نفسیاتی مریض خود کو مریض نہیں سمجھتے

نفسیاتی مریض خود کو مریض نہیں سمجھتے

پاکستان میں نفسیاتی امراض بہت تیزی سے پھیل رہے ہیں

انسانی نفسیات ایک انتہائی دلچسپ‘ سبق آموز اور مفید ترین موضو ع ہے‘ وہ لوگ جو اس پر توجہ نہیں دیتے‘سمجھ لیجئے کہ دنیا سے ہی نہیں اپنے آپ سے بھی بے خبر ہیں۔

اگر یہ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں نفسیاتی امراض کی شرح بہت تیزی سے بڑ ھ رہی ہے اور اکثر خاندانوں کے بیشتر مسائل کی بنیاد ہی نفسیاتی امراض ہیں ۔

ایک دلچسپ اور افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ نفسیاتی مریضوں کی اکثریت خود کو نفسیاتی مریض نہیں سمجھتی، نفسیاتی امراض کی بے شمار صورتیں معاشرے میں ظاہر ہوتی ہیں، ان میں سے چند اقسام جب شدت کے ساتھ نمایاں ہوتی ہیں تب دیکھنے والے ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور مریض کی خطرناک حالت کے پیش نظر اس کے علاج معالجے پر دھیان دیتے ہیں لیکن اگر مریض خطرناک حد تک کسی نفسیاتی مرض میں مبتلا نہ ہوتو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔

ہمارے نزدیک نفسیا تی بیماریوں کی ایک قسم وہ ہے جو بظاہر نفسیاتی امراض میں شمار ہی نہیں ہوتی یایوں کہہ لیں کہ عام لوگ ایسے نفسیاتی مریضوں پر توجہ نہیں دیتے، یہ وہ مریض ہیں جو اپنی کسی نفسیاتی بیماری کے سبب دوسروں کو بھی نفسیاتی مریض بنارہے ہیں مثلاً ایک باپ، شوہر، ساس، سسر، بیٹا، بیٹی، یا خاندان کا کوئی بھی فرد اپنی ایب نارمل حرکات اور باتوں سے پورے خاندان کو پریشان کرکے رکھ دیتاہے اور اس کے نتیجے میں اس کے قریب رہنے والے غیر معمولی طور پر حساس افراد رفتہ رفتہ خود بھی نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔

اس تما م گفتگو کی روشنی میں آئیے ایک طویل خط کے کچھ اقتباسات کا مطالعہ کریں ۔ممکن ہے ایسے کر دار آپ کی نظر میں بھی ہوں یا ایسی کسی صورت حال سے آپ بھی دوچارہوں ۔

ایم ایف‘ نامعلوم جگہ سے لکھتی ہیں”میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے اندر خود اعتمادی کی نہایت کمی ہے، میں جوبات بھی کرنا چاہتی ہوں تو وہ بات میرے دماغ سے نکل جاتی ہے اور الٹے سیدھے جملے منہ سے نکلنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے میں نے سب سے بات کرنا چھوڑ دی ہے کیونکہ لوگ میرا مذاق اڑاتے ہیں۔

اگر میں کسی سے بات کرنا بھی چاہوں تو لوگ میری بات غور سے نہیں سنتے، مجھے بالکل نظر انداز کردیتے ہیں، میں گھر میں یا گھر سے باہر خاموش رہتی ہوں جس کی وجہ سے میرا کوئی دوست نہیں ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ لوگوں سے ملوں جلوں مگر میں اس ڈر سے کسی سے بات نہیں کرتی کہ کہیں میں کوئی الٹی سیدھی بات نہ کردوں۔

