دنیا کے تمام جدید علوم میں سب سے زیادہ انقلابی
ایک خط میں پیراسائیکولوجی کے بارے میں کچھ سوالات کیے گئے ہیں، اگرچہ ہم ماضی میں پیراسائیکولوجی کے مشرقی اور مغربی عقائد و نظریات پر خاصا تفصیل سے لکھ چکے ہیں اور ہمارے علاوہ بھی بہت سے لوگوں نے لکھا ہے، بازار میں اب تو اس موضوع پر معیاری کتابوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے، خصوصاً محترم شمس الدین عظیمی صاحب کی کتابیں بھی موجود ہیں۔ ہماری ایک کتاب ”مظاہر نفس“ بھی اس موضوع پر شائع ہوچکی ہے، فی الحال ہم تازہ ترین موصولہ خط کے حوالے سے کچھ باتوں کی وضاحت کر رہے ہیں۔
انگریزی زبان میں سائیکی (psyche) کا لفظ روح، جان، ذہن یا نفس کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، اسی سے لفظ سائیکک (Psychic) ہے جس کے معنی پر اسرار قوت یا باطنی صلاحیت رکھنے والا ہے پھر سائیکو کا لفظ سامنے آتا ہے جو ایسے مریض کے لیے استعمال ہوتا ہے جو نفسی یا دماغی امراض میں مبتلا ہو۔ علم نفسیات میں سائیکو اینالائسز (Psychoanalysis) کی اصطلاح کے معنی تحلیل نفسی (جو دماغی عوارض کے لیے ایک طریقہ علاج ہے) کے لیے جاتے ہیں۔ اسی طرح سائیکولوجی (Psychology) کی اصطلاح نفس انسانی اور اس کے عمل کے عملی مطالعے کے لیے استعمال ہوتی ہے، اردو میں اس کا ترجمہ نفسیات کیا گیا ہے لیکن جو معاملات نفسی یا روحی یا ذہنی اور دماغی نفسیات کے علم سے آگے نکل جاتے ہیں ان کے لیے پیراسائیکولوجی (parapsychology) کی اصطلاح مروج ہے جس کے معنی ماورائے نفسیات یا نفس انسانی سے متعلق کے ہیں۔ اس شعبے کے معروف اسکالر جناب رئیس امروہوی مرحوم نے پیراسائیکولوجی کا اردو ترجمہ ”مابعد النفسیات“ کیا تھا لہٰذا ماورائے نفسیات یا مابعد النفسیات دونوں ہی درست ہیں۔ نفسیات یا نفس انسانی کے پراسرار اور حیرت انگیز مظاہر کے لیے پیراسائیکولوجی کا لفظ امریکا کی ڈیوک یونیورسٹی کے ایک پروفیسر جوزف بی رہائن نے ایجاد کیا تھا کیوں کہ ایک ایسے لفظ کی ضرورت تھی جو نارمل اور ایبنارمل مظاہر کے درمیان امتیاز کرسکے اور سائیکولوجی کے فریم ورک سے باہر ہو۔
پیرا (Para) یونانی زبان میں ماورا کو کہتے ہیں لہٰذا پیراسائیکولوجی کا مطلب ماورائے نفسیات یا رئیس امروہوی صاحب کی تشریح کے مطابق مابعد النفسیات مقرر ہوا۔
پروفیسر جوزف ہی نے شعور سے ماورا ادراک کے لیے ESP کی اصطلاح ایجاد کی جو Extra Sensory Perception کا مخفف ہے۔ اس کے معنی حسیاتی قوت مشاہدہ یا قوت ادراک ہے۔
گویا اگر کسی شخص کو ESP کی صلاحیت حاصل ہے تو ہم یہ کہیں گے کہ وہ غیر معمولی حسّی ادراک کا حامل ہے۔
ESP کی بہت سی شاخیں موجود ہیں جن پر ہم ماضی میں تفصیلاً لکھ چکے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے سکھر کی ایک لڑکی نے اپنے ساتھ پیش آنے والے غیر معمولی واقعات کے بارے میں لکھا تھا تو درحقیقت وہ ESP کے ذیل ہی میں آتے ہیں اور ESP کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ اس کا تعلق پیراسائیکولوجی سے ہے اور جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا ہے کہ پیراسائیکولوجی کا تعلق انسانی ذہن یا شخصیت یا نفس کے ان مظاہرے سے ہے جن کی عام نفسیاتی علوم کی بنیاد پر کوئی وضاحت نہیں کی جاسکتی، ہمارے معاشرے میں ایسے ہی معاملات اپنی پراسراریت کی وجہ سے آسیب و جنات یا سحرو جادو کے کیسوں میں شامل ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ اول تو لوگوں کو نفسیات کے بارے میں ہی نہیں پتا۔ دوم یہ کہ ماورائے نفسیات معاملات پر تحقیق و تجربات کا کام بہت اعلیٰ سطح پر نہیں ہوسکا، اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ بھی ہے کہ ہمارے اکثر ایلوپیتھک حلقے اور نفسیاتی ماہرین ماورائے نفسیات حقیقتوں کو تسلیم کرنے میں یا تو تذبذب کا شکار رہتے ہیں یا پھر سرے سے انہیں تسلیم ہی نہیں کرتے۔
شعور سے ماورا ادراک وہ ذریعہ ہے جس سے نارمل سے ماورا مظاہر ظہور پذیر ہوتے ہیں، پیرا نارمل کا مطلب نارمل سے ماورا ہے اور آج جسے نارمل یا معمول تصور کیا جاتا ہے وہ آج سے برسوں پہلے مکمل طور پر مافوق الفطرت سمجھا جاتا تھا۔ سائنس کی کوئی بھی شاخ ہو وہ اپنی جگہ ساکت و جامد نہیں ہوتی، آج ہم جسے حقیقت سمجھتے ہیں وہ ممکن ہے آنے والے کل میں حقیقت نہ رہے۔ بالکل اسی طرح آج ہم جن چیزوں کو حقیقت نہیں سمجھ رہے یا جن کا انکار کر رہے ہیں، بہت ممکن ہے کہ مستقبل میں ان کو تسلیم کرلیا جائے اور وہ ایک حقیقت بن جائیں۔ چناں چہ آج ہمارا شعور جن باتوں کو تسلیم کرنے میں تامل کر رہا ہے، یعنی جو باتیں ہمارے شعور سے ماورا ہیں، وہ مستقبل میں شعوری ادراک میں آسکتی ہیں۔
ہم پہلے بھی یہ بات لکھ چکے ہیں کہ عام طور سے ESP کے مظاہر کو کچھ لوگ چھٹی حس لکھتے ہیں اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ چھٹی حس اکثر لوگوں میں ہوتی ہے اور کسی خاص تحریک کے سبب اچانک بے دار ہوسکتی ہے۔ اس بات کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ ہماری پر اسرار چھٹی حس ہمارے عام حواس خمسہ کے علاوہ کوئی شے ہے۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ درحقیقت چھٹی حس کوئی چیز نہیں ہے بلکہ ہم جسے چھٹی حس کہتے یا سمجھتے ہیں وہ ہمارے پانچ عام حواس سے الگ کوئی شے نہیں ہے۔ بلکہ ان ہی پانچ حواس کی حدیں پار کر جانا ہے اور یہ ایک فطری عمل ہے، اسے غیر فطری قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس بات کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ ہمارے پانچ حواس میں سے ہر حس کی اس سے زیادہ توقع کی جاسکتی ہے، جتنی ہم عام طور پر رکھتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی شخص کی قوت شامہ یعنی سونگھنے کی صلاحیت بہت عمدہ ہے تو ممکن ہے کسی دوسرے کی یہ صلاحیت اس سے بھی زیادہ آگے بڑھ جائے یا کم ہوجائے۔ اسی طرح دیگر حواس خمسہ کی نارمل کارکردگی اور غیر معمولی کارکردگی میں فرق کیا جاسکتا ہے۔ نارمل کارکردگی دوسروں کے لیے حیرت کا باعث نہیں ہوتی اور خود اس شخص کے لیے بھی اطمینان بخش ہوتی ہے لیکن غیر معمولی کارکردگی یا غیر معمولی مظاہرہ دوسروں کو حیران کردیتا ہے اور وہ اس کا سبب جاننے سے قاصر ہوتے ہیں۔ مثلاً ہسٹیریا یا شیزوفرینیا کے دوروں کے درمیان بھی نفس انسانی کے ایسے مظاہرے دیکھنے میں آتے ہیں کہ جن پر عقل حیران ہوتی ہے، یعنی مریض کے جسم میں اس قدر قوت و توانائی آجاتی ہے کہ وہ 3 یا 4 افراد کے قابو میں نہیں آتا۔
