2024 ایک اور پل پل رنگ بدلتا سال

حیران کن اور چونکا دینے والے حالات و واقعات کا سال

یہ کہتے ہوئے بھی شرمندگی ہونے لگی ہے کہ پاکستان نہایت نازک موڑ سے گزر رہا ہے کیوں کہ برسوں سے یہی جملہ سنتے آرہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے حالات و واقعات ماضی میں کبھی نہیں دیکھے جیسے آج کل نظر آرہے ہیں۔ ملک میں ایک عبوری نگراں حکومت ہے، سیاسی جماعتیں رخصت ہوچکی ہیں۔ ایک سیاسی جماعت عتاب کا شکار ہے، اس کی اعلیٰ و ادنیٰ قیادت جیلوں میں ہے اور مقدمات کا سامنا کر رہی ہے۔ اصولاً نومبر میں عام انتخابات ہونا چاہئیں لیکن الیکشن کمیشن کے پیش نظر نئی حلقہ بندیاںتھیں اور الیکشن میں تاخیر کا امکان ظاہر کیا جارہا تھا، بہر حال اب الیکشن کے لیے 8 فروری 2024 کا اعلان کردیا گیا ہے لیکن کیا 8 فروری کو بھی انتخابات ہوسکیں گے؟

وہ کون سے فلکیاتی عوامل ہیں جو ملک کو انتہائی نازک موڑ پر لے آئے ہیں ؟ وقتاً فوقتاً گزشتہ سال سے ہی ہم اس کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ 2022 سے موجودہ سال کے آخر تک جاری سیاروی گردش نہایت عجیب اور موثر ترین ثابت ہوئی ہے اور پاکستان کے نئے زائچے کی تصدیق کرتی ہے جو ہماری تحقیق کے مطابق درست ہے۔

 افسوس ناک بات یہ ہے کہ 1947 سے آج تک پاکستان کے اکثر زائچے غلط ثابت ہوئے ہیں، بعض کم فہم آج بھی 14 اگست 1947 شب 12 بجے کے مطابق زائچہ بناتے اور اس کے مطابق گفتگو کرتے نظر آتے ہیں جو بالکل غلط ہے۔ پاکستان کا قیام 14 نہیں 15 اگست کو ہوا تھا، اس کے مطابق پاکستان کا جو بھی زائچہ تھا وہ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد ختم ہوگیا، بالکل اسی طرح جیسے تقسیم ہندوستان کے وقت دو ملک بھارت اور پاکستان وجود میں آئے تھے اور دونوں کے الگ الگ زائچے تھے ، اسی طرح پاکستان کی تقسیم کے بعد بھی دو ملک پاکستان اور بنگلادیش وجود میں آئے اور دونوں کے نئے زائچے بھی تشکیل پائے۔ ہمارے بڑے بڑے کہنہ مشق منجمین نامعلوم کیوں اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے جب کہ دنیا بھر میں یہ اصول مسلم الثبوت ہے جب سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا جو دنیا کے تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی تو اس کے نتیجے میں کئی نئے ملک وجود میں آئے اور ان کے نئے زائچے تشکیل پائے ۔ اسی کے مطابق ترکی کا بھی نیا زائچہ وجود میں آیا ، سویت یونین ، ایران، مصر، چین، انڈونیشیا، ملائشیا وغیرہ کے نئے زائچے بھی اسی بنیاد پر اور اسی اصول کے تحت تبدیل ہوئے ۔ پاکستان کا نیا زائچہ ہمارے نزدیک 20 دسمبر 1971 کے مطابق درست ہے کیوں کہ اسی تاریخ کو ٹرانسفر آف پاور کے بعد ایک نیا پاکستان وجود میں آیا جس کے سربراہ جناب ذوالفقار علی بھٹو مقرر ہوئے اور پاکستان کا ایک نیا آئین ان کی سربراہی میں بنایا گیاجو 14 اگست 1973 کو نافذ ہوا اور آج تک ہم اسی آئین کو تسلیم کرتے آرہے ہیں ۔

