نام نہاد عامل اور بزرگ سادہ لوح افراد کو گمراہی کا راستہ دکھا رہے ہیں

معاشرے میں سحرو جادو کی وباءاس قدر پھیل گئی ہے کہ گھر میں مرا ہوا چوہا بھی نکل آئے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی نے ان پر کچھ کرایا ہے اور پھر اپنے کسی بھی دکھ تکلیف یا پریشانی کو اسی تناظر میں دیکھنے لگتے ہیں۔ہم اس موضوع پر سالہا سال سے لکھ رہے ہیں اور حتی الامکان یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سحرو جادو کے معاملات اتنے آسان اور اس قدر عام نہیں ہوتے کہ جس کا دل چاہے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتا رہے۔بے شک سحرو جادو کی حقیقت اپنی جگہ مسلّم الثبوت ہے مگر اس علم کا جاننا اور اس پر عمل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ہم اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر پورے یقین و اعتماد کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ اس راستے پر چلنے والا کبھی فلاح نہیں پاسکتا اور اس ذریعے سے کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہ ضرور ہے کہ عارضی طور پر تھوڑی دیر کے لئے وہ کسی کو پریشان کرسکتا ہے مگر اس کی قیمت بھی اُسے بہت بھاری ادا کرنا پڑتی ہے لہٰذا اس علم کے حقیقی ماہرین بڑے محتاط ہوتے ہیں۔وہ بھی جائز و ناجائز کی تمیز رکھتے ہیں اور ایسے کاموں میں ہاتھ نہیں ڈالتے جن کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ یہ گھاٹے کا سودا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ایمان نہایت کمزور ہوچکے ہیں اور ہمیں اللہ پر، اُس کے رسولﷺ کے فرمان پر اور اُس کے کلام پر یقین نہیں رہا ہے۔ہم بے تحاشا عبادات کرتے ہیں، کلام الہٰی کی تلاوت کرتے ہیں مگر یہ یقین نہیں رکھتے کہ ہمارے یہ اعمال ہمارے لیے فائدہ بخش ہےں اور ہمیں ہر برائی سے اور مصیبت سے بچاتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمیں یہ یقین فوراً ہوجاتا ہے کہ ہم پر جو سحرو جادو کیا گیا ہے وہ ہم پر مو¿ثر ہوگیا ہے،ہمارے سارے کام اُس کی وجہ سے خراب ہورہے ہیں، ہمیں جو نقصانات ہورہے ہیں اُس کی وجہ بھی کسی کا کیا کرایا عمل ہے۔حد یہ کہ ہمیں جو دکھ بیماریاں لاحق ہوگئی ہیں اُن کی وجہ بھی سحری اثرات ہی ہیں۔ مزید جاہل اور جعلی پیروں، عاملوں اور جھاڑ پھونک کرنے والے بزرگوں نے یہ گمراہ کن پروپیگنڈہ بھی کر رکھا ہے کہ گندے اور سفلی عمل کا توڑ،گندے اور سفلی طریقوں سے ہی ممکن ہے، اس معاملے میں نورانی طریقے کارآمد نہیں ہوتے۔ اس بیان کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے سورج کے چہرے پر دھول ڈال دی جائے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے سادہ لوح عوام ایسے پروپیگنڈے پر یقین بھی کر لیتے ہیں اور بڑی سادگی کے ساتھ ہمیں آکر بتاتے ہیں کہ فلاں بزرگ نے یہ فرمایا ہے۔