یہ حالت میری بچپن سے ہی ہے کیونکہ بچپن میں میرے گھر والے اور رشتے دار میری ہر بات کا مذاق اڑاتے تھے حالانکہ میری عمر کی لڑکیاں بہت سمجھ داری کی باتیں کرتی ہیں لیکن مجھے یہ لگتا ہے کہ میں سمجھداری کی باتیں نہیں کرسکتی حالانکہ میں ایم اے کی طالبہ ہوں ۔اس مسئلے کی وجہ سے میں بہت غمگین رہتی ہوں۔ میرا پڑھائی میں بھی دل نہیں لگتا حالانکہ میں چاہتی ہوں کہ خوب دل لگا کر پڑھائی کروں مگر یہ خوف رہتاہے کہ میں جو یاد کروں گی وہ کہیں بھول نہ جاﺅں۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے غصہ بہت آتا ہے۔ غصہ اتنا شدید ہوتاہے کہ اس میں میری حالت بہت عجیب ہوجاتی ہے۔ دماغ میں درد شروع ہوجاتا ہے‘ اپنے آپ کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے، دل چاہتا ہے کے خودکشی کرلوں، غصہ مجھے اس وقت شدید آتا ہے کہ جب میرے والد مجھے بلاوجہ ڈانٹتے ہیں۔

میرے والد مجھے ہر وقت ڈانٹتے رہتے ہیں اور بہت گندی زبان استعمال کرتے ہیں جو میرے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے ۔میں چاہتی ہوں کہ میرے اندر قوت برداشت پیدا ہوجائے۔ مجھ سے ان کی باتیں برداشت نہیں ہوتیں۔ میرے والد ین ہر وقت آپس میںلڑ تے رہتے ہیں ان کی لڑائی شروع سے ہی ہے، ان کے آپس کے جھگڑوں کی وجہ سے میری ذہنی حالت بہت ابتر ہوگئی ہے۔

اس تما م صورت حال نے مجھے بیماریوں کا شکار بنادیا ہے۔معدے میں تیزابیت رہتی ہے، ناشتے کے بعد متلی محسوس ہوتی ہے، ماہانہ نظام درست نہیں ہے، ویٹ بھی بڑھ گیا ہے۔ دوسرامسئلہ میری شادی کا بھی ہے۔ اول تو کوئی رشتہ آتا نہیں۔ اگر آتا ہے تو مجھے ناپسند کرکے چلا جاتا ہے حالانکہ شکل صورت مناسب ہے ۔میں چاہتی ہوں کہ میرے اندر سکون پیدا ہوجائے او رمایوسی کی کیفیت سے نجات مل جائے“

جواب:عزیزم !ہم نے کوشش کی ہے کہ آپ کے خط کی اشاعت سے آپ کا نام پتا ظاہر نہ ہو، پھر بھی اگر ہماری جسارت ناگوار گزرے تو یہ سوچ کر ہمیں معاف کردینا کہ شاید اس طرح نہ معلوم تمہاری جیسی کتنی لڑکیوں کا بھلا ہوگا۔ ممکن ہے کچھ والدین اس خط کو پڑھ کر اپنی اصلاح پر توجہ دیں اور ان مسائل کو سمجھ سکیں جوا ن کے گھر وں میں خفیہ طور پر پرورش پارہے ہیں، انہیں اندازہ نہیں ہے کہ وہ اپنی جہالت سے اپنے نفساتی امراض اپنے بچوں میں منتقل کررہے ہیں۔

خصوصاً یہ صورت حال لڑکیوں کے لیے نہایت اذیت ناک ہوتی ہے۔ لڑکے پھر بھی احتجاج کاکوئی طریقہ نکال لیتے ہیں حالانکہ وہ طریقہ بھی منفی ہی ہوتا ہے اور اس کے اثرات ان کی صحت اور مستقبل پر اچھے نہیں ہوتے لیکن لڑکیاں ایسے ماحول میں نہ صرف یہ کہ جسمانی اورنفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو کر ایک صحت مند اور خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتی ہیں بلکہ ان کے لیے معقول رشتے ملنا بھی مشکل ہوتاہے۔

جس گھر میں ماں باپ باہمی خانہ جنگی میں مصروف ہوں اس میں لڑکیوں کی شادی کے لیے ابتدا ہی سے کسی معقول منصوبہ بندی کا جواز ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بہر حال ان ساری وجوہات سے قطع نظر تمہیں اپنے علاج و معالجے پر توجہ دینی چاہیے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ اپنے ذہن سے گھریلوصورت حال کو جھٹکنے کی کوشش کرو اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ خود کو زیاد ہ سے زیادہ مصروف رکھو ۔ کوشش کیا کرو کہ والد صاحب کا سامنا کم سے کم ہو۔

