طلوع اسلام کے بعد اہل تصوف کا خصوصی کردار
ابتدائی انسان نے جب سے خود کو ایک انسان کی حیثیت سے پہچانا تو اس نے غور کیا کہ اس کی شخصیت میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جنہیں وہ فطری قانون کی حیثیت سے سمجھ نہیں سکتا لہٰذا اپنی تمام روحی صلاحیت کو اس نے کسی آفاقی سفارش یا کار پردازی کا نتیجہ سمجھا اور یہ شعبہ مذہبی پیشواوں کے کھاتے میں چلا گیا کہ وہ اس کی توجیہہ اور تشریح کریں۔
انسان کے ماورائے نفسیات مظاہر ایک ایسے شے تھی جس سے انسان خوف زدہ بھی ہوا اور اس سے اس نے امید یں بھی وابستہ کیں یعنی معاون سمجھا۔
روح تو ابتدا ہی سے ایک حقیقت تھی، اس سے بھی بہت پہلے جب انسان نے بولنا بھی نہیں سیکھا تھا۔
ڈارون نے انسان کے ارتقائی عمل پر بحث کی ہے کہ وہ بندر کی ایک ترقی یافتہ شکل ہوسکتا ہے۔ اگرچہ بعد کے مفکرین نے اس کے نظریات پر کڑی تنقیدیں کیں اور اب سائنسی تحقیق ڈارون کی تھیوری کو متنازع بناچکی ہے لیکن اس وقت بھی ڈارون کے ناقدین کا اعتراض یہی تھا کہ وہ انسان کے جسمانی ارتقا پر بات کر رہا ہے اور روح اس کا موضوع ہی نہیں ہے۔ جب کہ پیراسائیکولوجی کا بنیادی موضوع روح ہے۔ یہی وہ اختلافی سرحد ہے جہاں سے تجرباتی اور مادہ پرست سائنس اور مشاہداتی و روحانی سائنس کے راستے الگ الگ ہوگئے ہیں۔
پتھر کے زمانے کا آدمی بھی روحی یا روحانی دنیا سے واقف تھا لیکن چوں کہ اسے صرف اپنی معاشیات اور تحفظ سے سروکار تھا لہٰذا ان معاملات کو اس نے ماورائی یا آفاقی یا دوسرے معنوں میں اپنی عقل سے ماورا خیال کرتے ہوئے انہیں دیوی دیوتاوں سے تعلق جوڑنے کے لیے کچھ غیر معمولی حسی صلاحیت رکھنے والے سائیکک (پراسرار) قسم کے افراد پر چھوڑ دیا۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ زمانہء قدیم میں مذہبی رہنما مندروں اور معبدوں کے پجاری، منگولوں کے ”شامان“ افریقیوں کے وچ ڈاکٹر یا ایسے ہی دوسرے بہت سے لوگ اپنے اپنے دور میں لوگوں کی روحانی رہنمائی کرتے نظر آتے ہیں۔ چوں کہ یہ تمام لوگ اپنی تمام تر غیر معمولی حسی قوتوں کے باوجود تھے تو ایک عام انسان ہی، اور ان کی قوتیں بھی محدود ہی تھیں جن کی مدد سے انسان حقیقی روحانی اطمینان، سکون اور تحفظ حاصل نہیں کرسکتا تھا بلکہ اس کے برعکس گمراہی، تباہی و بربادی، بے شمار معاشرتی خرابیوں کا شکار ہوجاتا تھا، اور ان کی ایسی ہی گمراہیوں کا سدباب پروردگار نے اپنے انبیا کے ذریعے کیا تاکہ وہ غیر معمولی حسی قوت رکھنے والے سائیکک یا ساحر افراد کی پھیلائی ہوئی گمراہی سے بچ سکیں۔
حضرت موسیٰ ؑ کے زمانے میں ایسے سائیکک شخص کی مثال مشہور زمانہ ”سامری جادوگر“ سے دی جاسکتی ہے یا ان جادوگروں سے جو فرعون نے آپ ؑ کے مقابلے کے لیے اکٹھے کیے تھے۔