ہمارے نزدیک تو ایسے بزرگوں کی بزرگی ہی مشکوک ہے۔ محض ظاہری حلیہ اور پےچیدہ گفتگو ، کیا یہی بزرگی کی نشانیاں ہیں، ہمارے نام نہاد عامل اور بظاہر بزرگ نظر آنے والے افراد جو اپنی روحانیت کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں عموماً طریقت کے فلسفے کی آڑ میں سخت گمراہیاں پھیلاتے ہیں ، ایسے ایسے شگوفے چھوڑتے ہیں کہ جنہیں سن کر عقل حیران رہ جاتی ہے اور ایک لمحے میں ان کی علمیت کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے ۔

شیزوفرینیا

تھوڑے دن پہلے ایک صاحب ایک مریضہ کو ہمارے پاس لائے، اُن کے ہمراہ ایک اور صاحب بھی تھے جن کا کہنا تھا کہ وہ بھی روحانیت سے شغف رکھتے ہیں اور مریضہ کا معاملہ ان کی سمجھ سے باہر ہے ، بڑے بڑے نامی گرامی عامل و کامل بھی اس کا علاج نہیں کرسکے ، نعتوں کی کیسٹ سنتے ہی یا مصلے پر کھڑے ہوتے ہی حاضری ہوجاتی ہے اور پھر یہ کسی کے قابو میں نہیں آتی ۔
اب غور طلب بات یہ ہے کہ نعتوں کی کیسٹ یا مصلے پر کھڑے ہونے کی صورت میں حاضری کا کیا مطلب ہے ، دوسرے معنوں میں وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ اس پر کسی بزرگ کی سواری آتی ہے کیونکہ نعتیں سن کر کوئی شیطان تو حاضر نہیں ہوسکتا ، دوسری طرف وہ اس حاضری سے اور لڑکی کی خراب حالت سے پریشان بھی تھے مگر یہ سوچنے کے لئے ایک لمحے کوبھی تیار نہیں تھے کہ معاملہ کسی آسیب و جنات یا کسی بزرگ کی روح کی مداخلت کا نہیں ہے بلکہ یہ کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے ، وہ اس لڑکی کو مختلف مزارات پر بھی لے جاتے رہے تھے ۔
بات صرف اتنی تھی کہ لڑکی شیزوفرینیا کی مریض تھی اور اُس پر دورے پڑتے تھے۔ شیزو فرینیا میں انسان کی شخصیت تقسیم ہوجاتی ہے اور دورے کے دوران میں وہ اپنی شعوری حقیقت کو فراموش کردیتا ہے ، لاشعور کی دنیا میںچلا جاتا ہے اور اُس کے لاشعور یا تحت الشعور میں جو کچھ جمع ہوتا ہے وہ اس کے مطابق ایکٹ کرنا شروع کردیتا ہے۔ اس کیفیت کو کم علمی اور عدم واقفیت کے سبب آسیب یا جنات کا نام دے دیا جاتا ہے۔ایسی لاشعوری کیفیت میں مریض بے پناہ طاقت ور بھی ہوسکتا ہے اور حیرت انگیز باتیں یا حرکات بھی کرسکتا ہے۔
ہمارے نزدیک وہ سیدھا سادہ کیس تھا اور ہومیو پیتھک ٹریٹمنٹ سے ٹھیک ہوسکتا تھا۔ چناں چہ ہم نے اُنہیں یہی بتایا مگر شاید اُن کی سمجھ میں ہماری بات نہیں آئی اور آ بھی نہیں سکتی تھی۔ ایسے لوگ اپنی تسلی کے لیے بڑے سوال و جواب کرتے ہیں ، یہ اور بھی غلط رویہ ہے۔ خاص طور پر مریض کے سامنے اس طرح کی گفتگو کیس کو خراب کرتی ہے لہذا ہم نے انہیں سختی سے منع کیا کہ آپ خود کو اس الجھن میں نہ ڈالیں کہ مسئلہ کیا ہے؟ یہ مسئلہ آپ کی سمجھ میں اس لئے بھی نہیں آسکتا کہ آپ نے نفسیات بھی نہیں پڑھی اور میڈیکل کے بارے میں بھی آپ کا علم محدود ہے۔ آپ صرف ہماری ہدایات پر عمل کریں لیکن ہم نے محسوس کیا کہ وہ مطمئن نہیں ہوسکے اور بادل نا خواستہ دوا تو لے لی لیکن اُس کے بعد دوبارہ واپس نہیں آئے۔ یقیناً کسی نئے بزرگ یا عامل کی تلاش میں ہوں گے۔
ایسے کیسوں میں مریض یا مریضہ نہایت بے بس اور لاچار ہوتی ہے۔اُسے مستقل طور پر مختلف علاج معالجے کے بہانے تختہ مشق بنایا جاتا ہے اور ایسے ایسے مراحل سے گزارا جاتا ہے جن کے نتیجے میں اُس کی بیماری اور بھی پیچیدہ بلکہ لا علاج ہوتی چلی جاتی ہے اورمریضہ خود بھی یقین کی حد تک یہ سمجھ لیتی ہے کہ اس کے ساتھ واقعی کوئی پراسرار معاملہ ہے۔ ایسی ہی صورت حال اُن لوگوں کی بھی ہے جو اپنے حالات کی خرابی کی وجہ سحروجادو کو سمجھتے ہیں اور دوسروں کے کیے کرائے پر اللہ سے زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے حالات بھی کبھی نہیں بدلتے اور ہم نے انہیں ساری زندگی ناکام و نا مراد ہی دیکھا ہے۔ درحقیقت ایسے لوگ شرک جیسے گناہِ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں جو کہ اللہ کے نزدیک ناقابلِ معافی گناہ ہے۔ ہم اس صورت حال کو شرک اس لیے سمجھتے ہیں کہ انسان اللہ سے زیادہ سحروجادو کے اثرات پر یقین رکھتا ہے۔

نظام کائنات اور سیاروی گردش

انسان کی زندگی میں حالات کی دھوپ چھاو¿ں جاری رہتی ہے۔ہم اللہ کے بنائے ہوئے جس نظام میں سانس لے رہے ہیں وہ کوئی جامد و ساکت نظام نہیں ہیں بلکہ جاری و ساری نظام ہے اور اس نظام میں زندگی کے اتار چڑھاو¿ ہی کی بدولت زندگی کا حسن قائم ہے۔ غم اور خوشی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔کسی پرانے شاعر نے کیا خوب کہا تھا جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں۔
زندگی کی یہ دھوپ چھاو¿ں اللہ کے قائم کردہ نظام میں سیارگان کی گردش کی وجہ سے جاری و ساری ہے ۔ اگر سیاروں کی گردش روک دی جائے تو پوری کائنات ساکت و جامد ہوجائے گی اور شاید زندگی کا جاری و ساری عمل بھی رک جائے لیکن اللہ کے بنائے ہوئے اس نظام کو اُس کے حکم کے مطابق ابھی چلتے رہنا ہے تاوقت یہ کہ اللہ ہی کا مقرر کردہ وقتِ اختتام نہ آجائے جسے ہم قیامت کہتے ہیں۔