بعض اوقات ان غیر معمولی صلاحیتوں کو رام کیا جاسکتا ہے اور بعض اوقات یہ فطری طور پر ہمارے ساتھ پیش آتی ہیں۔ فطری طور پر ان کا اکثر و بیشتر مظاہرہ اسی صورت میں سامنے آتا رہتا ہے کہ ہمیں آنے والے وقتوں کی کسی بات کا پہلے سے پتا چل جائے یا کسی دوسرے شخص کے بارے میں کسی بات کا علم ہوجائے وغیرہ وغیرہ۔ اس کی تفصیلات بہت زیادہ ہیں۔
پیراسائیکولوجی کسی ایک قوم یا مذہب تک محدود نہیں
پیراسائیکولوجی کے لفظ کو ہمارے ہارے متعارف کروانے کا سہرا سب سے پہلے کس کے سربندھتا ہے، یہ ایک الگ تحقیق طلب موضوع ہے لیکن یہ بات بہر حال کسی جھجک کے بغیر کہی جاسکتی ہے کہ 60ء کی دہائی میں محترم رئیس امروہوی مرحوم نے جب پیرا نارمل یا مافوق الفطرت مظاہر کے بارے میں لکھنا شروع کیا تو یہ لفظ عوامی سطح پر جانا پہچانا گیا۔ اس کے بعد اس کی دیگر شاخوں پر گفتگو ہونے لگی۔ چوں کہ یہ لفظ مغرب سے آیا تھا اور خود رئیس صاحب بھی مغرب کے ماہرین روحیات کی تحقیقات و تجربات کو زیادہ اہمیت دیتے تھے اور ان کے مضامین پر مغرب کا فلسفہ و فکر غالب تھا لہٰذا ہمارے روحانی حلقے جو تصوف سے وابستگی کے دعوے دار تھے، رئیس صاحب کے پیش کردہ پیراسائیکولوجیکل نظریات اور عقائد پر جو اعتراضات اور تنقیدیں تھیں وہ بہر حال قابل توجہ اور حامل غور و فکر تھیں اور ان کا جواب دینا خود رئیس صاحب کے بس کی بات بھی نہ تھی کیوں کہ رئیس امروہوی صاحب (مرحوم) مذہبی عقائد و نظریات کے حوالے سے خو دایک عالم تشکیک میں تھے۔ یہ بات ہم صرف سنی سنائی بنیاد پر نہیں لکھ رہے بلکہ ان کی تحریروں سے بھی ظاہر ہے اور ہماری نوجوانی اور طالب علمی کے دور میں کیوں کہ حضرت سے ہماری ملاقاتیں بھی رہی ہیں جن میں بالمشافہ گفتگو بہت سے موضوعات پر ہوتی تھی۔ یہ کہنے میں ہمیں کوئی جھجک نہیں کہ وہ خالص مذہبی و دینی عقائد پر اندھا تقلیدی رویہ نہیں رکھتے تھے بلکہ ہر سوال کا جواب نہایت روشن خیالی کے ساتھ تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
رئیس صاحب کے بعد پیراسائیکولوجی کا لفظ نہایت زور و شور سے عوامی سطح پر محترم خواجہ شمس الدین عظیمی نے استعمال کیا، خواجہ صاحب چوں کہ بنیادی طور پر مذہبی و دینی مکتبہ فکر کے آدمی ہیں اور اہل تصوف کے ایک بڑے سلسلے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے مغربی تحقیقات و تجربات اور نظریات و عقائد کو مکمل طور پر رد بھی نہیں کیا اور قبول بھی نہیں کیا بلکہ مشرق و مغرب کے علمائے روحیات کے سپر نیچرل تجربات و مشاہدات کا عمیق مطالعہ کرکے مشرقی یا اسلامی پیراسائیکولوجی کا راستہ ہموار کیا جو بے پناہ مقبول ہوا اور پڑھے لکھے تعلیم یافتہ طبقے بلکہ خصوصاً جدید سائنس سے متاثر طبقے نے پیراسائیکولوجی کو سنجیدگی سے لیا۔ کیوں کہ اس سے پہلے ہمارے اہل تصوف، روحانیات کے معاملات کو یا تو سینے کا راز بنائے بیٹھے تھے یا اپنی مبہم اور ادق گفتگو سے اس موضوع کو اس طرح الجھا کے رکھ دیا تھا کہ ایک جدید تعلیم یافتہ شخص ان کی باتوں کو محض مجذوب کی بڑ، یا احمقانہ خرافات سمجھتا تھا اور کم تعلیم یافتہ شخص ان الجھادوں میں پھنس کر دنیا تو دنیا، اکثر اپنے دین کو بھی غارت کر بیٹھتا ہے۔ بلکہ تازہ مشاہدے کے مطابق گمراہی کی اس دلدل میں جا پھنستا ہے جہاں اپنے عزیز ترین اہل و عیال کو سفاکی اور ظالمانہ طریقے سے ذبح کر رہا ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایسے بے شمار واقعات ہوچکے ہیں جب کسی شخص نے ایسے ہی گمراہیوں میں پھنس کر اپنے معصوم بیوی بچوں کو بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا لیکن وہ یہی سمجھتا رہا کہ اس نے تو ایک عظیم قربانی دی ہے تاکہ خدا کی خوشنودی حاصل کرے (استغفر اللہ)۔
اس ساری صورت حال کو بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ لوگ اب تک روحیت یا روحانیت یا پیراسائیکولوجی کا درست مطلب ہی نہیں سمجھتے اور ان الفاظ کی تفہیم میں قدم قدم پر دھوکا کھاتے ہیں۔
پیراسائیکولوجی کو ایک سائنس کی حیثیت سے تعلیم کیے جانے کی جنگ اب بھی جاری ہے۔ اگرچہ مغرب کی بعض یونیورسٹیز میں پیراسائیکولوجی کے شعبے قائم ہوچکے ہیں اور انفرادی سطح پر بھی بے شمار ادارے اور سوسائٹیاں قائم ہیں جہاں رات و دن اس حوالے سے نت نئی تحقیق و تجربات ہوتے رہتے ہیں اور مغرب کے ماہرین کا خیال ہے کہ شاید آئندہ دس بارہ سالوں میں پیراسائیکولوجی کی تعلیم اسکولوں اور کالجوں تک عام ہوجائے۔
پاکستان میں اس حوالے سے سنجیدہ نوعیت کی کوششیں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں شروع ہوئی تھیں اور اس میں بنیادی کردار بہر حال محترم شمس الدین عظیمی صاحب ہی ادا کر رہے تھے۔
اب تک کی گفتگو میں ہم نے پیراسائیکولوجی کے حوالے سے اپنے ملک اور مغرب میں ہونے والی کوششوں کا ذکر کیا لیکن درحقیقت یہ سلسلہ بہت دراز ہے۔ پیراسائیکولوجی کے علم کو ہم کسی ایک قوم یا مذہب تک محدود نہیں کرسکتے کیوں کہ انسانی نفسیات کے ماورا مظاہر تو دنیا کی ہر قوم میں موجود ہیں اور جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ یہ انسان کی فطرت کا حصہ ہیں۔ انہیں کسی صورت بھی صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا، انہیں نظر انداز کرنے یا تسلیم نہ کرنے سے انسان کے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ مزید الجھتے چلے جائیں گے۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی ہر قوم میں وہ خواہ کسی بھی فلسفے، عقیدے یا مذہب سے تعلق رکھتی ہو، انسان اپنے ماورائے نفسیات مظاہر پر حیران اور ششد ر ہوتا ہے اور جب اس کی یہ الجھن بڑھتی ہے تو وہ ان مظاہر کی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق تفہیم کرکے نت نئے نام دیتا ہے۔
