سال 2017 ء کو ہم نے طرز حکومت و سیاست اور تبدیلی کا سال قرار دیا تھا اور عرض کیا تھا کہ یہ ایک نئے آغاز کا سال نظر آتا ہے جس میں نئے انتخابات کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
سال 2015 ء ہی سے چوں کہ سیارہ زہرہ کا دور اصغر جاری تھا جو زائچے میں اختلافات، تنازعات کی نشان دہی کرتا ہے لہٰذا حکومت پاناما کیس کے تنازع میں بری طرح الجھ کر رہ گئی، معاملہ عدالت تک پہنچ گیا اور بالآخر 20 اپریل کو سنایا گیا فیصلہ اس تنازع کو ایک نئے رُخ پر لے گیا، سپریم کورٹ کے تین جج صاحبان نے ایک جے آئی ٹی تشکیل دی جس کی تحقیقات نے نئے پنڈوراباکس کھول دیے اور بالآخر 28 جولائی 2017 ء کو نہ صرف یہ کہ جناب نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا بلکہ ان کے خلاف مزید ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا گیا، تادم تحریر یہ کارروائی جاری ہے۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا تھا کہ یہ ایک نئے آغاز اور تبدیلی کا سال ہے، ایسا ہی ہوا، وزیراعظم کی تبدیلی عمل میں آئی اور بہت سے کام ایسے ہوئے جو اس سے پہلے نہیں ہوئے تھے جیسا کہ عدالت کی طرف سے جے آئی ٹی تشکیل دینا، ابھی سال 2017 ء کے چند مہینے باقی ہیں، تبدیلی کا عمل جاری ہے،سیاسی اشرافیہ اور بیوروکریسی آنے والی تبدیلیوں کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن یہ کوشش کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی، اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ بالا حلقے گزشتہ 8,9 سال میں نہایت طاقت ور ہوچکے ہیں اور انہوں نے مملکت خداداد پاکستان کو اپنے داؤ پیچ سے پوری طرح اپنی گرفت میں لے رکھا ہے،اسمبلیوں میں اپنی سہولت اور ضرورت کے مطابق قانون سازیاں کی گئی ہیں اور مزید قانون سازیاں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، ایسے قوانین بنادیے گئے ہیں جو جمہوری ڈکٹیٹر شپ کے لیے موافق و سازگار ہیں، حد یہ ہے کہ ملک کے واحد خود مختار ادارے نیب کا چیئرمین اور الیکشن کمیشن کا سربراہ بھی ان کی مرضی اور منشا کے خلاف مقرر نہیں ہوسکتا، یہاں بھی انہیں کوئی اپنا ہی بندہ چاہیے جو ان کے مفادات کا خیال کرے،ان کی دست برد سے کسی حد تک فوج اور عدلیہ ضرور محفوظ ہیں لیکن عدلیہ کو ہماری سیاسی اشرافیہ اور بیوروکریسی خاطر میں نہیں لاتی۔
طاقت اور دولت کے نشے میں سرشار اکثر لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک سب سے بڑی طاقت کائنات میں اور بھی ہے جس کے نزدیک دو گناہ ناقابل معافی ہیں، اول شرک اور دوم ظلم، جب کائنات کی سپر پاور حرکت میں آتی ہے تو دنیاوی طور پر طاقت کا پہاڑ بننے والے ریزہ ریزہ ہوکر بکھرتے چلے جاتے ہیں اور ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا، اپنی مقدس کتاب قران حکیم میں ایک موقع پر ارشاد باری تعالیٰ یوں ہے ’’وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور ہم اپنی چالیں چل رہے تھے‘‘