انسان ازل ہی سے بڑا بے صبرا اور نا شکرا ہے بلکہ عموماً تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔بے شک اللہ نے انسان کو بے پناہ خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ بنایا ہے۔ شاید یہ امتزاج ہی دنیا کی رنگا رنگی کا سبب ہے اگر صرف خوبیاں ہی ہوتیں تو دنیا میں کوئی مسئلہ،کوئی ہنگامہ، کوئی فساد نہ ہوتا۔گویا انسان فرشتہ بن جاتا ہے مگر فرشتے تو پہلے سے موجود تھے۔ انسان کی تخلیق کا مقصد ہر گز یہ نہیں تھا کہ وہ فرشتوں جیسے طور طریقے اختیار کرے ۔ اسی لیے خوبیوں کے ساتھ خامیاں اور کمزوریاں بھی اُسے اپنے جدِّامجد سے ورثے میں ملیں اور یہ خامیاں اورکمزوریاں ہی تمام مخلوقات کے درمیان میں اُس کے شرف کا باعث ہےں کیوں کہ ان کی موجودگی میں بھی جب وہ اعلیٰ ترین صفات کا اظہار کرتا ہے تو اُس کا مقام فرشتوں سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے۔
کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ انسان کو اپنی کمزوریوں اور خامیوں پر قابو پانے کی جدوجہد کرنا چاہیے تب ہی یہ ممکن ہے کہ ہم اپنی اعلیٰ صفات اور عمدہ صلاحیتیوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔ وقت کی دھوپ چھاو¿ں میں ہماری خوبیوں اور خامیوں کا امتحان ہوتا ہے اور اس امتحان میں ہم کبھی فیل ہوتے ہیں اور کبھی پاس۔ جب فیل ہوتے ہیں تو اپنی خامیوں کا احساس کرنے کے بجائے دوسروں کو اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار سمجھنے لگتے ہیں۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں سے ہمارے پیچیدہ مسائل کا آغاز ہوتا ہے اور ہم ایک ناکامی کے بعد دوسری ناکامی کی طرف قدم بڑھانا شروع کرتے ہیں اگر اس مرحلے پر ہم بغور اپنی ناکامی کی درست وجوہات کا جائزہ لے کر اپنی کمزوریوں کے بارے میں جان لیں اور پھر اُن پر قابو پانے کی مثبت کوششیں شروع کردیں تو یقیناً کوئی دوسری ناکامی ہماری زندگی میں نہیں آسکتی لیکن افسوس ہم یہی تو نہیں کرتے۔آیئے اس ساری گفتگو کے تناظر میں ایک خط کا جائزہ لیتے ہیں لیکن یہ اس حوالے سے کوئی پہلا خط نہیں ہے۔ایسے منظر نامے ہم پہلے بھی آپ کو دکھاتے رہے ہیں۔

سفلیات پر یقین کامل

اس خط کے سلسلے میں نام اور جگہ کا اظہار ممکن نہیں ہے،وہ لکھتے ہیں ”اللہ پاک آپ کو صحت و تندرستی، سکون و راحت نصیب کرے۔ محترم! میں نے آپ کا کالم پڑھا اور اُس کے مطابق لوح شمس تیار کی۔ ہمارے ایک بزرگ جو روحانی علاج کا کام 30 سال سے کر رہے ہیں، انہیں دکھائی تو انہوں نے بہت عقیدت سے اُسے چوم کر میرے والد کو تنبیہ کی کہ اس لوح کو اپنے پاس ضرور رکھیں۔
”پہلے ہمارا کاروبار بہت عروج پہ تھا اور فرصت نہیں ملتی تھی کہ ہم کچھ اور کرسکیں۔ اللہ نے بہت کرم کیا تھا لیکن پھر ہمارے برابر میں ایک دوسری دکان کھل گئی ، وہ کئی بھائی ہیں اور سب جانتے ہیں کہ وہ تمام بھائی تعویز گنڈے وغیرہ کرتے اور کرواتے ہیں ، میرے والد صاحب اور میں کالے علم وغیرہ پر بالکل یقین نہیں رکھتے تھے اور ہم نے ان کے بارے میں کبھی کوئی غلط بات بھی کسی سے نہیں کی ، آہستہ آہستہ ہمارا کام کم ہوتا چلا گیا ،آئے دن ہمارے گھر