خالی وقت میں جب تنہائی میسر ہو تو فری رائٹنگ کی مشق کیا کرو،  فری رائٹنگ آزاد نگاری کو کہتے ہیں یعنی آپ کے ذہن میں جو لاوا ابل رہا ہے اسے کاغذپر اُنڈیلنا شروع کردو جو باتیں دل و دماغ میں طوفان برپا کیے ہوئے ہیں یا سوچیں اورخیالات تمہیں جلنے کڑھنے اور خون کھولانے پر مجبور کررہے ہیں، ان کا اظہار بذریعہ تحریر بالکل کھلے انداز میں کرو۔

یاد رکھو آزارنگا ری میں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ فلاں بات لکھنا نا مناسب ہوگا بلکہ اس بات کا اظہار کرنا بہت ضروری ہے جسے بیان کرتے ہوئے آپ خوفزدہ ہیں ۔جب لکھتے لکھتے تھک جاﺅ اور ذہن خالی ہوجائے تو تما م کاغذات کوجلادو ۔تم دیکھو گی کہ اس عمل کے بعد تم ذہنی طور پر خود کو پر سکون محسوس کررہی ہو ۔یہ مشق تواتر اور پابندی کے ساتھ جاری رکھو اور ا س کے ساتھ ساتھ سانس کی کوئی مشق بھی شروع کردو ۔

ایک ہومیو پیتھک دوا ”اسٹیفی سیگیریا ۔200“بازار سے خرید کر اپنے پاس رکھ لو جب شدید غصہ آئے تو ایک خوراک یعنی دوتین قطرے زبان پر ڈال لیا کرو۔ عام حالات میں بھی اس دوائی کی ایک خوراک ایک ہفتے میں ایک مرتبہ لے لیا کرو۔ باقی دیگر جسمانی بیماریوں کا تعلق چونکہ غصے اور ڈپریشن کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا جب ذہنی کیفیت بہتر ہونا شروع ہوگی تو دیگر جسمانی بیماریان خود بخود ختم ہونے لگیں گی۔ تیزابیت کے خاتمے کے لیے طب یونانی کا مشہور نسخہ ”جوارش انارین “اور ”جوارش کمونی “ کسی بھی مشہور ومستنددواخانے کی لے کر استعما ل کریں تاکہ ہاضمہ دردست رہے ورنہ یہی تیزابیت آگے بڑھ کر السر یا جگرکی کسی پیچیدہ بیماری کا روپ دھارسکتی ہے ۔

اپنے زائچے کی روشنی میں تم نے اپنی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں پوچھا ہے تو واضع رہے کہ تمہارا شمسی برج ”سرطان“ہونے کی وجہ سے تم غیر معمولی طور پرنہ صرف حسا س ہو بلکہ گھر اور اپنے خاندان سے خصوصی وابستگی رکھتی ہو اور یہی وہ چیز ہے جو تمہیں زیادہ بے چین رکھتی ہے کیونکہ تمہیں اپنے خاندان میں جو ابتری، بد نظمی، ماں باپ کے درمیان عدم موافقت بچپن سے نظر آرہی ہے وہ تمہارا سب سے بڑا روحانی کرب ہے بہر حال تمہارا قمری برج ثور اور طالع پیدائش بھی برج ثور ہے۔

یہ تمہارے لیے غیر معمولی ذہانت ‘ہمت وحوصلے کی دلیل ہے ۔فی الحال چونکہ تم ایک خراب دور سے گزر رہی ہو لہٰذا موجودہ مسائل زیادہ شدت سے محسوس ہورہے ہیں ۔شادی میں رکاوٹ بھی اسی وجہ سے ہے لیکن اس سال کے آخری 6ماہ انشاءاﷲ تمہاری منگنی یا شادی کاراستہ ہموار کردیںگے‘ تمہارا شوہر شریف اور معقول انسان ہوگا۔ مذہبی سوچ رکھتا ہوگا ۔امکان ہے کہ وہ قانون، ایجوکیشن یاکسی بزنس کے شعبے سے تعلق رکھتا ہوگا ۔اپنے مستقبل کے بارے میں زیادہ پریشان نہ ہو ۔مستقبل اچھا ہے اپنے حال کودرست کرنے کی کوشش کرو كیوں كہ مستقبل کا راستہ ایک صحت مند اور مضبوط حال سے ہی ہو کر گزرتاہے۔

