ہمارے معاشرے میں ایک بہت عام بیماری ”غلط فہمی“ ہے، اگر آپ اپنے ارد گرد کے لوگوں اور ان کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات، لڑائی جھگڑوں کا بہ غور مشاہدہ کریں تو محسوس کریں گے کہ تمام تر فتنہ و فساد کی جڑ ”غلط فہمی“ ہے، خود آپ کے ساتھ کئی مرتبہ ایسا ہوا ہوگا یعنی آپ نے کچھ کہامگر دوسرے فرد نے کچھ اور سنا، یا آپ کی بات کا کچھ اور ہی مطلب نکال لیا، عموماً ایسی صورت پیدا ہونے کے بعد ہی جھگڑے کا آغاز ہوتا ہے لیکن یہ غلط فہمی ہوتی کیا چیز ہے؟
آئیے آج اس موضوع پر بات کرتے ہیں۔
لوگ باہم اکثر ملاقات کرتے ہیں اور مختلف مسائل اور موضوعات پر بات کرتے ہیں، اس بات چیت کے دوران میں تنازعات کی بڑی وجہ ہمارے اپنے الفاظ ہوتے ہیں، الفاظ اور زبان کا استعمال ہم میں سے اکثر افراد دیکھ بھال کر، سوچ سمجھ کر اور احتیاط کے ساتھ نہیں کرتے اور پھر نتیجے کے طور پر مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، ایک پرانا مقولہ ہے کہ کمان سے نکلا ہوا تیر اور زبان سے نکلی ہوئی بات واپس نہیں آسکتی، الفاظ کی اہمیت کو یہ مقولہ بڑی گہرائی کے ساتھ ثابت کرتا ہے۔
الفاظ در حقیقت آپ کی کامیابی اور ناکامی کا بہت بڑا سہارا ہیں، اس کے ذریعے آپ دوست بھی بناسکتے ہیں اور دوستوں کو دشمن بھی، زندگی بھر کے لیے رستا ہوا ناسور بھی کسی کو بھی دے سکتے ہیں اور اس پر مرہم بھی رکھ سکتے ہیں، آپ اپنے الفاظ کے ذریعے اپنی گفتگو کے ذریعے کچھ بھی کرسکتے ہیں، اگر ہم دنیاکے بڑے بڑے نامور افراد کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ان کا لفظ و بیان سے بڑا گہرا رابطہ تھا اور وہ الفاظ کے استعمال کا فن خوب جانتے تھے۔
مشہور ہے کہ عظیم فاتح سکندر نے اپنے شکست خورد حریف راجہ پورس سے سوال کیا ”بتاو! تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟“
پورس نے نہایت اطمینان سے جواب دیا ”وہی جو ایک بادشاہ کو دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرنا چاہیے“۔
اس سادہ مگر دانش مندانہ جواب نے سکندر کے دل پر عجیب اثر کیا، اس نے پورس کو معاف کردیا اور اس کا مفتوحہ علاقہ اس کا تاج و تخت واپس اس کے حوالے کردیا، ممکن ہے اس وقت پورس اگر کوئی ایسا جواب دیتا جو سکندر کے دل و دماغ پر منفی اثر ڈالتا تو شاید آج تاریخ میں یہ واقعہ کسی اور طرح درج ہوتا۔
دراصل الفاظ اپنی جگہ کچھ بھی نہیں ہوتے، یہ تو علامت ہوتے ہیں، ان جذبات و احسات اور تاثرات کی جو آپ کسی کے لیے اپنے لاشعور میں رکھتے ہیں، مثلاً اگر آپ کسی شخص کے خلاف اپنے دل میں بغض رکھتے ہوں مگر اس کا اظہار نہ کرسکتے ہوں اور مسکراکر ملنا بھی آپ کی مجبوری ہو، تب بھی آپ محسوس کریں گے کہ کبھی نہ کبھی نادانستہ طور پر آپ کے منہ سے ایسی کوئی نہ کوئی بات یا لفظ ضرور نکل جاتے ہوں گے جو آپ کے دلی جذبات کا مظہر ہوں گے، آپ لاکھ ان جذبات کا اظہار نہ کریں مگر نادانستگی میں کوئی نہ کوئی اشارہ ضرور کسی موقع پر دے جاتے ہوں گے۔