تاریخ عالم کا غیر جانب دارانہ مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جب پتھر کا دور پیتل کے دور میں، پھر لوہے کے دور میں اور پھر ایک ایسے دور میں داخل ہوا جسے ہم قبل از تاریخ سے ممتاز کرنے کے لیے تاریخی دور کہتے ہیں تو مذہب نے پیرا نارمل سے تعلق کی باگ ڈور سنبھال لی، یعنی انسانی نفسیات سے ماورا مظاہر پر اپنی اجارہ داری قائم کرلی اور پھر یہ کائناتی عناصر سے دیوتاوں یا ماورائی قوتوں کی براہ راست سفارش کے ذریعے فطرت کی خام طاقتوں سے سمجھوتا کرنے کا سوال نہیں رہ گیا تھا بلکہ اب یہ کسی مذہبی اتحاد یا کسی مذہبی تنظیم سے تعلق رکھنے کا معاملہ بن گیا۔ ایسا کرکے انسان نے تمام ذمے داریاں، تمام خطرات اور تمام خوف اس مذہبی گروہ کے حوالے کردئیے جس کا وہ رکن تھا۔
اس کے جواب میں اس مذہبی گروہ نے بتدریج نئے مذہبی عقائد کے تصور کو جنم دیا کیوں کہ اس نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ ماورائے نفسیات پھیلی ہوئی پراسرار علوم کی طاقتیں جنہیں وہ کنٹرول نہیں کرسکتا، کسی منظم اور محدود دائرے میں مذہبی تقاضوں کے لیے کارآمد نہیں ہوں گی لہٰذا ایسی پراسرار باتوں کو جن کی وضاحت نہیں ہوسکتی، انسان کے بنائے ہوئے نظام تک محدود کرنا ضروری ہے تاکہ گروہ ان مسائل کو مناسب طریقے سے حل کرسکے۔ لیکن ہوا اس کے برعکس، اس طرح معاملات نہ صرف یہ کہ مزید الجھ گئے بلکہ بے حد متنازع بن گئے۔
واضح رہے کہ یہ گفتگو تاریخ کے غیر جانب دارانہ مطالعے کی روشنی میں ہورہی ہے جس کا تاریخ عالم کے کسی خاص مذہبی یا نظریاتی گروہ کے مخصوص عقائد و نظریات سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ اسے تاریخ عالم کا کھلا یعنی روشن خیال اور آزادانہ مطالعہ کہہ سکتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ انبیا ؑ کے عہد کے علاوہ دیگر تمام ادوار میں مذہبی لوگوں نے پیراسائیکولوجی یعنی ماورائے نفسیات مظاہر کے حقائق کو اپنے مفاد اور اپنی برتری یا اپنی طاقت کے حصول کے لیے استعمال کرنا شروع کیا اور صرف یہی نہیں بلکہ اس پر مذہبی رنگ چڑھانے کی ایسی کوششیں بھی کی گئیں جو بعد میں نئے نئے مذہبی نظریات کو جنم دینے کا سبب بنیں۔ اس کی ایک تازہ مثال ہمارے زمانے کے گرو رجنیش جیسے بہت سے افراد کی ہے جن کا بنیادی موضوع پیراسائیکولوجی تھا اور وہ خود ایک سائیکک تھے لیکن بالآخر ایک مذہبی و روحانی پیشوا کے طور پر مشہور ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں اپنے پیروکاروں کا حلقہ بنالیا۔
تاریخ اسلام میں باطنیہ فرقے کے بانی حسن بن صباح کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ وہ بھی پیدائشی طور پر ایک سائیکک یا پیرا نارمل قوتوں کا حامل شخص تھا۔ باغیانہ سوچ اور مخالفانہ سرگرمیوں کے سبب اس نے راہ فرار اختیار کی۔ اس دوران میں ایک سمندری سفر کرتے ہوئے جب اس کی کشتی یا جہاز طوفان میں پھنس گیا اور اس کے غرق ہونے میں کسی کو کوئی شبہ نہ رہا تو لوگوں نے اس سے بھی جان بچانے کے لیے سمندر میں چھلانگ لگانے کو کہا لیکن وہ نہایت پرسکون اور پراعتماد انداز میں اپنی جگہ بیٹھا رہا اور بولا ”ہمارا کچھ نہیں بگڑے گا، جہاز غرق نہیں ہوگا۔ جاؤ اور اپنے اپنے کام میں مصروف رہو“۔