میں لڑائی جھگڑا ، بے سکونی اور دیگر پرابلم ہوتے ہوتے بہت حالت بگڑی اور حال یہ ہوا کہ والد صاحب بیمار رہنے لگے ، ان کے بعد والدہ کی طبیعت بھی خراب رہنے لگی تو ہم نے روحانی علاج کروایا تو پتہ چلا کہ ہمارے کاروبار پر سخت بندش اور والد صاحب پر سفلی کسی ہندو سے کروایا گیا ہے اور والد کے ساتھ والدہ پر بھی اثرات کا بتایا ہے ، پچھلے چار سال سے ایک عامل کو چھوڑ دوسرے عامل کے پاس آنا جانا لگ گیا ، طبیعت آئے دن خراب رہتی ہے ، جب بھی کوئی کارروائی ہوتی ہے تو والد صاحب کی طبیعت مزید خراب ہوجاتی ہے ، میں سب کا تو نہیں کہتا پر دو عامل حضرات جنہیں صرف میں نہیں بلکہ پورا علاقہ جانتا ہے کہ وہ جھوٹ بولنے والے لوگ نہیں ، انہوں نے بھی یہی بتایا اور ساتھ ساتھ صرف ہمارے برابر والے دکان دار کے بارے میں ہی نہیں ہمارے رشتہ داروں میں سے بھی کچھ لوگوں کے بارے میں بتایا کہ وہ بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں ۔ آخر میں ان دونوں حضرات نے جہاں ہمارا دل مطمئن تھا یہ کہہ کہ ہم سے معذرت کرلی کہ ہمارے بیوی بچے ہیں اور یہ گندا کام گندا کرنے والے آسانی سے اتار سکتے ہیں ، ہمیں جس نے جو بتایا وہ پڑھا ، پڑھائی میں کبھی پیچھے نہیں رہے حتیٰ کہ 313 مرتبہ روز آیت الکرسی 41 دن پڑھی ، سورہ الناس، سورہ الفلق 1100 بار پڑھی ، یٰس شریف 41 بار 7 دن تک پڑھی ، دعائے حزب البحرپچھلے ایک سال سے بغیر ناغہ روز پڑھ رہا ہوں ، میرے پاﺅں میں پڑھائی کر کر کے سوجن ہونے لگی ہے ، قرآن پاک کی تلاوت ، یٰس شریف کا ورد روز کرتا ہوں ، سارے گھر والے نمازی ہیں ، پاکی ناپاکی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ، کام دھندہ بالکل ختم ہوچکا ہے ، کسی نے بتایا سورہ رحمن پڑھو ، نکلتے سورج کی طرف اشارہ کرکے ، وہ بھی کیا ، سورہ اخلاص ایک ہزار بار روز صبح فجر میں پڑھی ، کسی عامل کے پاس جاﺅ تو کچھ دن معاملا ت ٹھیک رہتے ہیں ، پھر وہی حال ، اکثر عامل حضرات یہی چاہتے ہیں کہ ہم ان کے دروازے کے چکر کاٹتے رہیں ، ان کو دیتے دلاتے رہیں ، اب بہت پریشان آگیا ہوں ، کب تک پڑھوں ، کب تک ان عامل حضرات کے چکر لگاﺅں ، مجھے اسٹار وغیرہ پر تو کوئی زیادہ عقیدہ نہیں لیکن جب سے میں نے لوح شمس بنائی ہے اور اسے چیک کروایا اور خاص طور پر آپ کے کالم پڑھے تو مجھے شرک اور بدعت سے بالکل پاک اور اسٹیٹ فارورڈ لگے ، آپ کی دل سے رسپیکٹ کرنے لگا ہوں ، میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے کچھ ایسا سکھا دیں کہ میں سب کئے کرائے کا توڑ کرسکوں ، مجھے کوئی ایسا حل بتا دیں کہ مستقل مسئلہ حل ہوجائے ۔“
