کیا موجودہ نام نہاد جمہوریت اور آئین کی بساط لپیٹ دی جائے گی؟
ویدک سسٹم میں گرو،مشتری کو کہا جاتا ہے اور چنڈال راہو ہے جو فی الحال برج حمل میں مستقیم پوزیشن میں ہے،22 اپریل سے مشتری بھی برج حمل میں داخل ہوچکا ہے،مشتری اور راہو جب ایک ہی برج میں باہم ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں تو اس ملاپ کو ”گروچنڈال یوگ“ کا نام دیا جاتا ہے،مشتری کا تعلق عقل و دانش سے ہے جب کہ راہو سیاست ، فریب اور غیر قانونی سرگرمیوں کا نمائندہ ہے۔
ملکوں اور قوموں کے زائچے میں مشتری کو فطری طور پر آئین و قانون ، مذہب ، علم و ترقی،عدلیہ، الیکشن کمیشن اور امور خارجہ سے منسوب کیا گیا ہے،پاکستان اور انڈیا کے زائچے میں مشتری آٹھویں گھر کا مالک ہوکر زائچے کا سب سے زیادہ منحوس یا ضرر رساں سیارہ بن جاتا ہے،اس ماہ کی تقریباً10 تاریخ سے مشتری اور راہو کا ملاپ شروع ہورہا ہے جو تقریباً 20 جون تک جاری رہے گا،گرو اور چنڈال کا یہ طویل ملاپ کیا رنگ دکھائے گا ،آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ہر شعبہ ءزندگی اس وقت بری طرح متاثرہ ہے،سیاست ، معیشت ،عدالت ،فوج، الیکشن کمیشن ،حکومت ، اپوزیشن ،تجارت ،سول سروس الغرض عام آدمی سے لے کر خاص الخاص تک حیران و پریشان ہےں کہ ہو کیا رہا ہے اور ہوگا کیا؟
ہم اس مقام تک کیسے پہنچ گئے ، یہ سوال بھی اب اہم نہیں رہا، کچھ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے،2022 سے اب تک سب کچھ اس طرح عیاں ہوا ہے کہ جس کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی،موجودہ سال ملکی آئین کی پچاسویں سالگرہ ہے،گویا 1973 میں سیارہ مشتری کی جو سعادت ہمیں نصیب ہوئی تھی اس سال گرو چنڈال یوگ کے رحم و کرم پر ہے،علم نجوم میں مشتری کا مطلب آئین و قانون ہے،مشتری کا برج حمل میں داخلہ گویا آئین و قانون کا فوج کے حصار میں جانا ہے اور راہو سے قران سیاست کے ہاتھوں تماشا بنناہے،سو ایسا ہی ہوتا نظر آرہا ہے،پاکستان کی تاریخ میں جب بھی آئین شکنی یا آئین سے کوئی بھی کھلواڑ ہوا ہے ،زائچے میں مشتری متاثرہ نظر آتا ہے۔
گرو چنڈال یوگ کسی بھی زائچے میں بہت ہی عجیب اور متضاد قسم کے اثرات مرتب کرتا ہے،اس کی کئی صورتیں ممکن ہیں،سیارہ مشتری سے راہو کا قران یا کیتو سے قران ، مقابلہ یا تثلیث (Trian) بھی اس یوگ کی تشکیل کا باعث ہوسکتی ہے،کلاسیکل سسٹم میں اس پر مختلف یوگوں کے ماہرین کے درمیان اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ہمارا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ سیارہ مشتری کا راہو یا کیتو سے کسی طور بھی متاثر ہونا انسانی شخصیت و فطرت میں عجیب طرح کے احساسات و تضادات کو جنم دیتا ہے،ہمارے محترم سابق صدر مملکت جناب آصف علی زرداری کے زائچے میں سیارہ مشتری راہو کیتو سے متاثرہ ہے اورزائچے کے پہلے گھر میں گروچنڈال یوگ بنارہا ہے، یہ صورت حال بعض غیر معمولی صلاحیتوں کے ساتھ نجی زندگی میں غیر معمولی کمزوریوں اور محرومیوں کا بھی سبب ہوسکتی ہے،اس یوگ کے حامل افراد بعض نفسیاتی مسائل کا شکار لازمی ہوتے ہیں۔