پھر ایسا ہی ہوا، جہاز ڈوبنے سے بچ گیا اور وہ خیریت سے کنارے تک پہنچ گئے۔ حسن بن صباح کی زندگی کا یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جس نے اسے ایک روحانی پیشوا کے طور پر متعارف کروایا۔ اس کے فدائین کی جماعت اکثر اسلامی حکومتوں کے لیے دہشت کی علامت بن گئی جن کے ذریعے اس نے اس زمانے میں اپنے مخالفین، بڑے بڑے امرا اور وزرا کو قتل کروایا۔ ایران میں قلعہ الموت اس کا مستقر بنا۔ اس نے ایک جنت بھی بنائی تھی جس میں اپنے مریدین اور فدائین کو بھیج کر اپنا ایسا معتقد بنالیتا تھا کہ وہ اس کے اشارے پر ایک لمحے میں اپنی جان قربان کردیتے تھے۔
ایک اور مثال اسی بیسویں صدی میں روس کے راسپوتین کی ہے، اس نے اپنی پر اسرار قوتوں سے شہنشاہ روس اور اس کے پورے گھرانے کو اپنا اسیر بنالیا تھا۔
ایسی کوششوں کے ذریعے درحقیقت پیراسائیکولوجی مزید متنازع صورت حال سے دوچار ہوئی۔ اگر ہم یہ کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ فی زمانہ بھی پیراسائیکولوجی کے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں طبقاتی تقسیم بڑھ رہی ہے۔ لوگ گروہ در گروہ فرقوں میں بٹ رہے ہیں۔ اگر تاریخ اسلام کا بھی غیر جانب دارانہ مطالعہ کیا جائے تو کیا ایسی صورتیں نظر نہیں آتیں کہ پیرا نارمل صلاحیتوں کے حامل افراد یا پیرا نارمل سے متعلق تحقیق و جستجو کرنے والے بالآخر کسی فرقے یا جماعت کو جنم دیتے ہیں پھر اس جماعت میں مزید گروہ بنتے ہیں اور تقسیم در تقسیم کا یہ سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں یا یوں کہیں کہ کسی بھی مذہبی معاشرے میں اس گروہ بندی کی بنیادی وجہ پیراسائیکولوجیکل حقائق پر مذہبی رنگ چڑھانا ہے۔ مذہب جسے ہم اللہ کا دین کہتے ہیں، عالم انسانیت کے لیے ہے۔ اس کے ذریعے ہمیں جو ہدایات دی جاتی ہیں وہ دنیا اور دنیا کے بعد کی زندگی سے متعلق ہیں اور ایک خاص دائرئہ کار میں ہیں اور وہ دائرئہ کار صرف اتنا ہی ہے جتنا اللہ نے ضروری سمجھا ہے اور جو دنیاوی اور اخروی حیات کو صالحیت کے ساتھ گزارنے کے لیے ضروری ہوسکتا ہے۔
پیراسائیکولوجی کا تعلق نفس انسانی کے غیر معمولی مظاہر سے ہے اور یہ مظاہر بلاشبہ اکثر انسانی حدود و ضابطے توڑ دیتے ہیں اور مذہب کے اصول و قوانین سے بھی برسرپیکار ہوجاتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ زمانہ قدیم سے مذہب کا رنگ چڑھا کر پیراسائیکولوجیکل حقائق کی جب بھی تعلیم و تشریح کی گئی، کسی نہ کسی فتنہ و فساد نے ہی جنم لیا اور اس کے ساتھ ساتھ انسان کے عام حواس خمسہ سے ماورا صحیح فطرت کو سمجھنا مشکل ترین ہوگیا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ از منہ وسطیٰ میں ایسے ادوار بھی گزرے ہیں جب سپر نارمل کی نمود کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا کیوں کہ وہ مروجہ اصول و قوانین اور ضابطوں کو چیلنج کر رہے ہوتے تھے اور اس زمانے کی مذہبی قوتیں یا آمرانہ طاقتیں ایسے غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل لوگوں کو معاشرے میں رائج نظام و ضابطے کے لیے خطرہ تصور کرتی تھیں۔ لہٰذا بے شمار سائیکک افراد مسلسل اذیتوں سے گزرے یا قتل کیے گئے۔ بعض کو زندہ جلادیا گیا۔