ملاحٖظہ فرمایا آپ نے، ہمارے دنیاوی خدا کتنے بے خبر اور کس قدر کمزور اور بے بس ہیں! کہا جاتا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو آخر وقت تک یقین نہیں تھاکہ انہیں نا اہل کردیا جائے گا کیوں کہ وہ مقدمے میں کامیابی کے لیے اپنی بہترین چالیں چل چکے تھے لیکن قدرت کی چال کو نہ سمجھ سکے۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پانچ سالہ دور زرداری اور چار سالہ دور نواز شریف میں پاکستان کے عوام ظلم و ستم کی نت نئی چکیوں میں پستے رہے ہیں، ان کے حالات روز بہ روز بد سے بدتر ہوتے چلے گئے ہیں، اس ظلم کا حساب بہر حال ہونا ہی تھا، تبدیلی کی نئی لہر جو آئندہ سال بھی جاری رہے گی، شاید اس ملک کی سیاست اور طرز حکومت کو ایک نیا رُخ دینے کا باعث بن جائے، مشتری کے دور اکبر میں زہرہ کا دور اصغر جون 2019 ء تک جاری رہے گا اور اس دور میں عدلیہ کی فعالیت بھی جاری رہے گی، نئے فوجی سربراہ جنرل قمر باجوہ کئی بار نہایت لطیف پیرائے میں اپنے اس عزم کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ آئین اور قانون کے ساتھ کھڑے ہیں، اب تک فوج نے سیاست میں مداخلت نہیں کی، یہ بات پاکستان کے اکثر معتبر و غیر جانب دار صحافی حلقے بھی کہہ رہے ہیں، سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف خاصے نرم طبیعت اور دانش ورانہ سوچ بوجھ کے مالک انسان تھے لیکن سیاست کے ساتھ جرم کو وہ بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، شاید یہی پالیسی موجودہ جنرل باجوہ کی بھی ہے، وہ بھی چاہتے ہیں کہ عدالتوں کو آزادانہ طور پر کام کرنے دیا جائے اور پورا تحفظ فراہم کیا جائے۔
موجودہ جنرل
جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابقہ جنرل راحیل شریف خاصے مختلف مزاج و فطرت کے مالک ہیں، راحیل شریف صاحب کا زائچہ ہم بہت پہلے موضوع گفتگو بناچکے ہیں اور ان کی نمایاں خوبیوں اور خامیوں پر روشنی ڈال چکے ہیں، اگر تھوڑا سا اظہار خیال موجودہ جنرل باجوہ صاحب کے بارے میں بھی کردیا جائے تو مناسب ہوگا، ان کی تاریخ پیدائش 11 نومبر 1960 ء ہے، وہ کراچی میں پیدا ہوئے، ہمارے اندازے کے مطابق ان کی پیدائش صبح 10 بجے کے آس پاس معلوم ہوتی ہے، اس طرح ان کا شمسی برج (Sun sign) عقرب ہے، ڈائنامک سیارہ مریخ اس برج پر حکمران ہے، عقربی لوگ بے حد حساس، شدت پسند، فعال، رازدارانہ انداز میں کام کرنے والے، نہایت گہرے اور اپنے نظریات میں بے لچک ہوتے ہیں، پیدائشی وقت کے مطابق برتھ سائن برج قوس ہوسکتا ہے، قوسی افراد سچائی پسند، اسپورٹس مین، علم سے محبت کرنے والے ، ایڈونچرر ہوتے ہیں، جنرل صاحب کا قمری برج (Moon sign) سرطان ہے، اس طرح تین میں سے دو برج آبی (Water sign) ہیں جب کہ ایک آتشی ہے، برج سرطان اپنی فیملی، اپنے گھر اور اپنے وطن سے گہری وابستگی اور محبت رکھتا ہے، اپنی فیملی میں اپنی والدہ سے زیادہ قریب ہوتا ہے، اپنے بچوں سے بہت محبت کرتا ہے لہٰذا یہ بات یقینی ہے کہ جنرل باجوہ اپنے وطن اور اپنی