کسی دوا یا ڈاکٹر کی مدد کے بغیر آپ اپنا علاج خود کرسکتے ہیں

زمانہ ءقدیم سے دنیا بھر میں مختلف طریقہ ءعلاج رائج رہے ہیں،مثل مشہور ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے،چناں چہ انسان اپنی چھوٹی یا بڑی تکالیف کو دور کرنے کے لیے ہمیشہ نت نئی جستجو میں لگا رہتا ہے،ماضی کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو علاج معالجے کے بے شمار طریقے مختلف قوموں میں نظر آتے ہیں اور یہ سب طریقے انسان کے اپنے ہی ایجاد کردہ ہیں،پتھر کا زمانہ ہو یا موجودہ جدید ترین سائنسی دور، علاج معالجے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے، کہا جاتا ہے کہ قدیم زمانوں میں صحت سے متعلق خرابیاں اتنی زیادہ نہیں تھیں اور مہلک بیماریاں بھی کم تھیں، اُس کے مقابلے میں جدید دور میں صحت سے متعلق مسائل بہت زیادہ ہیں اور ایسی ایسی مہلک اور موذی بیماریاں سامنے آچکی ہیں جن میں اکثر لا علاج تصور کی جاتی ہیں، مثلاً کینسر، ایڈز، آرتھرائٹس، ہیپاٹائٹس، دماغی ٹیومر وغیرہ۔
بیماریوں کی کمی بیشی یا سنگینی اور اس کی وجوہات بہر حال ہمارا فی الحال موضوع نہیں ہے،ہمارا موضوع طریق علاج ہے،اس حوالے سے طب یونانی اور ہندوستان میں آیور ویدک طریقہ ءعلاج کو بہت قدیم خیال کیا جاتا ہے، اس کی بنیاد جڑی بوٹیاں، معدنیات اور دیگر اعضائے حیوانات ہیں ، ہزاروں سال سے یہ طریقہ ءعلاج مقبول ہے،اس شعبے میں ارسطو سے حکیم اجمل خاں تک ہزاروں بلکہ لاکھوں اطباءو حکماءنے داد تحقیق دی ہے۔
دوسرے نمبر پر جو عملی طور سے اب پہلے نمبر پر ہے،وہ ایلوپیتھک طریق علاج ہے،دنیا بھر میں زیادہ مقبول اور موثر تصور کیا جاتا ہے،اس کی ایک وجہ میڈیسن کے بجائے اس کا سرجری کا شعبہ ہے، نہایت افسوس کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار کرنا پڑے گا کہ ایلوپیتھک طریقہ ءعلاج میں ورلڈ ڈرگ مافیا کی کارستانیوں کے سبب شفابخش ادویات پر تحقیق کم ہوگئی ہے اور عارضی فائدہ دینے والی ادویات کی بھرمار کردی گئی ہے تاکہ مختلف کمپنیوں کے مال کی کھپت بڑھ جائے اور جب مریض کسی آخری اسٹیج میں داخل ہوجائے تو آپریشن کے ذریعے اُس کا مسئلہ حل کردیا جائے لیکن یہ حل بھی اطمینان بخش نہیں ہوتا مثلاًپتّے کی پتھری یا گردے کی پتھری کے لیے کوئی شفابخش ایلوپیتھک میڈیسن نہیں ہے،آخری علاج کے طور پر پتّا ہی نکال دیا جاتا ہے،پتّا ہمارے جسم کی کوئی فالتو شے نہیں ہے کہ جس کی عدم موجودگی سے کوئی نیا مسئلہ پیدا نہیں ہوگا لہٰذا اس آپریشن کے بعد کچھ نئے مسائل عمر بھر کے لیے شروع ہوجاتے ہیں جنہیں عارضی آرام دینے والی دواوں سے کنٹرول کیا جائے ، اس ساری گفتگو کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ سرجیکل سہولیات کی اہمیت کو نظر