الفاظ اور لاشعور کا یہ گہرا تعلق اس وقت مزید موثر ہوجاتا ہے جب آپ تبدیلی کے خواہاں ہوں اور ترقی کی جانب مائل ہوں، ایسے موقع پر صرف ایک لفظ آپ کی یا دوسروں کی زندگی تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اب یہ لفظ کون سا ہے؟
عبرت اثر واقعہ
آئیے یہ جاننے کے لیے ایک واقعہ سنتے ہیں، یہ واقعہ ایک ایسے شخص کا ہے جو اس واقعے سے پہلے سخت بوریت، یکسانیت اور ناکامیوں کا شکار تھا، وہ کہتا ہے۔
” میرے لیے وہ دن انتہائی بوریت اور بے زاری کے تھے، میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا اور روز روز کی ناکامیوں سے اپنی شخصیت اور توانائیاں کھو رہا تھا، ایسے وقت میں مجھے کسی سہارے کی ضرورت تھی کسی ایسے ہاتھ کی ضرورت تھی جو مجھے سنبھال سکے یا میری رہنمائی کرسکے ، مایوسی کے اس عالم میں نوٹوں سے بھرا ہوا بریف کیس مل جانے کے خواب بھی دیکھتا تھا، کسی کروڑ پتی سیٹھ کی اکلوتی بیٹی کی نظر انتخاب کا خواہش مند رہتا تھا، غرض میری سوچیں عجیب احمقانہ اور خیال پرست ہوتی جارہی تھیں، پھر ایک دن انتہائی ڈپریشن کے عالم میں، میں ایک فقیر کے سامنے جا بیٹھا، وہ آنکھیں بند کیے سڑک کے کنارے بیٹھا تھا اور ایک کپڑے پر کچھ سکے اس کے سامنے پڑے تھے، وہ روزانہ ہی وہاں بیٹھا رہتا تھا، اس کے انداز میں ایک کاروباری اور پیشہ ور بھکاری کی تمام جھلکیاں تھیں مگر پھر بھی نہ جانے کیوں میں اس کے سامنے بیٹھ گیا اور اپنا دکھڑا رونے لگے، شاید مجھے امید تھی کہ وہ اپنے کسی جھولے میں ہاتھ ڈالے گا اور میری تمام مشکلات کا حل پلک جھپکتے ہوجائے گا لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا، پہلے تو وہ بھونچکا سا ہوکر میری شکل دیکھتا رہا، پھر اس نے مجھے دور بھگانے کی کوشش کی، میں نے اسے قلندرانہ بے نیازی سمجھا اور مزید شدت سے اپنا دکھڑا رونا شروع کیا، یہاں تک کہ فقیر تنگ آگیا اور زور سے بولا ”جا، جا خدا تیرا بھلا کرے گا“
یہ سنتے ہی جیسے مجھے سکون سا آگیا، جیسے اچانک کوئی خزانہ مل گیا ہو، میں نے جیب سے سارے پیسے نکال کر فقیر کے آگے ڈال دیے جو بہر حال کچھ زیادہ نہیں تھے اور خوشی خوشی گھر آگیا۔
آپ یقین جانیے کہ حیرت انگیز طور پر میری ذہنی کیفیت بدل چکی تھی اور اب مجھے یقین تھا کہ خدا میری مدد ضرور کرے گا اور خدا نے پھر میری مدد کی، چند ہی روز بعد مجھے ایک جگہ ملازمت مل گئی، اب یہ فقیر کی دعا کا اثر تھا یا اس خوش امیدی کی قوت تھی جو فقیر کے الفاظ سن کر میرے دل میں پیدا ہوئی تھی، آج بھی جب میں اپنی اس وقت کی کیفیت کا اندازہ لگاتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ مجھے محض کسی جذباتی سہارے اور رہنمائی کے چند الفاظ کی ضرورت تھی، وہ الفاظ جو بجلی کی طرح چمکتے اور ہماری ساری زندگی کو روشن کردیتے ہیں، میرا خیال ہے کہ فقیر کی دعا نے کوئی کرشمہ نہ دکھایا، ہاں اگر اس نے کچھ کیا تھا تو صرف اتنا کہ مجھے ایک راستہ دکھا دیا تھا، غیر ارادی طور پر اس نے مجھ سے ایک مہمل سا جملہ کہا اور میں نے اسے اپنے لیے توانائی کا ذریعہ سمجھ کر نئے عزم و حوصلے اور ارادوں کے ساتھ جدوجہد شروع کردی، یہاں تک کہ میں کامیاب ہوگیا، فقیر کے الفاظ نے میرے طرز فکر میں تبدیلی پیدا کردی اور میں نے منفی طرز فکر یعنی مایوسی کو ترک کرکے مثبت طرز فکر کو اختیار کرلیا“
اوپر بیان کیا گیا واقعہ یقیناً الفاظ کے مثبت اثرات سے تعلق رکھتا ہے ، دین اسلام سے بھی ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ مایوسی کفر ہے اور ہمیشہ خوش امید رہنا چاہیے اور یہ خوش امیدی خاص طور پر اللہ رب العزت کی جانب سے ہونی چاہیے، ایک آیت کا مفہوم کچھ یوں ہے ”اللہ ہمیشہ ہمارے گمان پر پورا اترتا ہے، اب ہمارا وہ گمان مثبت ہے یا منفی ، اُسی کے مطابق نتیجہ سامنے آئے گا۔
ہماری طرح آپ نے بھی یہ مشاہدہ اکثر کیا ہوگا کہ بعض لوگ ہمیشہ مثبت انداز میں سوچتے اور مثبت طرز عمل اختیار کرتے ہیں جب کہ بعض لوگ اس کے برعکس منفی سوچ کا شکار رہتے ہیں اور منفی طرز عمل اختیار کرتے ہیں، مثبت سوچ اور مثبت طرز عمل یہ ہے کہ ہم ہمیشہ خوش امید رہیں اور اپنی جائز کوششوں کو جاری رکھیں، خواہ نتائج کتنے ہی دل شکن کیوں نہ ہوں، منفی سوچ اور طرز عمل یہ ہے کہ ہم راتوں رات دولت مند بننے کے خواب دیکھیں اور کامیابی کے لیے شارٹ کٹ تلاش کریں، جب کسی مشکل میں پھنس جائیں تو فوری طور پر دوسروں کو مورد الزام ٹھہرائیں ، بدمزاجی کا مظاہرہ کریں ، لہجے میں تلخی نمایاں ہوجائے، اپنے آپ سے اور دنیا بھر سے بلکہ بعض اوقات مذہب سے بھی بے زاری کا اظہار کریں۔
الفاظ کا مثبت یا منفی استعمال اچھا یا برا ہوسکتا ہے،اس کا انحصار ہماری سوچ کی گہرائی یعنی قوت خیال پر منحصر ہے،گویا دوسرے معنوں میں ہماری روحانی قوت اور وقت کی تاثیر مل کر کبھی کبھی عجیب کرشمہ دکھاتے ہیں اس کے لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ الفاظ ادا کرنے والا خود کس حیثیت کا حامل ہے، دوسری طرف الفاظ کے نفسیاتی اثر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اسی لیے ماہرین نفسیات لوگوں کو مایوسانہ گفتگو اور بزدلانہ باتوں سے منع کرتے ہیں، منفی الفاظ لاشعوری طور پر انسان کی ہمت توڑتے ہیں، اسے کمزور کرتے ہیں، آپ نے خود محسوس کیا ہوگا کہ جب آپ کہتے ہیں ”نہیں، یہ نہیں ہوسکتا“تو درحقیقت آپ اپنے آپ کو ڈرا کر پیچھے ہٹارہے ہوتے ہیں اور اپنی لاشعوری شکست کے احساس کو دبا رہے ہوتے ہیں اس کے مقابلے میں جب آپ یہ کہتے ہیں ” ہاں ، یہ ہوسکتا ہے“ تو آپ اپنی ہمت کی بیٹری چارج کر رہے ہوتے ہیں، اپنی توانائی بڑھا رہے ہوتے ہیں اور یہی مثبت طرز فکر ہے، یاد رکھیے اس کے بغیر کامیابی کا کوئی دروازہ نہیں کھولا جاسکتا۔
وظائف یا چلّے میں اجازت