قوم کے لیے خاصے جذباتی انداز میں سوچ سکتے ہیں اور جذباتی سوچ انسان سے کچھ بھی کراسکتی ہے، ان کی سچائی پسندی دودھ کو دودھ اور پانی کو پانی کہے بغیر نہیں رہ سکتی، مشہور صحافی حامد میر راوی ہیں کہ ن لیگی رہنماؤں نے پاناما لیکس کا فیصلہ آنے سے قبل فوجی حلقوں سے رابطہ کیا تھا اور گزارش کی تھی کہ اگر آپ درمیان میں نہ آئیں تو ججوں سے ہم نمٹ لیں گے لیکن ان کی گزارش کو رد کردیا گیا اور سیاسی معاملات سے خود کو الگ تھلگ رکھنے کی پالیسی کو اپنایا گیا لیکن اس بات کی اجازت بھی نہیں دی گئی کہ آئین و قانون کی دھجیاں اڑانے کا کوئی شغل کیا جائے، شاید یہی بات ن لیگ کی قیادت کے لیے شدید ناگواری کا باعث بن گئی، ایک اور باخبر صحافی نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ حکومت 12 اکتوبر 1999 ء کی تاریخ دہرانے کا فیصلہ کر رہی تھی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
ایسٹرولوجیکل تجزیے میں بعض سیاسی باتیں بیان کرنا ایک مجبوری ہے، بات جنرل باجوہ صاحب کی خوبیوں اور خامیوں پر ہورہی ہے اور ساری گفتگو کا لب لباب یہ ہے کہ وہ بہر حال ایک محب وطن اور ملک و قوم سے مخلص جنرل ہیں، اپنے مزاج میں شدت پسند اور خاصے جذباتی بھی ہیں، اگرچہ یہ کوشش کی گئی کہ وہ جذباتی ہوکر کوئی ایسا غیر آئینی قدم اٹھالیں جس کا فائدہ ن لیگ کو مل جائے لیکن ایسا اب تک نہیں ہوسکا، آئندہ کے بارے میں کوئی گارنٹی نہیں دی جاسکتی، برج قوس کا تعلق آئین اور قانون سے بھی ہے لہٰذا جنرل صاحب ہر صورت میں آئین و قانون کی پاس داری کریں گے، ہماری سیاسی اشرافیہ اس ٹائپ کے لوگوں کو پسند نہیں کرتی اور محض زبانی کلامی آئین و قانون کی باتیں کرتی ہے، میدان سیاست کے تمام کھلاڑیوں کو یہ اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی پیدائش چاند کی منزل اشلیشا میں ہوئی ہے،اس منزل پر ذہانت کا ستارہ عطارد حکمران ہے،اشلیشا کے سنسکرت میں معنی ’’لپٹنے والا‘‘ کے ہیں ، اسے چمٹا ہوا ستارہ بھی کہتے ہیں،اس منزل کا نشان یا علامت ’’کنڈلی مارنے والا سانپ‘‘ ہے، اس منزل کا بنیادی محرک مذہب ہے، ایک عارفانہ قوت، روحانی آگہی اور برقیاتی صلاحیت کا یہاں اظہار ہوتا ہے مگر اس کی منفی فعالیت بھی نہایت تباہ کن ہوسکتی ہے،سیارہ عطارد اس منزل پر حکمران ہے جو ذہانت ، ہوشیاری اور چالاکی کا نمائندہ ہے،دنیا کی مشہور شخصیات میں سے مہاتما گاندھی، بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو، ناول نگار آسکر وائلڈ، اداکار ونود کھنہ، اداکارہ کاجول وغیرہ اسی منزل میں پیدا ہوئے ہیں۔