انداز کیا جائے، بے شک جب صورت حال ایسی ہوجائے کہ جہاں آپریشن ناگزیر ہو تو انسانی زندگی بچانے کے لیے ایلوپیتھک سرجری کا شعبہ قابل تحسین ہے لیکن اس کا کاروباری استعمال بہت بڑھ گیا ہے،خاص طور پر پرائیویٹ اسپتالوں میں بچے کی پیدائش کے عمل کو مستقل طور پر آپریشن سے جوڑ کر خواتین کی صحت کو ہمیشہ کے لیے تباہ کرنے کا بندوبست کر دیا گیا ہے،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نارمل ڈیلیوری کا تصور ہی ختم ہوتا جارہا ہے، اس کا شکار خاص طور سے نئے نوبیاہتا جوڑے ہوتے ہیں، بہر حال یہ ایک الگ تکلیف دہ موضوع ہے۔
تیسرا طریقہ علاج جس میں دنیا بھر میں نہایت شہرت پائی ، وہ ہومیو پیتھک طریق علاج ہے، اس کے بانی ڈاکٹر سیموئل ہنی مین جرمنی میں پیدا ہوئے تھے اور خود ایک ایلوپیتھک ڈاکٹر اور کیمسٹ تھے، انہوں نے ایلوپیتھک طریق علاج کی خرابیوں کے پیش نظر اس طریقے پر توجہ دی جو بالآخر پورے یورپ ، انڈیا، امریکا اور پاکستان میں رائج ہے، موجودہ دور میں اس طریقہ ءعلاج کی بھی مٹی پلید کرنے کی کوشش جاری ہے،اس کی پشت پر بھی ورلڈ ڈرگ مافیا اپنے پنجے گاڑھ رہی ہے۔
یہ تین طریقے مشہور عالم ہیں،تھوڑے تھوڑے سے فرق کے ساتھ طب یونانی اور آیور ویدک طریقہ علاج چینی، جاپانی، افریقی اور دیگر ممالک میں موجود ہے، یعنی مختلف جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے علاج کے طریقے تقریباً دنیا کے تمام ہی ممالک میں پائے جاتے ہیں۔
جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا تھا کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے،جتنے بھی طریقہ ءعلاج دنیا میں مروج رہے ہیں یا مروج ہیں،یہ سب کے سب کبھی بھی انسان کی تمام ضروریات اور مسائل کا احاطہ نہیں کرسکتے لہٰذا نت نئے طریق علاج ، وقت کے ساتھ ساتھ منظر عام پر آتے رہتے ہیں، انسان نے زمانہ ءقدیم میں جادو ٹونے اور ٹوٹکوں کے ذریعے بھی اپنی معالجاتی ضروریات پوری کی ہیں اور بعد ازاں مذہبی یا روحانی طریقے بھی اس حوالے سے رواج پاتے رہے۔
یورپ میں ایک ایسا دور بھی آیا جب روحانیت یا مذہب سے آگے بڑھ کر روحیت پر غورو فکر اور تجربات شروع ہوئے جس کے نتیجے میں مسمریزم ، ہپناٹزم، ٹیلی پیتھی جیسے علوم سامنے آئے اور آج کے زمانے میں ریکی کا چرچا ہے، اس کے علاوہ یوگا کو بھی جسمانی صحت و تندرستی کے لیے ایک مفید طریق کار کے طور پر سامنے لایا گیا ہے،قصہ مختصر یہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسانی ضرورت کے تقاضوں کے مطابق نت نئے علاج کے طریقے سامنے آتے رہتے ہیں،تجربات سے ان طریقوں کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہی ہوتی ہے اور جو طریقہ بے ضرر اور مفید ثابت ہوتا ہے، لوگ اُسے اپنالیتے ہیں، ایسا ہی ایک طریقہ ”ایکو پریشر“ ہے۔