نئے زائچہ پاکستان کے مطابق طالع برج ثور تقریباً تین ڈگری ہے، گویا زائچے کا ہر گھر تین ڈگری سے شروع ہوتا ہے، گزشتہ دو سال سے سیارہ پلوٹوزائچے کے نویں گھر میں ابتدائی درجات پر ہے۔ نویں گھر میں پیدائشی زہرہ دو درجہ اور قمر پانچ درجہ موجود ہیں، زہرہ چھٹے گھر کا حاکم اور پہلے گھر کا حاکم ہے جب کہ قمر زائچے کے تیسرے گھر کا حاکم ہے۔ گزشتہ ایک سال سے پلوٹو ان دونوں سیارگان سے نویں گھر میں قریبی قران کی حالت میں ہے، پلوٹو کایا پلٹ سیارہ ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ سال 2021سے معاملات بگڑنا شروع ہوگئے تھے، اس کے بعد 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے بعد سے جو صورت حال پیدا ہوئی وہ پورے ملک کی کایا پلٹ کرگئی، ملک ڈیفالٹ کے دہانے تک پہنچ گیا ۔ اس وقت بھی پلوٹو بحالت رجعت 4 درجہ برج جدی میں رہتے ہوئے پیدائشی قمر اور زہرہ سے قریبی قران میں ہے اور یہ قران اس سال کے آخر تک ایسے ہی جاری رہے گا اس کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر پاکستان کے مقتدر حلقے اور بیوروکریسی ہوئے ہیں اور مزید ہوں گے ۔یاد رہے پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا، ہمیشہ سیاست داں ہی مورد الزام رہے لیکن اس بار تقریباً پورا پاکستان یہ جان چکا ہے کہ سیاست داں تو محض کٹھ پتلیاں ہیں، انھیں نچانے والے نادیدہ ہاتھ پہلی بار بے نقاب ہوچکے ہیں۔

دوسرے نمبر پر سیارہ نیپچون زائچے کے گیارھویں گھر میں اس سال مارچ 2023 میںداخل ہوا اور ابتدائی درجات پر پورا سال حرکت کر رہا ہے۔ گیارھویں گھر میں پیدائشی زائچے کا سیارہ مریخ ابتدائی درجات پر موجود ہے گویا زائچے کے بارھویں اور ساتویں گھر کا حاکم مریخ ٹرانزٹ کرتے ہوئے نیپچون سے حالت قران میں ہے، یہ سلسلہ بھی تاحال بدستور جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ نیپچون دھوکا اور فریب ، پراسراریت اور ایسے حالات و واقعات لاتا ہے جنھیں سمجھنا فوری طور پر ممکن نہیں ہوتا گویا جو کچھ نظر آرہا ہوتا ہے اس کا پس منظر حقیقتاً کچھ اور ہوتا ہے، ہماری آنکھیں دھوکا کھارہی ہوتی ہیں اور سماعت بھی پرفریب ہوتی ہے کیوں کہ سیارہ مریخ کا تعلق بارھویں گھر سے ہے اور وہ زائچے کا فعلی منحوس سیارہ ہے۔ فطری طور پر اس کا تعلق فوج ، پولیس اور خفیہ اداروں سے ہے، ساتھ ہی غیر ملکی مداخلت سے بھی ہے۔ لہٰذا ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے تمام دانش ور اور تجزیہ نگار بھی جو کچھ ہورہا ہے اس کی حقیقت سے پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ یہ الیکشن کا سال تھا لیکن کوئی نہیں بتاسکتا کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں ہوں گے۔ پنجاب اور کے پی کے میں اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد بھی الیکشن نہیں ہوسکے، اس سال 15 جنوری سے دونوں صوبوں میں نگراں حکومتیں کام کر رہی ہیں جو آئین پاکستان کے خلاف ہے۔ اب وفاق اورسندھ ، بلوچستان میں بھی نگراں حکومتیں قائم ہوچکی ہیں لیکن آئین کے مطابق 90 دن میں انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے ۔

موجودہ سال پاکستانی آئین کا پچاسواں سال ہے اور اس سال آئین کی پچاسویں سالگرہ منائی گئی لیکن افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ اسی سال میں نہ صرف یہ کہ آئین کی پامالی کورواج دیا گیا بلکہ پارلیمنٹ میں ایسی قانون سازیاں بھی کی گئیںجو آئینی ماہرین کے نزدیک متنازع ہیں، یہ صورت حال بھی پلوٹو کے اثرات کا شاخسانہ ہے ۔

