اس ایلوپیتھک ڈاکٹر کی روداد جو اپنے پیشے سے دل برداشتہ ہوگیا تھا
ایک ایلوپیتھک ڈاکٹر کی لندن کے ایک اسپتال میں بچوں کے وارڈ میں ڈیوٹی لگ گئی تھی وہ بہت حساس دل انسان تھے، تمام بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ اسی وارڈ میں ایک یتیم بچہ جس کو وہ بہت چاہتے تھے، سردی سی ٹھٹھرکر انتقال کرگیا جس کا ان کو دلی صدمہ پہنچا اور انھوں نے دل برداشتہ ہوکر اپنی پریکٹس چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ،اب ان کا ارادہ اپنے فارم پر جو ایک پرفضا مقام پر واقع تھا، سکون سے بقیہ زندگی گزارنے کا ارادہ کرلیا۔
اس صورت حال کی اطلاع انہوں نے اپنے قریبی دوست ڈاکٹر الفریڈ کو دی، وہ ان کے مزاج اور طبیعت سے بخوبی واقف تھا اور ان کی بے پناہ صلاحیتوں سے بھی آگاہ تھا، اس نے انھیں ہومیوپیتھی کی طرف رغبت دلائی اور سمجھایا کہ یہ ایک حقیقی شفا بخش طریق علاج ہے، ان کے دوست جب بھی ہومیوپیتھی کی خوبیاں بیان کرتے وہ ایلوپیتھک کی موافقت میں ٹھوس دلائل دے کر ہومیوپیتھی کی مخالفت کرتے کہ یہ چند قطرے اور میٹھی گولیاں مریض کو کیسے شفا بخش سکتی ہیں۔ یوں دونوں دوستوں کے درمیان کئی دن تک ہومیوپیتھی پر مناظرہ چلتا رہا۔
آخر کار ان کے دوست نے ایک تدبیر اختیار کی، اس نے ایک شفاف بوتل میں پانی بھر کر چند قطرے ایکونائٹ کے شامل کیے اور ڈاکٹر موصوف کو دیے کہ آج کل بخار نے بچوں میں وبا کی صورت اختیار کرلی ہے اس کے لیے اس بوتل سے وقفے وقفے سے وارڈ کے بچوں کو پانی پلایا جائے اور تقابل کیا جائے کہ ایلوپیتھک دواؤں سے بچے جلدی صحت یاب ہوتے ہیں یا اس بوتل کے پانی پلانے سے۔ چنانچہ اس نے وارڈ کی نرس کو ہدایت کی کہ وارڈ میں ایک طرف کے بچوں کو اس بوتل میں سے پانی پلائے اور دوسری طرف کے بچوں کو ایلوپیتھک میڈیسن استعمال کرائے۔
نرس نے دوا کا نام معلوم نہ ہونے کی وجہ سے بوتل پر Dr’s.Fever Bottle لکھ دیا تھا۔ اتفاق سے ڈاکٹر دو دن تک مصروفیت کی وجہ سے وارڈ میں راؤنڈ نہیں کر سکا تھا۔ جب تیسرے دن وہ وارڈ میں پہنچا تو بالکل سناٹا تھا بچوں کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی اس پر اس نے نرس سے حال دریافت کیا۔ نرس نے بتایا کہ اس نے بغیر اجازت کے تمام بچوں کو بوتل سے پانی پلانا شروع کردیا کیونکہ اس پانی سے بچے جلدی صحت یاب ہو رہے تھے اور سب کے سب صحت یاب ہوکر جاچکے ہیں۔ وہ بہت حیران ہوا، وہ ہومیوپیتھک دوا کے اثر کا حیرت انگیز نتیجہ دیکھ چکا تھا ، وہ لیورپول میں بہت مایہ ناز ہومیوپیتھک ڈاکٹروں سے ملا لیکن سب سے زیادہ Dr.johan j.Drysdaleکی پریکٹس سے متاثر ہوا اور آخری وقت تک ان کی تعریف کرتا رہا۔
قارئین کرام! آپ جانتے ہیں ، یہ کون صاحب ہیں، ہومیوپیتھی کی تاریخ میں انہیں ڈاکٹر جیمز کامپٹن برنٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر جیمز برنٹ 10 جولائی 1840 میں Salisbary کے قریب Redlynch میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم فرانس میں حاصل کی، انھیں بچپن سے ہی ڈاکٹر بننے کا شوق تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ انھوں نے جرمن زبان سیکھ لی تھی اور وہ روانی سے جرمنی بول لیتے تھے۔ چنانچہ وہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے vienma چلے گئے۔ 1876 میں انھوں نے M.D کی ڈگری حاصل کی۔
