ہومیو پیتھی ایک نعمتِ غیر مترقبہ ہے، اس نعمت کا جس قدر بھی شکر ادا کیا جائے، کم ہے،اب تک دنیا میں جتنے بھی طریق علاج دریافت ہوئے یا مروج ہیں ان سب میں ہومیو پیتھی کو جوامتیاز حاصل ہے وہ کسی بھی طریق علاج کو حاصل نہیں ہیں کیوں کہ دیگر تمام طریق علاج کسی خاص تکلیف یا بیماری پر توجہ دیتے ہیں، مثلاً دنیا کے تمام طریقوں میں بخار کی دوا ، کھانسی کی دوا، ٹی بی کی دوا، دردوں کی دوا یا اور دیگر تکالیف کی دوائیں استعمال ہوتی ہیں، ہومیو پیتھی میں صورت حال اس کے برعکس ہے یعنی کسی مرض کی کوئی دوا نہیں ہوتی بلکہ دوا مریض کی ہوتی ہے، اکثر لوگ اپنی ناواقفیت کے سبب فون پر یا میسجز وغیرہ کے ذریعے اس طرح کے سوالات کرتے ہیں کہ میں کئی سالوں سے سر کے درد کی تکلیف میں مبتلا ہوں اس سے نجات کے لیے کوئی ہومیو پیتھک دوا بتادیں تاکہ میں بازار سے لے کر اسے استعمال کرسکوں، ایسے لوگوں کی خدمت میں عرض ہے کہ ہومیو پیتھک کی ہر دوا سردرد کی دوا ہوسکتی ہے بہ شرط یہ کہ اس دوا کی بنیادی علامات موجود ہوں، لوگ ایلوپیتھک طریق علاج یا حکمت کے عادی ہوچکے ہیں، وہ اس بات کو سمجھ ہی نہیں پاتے یا سمجھتے بھی ہیں تو ایسی باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے، جب ان سے کہا جائے کہ بھائی ! جب تک آپ کی مکمل علامات اور کیس ہسٹری معلوم نہ ہو آپ کو دوا تجویز نہیں کی جاسکتی تو وہ ناراض ہوتے ہیں ۔
ہومیو پیتھی بڑا ہی سادا اور سیدھا سا طریق علاج ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ یہ بہت ہی آسان ہے، مرض اور مریض کی جسمانی اور روحانی پیچیدگیاں جس قدر بھی زیادہ ہوں گی اتنا ہی علاج میں مشکلات اور صبروتحمل کا سامنا ہوگا، ہمارے معاشرے میں جیسا کہ پہلے عرض کیا لوگ ایلوپیتھک یا حکمت کی دواو¿ں کے عادی ہیں،وہ اکثر تو کسی مستند ڈاکٹر یاحکیم کے پاس جانے کے بجائے خود ہی کسی میڈیکل اسٹور پرجاکر اپنی مرضی کے مطابق دوا خرید لاتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں، یہ اور بھی خطرناک رجحان ہے، اپنی تکلیف یا بیماری کو سمجھنے کا شعور ہر شخص میں نہیں ہوتا، نتیجے کے طور پر ایسے لوگ غلط علاج معالجے کا شکار ہوکر اپنی تکالیف اور بیماریوں میں مزید پیچیدگیاں پیدا کرلیتے ہیں جس کا نتیجہ کسی خطرناک ترین بیماری کی شکل میں نکلتا ہے، خود تشخیصی اور سیلف میڈیکیشن ہمارے معاشرے میں رفتہ رفتہ بڑھا جارہا ہے، مزید یہ کہ ہر گھر اور محلے میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو اپنی لنگڑی لولی میڈیکل کی معلومات کی بنیاد پر دوسروں کو دوائیں تجویز کرنے کا مشورہ دیتے نظر آتے ہیں، یہ عام بات ہے کہ کسی عزیز رشتے دار، دوست وغیرہ کی بیماری کا سن کر جو لوگ اس کی عیادت کو جاتے ہیں، وہ اسے اپنی ادھوری سمجھ بوجھ کے مطابق نہ صرف مشورے دیتے ہیں بلکہ دوائیں وغیرہ بھی تجویز کردیتے ہیں ،ایسے لوگوں کے مشورے اور تجویز کردہ دواوں سے بچنا چاہیے۔