یہ لوگ اپنے طرز عمل میں سادگی پسند اور جس کام کا بھی ذمہ لیں اس میں نہایت مخلص ہوتے ہیں،عموماً دوسروں کے لیے کوئی مشکل کھڑی نہیں کرتے، کسی کو دھوکا نہیں دیتے،یہاں تک کہ اپنے اچھے سلوک کی وجہ سے اکثر غیر متوقع پریشانیوں میں گِھر جاتے ہیں لیکن کسی کا ناجائز دباؤ برداشت نہیں کرسکتے اور نہ ہی کسی پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں،عجلت میں کوئی فیصلہ نہیں کرتے بلکہ اپنے بااعتماد ساتھیوں کے ساتھ باہمی مشورے کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں، عام طور پر سخت الفاظ استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں، چاہے کوئی تنازع یا بحث و تکرار ہی کیوں نہ ہو، اگر اپنی غلطی کا احساس ہوجائے تو معذرت کرنے اور شرمندگی کا اظہار کرنے سے نہیں ہچکچاتے،اپنے کاموں کی تعریف چاہتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہ ان کی حیثیت کو تسلیم کیا جائے، یہ لوگ قاعدانہ صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور سیاست میں بھی نمایاں کارکردگی دکھاسکتے ہیں، اشلیشا ایک نہایت مشکل اور پیچیدہ قمری منزل ہے،یہاں اس کی مکمل تشریح ممکن نہیں، مختصراً اتنا سمجھ لیجیے کہ ہمارے نئے جنرل کوئی بہت سادہ اور بہت سیدھے انسان نہیں ہیں، یہ انہی سکّوں میں ادائیگی کریں گے جو انہیں وصول ہوں گے لہٰذا ہماری سیاسی اشرافیہ کو کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔
ہماری سیاسی اشرافیہ موجودہ صورت حال کو اسٹیبلشمنٹ کی سازش سمجھتی ہے، اکثر صحافتی حلقوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے مگر ہمارا مؤقف یہی ہے کہ سب اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں اور قدرت اپنی چال چل رہی ہے،فیض صاحب کا ایک معنی خیز شعر یاد آرہا ہے
جو رنگ ہر در و دیوار پر پریشاں ہیں
یہاں سے کچھ نہیں کھلتا یہ پھول ہیں کہ لہو
عزیزان من! زائچہ ء پاکستان میں آنے والی نئی تبدیلی ستمبر کے مہینے میں یہ ہے کہ راہو کیتو9 ستمبر کو اپنی اسٹیشنری پوزیشن سے آگے بڑھ گئے ہیں اور ویدک سسٹم کے مطابق انہوں نے گھر اور برج بھی تبدیل کرلیے ہیں، اب یہ دونوں برج سرطان اور جدی میں آئندہ ڈیڑھ سال تک حرکت کریں گے، دوسری بڑی تبدیلی سیارہ مشتری کا پاکستان کے زائچے میں چھٹے گھر میں داخلہ ہے جو 12 ستمبر کی شام سے شروع ہوچکا ہے،اس وقت یہ تبدیلی سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے، یہ چھٹے گھر کی فعالیت کو بڑھا رہی ہے، مشتری زائچے کے چھٹے،دسویں، بارھویں اور دوسرے گھر سے ناظر ہوچکا ہے لہٰذا عدلیہ، سول سروسز اور ملٹری سروسز کی کارروائیاں تیز ہوں گی، یہ کارروائیاں مثبت بھی ہوسکتی ہیں اور منفی بھی، اس کے علاوہ مشتری کا دسویں گھر سے ناظر ہونا حکومت، کابینہ اور وزیراعظم کے لیے کوئی نیک فال نہیں ہے،انہیں سخت دباؤ اور مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے،مزید یہ کہ ملک کی معیشت پر بھی دباؤ بڑھے گا،بعض نقصانات سامنے آئیں گے جو حکومت کی غفلت اور خراب کارکردگی کا نتیجہ ہوسکتے ہیں، اس حوالے سے 25 ستمبر تک کا وقت نہایت اہم ہے، چوں کہ سیارہ عطارد بھی زائچے میں مسلسل غروب حالت میں ہے لہٰذا یہ وقت پرنٹ یا الیکٹرونک میڈیا کے لیے بھی بہتر نہیں ہے، میڈیا پر سخت دباؤ آسکتا ہے، مزید یہ کہ میڈیا کی کارکردگی پہلے سے بھی زیادہ ناقص اور ناقابل اعتبار ہوگی (واللہ اعلم بالصواب)