ایکو پریشر طریق علاج

اگرچہ یہ طریقہ فی الحال بہت زیادہ معروف اور مقبول نہیں ہوا ہے لیکن اس کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے، اگر اس طریق کار کو ”علم الابدان“ کی ایک شاخ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا، اس طریقے کے موجدین نے گہرے مطالعے اور مشاہدے کے بعد یہ دریافت کیا ہے کہ ہمارے تمام جسمانی اعضاءسے متعلق اہم غدود ہمارے دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں میں موجود ہیں،جسم کے کسی بھی حصے میں جب کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے اور ہم اپنے ہاتھ یا پاوں کے اُس مخصوص پوائنٹ کو پریس کرتے ہوئے پریشر دیتے ہیں تو جسم کا وہ مخصوص حصہ جو اس پوائنٹ سے جڑا ہوا ہے مثبت سگنل وصول کرتا ہے اور اپنی کارکردگی کو بڑھا دیتا ہے، نتیجے کے طور پر خرابی یا تکلیف ختم ہوجاتی ہے، یہ اس قدر آسان اور بے ضرر علاج ہے جو ہر شخص خود کرسکتا ہے،اس سلسلے میں اُسے کسی ڈاکٹر یا معالج کے پاس جانے کی ضرورت بھی نہیں ہے، صرف یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ کے مختلف جسمانی اعضاءکا تعلق آپ کے ہاتھوں یا پیروں پر کس پوائنٹس سے ہے، جب آپ اُس پوائنٹ کو پریشر دیں گے تو خود بہ خود آپ کو محسوس ہوگا کہ وہاں ہلکا یا تیز درد موجود ہے، یہ اس بات کی نشانی ہے کہ پوائنٹ سے متعلق جسمانی عضو متاثرہ ہے ، کسی خرابی کا شکار ہے، آپ اس پوائنٹ پر روزانہ دن میں دو تین مرتبہ کم از کم دباو ڈالتے رہیں تو آپ کو چند روز میں ہی اندازہ ہوجائے گا کہ آپ کو جو تکلیف تھی ، اُس میں کمی آرہی ہے اور بالآخر وہ تکلیف ختم ہوجائے گی۔
فی زمانہ مروجہ طریقہ ءعلاج اول تو اس قدر مہنگا ہوچکا ہے، جسے عام آدمی برداشت ہی نہیں کرسکتا، ایلوپیتھک طریقے میں مختلف ٹیسٹوں کے مراحل اور پھر دواوں کی آسمان کو چھوتی قیمتیں دیکھ کر ایک غریب آدمی تو اپنے علاج معالجے کی ہمت ہی نہیں کرتا، بحالتِ مجبوری سرکاری اسپتالوں کے چکر لگاتا ہے، مزید یہ کہ قابل اور تجربے کار ڈاکٹر صاحبان کا بھی فقدان ہے اور جو ہیں وہ بہت زیادہ کمرشل ازم کا شکار ہیں،اس صورت حال میں علاج کے ایسے طریقے جن میں انسان کی جیب سے کچھ خرچ بھی نہ ہو اور اُسے کسی ڈاکٹر یا حکیم کی محتاجی بھی نہ ہو، کسی نعمت سے کم نہیں ہےں، ہمارے خیال میں ایکوپریشر بھی ایک ایسا ہی طریق علاج ہے اور اس سے فائدہ نہ اٹھانا ایک طرح کا کفرانِ نعمت ہی ہوگا۔
بہت عرصے سے ہمارا ارادہ تھا کہ اس طریق کار سے اپنے قارئین کو آگاہ کریں،چناں چہ اب یہ خواہش پوری ہورہی ہے،اس بار دونوں ہاتھوں پر موجود مختلف جسمانی اعضاءکے پوائنٹس کی نشان دہی کی جارہی ہے، آئندہ انشاءاللہ دونوں پاوں کے پوائنٹس بھی دے دیے جائیں گے۔

 

