وقت کی تاثیرات سے فائدہ اٹھانے کا نام ہی علمِ جفر ہے جو علم نجوم کے بغیر ممکن نہیں

ہم بارہا اپنے قارئین کو یہ تاکید کرتے رہتے ہیں کہ جو لوگ جفری اعمال کا شوق رکھتے ہیں، انہیں چاہیے کہ بنیادی اصول و قواعد سے واقفیت حاصل کریں اور اس کے لیے حضرت کاش البرنیؒ کی کتابوں ”قواعد عملیات“ اور ”عامل کامل“ حصہ اول و دوم اور ”رموز الجفر“ وغیرہ کا مطالعہ کریں، ان کتابوں میں علم جفر کے بنیادی اصول و قواعد بیان کیے گئے ہیں جو مستند ہیں، ہم نے بھی اپنی ابتدائی زندگی میں انہی کتابوں سے استفادہ کیا ہے ، یہ درست ہے کہ بہت سی باتیں یا بہت سے رموز و نکات ایسے بھی ہوں گے جو ان کتابوں میں نہ مل سکیں یا جن کا تعلق ہمارے ذاتی تجربے سے ہو لیکن بہر حال برنی صاحب کی علمی کاوشوں سے انکار ممکن نہیں ہے،کم از کم پاکستان میں علم جفر اور دیگر اعمال و وظائف کے فروغ میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
علم جفر میں چلّہ کشی یا طویل وظائف کی ضرورت نہیں ہوتی، کسی خاص مقصد کے تحت کوئی عمل حکمت و تدبیر کا آئینہ دار ہوتا ہے جسے وقت کی موزونیت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی سب سے اہم نکتہ ہے،ہمارے اکثر عاملین و کاملین، پیر فقیر اسی نکتے کو نظر انداز کرتے ہیں،ایک موزوں وقت سے واقفیت ان کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے کیوں کہ اکثریت علم نجوم کے رموز و نکات سے بے خبر ہوتی ہے،جب کہ صرف علم نجوم ہی ایسا علم ہے جو وقت کی سعادت یا نحوست سے باخبر کرسکتا ہے،لوگ کتابوں اور رسالوں میں بڑے بڑے زبردست عمل و نقوش پیش کرتے رہتے ہیں لیکن ان کے لیے موزوں وقت کا انتخاب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، چناں چہ ان کے بہترین عمل یا نقش موثر ثابت نہیں ہوتے،ہم ذاتی طور پر پاکستان بھر کے ماہرین جفر اور عاملین و کاملین کے بارے میں پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ اکثریت علم نجوم کی ضروری استعداد نہیں رکھتی،نتیجے کے طور پر ان کے پیش کردہ اعمال و نقوش جب غیر موثر ثابت ہوتے ہیں تو لوگوں کا اعتماد مجروح ہوتاہے اور اس علم کے حوالے سے بھی ان کے ذہنوں میں شک و وہم پیدا ہوتا ہے۔
علم جفر درحقیقت علم الحروف ہے،حروف تہجی کے تمام حروف اپنی اپنی ایک جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے کائنات میں کوئی شے بے مقصد اور بے اثر پیدا نہیں کی،ہر شے اپنا ایک مقصد رکھتی ہے اور اس کے ظاہری اور باطنی اثر سے بھی انکار ممکن نہیں ہے،بالکل اسی طرح حرف اور اعداد بھی دنیا میں بے مقصد نہیں ہیں اور بے اثر بھی نہیں ہیں، حروف کی تاثیر ان کے دنیاوی استعمال سے بھی ظاہر ہے، مختلف حروف کی آمیزش سے جو لفظ تشکیل پاتے ہیں، وہ اپنے اندر اچھے یا برے مختلف اثرات رکھتے ہیں اور جب ہم انہیں استعمال کرتے ہیں تو یہ اثرات ظاہر ہوتے ہیں،اسی لیے رسول اکرم نے فرمایا کہ اپنے بچوں کے نام اچھے معنوں والے الفاظ میں رکھو۔