جیسا کہ پہلے نشان دہی کی گئی ہے کہ ملکوں اور قوموں کے زائچوں میں مشتری کا تعلق آئین و قانون ، مذہب وغیرہ سے ہے،پاکستان کا پہلا 1973 کا آئین جب بنایا گیا تو جنوری 1973 میں مشتری اور راہو کی پوزیشن کچھ ایسی ہی تھی،طرفہ تماشا یہ کہ 1973 میں مشتری اپنے ہبوط کے برج جدی میں تھا، چناں چہ 14 اگست 1973 میں نفاظ آئین کے کچھ ہی عرصے بعد ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے آئین کو تقریباً معطل کردیا گیا،یہ ایمرجنسی 1985 تک جاری رہی،اگرچہ جولائی 1977 میں پورے ملک میں مارشل لا نافذ ہوگیا تھا۔
یقینا یہ جاننا دلچسپ ہوگا کہ گرو چنڈال یوگ ماضی کے جن سالوں میں تشکیل پاتا رہا ہے،وہ سال پاکستان کے لیے کس نوعیت کے تھے۔
فروری ،مارچ 1958 میںاور پھر اگست 58 میں گروچنڈال یوگ لگا اور یہ سال مارشل لاءکے لیے نہایت مشہور ہے بلکہ کہا یہ جاتا ہے کہ اس کے بعد ہی ملک جمہوریت کی پٹری سے اترگیا،ملک میں ڈکٹیٹر شپ کا آغاز ہوا۔
جون 1965 بھی گرو چنڈال یوگ کا سال تھا،اس سال بھارت سے جنگ ہوئی ،اس کے بعد مارچ 1969 میں گرو چنڈال یوگ بنا اور 25 مارچ کو پاکستان میں مارشل لگادیا گیا،21 اکتوبر 1971 سے 20 نومبر1971 تک کیتو اور مشتری کے درمیان تثلیث کی نظر قائم ہوئی،پاکستان اس وقت حالت جنگ میں تھا،مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوگیا، جون 77 ءسے جولائی 77ءمیں بھی راہو اور مشتری کے درمیان ایسی ہی نظر قائم ہوئی تھی،ہم نے دیکھا کہ 5 جولائی کو پاکستان میں مارشل لاءلگادیا گیا،مشتری کا تعلق چوں کہ مذہب سے بھی ہے لہٰذا اس دوران میں جو سیاسی تحریک چلی وہ بھی مذہب کے نام پر ہی چلائی گئی تھی یعنی نظام مصطفی کا نعرہ اور بعد ازاں چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاءالحق بھی اسی نعرے کو لے کر میدان عمل میں آئے تھے ۔
1979 کا سال بھی گرو چنڈال یوگ کا سال تھا،اس کے بعد فروری مارچ 1986 اور 87 ءبھی ایسے ہی سال تھے،ان سالوں میں بھی آئین و قانون کی پامالی نمایاں رہی،خصوصاً سندھ اور کراچی میں بدترین نوعیت کے فسادات ہوئے۔
1993 ء،1997 ءاور 1998 بھی راہو کیتو اور مشتری کے باہمی نظرات کے سال ہیں،فروری 2009 میں گروچنڈال یوگ عدلیہ بحالی تحریک کا اہم سال تھا، جون 2012 ءمیں مشتری کا کیتو سے قران اور راہو سے مقابلے کی نظر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو مہنگا پڑا، 2013 میں راہو اور مشتری کے درمیان تثلیث کی نظر قائم ہوئی اور نتیجے کے طور پر صدر زرداری اور عمران خان نے چیف جسٹس افتخار چوہدری پر الزام لگایا کہ انھوں نے الیکشن میں دھاندلی کے لیے کردار ادا کیا۔
جون 2016 میں گرو چنڈال یوگ لگا اور ملک میں پانامہ اسکینڈل کا چرچا شروع ہوا جو بالآخر وزیراعظم نواز شریف کی نا اہلی تک دراز ہوا۔