دونوں ہاتھوں کا جو خاکہ دیا جارہا ہے،اس میں دائیں اور بائیں ہاتھ کو پہچاننا یقیناً آپ کے لیے مشکل نہیں ہوگا، انگلیوں ، انگوٹھے ، ہتھیلی اور کلائی پر مختلف جسمانی اعضاءکی نشان دہی کی گئی ہے،مزید تشریح کے لیے پوائنٹس بھی دے دیے گئے ہیں، خاکے میں جسمانی اعضاءکا نام انگریزی زبان میں ہے ، ممکن ہے ہمارے بہت سے قارئین کے لیے ان ناموں کو سمجھنے میں دشواری ہو لہٰذا ہر پوائنٹ کے جسمانی اعضاءکے اُردو نام بھی دیے جارہے ہیں۔
1 ۔ دماغ کے غدود (Brain)
2 ۔ دماغی اعصاب (Carnial Nerve)
3 ۔ غدئہ نخامیہ (pituitray gland)
4 ۔ غدئہ صنوبری (Pineal)
5 ۔ حرام مغز کے اعصاب (Spinal Nerve)
6۔ حلق کے غدود (Throat)
7 ۔ گردن کے غدود (Neck)
8 ۔ غدئہ ورقیہ (Thyroid)
غدئہ جارالورقیہ (Parathyroid)
9 ۔ ریڑھ کے مہرے (Spine)
10 ۔ بواسیر (Piles)
11 ۔ غدئہ مذی (Prostate)
12 ۔ رحم (Uterus)
13۔قضیب (Penis)
14 ۔ خصیتہ الرحم (Ovaries)
15۔ خصیے (Testes)
16 ۔ غدود لمفاوی (Lymphglands)
17 ۔ کولہا اور گھٹنا (Hip and kne)
18 ۔ مثانہ (Bladder)
19 ۔ آنتیں (Intestine)
20 ۔ بڑی آنت (Colon)
21 ۔ اضافی آنت (Appendix)
22 ۔ پتّا (Gall Bladder)
23 ۔ جگر (Liver)
24 ۔ کندھا کے غدود (Shoulder)
25 ۔ لبلبہ (Pancreas)
26 ۔ گردہ کے غدود (Kidney)
27 ۔ معدہ شکم (Stomach)
28 ۔ گردے کے غدود (Adrenal Gland)
29 ۔ ناف (Solar Plexus)
30 ۔ پھیپھڑے (Lungs)
31۔ کان کے غدود (Ear)
32۔ مدّخم توانائی (Energy)
33 ۔ کان کے اعصاب (Ear Nerve)
34 ۔ سردی (Cold)
35 ۔ آنکھیں اور ان کے غدود (Eye)
36۔دل (Heart)
37 ۔ طحال (تلّی) (Spleen)
38 ۔ گردن کی جڑ کا غدود (Thymus)

اصول و قواعد

سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ کو جو بھی بیماری یا تکلیف ہے ، اس کا تعلق آپ کے دونوں ہاتھوں پر کس پوائنٹ سے ہے، اس پوائنٹ پر ذرا سا زیتون کا تیل لگائیں اور پھر ہاتھ کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دیں، دوسرے ہاتھ کے انگوٹھے سے اس پوائنٹ پر دباو ڈالیں، اگر وہ پوائنٹ درد کرتا ہے یا اُس جگہ کوئی ہلکی یا زیادہ دکھن محسوس ہوتی ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ جسم کا متعلقہ حصہ کسی خرابی کا شکار ہے اور یہ خرابی کسی نہ کسی بیماری یا تکلیف کا باعث بن گئی ہے لہٰذا دن میں دو تین مرتبہ یا اس سے زیادہ مرتبہ اس پوائنٹ پر مالش کے انداز میں پریشر ڈالیں اور تقریباً ایک منٹ تک مالش کریں، بعض ماہرین کا طریقہ یہ بھی ہے کہ اُس پوائنٹ پر دباو ڈال کر ایک منٹ تک انگوٹھے کو اس طرح حرکت دیں کہ پوائنٹ انگوٹھے کے نیچے ہی رہے، بعض لوگوں کے ہاتھ زیادہ سخت اور کھردرے ہوتے ہیں، خصوصاً محنت کا کام کرنے والے افراد