دراصل یہ روایت بھی خاصی قدیم ہے کہ معاشرے کے مذہبی گروہوں کی اکثریت آمرانہ نظام حکومت میں اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بنی رہی ہے۔ اس کی مثال انبیا کے دور میں بھی نظر آتی ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے خلاف حکومت وقت کو کارروائی کرنے پر مجبور کرنے والے وہ مذہبی حلقے تھے جو حکومت وقت میں اپنا اثر رسوخ رکھتے تھے۔ یہ روایت صدیوں سے جاری و ساری ہے۔ اگر ہم تاریخ عالم پر نظر ڈالتے ہوئے یہ جاننا چاہیں کہ اس روایت کو سب سے پہلے کس نے توڑا تو صرف ایک ہی ہستی پوری کائنات میں نظر آتی ہے اور وہ ہے اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کی۔ اگرچہ آپ ﷺ کی ولادت باسعادت ایک ایسے گھرانے میں ہوئی تھی جو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا ایک بنیادی اور مضبوط ستون تھا، یعنی خاندان بنو ہاشم اور جب آپ ﷺ نے اللہ کا پیغام لوگوں کو دیا تو مکہ میں موجود اسٹیبلشمنٹ سے متعلق سرکردہ حلقوں میں کھلبلی مچ گئی اور پھرآپ ﷺ کو واپس اپنے حلقہء اثر میں لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی۔ آخر کار ناکام ہونے کی صورت میں آپ ﷺ کے خلاف کارروائیاں کی گئیں۔ یہاں تک کہ جان لینے کی کوشش کی گئی لیکن معاذ اللہ آپ ﷺ کوئی عام انسان نہ تھے جو اپنی کسی پیرا نارمل صلاحیت کے سبب مروجہ ضابتوں اور قوانین کے خلاف باتیں کر رہے تھے۔ بلکہ آپ ﷺ تو منجانب اللہ ایک مشن پر تھے اور آپ ﷺ کی ساری غیر معمولی باتیں منجاب اللہ تھیں لہٰذا کس کی مجال تھی کہ آپ ﷺ کی راہ روک سکتا۔ یہی صورت تمام انبیا کے ساتھ رہی ہے۔
آپ ﷺ نے جب ہجرت کے بعد مدینے میں پہلی اسلامی ریاست قائم کی تو وہ روایت ٹوٹ گئی جس کے تحت مذہبی گروہ اور حکمران گروہ کے دو طبقے زمانہ قدیم سے چلے آرہے تھے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بعد کا زمانہ اس سلسلے کو جاری نہ رکھ سکا اور بالآخر اسلامی ریاستیں بھی ملوکیت کے رنگ میں رنگنے لگیں اور ایک بار پھر وہ غالب طبقے وجود میں آگئے، ایک حکمران طبقہ اور ایک مذہبی طبقہ۔ ایسی صورت میں کسی تیسرے طبقے کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ صرف یہی کہ وہ اول الذکر دونوں طبقات کے جاری کردہ اصول و ضابطوں کی پابندی کریں، بصورت دیگر معاشرے کا باغی قرار دیا جائے گا اور ایسا ہوا بھی۔
مشہور صوفی منصور حلاج یا برصغیر میں سرمد وغیرہ ایسی ہی صورت حال کا شکار ہوکر حکمران اور مذہبی حلقوں کے عتاب کا شکار ہوئے۔ اس کے علاوہ بھی ایسی مثالیں زمانہ قدیم سے آج تک بکھری ہوئی ہیں۔