جیسا کہ ہمارے معاشرے کا عمومی رویہ شدید نوعیت کے بگاڑ کا شکار ہے اور تقریباً زندگی کے ہر شعبے میں خرابیاں نظر آتی ہیں، علاج معالجہ بھی کمرشل ازم کی زیادتی کی وجہ سے محض پیسا کمانے کا ذریعہ بن چکا ہے اور سب سے زیادہ برا حال ایلوپیتھی کا ہے ، پرائیویٹ سیکٹر میں بڑے بڑے اسپتال اور ڈاکٹرز صرف دولت سمیٹنے کی دوڑ میں مصروف ہیں، انھیں اس چیز سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ مریض زندہ رہے یا مر جائے، ایسی ہی صورت حال اب تقریباً ہومیو پیتھی میں بھی شروع ہوچکی ہے، محض کاروباری مقاصد کے پیش نظر ہومیو پیتھی میں مختلف دواوں کے کمبی نیشن متعارف کرائے جارہے ہیں اور ان پر ایلوپیتھی یا حکمت کے طریق کار کے مطابق مختلف امراض یا تکالیف کا نام دیا جارہا ہے، ہومیو پیتھی کے نام پر یہ بہت بڑا فراڈ ہے جسے ہمارا بزنس مین طبقہ فروغ دے رہا ہے اور اس کا شکار عام ہومیو پیتھک ڈاکٹر بھی ہورہے ہیں۔
جیسا کہ ابتدا میں نشان دہی کی گئی تھی کہ ہومیو پیتھی سیدھا سادہ طریق علاج ضرور ہے مگر آسان نہیں ہے، اس میں ڈاکٹر کی قابلیت اور طویل پریکٹس کا تجربہ نہایت اہمیت رکھتا ہے، یاد رہے کہ محض قابلیت ہی کافی نہیں ہے، تجربہ کسی ڈاکٹر کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ دوا اور مریض کے درمیان تعلق کا عرفان حاصل کرسکے کیوں کہ جیسا کہ ہم نے بتایا ، مریض کی کسی ایک ہی تکلیف کے لیے بہت سی دوائیں ہومیو پیتھی میں موجود ہیں اور ان دواوں میں سے کسی ایک دوا کا انتخاب کرنا ہے، یہ انتخاب بغیر تجربے کے ممکن نہیں ہے۔
ہم اکثر لکھتے آئے ہیں کہ ہومیو پیتھی ایک روحانی علاج ہے، ہمارے ملک میں تو روحانیت کو بھی مذہب کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے یعنی روحانی علاج سے مراد جھاڑ پھونک اور دم درود سمجھا جاتا ہے حالاں کہ روحانی سے مراد روحی ہے اور روح کا تعلق ہمارے جسم سے ہے، ہومیو پیتھک نظریے کے مطابق اور پیراسائیکولوجی کے مطابق کوئی بھی تکلیف یا بیماری پہلے ہماری روح میں جنم لیتی ہے پھر اس کی نمود یا اظہار ہمارے جسم پر ہوتا ہے، چناں چہ ہومیو پیتھی طریقہ علاج میں بنیادی طور پر روح کا علاج کیا جاتا ہے نہ کہ جسم کا یا جسمانی اعضاءکا اور اس حوالے سے مکمل طور پر پہلے یہ غوروفکر کرنا پڑتا ہے کہ کوئی بھی تکلیف جو انسان کے لیے پریشانی اور دکھ کا باعث ہورہی ہے،اس کی اصل وجہ کیا ہے؟ جب اس وجہ کا سراغ لگالیا جائے گا تو اس کے مطابق صحیح دوا تجویز کردی جائے گی جو اللہ کے حکم سے فوری فائدہ پہنچائے گی۔
مثال کے طور پر ایک شخص سردرد ، ذہنی پژمردگی ، غم ، فکر وغیرہ کا شکار ہے تو یقینی بات ہے کہ اس کے سر میں درد غم اور فکر کی وجہ سے ہے، اس کے بعد اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ غم اور فکر کی نوعیت کیا ہے؟ کیا وہ کسی مالی پریشانی کا شکار مستقل رہتا ہے یا اپنی جاب یا کاروباری معاملات میں کسی پریشانی کی وجہ سے غم اور فکر میں مبتلا رہتا ہے یا پھر محبت میں ناکامی میں اسے کسی غم میں مبتلا کیا ہے یا اس کا کوئی قریبی عزیز اس سے بچھڑ گیا ہے، چھوڑ کر چلا گیا ہے یا وفات پاگیا ہے اور غم کی وجہ یہ ہے ان تمام امکانات کا جائزہ لینے کے بعد دوا تجویز ہوگی، اگر مذکورہ بالا وجوہات میں غم اور فکر کی وجہ سے مالی پریشانی ہیں یا کاروباری مسائل ہیں تو دوا اگنیشیا تجویز کی جائے گی، اگر وجوہات محبت میں ناکامی وغیرہ ہیں تو دوا نیٹرم میور ہوگی، واضح رہے کہ اس بات کو بھی اہمیت دی جائے گی کہ ڈر حال ہی میں شروع ہوا ہے یا ایک طویل عرصے سے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے، حال ہی میں شروع ہونے والی کسی بھی بیماری کو ”حاد امراض“ کہا جاتا ہے اور پرانی تکالیف کو ”مضمن امراض“ کا نام دیا جاتا ہے ، دونوں صورتوں میں دوائیں مختلف ہوسکتی ہیں۔
آپ نے دیکھا کہ دوا تجویز کرنے میں کتنی باریکی اور احتیاط کی ضرورت ہے، ایسی صورت میں صرف اس بنیاد پرکیسے دوا تجویز ہوسکتی ہے کہ جناب سر میں درد کی دوا کیا ہے؟
مندرجہ بالا مثال میں سردرد کی جو وجوہات بیان کی گئی ہیں اس کے علاوہ بھی بہت سی وجوہات ممکن ہیں، مثلاً دھوپ میں زیادہ عرصہ رہنے کی وجہ سے یا سخت گرمی اور لوُ لگنے کی وجہ سے سردرد، ٹھنڈے موسم میں سردی لگنے یا ٹھنڈی ہوا لگنے سے سردرد ، ٹھنڈے پانی سے نہانے کے بعد سر میں درد، صبح سوکر اٹھنے کے بعد سر میں درد یا اور کسی مخصوص وقت کے اوپر سردرد ہونا، قصہ مختصر یہ کہ کوئی بھی وجہ ہو ہومیوپیتھک دوا تبدیل ہوجائے گی، ہومیو پیتھی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس میں دواوں کی کثیر تعداد کے علاوہ ان کی مزید اقسام بھی لاتعداد ہےں جنہیں ہم دوا کی پوٹینسی کہتے ہیں، ہر دوا کی صفر سے شروع ہوکر لاکھ اور اس سے بھی زیادہ طاقت کی پوٹینسیاں موجود ہیں، ایک تجربے کار ڈاکٹر ہی ان کا استعمال سمجھ سکتا ہے، کس نوعیت کی صورت حال میں کیسی اور کتنی طاقت کی پوٹینسی درکار ہوگی، یہ الگ موضوع ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ ہمارے ملک میں ہومیو پیتھک علاج کو سمجھنے والے افراد کی سخت کمی ہے اور اس حوالے سے لوگوں کی معقول تعلیم و تربیت کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے، اکثر ڈاکٹرز مریض سے سوال و جواب کرکے کسی مخصوص دوا کا تعین کرتے ہیں اور اسے دوا دے دیتے ہیں، ان کے سوال و جواب سے بعض اوقات مریض حیرت کا شکار ہوتے ہیں، وہ سوچتے ہیں کہ درد میرے سر میں ہے اور ڈاکٹر مجھ سے کس قسم کے غیر متعلق سوالات کر رہا ہے؟شاید یہی وجہ ہو کہ بعض مریض ان سوالوں کے درست جوابات نہیں دیتے اور نتیجے کے طور پر ڈاکٹر کو بھی صحیح دوا تجویز کرنے میں مشکل پیش آتی ہے، ایسی صورت میں اکثر وہ اپنے اندازے کے مطابق دوا دیتا ہے جس سے فائدہ نہ ہو تو دوسری بار وہ پھر دوا تبدیل کرتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے، اگر کسی دوا نے کام کردیا اور مریض کو فائدہ ہوگیا تو ٹھیک ہے ورنہ اس کے برعکس صورت حال میں مریض ڈاکٹر تبدیل کرلیتا ہے اور پھر کسی دوسرے ڈاکٹر کے پاس چلا جاتا ہے۔
عزیزان من! ہومیو پیتھی طریق علاج سے متعلق یہ سب کچھ لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ لوگ اس طریقہ علاج کو اچھی طرح سمجھ سکیں، یہ سلسلہ ءمضامین ان شاءاللہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔
ڈینگی بخار
صوبہ سندھ سمیت ملک بھر میں ڈینگی بخار کی وبا کا زور ہے اور اس بخار نے دہشت کی فضا قائم کر دی ہے۔ ایلوپیتھک طریقہ علاج اس کو نہایت خطرناک قسم کی بیماری قرار دے کر مزید خوف و دہشت کی فضا قائم کر رہا ہے اور اس حوالے سے کچھ ایسا تاثر پیدا ہو رہا جیسے یہ کوئی نئی دریافت شدہ بیماری ہے جو ایک خاص قسم کے مچھر کی وجہ سے حال ہی میں وجود میں آئی ہے۔ ایلوپیتھک طریقہ علاج میں اس سے بچاﺅ کی تدابیر کو بہت بڑا مسئلہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ہومیوپیتھی میں یہ کوئی نئی بیماری ہر گز نہیں ہے۔ سالہا سال سے یہ بخار ڈینگی فیور یا بریک بون بخار کے نام سے ہومیوپیتھک ڈاکٹروں میں جانا پہچانا جاتا ہے اور ہمیشہ برسات کے موسم کے بعد ملیریا کے ساتھ ساتھ یہ بھی نمودار ہوتا ہے۔ اس سال چونکہ اس کے مریضوں کی تعداد بڑھ گئی ہے لہٰذا اس کا نام نمایاں طور پر سامنے آیا ہے اور عوام میں خوف و دہشت کی علامت بن گیا ہے۔
ہومیوپیتھی میں بخارات کی مختلف اقسام موجود ہیں جن میں عام سادہ بخار، ملیریا بخار، نوبتی بخار یا باری کا بخار، معیادی بخاریا ٹائیفائیڈ، ہڈی توڑ یا ڈینگی بخار، انفلوئنزا کا وبائی بخار، لال بخار، زرد بخار، کالا بخار، پرسود کا بخار جو عموماً زچہ کو ہوا کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ ایک بخار گردن توڑ بخار بھی کہلاتا ہے۔ الغرض بخار کی بہت سی اقسام میں سے ایک قسم موجودہ وبائی ڈینگی بخار بھی ہے۔ بے شک اس کی وجہ ایک خاص قسم کے مچھر کا کاٹنا اور خون میں مخصوص جرثومہ چھوڑنا ہے لیکن اگر ابتدا ہی میں ہومیوپیتھک طریقہ علاج اختیار کر لیا جائے تو یہ بخار خطرناک ثابت نہیں ہو گا۔ ہمارے شہر میں اس وبائی بخار کے خطرناک ہونے کا سبب وہ طریقہ علاج ہے جو آج کل عام ایلوپیتھک ڈاکٹروں نے اختیار کر رکھا ہے جس کی وجہ سے مریض کو ابتدا ہی میں تیز قسم کی اینٹی بائیوٹک ادویات استعمال کرا دی جاتی ہیں اور نتیجے کے طورپر جب کیس بگڑ جاتا ہے تو کسی بڑے اسپتال تک پہنچتے پہنچتے کوئی سنگین صورت اختیار کر لیتا ہے۔
اس مرض کی علامات ملیریا بخار سے کافی حد تک ملتی جلتی ہیں لیکن واضح علامات سر میں درد یا جوڑوں اور پٹھوں میں درد سے شروع ہوتی ہیں،متلی، قے، دست کا بھی امکان پایا جاتا ہے،اگر علاج میںدرست طریقہ اختیار نہ کیا جائے تو ناک،منہ یاجسم کے کسی بھی حصے سے خون جاری ہونے کا امکان بھی ہوسکتا ہے، اسے ہڈی توڑ بخار اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ شدت مرض میں مریض کو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس کی ہڈیاں ٹوٹ رہی ہیں۔ حرارت جسم کے ساتھ جسم پر سرخ دھبے بھی نمودار ہو سکتے ہیں۔ عموماً اس مرض کا دورہ 7 یا 8 دن تک رہتا ہے اور شدید کمزوری، نقاہت اور کبھی کبھی جریان خون کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔
اگر ابتدا ہی میں چند ہومیوپیتھک ادویات کے ا ستعمال پر توجہ دے دی جائے تو صورت حال جلد کنٹرول میں آ سکتی ہے۔ مثلاً سب سے پہلی دوا ایکونائٹ نیپلس 30 ضرور گھر میں رکھیں اور جیسے ہی اچانک کسی گڑ بڑ کا احساس ہو اس دوا کی چند خوراکیں 2,2 گھنٹے کے وقفے سے لیتے رہیں۔ امید ہے کہ اگر بروقت اس دوا کو استعمال کر لیا گیا تو انشاءاﷲ کیس خراب ہی نہیں ہو گا اور معاملہ کنٹرول میں آجائے گا۔ اگر صورت حال خاصی خراب ہونے کے بعد واضح ہو کر سامنے آئے یعنی جسم میں درد شروع ہو چکا ہو اور بخار بھی محسوس ہو رہا ہو تو پھر بہترین دوا یوپیٹوریم پرفولی ایٹم ہو گی۔ اس دوا کو 200 کی طاقت میں استعمال کیا جائے۔ ایک خوراک صبح اور ایک شام کو دی جائے تو یہ بھی صورت حال کو سنگین ہونے سے روک لے گی لیکن یہ ابتدائی روک تھام ہے جس کے نتیجے میں خطرات 70% ختم ہو جائیں گے۔ اس کے بعد فوری طور پر کسی تجربہ کار ہومیوپیتھک ڈاکٹر سے رجوع کریں تاکہ وہ باقی علامات کا جائزہ لے کر ان کی مناسبت سے درست دوا تجویز کرے۔
ہم نے جو دوائیں ابتدائی طبی امداد کے نکتہ نظر سے لکھ دی ہیں انہیں اس بخار کا مکمل اور شافی علاج نہ سمجھا جائے۔ مرض کی نوعیت اور کمی و زیادتی کا درست اندازہ ایک تجربہ کار ہومیوپیتھک ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے لہٰذا اس سے رجوع کریں اور آخری بات یہ کہ 2، 4 دن میں اگر بخار نہ اترے تو پریشان ہو کر دائیں بائیں ڈاکٹر اور اسپتال بدلنے کی کوشش نہ کریں۔ دراصل حقیقی خرابی اسی لئے پیدا ہو رہی ہے کہ لوگ جلد بازی کا شکار ہو کر ایسے ڈاکٹروں سے رجوع کرتے ہیں جو ایک دن میں بخار اتارنے کی شہرت رکھتے ہیں اور تیز قسم کی ہیوی اینٹی بائیوٹک اپنی دکان چمکانے کے لئے استعمال کرواتے ہیں جس کی وجہ سے عارضی طور پر بخار کم ضرور ہو جاتا ہے یا اتر بھی جاتا ہے لیکن پھر دوبارہ نہایت شدت کے ساتھ مرض کا حملہ صورت حال کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اینٹی بائیوٹک کے اندھا دھند استعمال سے معدہ، جگر اور تلی کا فعل متاثر ہوتا ہے اور مریض میں قوت حیات کمزور پڑ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں جب وہ ٹیسٹ کے مختلف مرحلوں سے گزرتا ہے تو ایک نئی بھیانک صورت حال سامنے آتی ہے جو مریض اور اس کے لواحقین کو مزید دہشت زدہ کر دیتی ہے۔ بہرحال مندرجہ بالا دونوں دوائیں بازار میں عام مل جاتی ہیں۔ کسی بھی ہومیو اسٹور سے سیل بند دوائیں خرید کر گھر میں رکھیں اور خاص طور سے بچوں کی بدلتی ہوئی کیفیات پر نظر رکھیں تاکہ انہیں بروقت ابتدائی طبی امداد دے کر اس خطرے سے دور رکھا جا سکے۔
ڈینگی بخار میں اگر ابتدا ہی میں معقول ہومیو پیتھک علاج نہ کیا جائے اور صورت حال بگڑ جائے تو جسم کے کسی بھی حصے سے خون جاری ہونا بھی ایک عام بات ہے، اس صورت میں جو ہومیو پیتھک دوائیں موثر اور کارآمد ہوسکتی ہیں، ان میں سرِفہرست کرولس ہارڈس، لیکسس، ناجا ٹری، سلفوریکم ایسیڈم ، چائنا،چنینم سلفوریکم وغیرہ ہیں لیکن ان دواو¿ں کے استعمال میں بھی بہت سوجھ بوجھ ، دانش مندی اور احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے،کسی تجربہ کار ڈاکٹر سے مشورے کے بغیر انھیں استعمال نہ کیا جائے۔