جواب : عزیزم ! خدا معلوم آپ کون سی دنیا میں رہتے ہیں اور آپ کی سوچ کس قسم کی ہے ، اتنی محنتیں ، چلے وظیفے کرنے کے بجائے سب سے آسان حل تو یہی تھا کہ آپ وہ علاقہ ہی چھوڑ دیتے ، کسی اور جگہ دکان لے لیتے لیکن اس سلسلے میں بھی آپ کی اور آپ کے والد کی ضد یہ ہے کہ ہم کیوں جگہ چھوڑیں ، گویا آپ نے اپنے طور پر مقابلہ آرائی کی ٹھان لی ہے ، حالانکہ اس مقابلے میں خود اپنے بیان کی روشنی میں آپ بری طرح شکست کھا چکے ہیں اور اب حقیقت یہ ہے کہ جان کے لالے پڑ گئے ہیں ۔
آپ کے والد کے کاروبار میں خرابی اور ان کی بیماری ، والدہ کی بیماری، گھر میں لڑائی جھگڑے ان تمام باتوں کا ذمہ دار آپ اپنی قریبی دکان کے مالک کو سمجھتے ہیں اور یہ بھی اس وقت سے سمجھ رہے ہیں جب سے آپ روحانی علاج کے چکر میں عاملوں کے پاس گئے اور انہوں نے بتایا کہ بڑی سخت بندش ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اس سلسلے میں کوئی ثبوت نہ وہ عامل پیش کرسکتے ہیں اور نہ آپ ، بے شمار لوگ ایسے ہیں جن کا کاروبار آہستہ آہستہ زوال کا شکار ہوجاتا ہے اور صحت بھی خراب رہنے لگتی ہے ، صحت کی خرابی کے اور بھی بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں ، عمر کا تقاضا ، غم و فکر ، مالی پریشانیاں وغیرہ ۔ والدہ کی بیماری بھی اسی سلسلے سے جڑی ہوئی ہے کہ اول تو عمر کا تقاضا پھر شوہر کی بیماری اور شوہر کے کاروبار کی خرابیوں کی وجہ سے معاشی پریشانی وغیرہ ۔ یہ صورت حال گھر میں لڑائی جھگڑوں کو بھی جنم دیتی ہے ، لہٰذا صرف ان بنیادوں پر سحر ، جادو ، سفلی عمل وغیرہ کا فتویٰ نہیں لگایا جاسکتا ، پھر ایک ایسے گھرانے پر جہاں سب نماز کے پابند ، قرآن کی تلاوت کرنے والے اور پاک صاف رہنے والے لوگ رہتے ہوں ، اس کے برعکس آپ کے دشمن بقول آپ کے گندے اور سفلی عمل کرتے اور کراتے ہیں وہ نہایت خوش حال ہیں بلکہ عیش کر رہے ہیں اور جب چاہتے ہیں آپ کے خلاف کوئی کارروائی کر ڈالتے ہیں مگر آپ کے بے پناہ ورد و وظائف جن میں ایسی ایسی زبردست سورتیں اور آیات الٰہی شامل ہیں ، آپ کا کوئی تحفظ نہیں کررہیں ! نعوذباللہ اس طرح تو آپ اللہ اور اس کے کلام پر بڑا خوف ناک الزام لگا رہے ہیں جیسا کہ ہم ابتدا میں لکھ چکے ہیں کہ آپ کو اللہ اور اس کے کلام پر تو یقین نہیں ہے ، معمولی اور گھٹیا کام کرنے والے لوگوں کے گھٹیا کاموں پر پورا یقین ہے ، یعنی جس دن والد کی طبیعت زیادہ خراب ہوتی ہے آپ یہ طے کرلیتے ہیں کہ مخالفوں نے کوئی کارروائی کی ہے ، ہمیں یقین ہے کہ روحانی علاج معالجے کے چکروں میں اور معاشی پریشانی کی وجہ سے آپ نے یا آپ کے والد صاحب نے کبھی ڈھنگ سے اپنا یا والدہ کا علاج نہیں کرایا ہوگا ، کبھی معقولیت سے سارے ٹیسٹ نہیں کرائے ہوں گے کہ بیماری کا اصل سبب معلوم ہوسکے کیونکہ آپ تو یہ طے کئے بیٹھے ہیں کہ سب کچھ اللہ کے بجائے آپ کے دشمن کر رہے ہیں ، معاذ اللہ ….معاذ اللہ ۔