ایک خط ہمیں نامعلوم کس جگہ سے اور کس نے لکھا ہے، بہر حال انہوں نے جو کچھ معلوم کیا ہے، ہم اس کا جواب دینا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ وہ بھی اور دیگر پڑھنے والے بھی کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، وہ لکھتے ہیں ”آپ سے دریافت یہ کرنا ہے کہ نقش لکھنے یا وظائف پڑھنے کے لیے سنا ہے کہ کسی پیر و مرشد کی اجازت لازمی مطلوب ہوتی ہے، اکثر و بیشتر وظائف چالیس روزہ ہوتے ہیں، اس کی اجازت نہیں دی جاتی ہے، اگر کوئی شخص وظائف اس نیت سے کرے کہ وہ خلق خدا کو فائدہ پہنچائے گا تو وہ کیا کرے ؟ اس سلسلے میں تفصیلی معلومات فراہم کیجیے، اگر ہم اپنے والدین یا اساتذہ کرام یا اپنے کسی بزرگ سے اجازت لے کر وظائف یا کوئی چلہ کریں تو کوئی حرج تو نہیں ہے؟ کیوں کہ وظائف کے دوران میں نقصانات کا اندیشہ بھی رہتا ہے اور اگر کسی وظیفے کو چالیس روز تک کرلیا جائے تو انسان کیا اس کا عامل ہوجاتا ہے اور اس طرح وہ انسانیت کی خدمت کرسکتا ہے؟ اس کا کوئی مناسب اور تسلی بخش جواب مرحمت فرمائیں، میں نے قرآنی وظائف کے بارے میں یہ سنا ہے کہ ہر حرف کا ایک موکل ہے اور وظائف کے مکمل ہونے پر وہ موکل آپ کے تابع ہوجاتا ہے، رہنمائی فرمائیں، عین نوازش ہوگی؟“
عزیزم! سب سے پہلے تو ہمارا مشورہ یہ ہے کہ آپ ایسے کسی چکر میں ہر گز نہ پڑیں، انسانیت کی خدمت سے پہلے اپنی اور اپنے گھر والوں کی خدمت کے بارے میں سوچیے، یاد رکھیں، ان معاملات میں پہلی چیز تو دین اور دنیا کے علم کا حصول ہے، اس کے بعد ان فرائض و واجبات کی ادائیگی ہے جو آپ پر اللہ کی طرف سے لازم کردیے گئے ہیں،آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ عبادت کا ایک بٹا دس حصہ حقوق العباد کی ادائیگی میں ہے،اگر اس سے غفلت برتی جائے تو آپ کی عبادات بھی ضائع ہوسکتی ہیں، کجا یہ کہ چلّے اور وظائف کی مشقت میں خود کو ڈال کر اپنا قیمتی وقت ضائع کریں۔
اجازت کا جو مطلب آپ نے لیا ہے وہ ہر گز نہیں ہے، اجازت کسی وظیفے، عمل یا نقش لکھنے کے سلسلے میں کوئی ایسا عامل ہی دے سکتا ہے جس نے اس وظیفے، عمل یا نقش کی زکات اکبر ادا کی ہو، تمام وظائف ضروری نہیں کہ چالیس دن کے ہوں، ان کی مدت میں کمی بیشی بھی ہوسکتی ہے، یقیناً ہر حرف کا ایک موکل ہوتا ہے مگر جیسا کہ آپ کو بتایا گیا ہے،وہ غلط ہے،موکل حرف کا بھی ہوتا ہے اور لفظ کا بھی،کسی آیت کا بھی ہوتا ہے اور اسم الٰہی کا بھی یا کسی سورة کا بھی، حد یہ کہ آپ کے نام کا بھی، جو لوگ کسی موکل یا ہمزاد یا جنّات وغیرہ کی خاطر وظیفہ یا چلّہ کرتے ہیں، اُن کی نیت میں یقیناً فتور ہوتا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ اپنے موکل یا ہمزاد وغیرہ سے کام لے کر لوگوں میں مقبولیت حاصل کریں، مشہور ہوں اور عزت کمائیں مگر یاد رکھیں عزت، شہرت، مقبولیت انسان کو موکلوں کے ذریعے نہیں ملتی بلکہ اس کے علم اور اس کی محنت اور اس کے کردار سے ملتی ہے اور اس کام میں عام طور پر بڑا وقت لگتا ہے، چند روزہ یا چالیس روزہ وظائف و چلّے اس میں معاون و مددگار نہیں ہوتے، اس طرح کی باتیں خیالی دنیا میں رہنے والے نکمّے، ناکارہ، سُست و کاہل لوگ کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں، یاد رکھیں دنیا کے تمام خزانوں اور عزت و مرتبہ کی کنجی علم ہے لہٰذا آپ کو چاہیے کہ سب سے پہلے علم حاصل کریں، علم ہی آپ کو بتائے گا کہ موکل کیا ہوتا ہے، ہمزاد و جنات کی حقیقت کیا ہے؟