علم الاخبار و آثار

علم جفر دو حصوں میں تقسیم ہے، ایک حصے کو علم الاخبار کہا گیا ہے اور دوسرے کو علم الآثار، اخبار سے مراد خبر ہے یعنی کسی مسئلے یا معاملے میں خبر حاصل کرنا جب کہ آثار سے مراد اثر ہے یعنی حروف کے اثر سے واقف ہونا اور فائدہ اٹھانا، اس حوالے سے مسلمان صوفیا نے بہت تحقیقی کام کیا، اگرچہ ان کے درمیان بعض موضوعات پر اختلافات بھی رہے مثلاً بعض صوفیا کا خیال تھا کہ حروف اپنی عنصری خصوصیت کے ذریعے اثر انداز ہوتے ہیں اور بعض کا خیال تھا کہ وہ اپنی عددی قوت کے ذریعے اثر کرتے ہیں، بہر حال دونوں ہی صورتوں میں اثر پذیری ظاہر ہے۔
علم جفر کے حصہ ءآثار کے ذریعے جو نقش و طلسمات مرتب ہوتے ہیں،ان کی اثر پذیری کو سمجھنے کے مسائل آسان نہیں ہیں، عام ذہن کی رسائی اکثر وہاں تک نہیں ہوتی، شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی اور شمس المعارف کے مصنف امام بونی لکھتے ہیں کہ علم الحروف کا سمجھنا، مشاہدے اور توفیق الٰہی پر منحصر ہے،اس نازک مسئلے کو سمجھنے کے لیے ہم حضرت کاش البرنیؒ کی تحریر سے ایک اقتباس نقل کر رہے ہیں،اس اقتباس کو سمجھنا بھی توفیق الٰہی پر منحصر ہے۔
”حروف کی قوت ، فلکی اثرات، اعدادی نسبت اور طلسم کی روحانیت کو کھینچے والے بخورات کے ذریعے معمول پر جو عمل کیا جاتا ہے،وہ گویا طبائع علوی کو طبائع سفلی میں آمیز کیا جاتا ہے،یہ ایک بے معنی طریقہ نہیں ہوتا بلکہ حیرت انگیز حسابی تبدیلیاں اپنے اندر رکھتا ہے،ایسی تبدیلیاں جن کی وجہ سے تاثیر کا قائل ہوئے بغیر چارہ نہیں ہوتا، نقش یا لوح یا طلسم ایک ایسا خمیر ہوتا ہے جو طبائع اربعہ کے مرکب سے تیار کیا ہوا ہوتا ہے اور دوسری طبع میں مل کر ان کی حالت کو بدل دیتا ہے،اس لیے ارباب عمل کا یہ کام ہوتا ہے کہ افلاک کی روحانیت کو اتار کر اور صور جسمانیہ سے ربط دے کر یا نسبت عددیہ سے ملا جلا کر ایک خاص مزاج پیدا کرے جس کا اظہار طبیعت کے بدلنے کے لیے خمیر کا کام دے،وہی خمیر جو اجزائے معدنیہ میں کیمیا کرتا ہے،جب تک اس امر کے لیے ریاضتیں نہ کی جائیں، صبرواستقلال سے کام نہ لیا جائے، حروف و اعداد کی قوتوں اور نسبتوں کو نہ سمجھا جائے، افلاک کے مظاہر کواکب کو نہ جانا جائے، ان علوم سے کام نہیں لیا جاسکتا،چوں کہ قدرت نے ہر چیز میں ایک اثر پیدا کیا ہے اس لیے ان تاثیروں سے فائدہ اٹھانا انسان کا فرض ہے، بالکل اسی طرح جس طرح امراض کو دور کرنے کے لیے جڑی بوٹیوں کی تاثیروں سے واقف ہونا ضروری ہے“۔
ہمارا خیال ہے کہ یہ اقتباس جفری اعمال کو سمجھنے اور اثر پذیری کے فلسفے یا تھیوری کو جاننے کے لیے بہت اہم ہے،اس میں وہ راز پوشیدہ ہے جس کی توفیق صاحب عمل کو اللہ ہی سے ملتی ہے،بہ صورت دیگر ہزاروں لوگ عمر بھر اس بھول بھلیّاں میں بھٹکتے رہتے ہیں لیکن انہیں صحیح راستہ نہیں ملتا۔