زائچہ پاکستان میں تقریباً 2008 سے زائچے کے سب سے زیادہ منحوس سیارہ مشتری کا دور اکبر جاری ہے جو آئندہ سال دسمبر تک جاری رہے گا۔ اس میں دور اصغر سیارہ راہو کا جولائی 2022 سے شروع ہوا اور دسمبر 2024 تک جاری رہے گا۔ اسی دور میں اس سال سیارہ مشتری اور راہو حالت قران میں رہے جسے گرو چنڈال یوگ کہا جاتا ہے ، اس صورت حال میں 9 مئی جیسے حادثات و سانحات دیکھنے میں آئے اور بھی بہت کچھ ہوا جو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

 اب 2024 کا آغاز ہورہا ہے، پلوٹو اور نیپچون بدستور زائچے کے حساس درجات پر موجود ہیں، جب کہ راہو اور کیتو نومبر میںبرج حوت اور سنبلہ میں بالترتیب آچکے ہیں۔ مشتری اور یورینس زائچے کے بارھویں گھر میں حرکت کر رہے ہیں جب کہ شمس ، مریخ آٹھویں گھر میں ہیں اور عطارد و زہرہ بھی جنوری میں آٹھویں گھر میں ہوں گے گویا نئے سال کا آغاز زیادہ خوش کن اور امید افزا نظر نہیں آتا اور انتخابات بھی فروری میں ہوتے نظر نہیں آتے کیوں کہ 15 فروری سے سیاروی گردش کا دباو  نویں گھر پر ہوگاجہاں پیدائشی زائچے کا قمر اور زہرہ موجود ہیں۔ چناں چہ یہ اندیشہ موجود ہے کہ سیاسی جماعتوں اور الیکشن کمیشن کی خواہش کے باوجود بھی انتخابات میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوجائے۔

ہماری سیاسی جماعتوں اور مقتدر حلقوں نے گزشتہ سالوں میں جو بویا ہے وہ انھیں کاٹنا ہے اور جیسا کہ ہم نے نیپچون اور پلوٹو کے اثرات کی نشان دہی کی ہے جو انتہائی پرفریب اور شدید ترین دباو ¿ ڈالنے والے ہیں۔ یقینا سیاست داں بھی اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکے کہ حالات کس رخ پر جارہے ہیں، وہ ذاتی مفادات اور انتقامی جذبات کا شکار رہے، انھوں نے مقتدر حلقوں کو یہ موقع خود فراہم کردیا کہ وہ اصلاح و احوال کے لیے آگے آئیں اور ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لیں۔البتہ یہ ضروری ہے کہ مارشل لا سے اب تک گریز کیا گیا ہے لیکن نگراں سیٹ اپ کی نگرانی وہی کر رہے ہیں ، ہمارے آرمی چیف جنرل عاصم منیر پاکستان کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے نئے فیصلے اور اقدام کر رہے ہیں ۔ خاص طور پر ملک کو معاشی طور پر مضبوط بنانا ان کا اولین ٹارگٹ ہے۔

ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ سیاسی طور پر کیا درست ہے اور کیا غلط ہے لیکن سیاروی پوزیشن یہی ظاہر کر رہی ہے کہ اب سارا کنٹرول مقتدر حلقوں کے ہاتھ میں ہی رہے گا۔ جنوری، فروری خاصے ہنگامہ خیز مہینے نظر آتے ہےں جن میں مقتدر حلقوں کے ساتھ عدلیہ اور الیکشن کمیشن اپنا فعال کردار ادا کریں گے لیکن مثبت نتائج کی زیادہ امید رکھنا غلط ہوگا۔ جنوری میں نئے حادثات و سانحات جنم لے سکتے ہیں، الیکشن کمیشن فروری میں انتخابات کا امکان ظاہر کر رہا ہے لیکن زائچے میں سیاروں کی پوزیشن الیکشن کا انعقاد ظاہر نہیں کر رہی یا پھر الیکشن میں کوئی نیا فساد پیدا ہوگا اور ممکن ہے ایسے الیکشن کے نتائج کو تسلیم ہی نہ کیا جائے گویا اب نئے الیکشن ہی ملک کا اہم مسئلہ ہوں گے ۔