2023 کا سال بھی گرو چنڈال یوگ کا سال ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس سال ابتدا ہی سے سپریم کورٹ پر اور اس کے فیصلوں پر اعتراضات کا بازار گرم ہے،ویسے تو ہمیشہ ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کیس ہارنے والوں کے لیے اطمینان بخش نہیں ہوتے لیکن اس سال خصوصی طور پر سپریم کورٹ کے ججز پر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ وہ ایک پارٹی کی حمایت کر رہے ہیں، انتہا یہ کہ حکومت نے نہ صرف سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا بلکہ پارلیمنٹ میں چیف جسٹس اور ان کے ساتھی ججوں کے خلاف قرارداد بھی پیش کردی،مزید یہ کہ پارلیمنٹ کے ذریعے ایسی قانون سازی کی گئی جس میں چیف جسٹس کے اختیارات میں ترمیم کردی گئی ہے،سپریم کورٹ کے 8 رکنی بنچ نے اس قانون سازی کو فی الحال روک دیا ہے۔
زائچہ پاکستان میں یہ گرو چنڈال یوگ بارھویں گھر میں تشکیل پارہا ہے،یہاں عطارد بحالت رجعت موجود ہے،سیارہ یورینس بھی بارھویں گھر میں حرکت کر رہا ہے اور گزشتہ سال جب راہو سے یورینس کا قران ہوا تھا تو ہم نے دیکھا کہ کس طرح چہروں سے نقاب اُترے،کیسی کیسی انہونیاں ہوئیں،15 مئی تک سیارہ شمس بھی بارھویں گھر میں موجود ہے،خیال رہے کہ ہر سال جب شمس ، عطارد ،زہرہ بارھویں گھر سے گزرتے ہیں (15 اپریل سے 15 مئی) تو یہ عرصہ نت نئے مسائل کا باعث بنتا ہے،اس بار مشتری بھی یہاں چودہ ماہ کے لیے آگیا ہے اور فوری طور پر تقریباً 9 اپریل سے راہو سے قران کا آغاز کردیا ہے،دیگر زائچے کی پوزیشن بھی ایسی ہے کہ راہو کیتو تقریباً پانچ اہم سیارگان کو ہٹ کر رہے ہیں،مشتری ، عطارد ،زہرہ ،قمر اور زحل راہو اور کیتو ان کی نظر میں ہےں۔
مشتری راہو کا یہ قران آئندہ جون تک رہے گا لیکن مشتری سارا سال برج حمل میں ہوگا، سیارہ زحل گزشتہ ماہ سے ہی کیتو کی نظر میں ہے جس کی وجہ سے حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے،عطارد کا متاثر ہونا خصوصاً میڈیا کے لیے مسائل اور پابندیاں لاتا ہے،زہرہ پر کیتو کی نظر سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لیے عدم اطمینان اور اشتعال کا باعث ہے،قمر کا متاثر ہونا عوامی جذبات کو برانگیختہ کرتا ہے اور حکومت بھی اس موقع پر جذباتی نوعیت کے اقدام کرتی ہے،جیسا کہ 9مئی کو عمران خان کی گرفتاری کا فیصلہ جس کے نتیجے میں ایک شدید نوعیت کا عوامی ردعمل شروع ہوچکا ہے۔
10 مئی سے سیارہ مریخ اپنے ہبوط کے برج سرطان میں داخل ہوجائے گا،یقینا مقتدر حلقوں کو ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ صورت حال کو کس طرح نارمل کرنا ہے ، مریخ کی برج سرطان میں آمد اہم نوعیت کے فیصلوں کی طرف اشارہ کرتی ہے کیوں کہ پیدائشی زائچے میں زہرہ اور قمر نویں گھر میں ابتدائی درجات پر ہیں،مریخ سرطان میں داخل ہوتے ہی دونوں سیارگان سے نظر قائم کرے گا جس کے نتیجے میں جو بھی فیصلے ہوں گے وہ سخت نوعیت ہی کے ہوں گے،کیا موجودہ نام نہاد جمہوریت اور آئین کی بساط لپیٹ دی جائے گی؟
ہماری نظر میں 11 مئی ایک نہایت اہم تاریخ ہے جو منظر نامے کو کوئی نیا رنگ دے سکتی ہے (واللہ اعلم بالصواب)
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تِری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے