روحانی یا روحی یا نفسیاتی بیماریوں کی اصطلاح عام ہے اور لوگ اس میں اس طرح فرق کرتے ہیں کہ روحانی امراض کو ماورائی یعنی نادیدہ قوتوں کی طرف منسوب کرتے ہیں یا پھر سحر و جادو اور عملیات و تعویذات کی کارروائی قرار دیتے ہیں۔ جب کہ نفسیاتی بیماریوں کو ذہنی فتور یا دوسرے معنوں میں دماغ کا خلل قرار دیا جاتا ہے۔ اس طرح بیماریوں کی دو اقسام وجود میں آگئی ہیں یعنی روحانی یا روحی اور نفسیاتی۔ اکثر لوگ روحانی یا روحی میں بھی فرق کرتے ہیں حالانکہ اصولاً دونوں کا ماخذ ایک ہی ہے یعنی روح۔ انگریزی زبان میں ان دونوں لفظوں کے لیے یا ایسے روحانی معاملات کے لیے ایک ہی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور وہ ہے ”اسپریچول ازم“، یعنی روحانیات یا روحیات۔
نفسیات جسے انگریزی میں سائیکلوجی کہا جاتا ہے صرف انسان کے ذہن تک محدود ہو کر رہ گئی ہے یعنی وہ تمام مسائل جن کا تعلق انسان کے ذہنی میلان و رجحانات سے ہے علم نفسیات کے ماتحت کر دیے گئے ہیں، دوسرے الفاظ میں ہم اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح انسانی ذہن اور روح کو الگ الگ کر دیا گیا ہے، تو کیا واقعی ایسا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ مندرجہ بالا نظریات کی ضرورت اس لیے پیش آئی تاکہ جدید علم نفسیات کو سائنس کے جدید تجرباتی اصولوں تک محدود کر دیا جائے کیوں کہ اس کے بغیر جدید سائنس کے مبلغین علم نفسیات کو سائنسی علم ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھے اور انسانی نفسیات کے حوالے سے جو مابعد الطبیعاتی مسئلے موجود تھے، انہیں تجربات کی کسوٹی پر پرکھنا بھی ممکن نہیں تھا، لہٰذا وہ انہیں قابل توجہ نہیں سمجھتے تھے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ قدیم ترین فلاسفہ میں افلاطون نے انسانی نفسیات کے حوالے سے مابعدالطبیعاتی مسائل کو نفسیات کے علم سے علیحدہ نہیں رکھا اور وہ انسانی ذہن و روح کے معاملات میں کوئی تقسیم نہیں کرتا۔
اصل میں بنیادی جھگڑا اس وقت شروع ہوتا ہے جب مذہبی عقائد اور مادیت کے نظریات ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں، مذہبی عقائد ایک انسانی روح کا تصور پیش کرتے ہیں جو ان کے خیال میں گوشت پوست، خون اور ہڈیوں کے پیکر انسانی کو نہ صرف متحرک رکھتی ہے بلکہ اسے برے بھلے کا شعور بھی دیتی ہے، اس کے مقابلے میں جدید سائنس چوں کہ روح کو ناقابل تجربہ سمجھتے ہوئے نظرانداز کرتی ہے لہٰذا وہ اس کی جگہ انسانی دماغ کی اس قوت و کارکردگی سے بحث کرتی ہے جسے ذہن کہا جاتا ہے لہٰذا اس سارے جھگڑے نے انسان کی روحانی بیماریوں کو دو حصوں میں تقسیم کرد یا ہے۔
انگریزی زبان میں علم نفسیات کے لیے سائیکلوجی کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے جس کا ڈکشنری کے مطابق ترجمہ روح کا علم ہوگا۔
اُردو میں ”نفسیات“ کا لفظ مروج ہے جو ”نفس“ سے لیا گیا ہے اور نفس کیا ہے، ہمارے اندر آتی جاتی سانس۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سانس کیا ہے؟ کیا ہم اسے صرف ناک سے اندر جاتی اور باہر آتی ہوا کہیں گے، ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ سانس، دم یا جان یا روح کے معنوں میں ہی مستعمل ہے، کسی انسان کی موت کے بعد ہمارے ہاں جو جملے بولے جاتے ہیں ان میں ”روح کا جسم سے پرواز کر جانا“ یا ”دم نکل جانا“ یا پھر ”سانس ٹوٹ جانا“ تقریباً ایک ہی معنی رکھتا ہے۔