ابتداء میں ان کے دوست نے Dr. Richard Hugeasکی کتاب پڑھنے کا مشورہ دیا جس میں ہومیوپیتھی کے واضح طور پر اصول سمجھائے گئے تھے۔ اس کتاب کے مطالعے کے بعد انھوں نے کلی طور پر باقاعدہ ہومیوپیتھی پریکٹس شروع کردی اور لندن میں 23 سال سال تک کامیابی کے ساتھ پریکٹس کرتے رہے۔
ڈاکٹر برنٹ نے باقاعدہ ڈاکٹر جوہن کی شاگردی اختیار کی ان کے ساتھ جے، ایچ کلارک اور Alfred Hawks بھی اس کے کلینک میں ہومیوپیتھی سیکھنے کے لیے حاضر رہتے۔
ڈاکٹر برنٹ، ڈاکٹر کلارک،ڈاکٹر رابرٹ لوپر اور ڈاکٹر تھامس کا ایک گروپ تھا جو کوپر کلب میں ہر ہفتے شام کو ہومیوپیتھی پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایک ساتھ بیٹھا کرتا تھا۔ ڈاکٹر کلارک نے ان تمام Disscussion کو ریکارڈ کرکے اپنی مشہور کتاب ڈکشنری آف ہومیو پیتھیمیں شامل کیا۔ اس نے ڈاکٹر برنٹ کے لیے “B” اور ڈاکٹرکوپرکے لیے “RTC” استعمال کیا۔ تعجب کی بات ہے کہ ڈاکٹر ہیوجکی کتب جن سے انھوں نے بہت کچھ سیکھا تھا بھول بھلیوں میں چلی گئی جب کہ ڈاکٹر برنٹ اور ڈاکٹر کلارک کی کتابوں کی ہومیوپیتھک دنیا میں خوب پذیرائی ہوئی۔
ڈاکٹر برنٹ نے کئی دواؤں کی پروونگ کی مثلاً کانڈو رنگو سیانوتھس وغیرہ اس کے علاوہ کئی دواؤں کی کلینکل علامات اور تجربات کو شامل کیا مثلاً جگلنس، جبرانڈی، ارٹیکا یورینس وغیرہ۔
بہت سے ایسے امراض جن کا ایلوپیتھک طریقہ علاج صرف سرجری تھا اور ان کے نزدیک دواؤں سے علاج ناممکن تھا ڈاکٹر برنٹ نے کامیابی سے ان کا دواؤں سے علاج کیا۔ اس قسم کے تمام شفایاب کیسوں کا ریکارڈ ان کی تحریر کردہ کتابوں میں ان کی ماہرانہ صلاحیتوں کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ کیس مندرجہ ذیل ہیں:
گنٹھیا، ناسور، موتیا بند،رسولیاں، کٹا ہوا تالو، بڑھے ہوئے ٹانلسز، کٹا ہوا ہونٹ وغیرہ
ڈاکٹر جیمز برنٹ کے انتقال کے بعد ڈاکٹر کلارک نے ان کی زندگی پر کتاب تحریر کی کیوں کہ وہ ان کے ساتھ کافی عرصہ رہے اور وہ ان کی شخصیت کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔
ڈاکٹر برنٹ کے ساتھی جب کبھی ان سے کہتے کہ کبھی چھٹی بھی کرلیا کرو، وہ جواب میں کہتے میرے کیلینڈر میں کوئی چھٹی نہیں ہے۔ انتقال سے ایک رات قبل ان کے مریضوں نے محسوس کیا کہ ان کے ہاتھ برف کی طرح ٹھنڈے تھے جبکہ سخت سردی میں بھی ان کے ہاتھ اکثر گرم رہتے تھے۔ یکم اپریل 1901 کی رات انھوں نے رات کا کھانا حسب معمول کھایا اور جب صبح ان کو ناشتے کے لیے اٹھایا گیا تو پتا چلا کہ وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔ وہ اکثر یہ جملہ کہا کرتے تھے:
“My hope is that i may die in harness”
ترجمہ: ’’میری صرف یہی آرزو ہے کہ میں سکون و راحت کے ساتھ مرسکوں۔‘‘
ان کی موت سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی یہ دعا قبول ہوئی۔ ڈاکٹر برنٹ اپنے اساتذہ اور محسنوں کی بڑی قدر کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی تحریر کردہ کتاب ۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے استادڈاکٹر جوہنکے نام انتساب کی۔
انھوں نے اپنی دوسری کتاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے لیورپول کے دوست Alfred E Hawkes کے نام انتساب کی، یہ پہلا شخص تھا جس نے ان کو ہومیوپیتھی کی طرف راغب کیا تھا۔