جنوری، فروری اور مارچ کے مہینے بھی پرسکون نظر نہیں آتے، خاص طور پر مارچ کے آخری ہفتے سے سیارہ مشتری اور یورینس ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہوں گے اور اپریل میں بارھویں گھر میں قران کریں گے لہٰذا اپریل کا مہینہ نہایت اہم اور چونکا دینے والے واقعات کی نشان دہی کر رہا ہے۔ مشتری آئین و قانون ، وسعت و ترقی کا سیارہ ہے ، زائچے کے آٹھویں گھر کا حاکم ہے، فعلی منحوس ہے ، دور اکبر بھی مشتری کا جاری ہے لہٰذا اپریل سے کوئی بڑا ٹرننگ پوائنٹ سامنے آسکتا ہے، یورینس غیر متوقع اور حیرت انگیز نوعیت کے واقعات یا صورت حال سامنے لاتا ہے۔ مشتری اور یورینس کا قران ایک بڑی خطرے کی گھنٹی ہے جس میں آئین کی بساط لپٹ سکتی ہے ۔ خیال رہے کہ اپریل میں زائچے کے دسویں گھر میں مریخ اور زحل کا قران بھی ہوگا۔اس حوالے سے 15 اپریل سے 15مئی تک یقینا غیر معمولی واقعات سامنے آسکتے ہیں، 2 مئی کو سیارہ مشتری بھی گھر تبدیل کرے گا اور زائچے کے پہلے گھر میں ابتدائی درجات پر آئے گا ۔ یہ فلکیاتی صورت حال اپریل اور مئی کی ہنگامہ خیزی کی نشان دہی کر رہی ہے۔

سال 2024 کو23- 2022 جیسا سال ہی سمجھنا چاہیے کیوں کہ جس نوعیت کی سیاروی گردش ان سالوں میں رہی ہے ، 2024 بھی اس سے خالی نظر نہیں آتا۔ 2 جون 2024 سے ایک اور بڑی تبدیلی سیارہ یورینس کا برج ثور میں داخلہ ہوگی۔ یورینس بھی ایک سست رفتار سیارہ ہے اور زائچے کے ابتدائی درجات پر اس کا قیام پاکستان کے لیے غیر معمولی تبدیلیوں کی نشان دہی کر رہا ہے، یہ تبدیلیاں یقینا مثبت ہوسکتی ہیںاگرمثبت انداز اختیار کیا جائے، ذاتی گروہی مفادات کو پس پشت ڈال دیا جائے بہ صورت دیگر تبدیلیاں منفی بھی ہوسکتی ہیں۔ یورینس کی لائی ہوئی تبدیلیاں اچانک غیر متوقع ہوتی ہیں۔ پہلے گھر میں رہتے ہوئے وہ زائچے کے پانچویں ، ساتویں اور نویں گھر کو ناظر ہوگا اور آگے چل کر پلوٹو سے تثلیث کی نظر قائم کرے گا۔ سست رفتار سیارے اپنے اثرات فوری ظاہر نہیں کرتے، ان کے نظرات اور ان کی زائچے میں پوزیشن بہت آہستہ آہستہ اپنا اثر دکھاتی ہے اور اکثر ان کے لائے ہوئے نتائج دیر پا اور طویل المدت ہوتے ہیں ۔

پاکستان کے زائچے میں مشتری اور یورینس کا قران اور پھر زائچے کے پہلے گھر میں دونوں کا طویل المدت قیام پاکستان کو ایک نئی اور چونکا دینے والی سمت میں لے جاسکتا ہے جس کی ہمیںتوقع بھی نہیں ہوگی لیکن جو کچھ بھی ہوگا وہ ماضی کی روایات کے خلاف ہوگا۔اپریل میں مریخ اور زحل کا قران حکومتی معاملات میں اہم تبدیلیوں کی نشان دہی کر رہا ہے اور اسی دوران میں مشتری اور یورینس بھی بارھویں گھر میں حالت قران میں ہوں گے لہٰذا کوئی بڑا آئینی بحران جنم لے گا جس میں کسی ایمرجنسی کا امکان موجود ہے۔