علم جفر آثار

جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ علم جفر درحقیقت علم الحروف ہے اور اس کی بنیاد عربی زبان کے 28 حروف تہجی پر ہے،اردو زبان میں زیادہ حروف ہےں لیکن قدیم عرب ماہرین جفر نے 28 حروف کے لیے جو اصول و قواعد مرتب کیے تھے، ان میں کوئی ترمیم آج تک نہیں ہوسکی، اردو زبان کے اضافی حروف صوتی مناسبت سے 28 حروف کے ساتھ جوڑ دیے گئے ہیں، مثلاً پ عربی زبان میں نہیں ہے،اسے ب کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے یا ڑ اور ٹ بھی عربی میں نہیں ہے، انہیں ر اور ت کے ساتھ رکھا گیا ہے، اس طرح علم جفر کی بنیادی اساس 28 حروف پر ہی قائم رہتی ہے،ان 28 حروف سے سات چھوٹے چھوٹے چار حرفی لفظ بنائے گئے ہیں جو ہفتے کے سات دنوں اور سات سیاروں سے نسبت رکھتے ہیں اور وہ یہ ہیں ۔
ابجد۔ھوزا۔طیکل۔منسع۔ فسقر۔ شتثخ۔ ذضظغ۔
ان حروف کو سات دنوں ، سات سیاروں پر تقسیم کردیا گیا اور ہر حرف کی ایک عددی قیمت بھی مقرر کردی گئی جس کا تفصیلی نقشہ درج ذیل ہے، اس نقشے میں تمام حروف تہجی کی عددی ، سیاروی اور عنصری نسبت واضح کردی گئی ہے اور ہفتے کے سات دنوں سے متعلق نسبت بھی واضح ہے،اس طرح ایک نظر میں معلوم ہوسکتا ہے کون سا حرف آتشی، بادی، آبی یا خاکی ہے اور کس سیارے یا دن سے منسوب ہے،اس کی عددی قوت کیا ہے، امید ہے کہ اس نقشے کو شائقین اپنے پاس محفوظ رکھیں گے۔

ابجد قمری مع سیارگان و عناصر

اصطلاحاتِ جفر مع اعمال

ابجد میں کل اٹھائیس حروف ہیں اوران حروف میں بائیس نقطے ہیں، ابجد کے تمام حروف کے اعداد 5995 ہیں،اگر نقطوں کا اضافہ کردیا جائے تو یہ تعداد 6017 ہوجائے گی،بعض عملیات میں اس کی ضرورت بھی ہوتی ہے، یہ حروف مکتوبی کہلاتے ہیں اور جہاں عملیات میں لکھا ہوا ہو کہ اس حرف کو مکتوبی لکھو، وہاں اس حرف کو اس طرح لکھ دیا جائے، مثلاً اگر کہا جائے کہ جیم مکتوبی لکھو تو ہم اس طرح لکھیں گے ”ج“
دوسری قسم ملفوظی ہے یعنی جو حرف جس طرح بولا یا پڑھا جاتا ہے اور جس طرح زبان سے ادا ہوتا ہے، اسی طرح لکھیں مثلاً حرف ج بولنے میں اس طرح ادا ہوتا ہے، جیم، اب ایک حرف سے تین حرف پیدا ہوگئے (ج، ی، م) اس طرح ک، ق کا ملفوظی کاف، قاف ہے، اگر ابجد کے حروف کو ملفوظی طریق پر لکھیں تو بجائے 28 مکتوبی کے 72 حرف ملفوظی بن جاتے ہیں اور نقطے 42 ہوتے ہیں جس کی تفصیل یہ ہے۔
الف، با، جیم، دال، ہا، واو، زا، حا، طا، یا، کاف، لام، میم، نون، سین، عین، فا، صاد، قاف، را، شین، تا، ثا، خا، ذال، ضاد، ظا، غین، امید ہے قارئین مکتوبی اور ملفوظی کا فرق سمجھ گئے ہوں گے۔
مکتوبی حرف 28 ، نقطے 22 ، ملفوظی حرف 72 ، نقطے 42 ، 28 عدد اسم وحید کے ہیں، 22 عدد حبیب کے ہیں، جب 28 اور 22 کو جمع کریں تو 50 ہوتے ہیں اور 50 عدد محب کے ہیں، یہ قاعدہ وہ ہے ، جب آپ کو کہیں لکھا ہوا ملے، حروف مکتوبی سے اسم خدا نکالو تو آپ اس قاعدہ سے نام حاصل کرسکتے ہیں، اسی طرح جب کہاجائے کہ تمام حرف مکتوبی سے اسم خدا حاصل کرو تو تمام حروف مکتوبی کے اعداد 5995 کے مطابق ہم خدا کے ایک یا زیادہ ایسے نام نکالیں گے جن کے کل اعداد 5995 ہوں مثلاً
غیاث المستغیثین 3612، کاشف الضر 1432، رفیع الدرجات909، طالب42 =تمام اسمائے الٰہی کا کل مجموعہ 5995 ہوگا۔
اسی طرح ملفوظی حروف سے اسمائے الٰہی استخراج کرسکتے ہیں۔