بیماریاں مریض اور معالج

چھوٹے چھوٹے مسئلے ہماری لا پروائی غفلت اور کم علمی کی وجہ سے پے چےدہ ہو جاتے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ ہمارے معاشرے مےں نت نئی اقسام کی بےمارےاں گھر گھر جنم لے رہی ہےں اور تقریباً ہر گھرانہ صحت کے مسائل کا شکار ہے۔ اس کی بنےادی و جوہات میں یقینا معاشی مسائل، ماحولیاتی آلودگی (ناقص آب ہوا اور غذا وغیرہ) شامل ہیں۔ اس کے بعد ایک اہم وجہ عام لوگوں کا طب و صحت کے بارے میں ناقص علم ہے جس کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے مسائل بے احتیاطی اور عدم واقفیت کے سبب بالآخر مہلک امراض کی صورت اختےار کر لیتے ہیں۔

 ہمارے گھرانوں میں لوگ ٹی وی اخبارات اور رسائل کے ذریعے تفریحی پروگرام اور اپنی پسند کی دلچسپ خبریں اور مضامین سے تولطف اندوز ہوتے ہہں مگر ایسے پروگراموں یا مضامین پر کوئی توجہ نہیں دیتے جن سے ان کی صحت و طب کے بارے میں معلومات بڑھے۔

 گاﺅں دیہات وغیرہ کا تو ذکر ہی کیا، بڑے بڑے شہروں کا بھی یہی حال ہے کہ لوگ نزلہ‘ زکام ‘ بخار نظام ہضم کی خرابیاں اور بھی ایسی ہی بہت سی روز مرہ کی شکایات کے بارے مےں تفصےل سے کچھ نہیں جانتے۔ ایک انتہائی نقصان دہ رجحان یہ بھی ہے کہ چھوٹی موٹی تکالیف کو نظر انداز کرتے رہنا اور فوری طور پر ان کے علاج پر توجہ نہ دیناہے، عموماً جب معاملہ حد سے گزر جاتا ہے اور انہیں علاج معالجے کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے تو ان کے ذہن میں پہلا خیال کسی اسپتال کے ایمرجنسی کے شعبے میں جانے کا ہی آتا ہے اور وہاں فوری نوعیت کی طبی امداد فراہم کر دی جاتی ہے۔

اس کے بعد معقولےت کے ساتھ مستقل علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب دو طرح کے روےے سامنے آتے ہیں ۔کچھ لوگ تو اپنے معاشی مسائل کی وجہ سے یا معاشی معروفےات کی وجہ سے مستقل طور پر معالجے کے متحمل ہی نہیں ہوپاتے اور بھاری اخراجات سے بچنے کے لےے ٹونے، ٹوٹکے اور نیم حکیموں پر انحصار کرکے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مرض کے خلاف موثر جنگ لڑ رہے ہیں یا پھر بعض گھرانے دعا تعویز کا سہارا لے کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ وہ مرض کے خلاف اللہ سے مدد لے رہے ہیں لیكن وہ لوگ جو اےمر جنسی کے مرحلے سے گزرنے کے بعد کسی بہترین معالج سے رجوع کرتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے ٹےسٹوں کے ایک مہنگے ترین سلسلے سے گزرنا پڑتا ہے اور اس طرح علاج شروع ہونے سے پہلے ان کی جیب خالی ہو چکی ہوتی ہے۔ پھر ایلو پےتھک علاج فی زمانہ جس قدر مہنگا ہو چکا ہے۔

 یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے لہذا مرےض کے لواحقiن زیادہ عرصے تک اس خرچ کو برداشت نہیں کر پاتے اور اکثر بہت زےادہ پے چےدہ معاملات مےں تو بالآخر بڑے بڑے صاحب حےثےت بھی حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں۔

قصہ مختصر یہ کہ ساری پرےشانی در حقیقت مرےض کی بے پروائی، کم علمی اور ناواقفےت کے سبب پےدا ہوتی ہے۔