مئی اور جون کے مہینے ملک میں کسی بڑی احتجاجی تحریک کا باعث بن سکتے ہیں جن کے نتیجے میں مقتدر حلقے انتخابات کرانے پر مجبور ہوسکتے ہیںاور انتخابات کے نتائج بھی متنازع ہوسکتے ہیں۔قصہ مختصر یہ کہ 2024 کا نصف ہاف یعنی جون تک کا وقت ملک میں غیر معمولی تبدیلیوں کو ظاہر کر رہا ہے جن کا اظہار ممکن نہیں ہے کیوں کہ 2 جون کو 5 سیارگان برج ثور میں اکٹھا ہوں گے۔مشتری، یورینس، شمس ، زہرہ اور عطارد ۔

جولائی میںسیارہ مریخ بھی برج ثور میں یورینس سے قران کرے گا، یہ بھی ایک نحس نظر ہوگی۔ سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ میںبڑے پیمانے پر اضطراب اور بے چینی کا باعث بنے گی، اس بات کا امکان موجود ہے کہ مقتدر قوتوں کو عوامی سطح پر پذیرائی حاصل نہ ہوسکے اور وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوجائیں ۔ مریخ اور یورینس کا قران بیرونی قوتوں کی مداخلت بھی ظاہر کرتا ہے ، بہر حال 2024 کو ہمیں ایک عام سال نہیں سمجھنا چاہیے، اس سال کے دسمبر میں مشتری کا دور اکبر اور راہو کا دور اصغر ختم ہورہا ہے اور سیارہ زحل کا دور اکبر شروع ہوگا جو زائچے کا سعد اثر رکھنے والا سیارہ ہے لہٰذا 2024 میں جو کچھ بھی ہوگا وہ بالآخر ملک کو کسی مثبت راہ پر ڈال دے گا۔یورینس کا برج ثور میں سات سالہ قیام بلاشبہ ملک میں ترقی کے ایک نئے سفر کا آغاز اور ماضی کی روایتوں کے خاتمے کا باعث بنے گا۔2025 میں ہم ایک نیا پاکستان دیکھ رہے ہوں گے۔اس سال سب سے زیادہ گہرا اثر ڈالنے والا سیارہ یورینس ہوگا کیوں کہ سال کے بیشتر حصے میں اس کی حرکت پہلے گھر کے ابتدائی درجات تک محدود رہے گی۔ یورینس کے اثرات کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینا مشکل ہوتا ہے، اگر مثبت طرز عمل اختیار کیا جائے تو سعد نتائج سامنے آتے ہیں جب کہ اس کے برعکس اگر منفی طرز عمل اختیار کیا جائے تو منفی نتائج سامنے آئیں گے لہٰذا ملک میں کسی منفی یا مثبت صورت حال کا جنم لینا ہماری مقتدر قوتوں کے طرز عمل پر منحصر ہے۔ ایسی صورت میں حکمرانوں کے زائچوں سے درست رہنمائی مل سکتی ہے کہ وہ کیسا طرز عمل اختیار کریں گے؟

عزیزان من! سال 2024 کی ایک اور نہایت اہم سیاروی گردش سیارہ مریخ کی اپنے برج ہبوط میں رجعت اور طویل قیام ہے۔21 اکتوبر 2024 سے مریخ اپنے برج ہبوط سرطان میں داخل ہوگا جو زائچہ پاکستان کا تیسرا گھر ہے ۔8 دسمبر 2024 سے اسے رجعت ہوگی اور 6 جون 2025 تک یہ برج سرطان ہی میں رہے گا۔

سیارہ مریخ فوج ، پولیس وغیرہ کا نمائندہ ہے ۔ مریخ کی ہبوط زدہ رجعت زائچے کے تیسرے گھر میں سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لیے بہت سے نئے مسائل کا سبب ہوسکتی ہے اور چوں کہ 2025 سے زائچے میں سیارہ زحل کا دور اکبر شروع ہوچکا ہوگا لہٰذا مقتدرہ اور اشرافیہ کے بجائے نچلے درجے کے طبقات کی اہمیت نمایاں ہوگی، ڈری سہمی عوام موجودہ نظام سے بے زاری کا اظہار تو اب بھی کر رہی ہے لیکن شاید ان حلقوں سے اس کا اعتماد مکمل طور پر اُٹھ جائے اور بالآخر ملک کو جمہوریت کے راستے پر درست انداز میں گامزن ہونا پڑے (واللہ اعلم بالصواب)