یا ایسی خواتین جن کو بہت زیادہ گھریلو کام کاج خصوصاً برتن دھونا، کپڑے دھونا وغیرہ کا کام کرنا پڑتا ہے ، ان کی ہتھیلیاں بھی سخت ہوجاتی ہیں،ایسی صورت میں صرف انگوٹھے یا انگلی سے مناسب پریشر نہیں ڈالا جاسکتا، اس کے لیے کوئی لکڑی یا قلم ایسا لیا جاسکتا ہے جو نوک دار نہ ہو، اُس کا ایک سرا گولائی میں ہو، اس کے ذریعے بھی پریشر ڈالا جاسکتا ہے،خیال رہے کہ یہ پریشر اگر آپ خود ڈال رہے ہیں تو آپ کو محسوس ہونا چاہیے کہ آپ کا متعلقہ پوائنٹ دباو محسوس کر رہا ہے،اگر کوئی دوسرا یہ کام کرتا ہے تو بھی آپ کو اندازہ ہونا چاہیے کہ پریشر درست مقام پر ہے یا نہیں،جب تک متعلقہ پوائنٹ درد کرتا ہے، اس علاج کو جاری رکھنا چاہیے، درد میں کمی آنے لگے تو سمجھ لیں کہ جسم کا متعلقہ حصہ شفایابی کے عمل کی طرف بڑھ رہا ہے،امید ہے کہ اس بار سارے طریقے کو سمجھنے کی کوشش کریں گے،پوائنٹ تھراپی کے اس طریقے کی بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ طریقہ نہ صرف ہر طرح کے ری ایکشن اور مضر اثرات سے پاک ہے بلکہ اس میں کوئی پرہیز بھی نہیں ہے، دونوں ہاتھوں کے جو پوائنٹس اور ان سے جسمانی اعضاءکا جو تعلق بتایا گیا ہے، ان اعضاءسے متعلق کوئی بھی مرض یا مسئلہ ہو ، وہ یقیناً مخصوص پوائنٹس پر پریشر دینے سے حل ہوجائے گا، انشاءاللہ۔
اکثر بچے کُند ذہن ہوتے ہیں یا ان کی یاد داشت کمزور ہوتی ہے، بچوں یا بڑوں میں ذہنی جنون یا دیگر ذہنی امراض ، ڈپریشن،احساس کمتری وغیرہ کا عارضہ ہوتا ہے، ایسی صورت میں 1,2,3,4,5 ایسے پوائنٹ ہیں جن پر پریشر دینے سے یہ خرابیاں دور ہوسکتی ہیں، خیال رہے کہ یہ پوائنٹ دائیں اور بائیں ہاتھ کے انگوٹھے پر ہیں، اگر کچھ عرصے تک پابندی سے ایسے لوگوں کے انگوٹھے پر یہ پریشر تھراپی جاری رکھی جائے تو حیرت انگیز نتائج سامنے آئیں گے۔
گونگا پن ، آواز کا بھاری ہونا یا بہت باریک ہونا اور گلے یا حلق سے متعلق امراض میں مبتلا ہونا جن میں ٹانسلز اور دیگر تھائی رائیڈ یا پیرا تھائی رائیڈ سے متعلق امراض شامل ہیں،ان کے لیے 6,8,31 پوائنٹس ہیں،خیال رہے کہ ایلو پیتھک طریقہ علاج میں معاملات اس حد تک بگڑ جاتے ہیں کہ بعد ازاں آپریشن کرانے کی نوبت آجاتی ہے اور گلے کی غدود ہی نکلوانا پڑتے ہیں، مندرجہ بالا پوائنٹس پر مستقل پریشر دیا جائے تو ان مسائل سے نجات مل سکتی ہے۔
کان کا درد یا کان پکنا اور کان سے مواد نکلنا ، بہرہ پن ، کان کی پھنسی اور دیگر کان سے متعلق بیماریاں اگر پریشا کرتی ہوں تو 16,31 ایسے پوائنٹ ہیں جنہیں پریشر دینے سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
نظر کی کمزوری موتیا بِند اور آنکھوں کے تمام امراض کی صورت میں آنکھوں کے گرد صرف ہڈی پر گولائی میں دن میں دو بار پانچ منٹ مساج کرنے کے علاوہ پوائنٹس 8,33,35 پر پریشر دیں۔