استنطاق

یہ لفظ بھی علم جفر میں بار بار آتا ہے اور اس طرح آتا ہے کہ ان عددوں سے حروف استنطاق بناو، اس لیے اس کی ماہیت بھی سمجھ لیں، اکائی پر جو ہندسہ ہو تو اس کی جگہ وہ حرف رکھ دیں جس کے اسی قدر عدد ہوں، مثلاً تین کے عدد کا استنطاق ”ج“ ہوا، اسی طرح دھائی اور سینکڑہ اور ہزار کی جگہ وہی حرف رکھتے جائیں گے چوں کہ ابجد کی تعداد ہزار پر ختم ہے اور ممکن ہے کسی اسم میں دو ہزار یا تین ہزار عدد ہوں تو اس کے لیے ہم ہر ہزار کے واسطے حرف غ لکھتے جائیں گے، مثلاً 6720 کا استنطاق یوں کیا جائے گا۔
ک 20 ، ذ 700 ، غ 1000 ، غ 1000 ، غ 1000 ، غ 1000 ، غ 1000 ، غ 1000
ایک دوسرا طریقہ بھی ہے یعنی جتنے ہزار ہوں، ان کے مطابق کوئی ایک حرف لے کر اس کے ساتھ ایک غین لگادیا جائے مثلاً مندرجہ بالا مثال میں 6000 کے لیے 6 مرتبہ غین لےنے کے بجائے ایک واو¿ اور ایک غین لے لیا جائے، واو کا عدد 6 ہے، ایک غین کی شرکت سے یہ 6000 شمار ہوگا۔

اعداد بلحاظ مراتب

یہ بھی جفر کی ایک اصطلاح ہے ، جب کسی جگہ آپ کو لکھا ہوا ملے کہ ان اعداد کو بلحاظ مراتب جمع کرو، اس کے یہ معنی ہیں کہ داہنی طرف سے عددوں کو جوڑتے چلے جائیں اور جو حاصل جمع ہو اس سے کام لیں، مثلاً جب ہم سے کہا جائے کہ 6720 کو بلحاظ مراتب جمع کرو تو اس کی میزان یہ ہوگی۔
15=6+7+2+0حروف ہ ی۔
یعنی 15 کا عدد بلحاظ مراتب حاصل جمع ہے، اب یہاں پر علمائے جفر کا ایک اصولی اختلاف بیان کردیا جائے تاکہ آپ کو سہولت ہو، بعض اصحاب کا قول ہے کہ ہر نام کے مکتوبی اعداد ہر کام میں زیادہ سریع الاثر ہوتے ہیں مثلاً ہمیں زید نام شخص کو مسخر کرنا یا تکلیف پہنچانا مقصود ہے تو اس کے مکتوبی اعداد یعنی ز، ی، د 21 =عدد ہر حالت میں مو¿ثر ہوں گے، دوسرے گروہ کا قول ہے کہ بجائے مکتوبی کے ملفوظی اعداد زیادہ مو¿ثر ہوں گے، زید کے ملفوظی اعداد 54 ہوتے ہیں یعنی ز ا، ی ا، د ا ل
نوٹ: محبت یا جدائی کا عمل ہو تو اس کے لیے ضرورت ہے کہ مطلوب کے نام کے ساتھ اس کی ماں کا نام بھی شامل ہو، طالب کا نام مع والدہ ہو، اب یہ تمام حروف ایک جگہ لکھ کر خواہ مکتوبی اعداد حاصل کریں یا ملفوظی، ایک اختلاف تو یہ ہوا، اب دوسرے اختلاف کو سنیے، بعض علمائے جفر فرماتے ہیں کہ نام مطلوب مع والدہ اور نام طالب مع والدہ کے جو اعداد حاصل ہون، ان سے عدد استنطاق حاصل کیا جائے (چاروں ناموں کے عدد سے عدد استنطاق حاصل کیا جائے) اور اصلی عدد میں عدد استنطاق خارج کرکے بقیہ اعداد سے عمل تیار کیا جائے یا نقش بھرا جائے تو زیادہ مو¿ثر ہوتا ہے، بعض محققین جفر کا مذہب ہے کہ بغیر استنطاق کے زیادہ اثر ہوتا ہے، اس بحث سے معلوم ہوا کہ اس اختلاف کی چار قسمیں ہیں جس کو ایک مثال سے زیادہ واضح کیا جارہا ہے، مثلاً زید چاہتا ہے کہ بکر کو مسخر کرے، زید طالب ہے اور بکر مطلوب، زید کی ماں کا نام ہندہ اور بکر کی ماں کا نام رابعہ ہے، اب چاروں نام یہ ہوئے، زید ہندہ بکر رابعہ، اس کے مکتوبی حروف مع اعداد یہ ہوئے۔
ز ی د ہ ن د ہ ب ک ر ر ا ب ع ہ
7 10 4 5 50 4 5 2 20 200 200 1 2 70 5
تمام حروف کے اعداد کی میزان 585 ہوئی، اس کے استنطاقی عدد ہوئے، 5+8+5=18 ، اب ایک صاحب فرماتے ہیں، 585 کا عدد زیادہ موثر ہے، دوسرے صاحب کا قول ہے کہ 18 عدد استنطاق کے تفریق کرو تو باقی رہے 567 ، یہ 567 کا عدد زیادہ موثر ہے چوں کہ اس مثال اور اوپر والی عبارت سے آپ اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے ، اس لیے زید وغیرہ کی ملفوظی طریق پر تشریح ضروری نہیں کیوں کہ خواہ مخواہ عبارت طویل ہوجائے گی لیکن یہاں قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان چاروں قولوں میں سے مجرب قول کون سا ہے؟ اس کے لیے حضرت کاش البرنی کا یہ بیان خوب غور سے پڑھیں۔
”عملیات کا کام بہت نازک ہے جس کی تشریح آئندہ جاکر کروں گا، میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ کسی وقت کوئی عمل تیر کی طرح کام کرتا ہے جس سے میں خود حیران ہوجاتا ہوں لیکن کسی وقت وہی عمل ایسا بے کار ہوجاتا ہے کہ مطلق اثر نہیں کرتا، میرے پاس دن رات اس قسم کے کام ہوتے ہیں، دس جگہ کامیاب ہوتا ہوں، ایک جگہ ناکام،اس کی وجہ کیا ہے، باوجود اس کے کہ میں علوم کی باریکیوں سے واقف ہوں، میرا عاجز رہ جانا کیا معنی رکھتا ہے، جب ایک چیز میں اثر ہے تو کیوں کسی جگہ بے اثری پائی جاتی ہے؟ اس کی حقیقی وجہ تو یہ ہے کہ واللہ غالب امرہ، یعنی اللہ کا حکم غالب ہے اس کا کلام ہے اور وہی موثر حقیقی ہے، ذرّہ ذرّہ اس کے حکم کا پابند ہے، کسی کے لیے کوئی عمل کیا جائے یا کوئی دوا مریض کو کھلائے تو عمل یا دوا حکم خدا کی منتظر ہوتی ہے، اس کو جیسا حکم ملتا ہے، وہی بن جاتی ہے، زہر تریاق، تریاق زہر ہوجاتا ہے اور اس کی وجہ کسی کو معلوم نہیں، وہی عالم الغیب جانتا ہے لیکن عملی طور پر جو طریقہ بزرگوں سے مجھے ملا ہے اور جس پر میں عمل کرتا ہوں، وہ یہ ہے، ابجد کے 28 حروف ہیں جس میں سے 7 حرف آبی، 7 خاکی، 7 بادی، 7 آتشی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے۔