عزیزانِ من! اب تک کی ساری گفتگو ممکن ہے ہمارے پڑھنے والوں کو بے سروپا، نہایت مشکل اور عجیب محسوس ہو رہی ہو۔ ہم نے اپنے طور پر کوشش تو کی ہے کہ روح اور ذہن میں جو فرق واقع ہوگیا ہے اس کی تھوڑی سی وضاحت کر سکیں اور یہ بتا سکیں کہ درحقیقت ہمارے ذہنی مسائل ہی ہمارے روحانی مسائل ہیں اور ہمارے روحانی مسائل درحقیقت ہمارے ذہنی مسائل ہیں، ایک ہی بات کو ہم دو مختلف طریقوں پر بیان کر سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں کیوں کہ اس مسئلے کو سمجھے بغیر ہمار ا معاشرہ جو حد سے زیادہ ماورائیت اور سحر و جادو کے مسائل میں الجھتا چلا جارہا ہے، درست طور پر اپنی بیماریوں اور جملہ تکلیفات کی حقیقت نہیں سمجھ سکتا۔ اس کے ساتھ ہی آیئے ایک خط کے چیدہ چیدہ اقتباسات کی طرف جس میں ہم سے کچھ ایسے سوالات کیے گئے ہیں جن کے جوابات مندرجہ بالا تشریح کے بغیر دینا ممکن نہ تھا۔
خط بھیجنے والی شخصیت کا نام و مقام ہم ظاہر نہیں کرنا چاہتے، ان کے بارے میں صرف اتنا حوالہ دینا کافی سمجھتے ہیں کہ وہ روحانی علاج و معالجے کے سلسلے میں کئی روحانی معالجین کے رابطے میں رہی ہیں اور خود بھی علم نجوم و جفر، پامسٹری اور دیگر علوم خفیہ سے دلچسپی رکھنے کی وجہ سے خاصی صاحبِ مطالعہ ہیں۔ اپنے طویل خط میں وہ لکھتی ہیں:
”مجھے اس لائن کے لوگوں کی ذہنیت کا قطعی اندازہ نہیں اور ان کی قیمت کیا ہے، یہ کس طرح تربیت کرتے ہیں، یہ کس طرح سے بندے کو ہینڈل کرتے ہیں۔ ان کے پاس جانے کا مطلب ایک لمبی قید ہوتی ہے۔ یہی چیز پریشان کر رہی ہے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ہمیں بچا رہے ہیں یا ڈبور رہے ہیں؟ جو کچھ ہو رہا ہے اسے جادو میں شمار کیا جائے گا یا نہیں؟ دماغی بیماریاں ہیں تو اس کا علاج علم جفر سے ممکن ہے یا نہیں۔ اتنی علمی اور عملی قوتوں کے باوجود ان معاملات میں پھنس جانا کیا معنی رکھتا ہے کہ کوئی دشمنی کر رہا ہے! یہ کون سے اسماء الحسنیٰ کا علم و عرفان رکھتے ہیں؟ اور ان سے کیسے چھٹکارا ممکن ہے۔ پہلے تو شیطانی قوت سے حفاظت اور پھر جان و مال اور عزت کی حفاظت، مجھے وہ حرکت صاف محسوس ہوتی ہے جو آنکھوں کے ذریعے اثر ڈال کر اندھا کر دیتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جان بوجھ کر کوئی حرکت کی جا رہی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے کوئی اور شخصیت ہمارے ساتھ ہے جو متحرک ہے، یقینا کوئی نادیدہ چیز ہمارے ساتھ کر دی گئی ہے، ہمیں اس ظلم سے نجات کب ملے گی؟ ان لوگوں کے اختیارات کے بارے میں کیسے علم ہو؟ ان سے بازپرس کرنے والا کون ہے؟ میرا رابطہ اگرچہ اپنے روحانی معالج سے منقطع ہے لیکن میں دوبار خواب میں دیکھ چکی ہوں کہ میں انہیں فون کر رہی ہوں، اپنی پریشانی بتا رہی ہوں۔ کیا وہ میرے مددگار نہیں؟ ایک دن میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص جس کی داڑھی ہے وہ ہمارے گھر میں بیٹھا ہے اور میں اس سے کہہ رہی ہوں کہ تم یہاں سے جاتے کیوں نہیں؟ اس کے علاوہ جاگتی حالت میں بھی مجھے اپنے پیچھے ایک جسم محسوس ہوتا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ بعض اوقات میں خود کو مصیبت میں دیکھتی ہوں مگر حقیقت میں میری کوئی بہن یا عزیز اس پریشانی میں ہوتا ہے کیا مختلف لوگ مختلف حالات و واقعات دکھاتے ہیں۔ ان تمام باتوں کو کیسے سمجھا جائے؟ اکثر مجھے غلاظت میں لپٹا کوئی جسم نظر آتا ہے اور وہ اپنی ایک رشتے دار کا محسوس ہوتا ہے، ہیں تو وہ بہت فسادی مگر اس کا مطلب کیا ہے؟ کڑی سے کڑی جڑی ہوئی محسوس ہوتی ہے، میری چھوٹی بہن بتاتی ہے کہ اسے آواز آتی ہے یعنی اسے بھی ایسا ہی کر دیا جائے گا، کیا کوئی ہمارے خاندان سے بدلہ لے رہا ہے؟ سب کے کام بگڑ ہی رہے ہیں۔“
جواب: عزیزم! ہم نے ابتدا میں روح اور ذہن اور روحانی و ذہنی امراض کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے اسے غور سے پڑھ لیں اور ہمارا مشورہ ہے کہ ایک بار نہیں بار بار پڑھیں اور اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ انسانی ذہن یا روح میں جب پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں تو ہمارے اردگرد ایک جہانِ حیرت وجود میں آجاتا ہے جسے سمجھنا ہمارے بس کی بات نہیں ہوتا۔ اس کی بھول بھلیوں میں پھنس کر ہم ایسے ایسے تجربات و مشاہدات سے گزرتے ہیں جن کی عقلی توجیہہ ناممکن ہو کر رہ جاتی ہے اور پھر لامحالہ ذہن نادیدہ قوتوں کی کارفرمائی کی طرف چلا جاتا ہے۔ آپ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے جسے آپ کی حد سے بڑھی ہوئی انانیت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ہم اس بحث میں تو پڑنا نہیں چاہتے کہ اس راستے میں آپ کی جن معالجین سے ملاقات ہوئی اور ان کا جو سلوک اور طرزعمل رہا اس کی کیا حیثیت ہے لیکن ہم یہ وضاحت ضرور کریں گے کہ ان لوگوں سے آپ کو بہرحال درست رہنمائی نہیں ملی مثلاً آپ نے علم نجوم کے بارے میں جو کچھ سیکھا اور پڑھا وہ آپ کے ذہن کو مزید الجھانے اور گم راہ کرنے کا سبب بنا، یہی حال پامسٹری، علم جفر اور دیگر علوم کا بھی ہے،آپ کی اکثر باتوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شخصیت پرستی کا فریب آپ کو لے ڈوبا اور آپ پہلے مختلف شخصیات کے ٹرانس میں آئیں اور بعد میں مختلف علوم کے ٹرانس میں خو دکو دے دیا، ہمارا مشاہدہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے دین کی درست معلومات نہیں رکھتے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور ہستی کو بالائے طاق رکھ کر مختلف علوم کے دعوے داروں کی ذات اور شخصیت ہی کو سب کچھ سمجھنے لگتے ہیں انہیں گم راہ ہوتے دیر نہیں لگتی اور پھر کوئی بھی مسئلہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا، وہ لاکھ کڑی سے کڑی ملاتے رہیں ان کے خیالات کی زنجیر روز بہ روز الجھتی ہی چلی جاتی ہے، آپ کے سوالات میں الجھاؤ کے ساتھ یہ کم علمی جگہ جگہ محسوس ہوتی ہے، مثلاً آپ نے طے کر لیا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ چوں کہ آپ کی سمجھ میں نہیں آرہا لہٰذا اگر اسے جادو میں شمار نہیں کیا جائے تو کیا کہا جائے؟ آپ دماغی بیماریوں کا علاج علم جفر سے ڈھونڈ رہی ہیں یا یہ کہ آپ کے ذہن میں علم جفر کے حوالے سے الجھنیں پیدا ہوگئی ہیں۔