لیکوریا، ہرنیا، ہچکی، ہسٹیریا، بخار، جسم میں اضافی حرارت، ملیریا، منہ کے چھالے، سینے یا ہاتھ پیروں میں جلن اور دیگر 90 فیصد مردانہ و زنانہ اندرونی تمام اعضاءکا علاج پوائنٹس 11,15 پر پریشر دینے سے ممکن ہے۔
کوتاہ قامتی بعض لوگوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرتی ہے،خصوصاً لڑکیوں میں یہ مسئلہ بہت سنگین نوعیت اختیار کرتا ہے، اگر ابتدائی عمر ہی میں یعنی 21 سال تک مخصوص پوائنٹ پر پریشر دیا جاتا رہے تو قد میں اضافہ ہوسکتا ہے، اس کے لیے 3,4,8,11,15,28,38 پوائنٹس پر پریشر دینے کی ضرورت ہوگی۔
جسم اور کمر کے درد کے لیے 8,9,16 پوائنٹس اہم ہیں۔
گھٹنے ، چھاتی اور پیروں کے درد کے لیے 25,26,32 پوائنٹس پر پریشر ڈالنا چاہیے۔
گردن کی اکڑاً یا درد کے لیے 7,9,16 پوائنٹس ہیں۔
بواسیر کا مرض خاصا عام ہے اور ایلوپیتھک طریقہ علاج میں اس کا کوئی شافی حل نہیں ہے،آخری علاج کے طور پر آپریشن کرانا پڑتا ہے،اس سلسلے میں تھوڑی کے عین درمیان میں پانچ منٹ دباو ڈالیں اور 8,10,11,15,25 پوائنٹس پر روزانہ پریشر دیں، قبض نہ ہونے دیں، اس کے لیے مستقل اسپغول کی بھوسی کا استعمال رکھیں، زیادہ تر دائیں کروٹ سوئیں اور گرم یا تیز مرچ مسالوں والی خوراک سے پرہیز کریں تو انشاءاللہ بواسیر خواہ خونی ہو یا بادی ، کنٹرول میں آجائے گی۔
پتھری ، جلدی امراض ، داد، چمبل، لو لگنا، سوجن، الرجی، ٹی بی کے لیے 1,2,3,4,5,6,7,8,19,29,30,34,26,13,15 پوائنٹس اہم ہیں، بیماری کی نوعیت اور شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان پوائنٹس پر توجہ دیں، پریشر دینے کے آدھے گھنٹے بعد کم از کم 2 گلاس پانی پئیں یا تازہ پھلوں کا جوس پئیں۔
ٹائیفائیڈ ایسی بیماری ہے جو ایلوپیتھک علاج سے ختم نہیںہوتی، اینٹی بائیوٹک کے استعمال سے عارضی طور پر دب جاتی ہے اور پھر دوبارہ لوٹ آتی ہے،صرف ہومیو پیتھک علاج ہی اسے جڑ سے ختم کرتا ہے،ایکوپریشر تھراپی سے بھی اس کا علاج ممکن ہے، اس کے لیے 1,2,3,4,5,6,7,30,34 پوائنٹس اہم ہیں۔
رحم کے کینسر کے لیے 11,15 پوائنٹس پر پریشر دیں، بریسٹ کینسر میں 9 پوائنٹ پر پریشر دیں اور ہتھیلی کی پشت پر مساج کریں۔
نشہ خواہ کسی بھی قسم کا ہو ،اسے چھڑانے کے لیے 1,2,3,5,30 پوائنٹس پر پریشر دیا جائے۔
بالوں کا قبل از وقت گرنا ، سفید ہونا اور دیگر بالوں کی بیماریوں سے نجات کے لیے 19,20,22,23,27 پوائنٹ پر پریشر دیں، خیال رہے کہ یہی پوائنٹ تھکاوٹ ، گیسٹرک وغیرہ سے نجات کے لیے بھی اہم ہیں۔
دل کی ہر بیماری کا علاج 8,36 پوائنٹس پر ہے اور شوگر کے لیے 8,16,25, 26 پوائنٹس پر توجہ دیں۔
عزیزان من! یہ موضوع ابھی نا تمام ہے ، انشاءاللہ آئندہ بھی اس پر بات ہوگی۔