اس حوالے سے ایک ہندو سادھو گرور جنیش کا نام ایک زمانے میں بہت مشہور ہوا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ گرو جی بظاہر تو ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان کے فکرو فلسفے میں تھوڑے سے ردو بدل کے ساتھ مغرب اور مشرق یعنی مسلم صوفیا کے فکر و فلسفے کا رنگ غالب تھا۔ یہی حال دیگر اقوام عالم میں مروج پیراسائیکولوجی سے متعلق دیگر شاخوں کا ہے۔ ہمارے ملک میں تازہ ترین درآمد ”ریکی“ بھی پیراسائیکولوجی ہی کی ایک شاخ ہے۔ جس کو ایک مخصوص ”کائناتی توانائی کا تڑکا“ لگاکر متعارف کروایا گیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیراسائیکولوجی یعنی ماورائے نفسیات مظاہر کو تسلیم کرنے میں دنیا بھر کے اہل دانش و بنیش تذبذب اور تامل کا شکار کیوں ہیں؟ اور کیوں ہم ابتدا ہی سے ان مظاہر سے اسی طرح مانوس نہیں ہوتے جس طرح اپنے ظاہری حواس خمسہ کی کارکردگی کا مظاہرہ دیکھ کر، سن کر، سونگھ کر، چکھ کر اور چھو کر مطمئن ہوتے ہیں اور ہمارا اطمینان ان سے مانوسیت کا اظہار ہوتا ہے۔
بات یہ ہے کہ انسانی فکر میں ہونے والی بہت سی پیش رفت کو محض اس وجہ سے تسلیم کیے جانے میں دشواری اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کہ ہوش سنبھالنے پر ہمیں جو کچھ پڑھایا گیا تھا انسانی فکر اس سے مختلف تھی۔
پیراسائیکولوجی کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ یہ فطرت کے بعض طے شدہ ظاہری قوانین سے یا پھر ان قوانین سے الجھتی ہے جنہیں ہم فطری سمجھتے ہیں۔اگر ہم پیراسائیکولوجی کے اصولوں کو تسلیم کرنا چاہیں تو نئے حالات کو اسی طرح تسلیم کرسکتے ہیں جس طرح یہ تسلیم کرتے ہیں۔
پیراسائیکولوجی دنیا کے تمام جدید علوم میں سب سے زیادہ انقلابی علم ہے یعنی یہ کسی سیاسی نظریے سے بھی زیادہ انقلابی ہے۔ ہم اپنے نظام حکومت، معاشی یا سماجی سوچ کو بدل سکتے ہیں لیکن جب ہم پیراسائیکولوجیکل عناصر سے نمٹ رہے ہوتے ہیں تو درحقیقت اپنے مذہب، اخلاق اور فلسفیانہ سوچ کو بدل رہے ہوتے ہیں یا اس سے جنگ کر رہے ہوتے ہیں۔
اگر سائنسی اعتبار سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ انسان موت سے ماورا بھی اپنا وجود رکھتا ہے تو معاشرتی قدروں کا ایک نیا سیٹ اپ ضروری ہوجائے گا اور ہمیں اپنی پوری زندگی کو ایک نئی دریافت شدہ حقیقت سے ہم آہنگ کرنا پڑے گا۔ جب کہ فی الحال ایک عام آدمی اپنے مذہب کی تعلیم کے مطابق اس نادیدہ اور سائنسی طور پر غیر ثابت شدہ حقیقت پر یقین رکھتا ہے۔ ایسا یقین جس کی سرحدیں کسی نہ کسی سطح پر وہم و گمان سے بھی ملی ہوتی ہیں۔ گویا کامل یقین کی منزل سائنسی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ذہنوں میں دھندلاتی رہتی ہے۔ مغرب کے ماہر روحیات ہوں یا مسلم صوفیا وہ اسی منزل کو واضح اور روشن طور پر انسان کو دکھانے کی کوشش میں مصروف رہے ہیں۔ وہ لوگ یقیناً ہمدردی کے مستحق ہیں جن کے ذہن میں اتنی لچک نہیں کہ وہ اتنی سنسنی خیز اور ہوش ربا صورت حال کو اپنے اندر سمو سکیں۔
دنیا میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو جدید علم کی راہ پر چلنے کے بجائے ایسی زندگی بسر کرنا پسند کرتے ہیں جو ہر فکر سے آزاد، محفوظ اور آرام دہ ہو جب کہ ہر نئی اور انقلابی راہ میں اپنی زندگی کو ایک نئے ڈھنگ سے دیکھنے کا سلیقہ اپنانا پڑتا ہے اور یہ بہرحال ایک کٹھن کام ہے۔ وہ لوگ جو ذہنی بے حسی کا شکار ہیں، پیراسائیکولوجی کے شعبے میں کوئی پیش رفت نہیں کرسکتے۔