ہمارا مشورہ ہے کہ لوگ ٹی وی کے تفرےح پروگرام ضرور دےکھےں مگر ایسے پروگراموں کو بھی نظر انداز نہ کریں جو طب و صحت کے بارے مےں بھر پور معلومات فراہم کرتے ہوں۔ اسی طرح اخبارات ورسائل مےں بھی اےسے مضامےن پر توجہ دےا کریں جو صحت کی عام معلومات مےں اضافہ کریں۔ اس طرح کم از کم عام لوگ نہ صرف اپنے مسائل سے درست طور پر آگاہ ہو سکےں گے بلکہ دوسروں کو بھی بروقت درست مشورہ دینے کے اہل ہو سکیں گے۔

دل چاہتا ہے خود کشی کرلوں

نا معلوم جگہ سے ‘ یہ خط بھی قابل توجہ ہے۔ ہم صرف خط کی ایسی باتیں شائع کر رہے ہیں جن سے ہمارے معاشرے کے غلط رحجانات اور عام آدمی کی کم علمی کا اندازہ ہوتا ہے، وہ لکھتے ہیں ”میرا مسئلہ بد خوابی ہے،  یہ سلسلہ مستقل رہتا ہے، حالاں کہ ذہن ہر وقت صاف رکھتا ہوں، میں نے حکیموں سے بہت علاج کروا یا لیکن کوئی فرق نہیں پڑا، عاملوں کو دکھاا، کوئی عامل کہتا ہے کہ تم پر گندہ سایہ ہے، کوئی کہتا ہے کہ تم پر تعویذ کروائے گئے ہیں۔

علاج کروایا، فرق نہیں پڑا۔ ایک عامل نے بتایا کہ تمہارے نفس کا منہ کھل گیا ہے جس سے تمہارا سسٹم ڈائریکٹ ہو گیا ہے۔ اس بیماری نے میری حالت ابتر کر دی ہے، میں نوجوانی میں اپنے آپ کو بوڑھا محسوس کرتاہوں، بہت کمزور ہو گیا ہوں، بی پی لو رہتا ہے، ہر وقت خوف محسوس ہوتا ہے، خاندان میں کہیں نہیں جاتا، چند لوگوں میں جاتے ہوئے الجھن محسوس ہوتی ہے، کسی سے آنکھ ملا کر بات نہیں کر پاتا، بڑے بڑے حادثوں نے مجھے نہیں توڑا مگر اس بیماری نے مجھے توڑ دےا، جی چاہتا ہے خود کشی کر لوں۔

جواب۔ عززم! کاش اﷲ تمہیں عقل دیتا کہ تم کسی معقول حکیم ڈاکٹر یا ہومیوپیتھک كے پاس چلے جاتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جن حکیموں سے تم نے علاج کروایا وہ یقینا خانہ ساز قسم کے ہوں گے جو چند حکمت کی کتابیں پڑھ کر اور کچھ نسخے تیار کر کے اپنے لیے روٹی روز گار کا ذریعہ پےدا کر لیتے ہیں۔

باقی رہی عاملوں کی بات ‘ اس پر ہم کوئی تبصرہ کرنا فضول سمجھتے ہیں، البتہ اس سلسلے میں بھی آپ کی کم علمی کا ہی ماتم کیا جاسکتا ہے۔ آپ کے خط سے معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کس شہر سے لکھا گیا ہے۔ بہر حال کسی اچھے ہومیوپیتھ  ڈاکٹر سے رجوع کریں اور فوری طور پر ایک دوا ہم تجویز کر رہے ہیں مگر اسے ایک ہفتے سے زیادہ استعمال نہیں کریں۔

یہ دوا آپ کے مسئلے کو فوری طور پر حل کر دے گی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کا مکمل علاج ہوگیا، آپ کا کیس خاصا بگڑ گیا ہے۔ ضروری ہے کہ کسی ڈاکٹر کی نگرانی میں کچھ عرصے تک علاج جاری رہے۔ دوا کا نام (ڈی جی ٹےلن) ہے۔30 (تیس) طاقت میں دن میں تین خوراکیں یا4 خوراکیں بھی لے سکتے ہیں یعنی صبح دوپہر شام اور رات، مزد کوئی الجھن ہو تو فون پر مشورہ کر لیں۔