خدا کے بندے ! جہالت کے اندھیرے میں سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے، آپ جن قابل اعتبار سچ بولنے والے بزرگوں کا حوالے دے رہے ہیں ہماری نظر میں تو وہ کتنے ہی سچے ، نیک اور پرہیز گار کیوں نہ ہوں مگر ان کی جہالت پر کو ئی شبہ نہیں کیا جاسکتا ، بلکہ انہوں نے جو نشان دہی فرمائی ہے اور آپ کے رشتہ داروں کو بھی اس میں شامل کردیا ہے وہ بھی ان کے فراڈ ہونے کا ثبوت ہے ۔ ان کا یہ مشورہ بھی کہ گندہ کام ،گندہ کرنے والے آسانی سے اتار کر سکتے ہیں انہیں جہنم کا راستہ دکھا سکتا ہے ، کیونکہ اس طرح وہ اللہ کی سادہ لو ح مخلوق کو کفر کا راستہ دکھا رہے ہیں اور خود ان کے روحانی ڈھونگ کا پول بھی ان کی اس بات سے کھل جاتا ہے کہ ” ہمارے بیوی بچے ہیں “ گویا انہیں خود بھی اللہ اور اس کے کلام پر کوئی یقین نہیں ہے ، شیطانی قوتوں سے وہ بھی ڈرتے ہیں بلکہ ان پر ایمان رکھتے ہیں ، یاد رکھیں ایک سچا مسلمان کبھی کسی شیطانی قوت سے خوفزدہ نہیں ہوتا ، وہ تو اس کے مقابلے پر ڈٹ جاتا ہے اور بالآخر فتح اسی کی ہوتی ہے کیونکہ اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے ، اللہ کبھی اس کا ساتھ نہیں دے گا جو غیر اللہ کی طرف جائے گا ، ایسے بزرگ کون سے علم کے ذریعے اس طرح کی پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں ؟ کیا انہیں کوئی غیب کا علم ہے ؟ علم جفر ، علم الاعداد ، فال ، رمل ، استخارہ الغرض جتنے بھی ذرائع ہوسکتے ہیں ان کے ذریعے وہ ایسی باتیں نہیں بتا سکتے ، استخارے کو تو حد درجہ بد نام کردیا گیا ہے ، مندرجہ بالا تمام طریقے نہایت کم زور جواب دیتے ہیں جن پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ، فال اور رمل کے لئے تو شریعت میں پابندی آئی ہے اور استخارہ صرف اس لئے ہے کہ کسی مسئلے میں اللہ کی رضا معلوم کی جائے ، آج کل لوگ استخارے کے نام پر بندش اور سحر جادو کا حال معلوم کر رہے ہیں ۔اس سے بڑا مذاق اور کیا ہوسکتا ہے یہ تو فرمان رسول ﷺ سے بھی انحراف ہے ۔دوسری صورت میں ایسے لوگوں سے یہ پوچھا جائے کہ کیا وہ کاہن ہیں جو غیب کی باتیں بتا رہے ہیں ، انہیں کون سے ذرائع سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا فلاں پڑوسی یا رشتہ دار آپ پر گندے عملیات کسی ہندو سے کرا رہا ہے ؟
آپ کی کم علمی کا ایک اور ثبوت آپ کا یہ جملہ ہے ” مجھے اسٹارز وغیرہ پر بھی کوئی زیادہ عقیدہ نہیں “ عزیزم ! اسٹارز یا علم نجوم کوئی عقیدہ نہیں ہے نہ یہ کوئی مذہب ہے ، جس قسم کے لوگوں میں آپ کی تربیت ہوئی ہے وہ اپنی جہالت کے سبب علم نجوم کو قسمت کا حال ، غیب کاحال اور نا معلوم کیا کیا کہتے ہیں اور خود غیب دانی اور کشف و کرامات کا دعویٰ رکھتے ہیں، حالانکہ علم نجوم ایک سائنس ہے ، بالکل اسی طرح جیسے میڈیکل سائنس ، آپ اسے مانےں یا نہ مانےں اس کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ، کرڑوں لوگ دنیا میں جدید سائنس کی ترقی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور بے شمار ایسے بھی ہیں جو اسے برا بھلا کہہ رہے ہیں ، یہی صورت دیگر علوم کی بھی ہے ۔