ڈاکٹر برنٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کا بڑا احترام کرتے تھے اور ڈاکٹر ہنی مین کے بعد ان کو اپنا میڈیکل ہیرو مانتے تھے۔
ڈاکٹر برنٹ کا اپنی کتب کو اساتذہ کے نام انتساب کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ اعلیٰ کردار، بلند شخصیت اور بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔
(۱)۔ ڈاکٹر برنٹ ایک مرتبہ پلورس کے مرض میں مبتلا ہوگئے تھے۔ بائیں طرف شدید درد رہتا تھا۔ کئی ماہر ڈاکٹروں سے علاج کروایا لیکن افاقہ نہ ہوا۔ آخر اپنے مرض کے بارے میں خود ہی ہومیوپیتھی کا مطالعہ کرکے دوا تلاش کی چنانچہ bryonia سے فائدہ ہوا۔ اس کے بعد کبھی تکلیف نہیں ہوئی۔
(۲)۔ڈاکٹر برنٹ لکھتے ہیں’’ پوڈو فائلم حقیقی طور پر جگر کی اچھی دوا ہے لیکن اس کا غلط استعمال نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے جہاں جگر کا فعل سست ہو وہاں پر اس دوا کا امتحان فائدے کے بجائے نقصان دہ ہوسکتا ہے، اس دوا کا استعمال ایسے اسہال میں ہوتا ہے جس کے ساتھ صفرا کی زیادتی ہو، پٹھوں اور اعصاب کی سوزش ہو اور ساتھ ہی آنتوں کی سوزش بھی پائی جائے، ایک مرتبہ اس دوا نے مجھے ایک کیس میں بڑی کامیابی اور پذیرائی بخشی جہاں اسہال کی وجہ سے موت کا ڈر پیدا ہوچکا تھا، ان کے ایلوپیتھک ڈاکٹر نے مریضہ کے شوہر کو مطلع کردیا تھا کہ مریضہ کی صحت بحال نہیں ہوسکے گی کیوں کہ کوئی بھی دوا اسہال کو روکنے میں کامیاب نہیں ہورہی، عورت روز بروز تنزلی کی طرف جارہی تھی، مجھے ٹیلی گرام دے کر بلایا گیا،کوئی دو سو میل کا سفر طے کرنے کے بعد جب میں وہاں پہنچا تو ان کے فیملی ڈاکٹر نے مجھے ملنے سے انکار کردیا کیوں کہ میرا تعلق ہومیو پیتھک سے تھا۔
’’مریضہ کے فضلہ میں بہت بدبو تھی جو کہ گرمی، صفراء اور آنتوں کی آؤں کے ساتھ مقعد سے مستقل نکل رہی تھی، وہ اس قدر کمزور ہوچکی تھی کہ کافی سہارا دینے کے بعد بھی ان کے لیے اٹھنا مشکل تھا، تمام امیدیں ختم ہوچکی تھیں، میں نے کیس کا مطالعہ کرکے پوڈوفائلم 6 پوٹنسی میں دے دی، دوسری شام سے مریضہ صحت یاب ہونا شروع ہوگئی اور میں واپس اپنے شہر چلا گیا، غرض پوڈو فائلم 6 نے اسی عورت کی زندگی بچالی، میں نے اپنا فرض ادا کیا اور اس کا صلہ مجھے مل گیا جس پر میں اپنے خدا کا شکر گزار ہوں جس نے مجھے یہ عزت بخشی۔
یرقان کے بعد کی کمزوری میں، میں نے پکرک ایسڈ کو بہت مددگار پایا، میں عموماً اس کی تیسری طاقت استعمال کراتا ہوں۔
جگر کے کینسر کا علاج کولیٹرینم سے پورے اعتماد کے ساتھ کیا جاسکتا ہے، بشرط یہ کہ لواحقین صبروتحمل اور باقاعدگی سے دوا استعمال کرائیں۔
ایک خاتون کی کھانسی کسی طور کنٹرول نہیں ہوتی تھی، میں نے مختلف دوائیں آزمائیں لیکن اس کیس میں ناکام رہا اور بالآخر میں نے اس خاتون سے معذرت کرلی، تھوڑے ہی عرصے بعد مجھے ایک دوا کے بارے میں معلوم ہوا، یہ اریلیا ریسی موسا تھی، میں نے اس خاتون کو پیغام بھیجا کہ وہ آجائے، اس کی دوا مل گئی ہے۔
دوسرے روز سے اریلیا ریسی موسا مدرٹنکچر میں دی گئی تو پہلی ہی رات سے خاطر خواہ افاقہ ہوا اور مجھے خوشی ہوئی ہے کہ اب اس کا شوہر رات کو سکون کی نیند سونے لگے گا۔