عنصری تقسیم

حروف آتشی: ا ہ ط م ف ش ذ
حروف بادی: ب و ی ن ص ت ض
حروف آبی: ج ز ک س ق ث ظ
حروف خاکی: د ح ل ع ر خ غ
اب میرا مذہب اس میں یہ ہے کہ اگر طالب اور مطلوب کے نام کا پہلا حرف ایک ہی طبع کا ہے یعنی دونوں ایک ہی عنصر کے ماتحت ہیں مثلاً طالب کا نام جلیل ہے اور مطلوب کا نام قمر ہے تو یہ دونوں حرف آبی ہیں، اندریں صورت میں استنطاق کی صورت جائز نہیں سمجھتا، اگر برخلاف اس کے طالب یا مطلوب کا نام محمود ہے تو دونوں میں سے ایک آبی ہے، ایک آتشی ہے، اس صورت میں استنطاق کے اعداد خارج کردینے کے بعد اثر ہوگا کیوں کہ آتش و آب آپس میں دشمن ہیں، یہی میرا تجربہ ہے اور یہی میرا عمل ہے، میں نے سب صورتیں بیان کردی ہیں، ارباب ذوق جس طرح چاہیں عمل کریں، یہ قاعدہ تمام اعمال حب و تسخیر میں استعمال کیا جائے گا“
عزیزان من! علم جفر کے حوالے سے جو ابتدائی معلومات اس کالم میں بیان کی گئی ہیں، ان کا اختتام حضرت کاش البرنیؒ کی وضاحت پر ہوا ہے،یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا کیوں کہ ظاہر ہے یہ موضوع ایک کالم میں سمٹنے والا نہیں،طویل عرصے سے ہمارے قارئین کی فرمائش تھی کہ آپ علم نجوم پر تو بہت زیادہ لکھتے ہیں لیکن علم جفر پر بہت کم،چناں چہ قارئین کی فرمائش پر یہ سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