جن شخصیات سے آپ ذہنی طور پر متاثر ہوئی ہیں ان سے مایوس ہونے کے بعد بھی ان کی علمی اور روحانی قوت سے خوف زدہ ہیں اور چھٹکارے کی خواہش مند ہیں۔ آپ کے خواب بھی آپ کی اسی الجھی ہوئی منتشر ذہنی اور روحانی کیفیات کو ظاہر کرتے ہیں۔ مثلاً آپ غلاظت میں لپٹی ہوئی ایک ایسی شخصیت کو دیکھتی ہیں جس کے بارے میں آپ کی رائے اچھی نہیں ہے، اپنے سابق معالج کو خواب میں فون کرنا اور ان سے اپنی پریشانی بیان کرنا اور پھر اس خواب کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ یہ معالج کی کوئی کارستانی ہے، وہ اپنی سحری قوت سے آپ کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے، آپ کے لاشعور میں چھپا ہوا وہ چور ہے جس سے آپ خود حالتِ شعور میں نظریں چرا رہی ہیں۔ یہی حال دیگر خوابوں کا بھی ہے۔ یہاں ہمیں صوفی غلام مصطفی تبسمؔ کا ایک شعر یاد آرہا ہے جو آپ کی ذہنی، نفسیاتی، روحانی کیفیات کی نہایت دلچسپ اور خوبصورت عکاسی کرتا ہے۔ ذرا اس پر غور کیجیے ؎
اللہ کرے جہاں کو میری یاد بھول جائے
اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو
اب آیئے اپنے اصل مسئلے اور اپنی تازہ صورتِ حال کی طرف مگر اس سے پہلے چند باتیں آپ کے زائچے کے حوالے سے کیوں کہ آپ خود بھی علم نجوم سے شغف رکھتی ہیں تو کم از کم ہماری ان باتوں سے انکار نہیں کر سکیں گی۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ اپنے شمسی، قمری برج کے علاوہ طالع پیدائش سے بھی آپ واقف ہیں اور اس سے متعلق مثبت اور منفی خصوصیات کا بھی یقینا علم ہوگا مگر جس اہم نکتے کی طرف ہم توجہ دلا رہے ہیں وہ یہ ہے کہ زائچے کے پہلے گھر میں یعنی طالع پیدائش میں شمس کی موجودگی کبھی کبھی تو انانیت کا ایسا طوفان کھڑا کرتی ہے کہ انسان اگر خدائی کا دعویٰ کر بیٹھے تو ایک اچھے ماہر نجوم کو تعجب نہیں ہوگا۔ ہمارے مشاہدے میں تو ایسے ہزاروں زائچے آچکے ہیں کہ اگر شمس طالع میں موجود ہو اور باقوت بھی ہو تو صاحب زائچہ کی انا آسمان کو چھوتی ہے اور اس پر طرفہ تماشا حالات کی ناسازگاری، زندگی کی محرومیاں بھی ساتھ میں ہوں تو انسان کی سائیکی بری طرح بگڑ جاتی ہے، جس کے نتیجے میں ہسٹریا یاشیزوفرینیا وغیرہ جیسی بیماریاں اسے اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں اور آپ درحقیقت شیزوفرینیا کی مریضہ ہیں، اس بیماری میں تقسیم شخصیات کا مرحلہ ایسے ہی حیرت انگیز تماشے دکھاتا ہے جن سے آپ دوچار ہو رہی ہیں، شیزوفرینیا کے مریض کو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی ہر وقت اس کے ساتھ ہے اور وہ نادیدہ آوازیں سنتا ہے۔ الغرض یہ کہ ہر وہ بات اسے محسوس ہوتی ہے جس کے بارے میں وہ شعور رکھتا ہے اور کسی وقت اس کا ذہن بھٹک کر اس طرف چلا جاتا ہے۔