آخر میں آپ نے جو فرمائشیں کی ہیں ہم انہیں آپ کے مسئلے کا حل نہیں سمجھتے ، آپ کے مسائل کا درست حل یہ ہے کہ والد اور والدہ کا درست علاج کرائیں ، فرضی مقابلہ آرائی اور دشمنی کی فضا کو ختم کریں ، اپنی خامیوں کا جائزہ لیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کاروباری معاملات میں آپ کی کوتاہیاں کیا ہیں اور آپ کے حریف کو کاروباری معاملات میں آپ پر کیا برتری حاصل ہے ، لوح شمس آپ نے بنالی ہے اسے اپنے پاس رکھیں ، اسمائے الٰہی ” یا حی یا قیوم “ کا ورد رکھیں اور بہت زیادہ پڑھائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، یہ اسمائے الٰہی اسم اعظم کا درجہ رکھتے ہیں ، کسی کا کیا کرایا آپ پر اثر نہیں کرسکتا ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ جعلی عاملوں کی باتوں میں آکر ایک ایسے مرض کا علاج کررہے ہیں جو کہ اپنا کوئی وجود ہی نہیں رکھتا ، لہٰذا جو دوائیں بھی کھا رہے ہیں وہ کچھ نئے امراض پیدا کر رہی ہیں ، آخر میں ہم آپ کو دعا ہی دے سکتے ہیں کہ اللہ آپ کی آنکھیں کھول دے اور آپ کو ایمان دے ۔
آخری بات یہ سمجھ لیں کہ ہر انسان کی زندگی میں عروج و زوال ، کامیابیاں، ناکامیاں، اچھا اور برا وقت آتے اور جاتے رہتے ہیں اور یہ اللہ کے قائم کردہ اس کائناتی نظام کا حصہ ہے ، جب اچھا وقت شروع ہوتا ہے تو انسان ہر طرح کی خوش حالی اور مسرت سے ہمکنار ہوتا ہے، اس وقت وہ بھول جاتا ہے کہ کبھی اس کا برا وقت بھی آسکتا ہے، سو جب برا وقت شروع ہوتا ہے تو وہ اس حقیقت کو سمجھنے کے بجائے ایسی ہی باتیں اور بہانے کرتا ہے جیسے آپ کر رہے ہیں، یاد رکھیں مشکل اور برے اوقات سے تو انبیا بھی نہیں بچ سکے اور انھوں نے ایسے اوقات کو صبروبرداشت کے ساتھ اللہ پر مکمل یقین رکھتے ہوئے گزار دیا مگر کبھی ناشکر گزاری نہیں کی، عارضی دنیاوی سہاروں پر توجہ نہیں دی مگر انسان اپنے بے صبرے پن کی وجہ سے خراب وقت میں قوت برداشت کھوبیٹھتا ہے، ممکن ہے آپ کے ساتھ بھی اور آپ کے والد کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہو جسے آپ دوسری دکان کے مالکان کے کھاتے میں ڈال رہے ہوں، اچھے اور برے وقت سے واقفیت صرف ایسٹرولوجیکل سائنس کے ذریعے ہی ممکن ہے جو آپ کی نظر میں شاہد کوئی فضول چیز ہے، اسی لیے آپ نے غالباً اپنی یا اپنے والد کی تاریخ پیدائش وغیرہ بھی نہیں لکھی۔