہے، ہمارا احساس ذات بجائے خود غیر متغیّر و غیر متحیّر ہے اور ابھی تک عقلی طور پر نامعلوم بھی ، مگر اس کے باوجود ہم اس کا گویا اپنی ذات کا انکار نہیں کرسکتے ، ہم بغیر کسی دلیل و حجت کے اپنے وجود کو مانتے ہیں۔