شیزوفرینیا ایک ایسا نفسیاتی عارضہ ہے جس میں انسان کی تقسیم شدہ شخصیت کئی بہروپ دھار لیتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات عام ہیں جن میں لوگ نادیدہ مخلوق کی اپنی زندگی میں مداخلت کی نشان دہی کرتے ہیں اور عام طور پر ایسے معاملات کو جن بھوت یا کسی روح وغیرہ کی کارروائی خیال کیا جاتا ہے یا عام زبان میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی نے سحر و جادو کے ذریعے ہم پر گندی چیزیں مسلط کر دی ہیں، اس بیماری میں عورت یا مرد، دونوں ایسی کیفیات سے بھی گزر سکتے ہیں جن میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان کے ساتھ موجود نادیدہ وجود ان پر غلبہ پا رہا ہے، اکثر خواتین نے ایسے کیسوں میں یہ شکایت بھی کی ہے کہ وہ خلوت میں بالکل اس صورتِ حال سے دوچار ہوتی ہیں جو اپنے شوہر سے ملنے کے وقت ہوتی ہے۔ اس معاملے میں شادی شدہ اور غیرشادی شدہ کی تخصیص نہیں ہے۔ ہم بارہا ایسے کیسوں کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔ الغرض ”شیزوفرنییا“ ایک ایسی بیماری ہے جس کے ہزار روپ ہو سکتے ہیں اگرچہ ماہرینِ نفسیات اسے صرف انسانی شخصیت کے بگاڑ تک محدود رکھتے ہیں اور ایک ذہنی عارضہ قرار دیتے ہیں لیکن ہمارے نزدیک یہ روحانی یا روحی عارضہ بھی ہے، بے شک اس کا علاج بہت مشکل ہوجاتا ہے اور اس کی وجہ بنیادی طور پر یہ ہوتی ہے کہ اکثر تو مریض معالج سے تعاون ہی نہیں کرتا اور دوسری بات یہ کہ مریض کو اپنے گھر میں معقول اور مناسب ماحول میسر نہیں ہوتا اور تیسری اور سب سے اہم وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس بیماری کے پیدا ہونے کی بنیادی اور اصل وجوہات جن کا تعلق مریض کے ماضی سے ہوتا ہے جوں کی توں برقرار رہتی ہیں۔
عزیزانِ من! یہ موضوع ناختم ہونے والا ہے، ماضی میں بھی ہم نے اس حوالے سے بہت لکھا ہے اور بہت سے کیسوں کا تجزیہ پیش کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے امراض کے علاج معالجے کے لیے اعلیٰ سطح پر نہایت معیاری اسپتال قائم ہونے چاہئیں جن میں ہر قسم کے معالجین کی نگرانی میں علاج معالجے کی تمام سہولتیں موجود ہوں، ایلوپیتھک طریقہ علاج ایسی پے چیدہ بیماریوں کے علاج میں قطعی طور پر ناکام رہا ہے، وہ فوری نوعیت کی روک تھام تو کر سکتے ہیں مگر مکمل صحت و تندرستی کے عمل کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوتی بلکہ ان بیماریوں کے حوالے سے جو ایلوپیتھک دوائیں استعمال ہو رہی ہیں ان کا زیادہ اور طویل عرصے استعمال کچھ دوسرے عوارض کا سبب ثابت ہوا، ہمارے نزدیک ایسی بیماریوں کے علاج میں پیراسائیکالوجی کی جدید تحقیقات اور تجربات سے مدد لینا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ہومیوپیتھک طریقہ علاج اختیار کرنا چاہیے۔ لوگ روحانی طریقہئ علاج کے نام پرجو اعمال و وظائف نقش و تعویذ یا جھاڑ پھونک کرتے ہیں، اس سے ایسے کیس مزید خراب ہوتے ہیں۔ ہم نے ان طریقوں سے کبھی مریض کو مکمل طور پر صحت یاب ہوتے نہیں دیکھا بلکہ ایسی صورتوں میں مریض کے ساتھ دیگر اہل خانہ کو بھی اسی مرض کی لپیٹ میں آتے دیکھا ہے۔
ہمارا ارادہ ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ایسی پے چیدہ بیماریوں کے حوالے سے اپنے تجربات و مشاہدات پر مشتمل ایک کتاب مرتب کی جائے تاکہ لوگوں کی اس ہزار رنگ و روپ رکھنے والے پُراسرار مرض سے درست آشنائی ہو سکے۔