اس حوالے سے سب سے پہلے ہم اپنے استاد محترم ڈاکٹر اعجاز حسین صاحب کا ایک اہم معالجاتی کیس پیش کرنے کی اجازت چاہتے ہیں،یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ہم سیکھنے اور سمجھنے کی منزل میں تھے ، ہمارے قریبی واقف جن کی عمر تقریباً 60 سال تھی، جگر کے کینسر میں مبتلا ہوگئے، جگر میں کوئی پھوڑا تھا اور وہ پھٹ گیا تھا، وہ صاحب آغا خان میں داخل تھے اور آغا خان کے ڈاکٹر سرنج کے ذریعے مواد نکال رہے تھے لیکن مریض کی حالت روز بہ روز بگڑتی جارہی تھی۔
اعجاز صاحب نے اسپتال جاکر ان کا معائنہ کیا اور تمام رپورٹس کا جائزہ لیا، اس کے بعد ایک خوراک اورنتھوگالم مدرٹنکچر کا ایک قطرہ تقریباً ایک گلاس پانی میں ڈال کر پہلی دوا کے طور پر تجویز کیا، اس کے علاوہ ہیپرسلف 30 کی تین خوراکیں روز صبح ،دوپہر، شام تجویز کیں۔
پہلے ہی ہفتے میں نمایاں بہتری کے آثار ظاہر ہوئے، 15 دن بعد اورنتھوگالم کا ایک قطرہ ایک گلاس پانی میں دوبارہ دیا گیا اور ہیپرسلف 30 حسب دستور جاری رہی،15 دن بعد آغا خان کے ڈاکٹر نے کہا کہ پس ختم ہوچکی ہے لہٰذا انہیں اسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا۔
وہ گھر واپس آگئے اور ہومیوپیتھک ٹریٹمنٹ اسی طرح جاری رہا یعنی ہر 15 دن بعد اورنتھو گالم اور ہیپرسلف 30 دن میں تین مرتبہ، البتہ ایک ماہ بعد کارڈس میریانس مدرٹنکچر اور سیانوتھس مدرٹنکچر باہم ملاکر دن میں تین ٹائم شروع کی گئی کیوں کہ ھوموگلوبین بھی کم تھا، تین ماہ کے علاج کے بعد جب ایک روز مریض خود اپنے پیروں سے چل کر دفتر آیا تو تمام احباب بہت خوش ہوئے، اس واقعے کے تقریباً 5 یا 6 سال بعد ان کا انتقال ہوا اور موت کا سبب بہر حال کینسر نہیں بلکہ برین ہیمبرج تھا۔
ہومیوپیتھی اور جنات
واضح رہے کہ ہومیوپیتھی کے ساتھ ہی کچھ دوسرے علوم خصوصاً اکلٹ سائنسز سے بھی ہمیں دلچسپی رہی ہے،سائیکولوجی اور پیراسائیکولوجی ہمارے خصوصی دلچسپی کے موضوعات ہیں، اس حوالے سے ہمارے پاس اکثر نفسیاتی یا سحری و جناتی کیسز بھی آتے رہتے ہیں، حکیم شمیم احمد صاحب اور ڈاکٹر اسلم صاحب کا اصرار تھا کہ ایسے کیسز کے علاج معالجے کے بارے میں اپنے تجربات ضرور شیئر کریں، چناں چہ ان محترم اور محبّی حضرات کی فرمائش رد کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔
ہمارا حلقہ ء احباب ہمیشہ سے بہت وسیع رہا ہے اور اس میں ہر طرح اور ہر سطح کے لوگ شامل ہیں، جس زمانے میں ہمارا دفتر آئی آئی چندریگر روڈ پر تھا تو دفتر کے قریب ہی رہنے والے بعض افراد سے اچھی سلام دعا ہوگئی تھی، انہی دنوں ہم ایک روزنامہ اخبار میں کالم بھی لکھا کرتے تھے جس کے موضوعات خاصے منفرد تھے یعنی ہومیوپیتھی کے علاوہ سائیکولوجی اور پیراسائیکولوجی، ایسٹرولوجی، علم جفر و علم الاعداد، سحروجنات وغیرہ بھی ان موضوعات میں شامل تھے۔
ایک روز ہمارے واقف جن کا فرضی نام شکیل سمجھ لیں، ہمارے پاس گھبرائے ہوئے آئے اور بتایا کہ ان کی بھانجی کو جنات نے گھیر لیا ہے اور وہ اسے جان سے مارنے کی دھمکی دے رہے ہیں، ہم بڑے حیران ہوئے، ان سے دیگر تفصیلات معلوم کیں، وہ بضد تھے کہ آپ ہمارے ساتھ چلیں اور لڑکی کا علاج کریں، ہم نے انکار ضرور کیا لیکن بالآخر جانا پڑا، ایک کشادہ کمرے میں خاصے لوگ جمع تھے جب کہ ایک 14,15 سال کی لڑکی اپنی ماں سے لپٹی ہوئی تھی، رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی ’’یہ مجھے نہیں چھوڑیں گے، لے جائیں گے اور جان سے مار دیں گے، اب میں نہیں بچوں گی،امی مجھے بچالیں‘‘
وہ ایک منٹ کے لیے بھی ماں سے علیحدہ ہونے کو تیار نہیں تھی، خاندان کے باقی افراد دونوں ماں بیٹیوں کے گرد گھیرا ڈالے بیٹھے تھے۔
شکیل صاحب سے جو معلومات حاصل ہوئیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ شب معراج میں لڑکی رات بھر جاگتی رہی اور اُس روز اس نے روزہ بھی رکھا تھا، شام کو صرف کھجور سے افطار کرکے ایک گلاس شربت پی لیا، بعد ازاں پھر عبادت میں مشغول ہوگئی، رات تقریباً 12 بجے کے بعد اس کی طبیعت خراب ہوئی اور اس نے چیخنا چلانا شروع کردیا کہ مجھے بچائیں، عجیب و غریب شکل و صورت کے لوگ میرے گرد گھیرا ڈال کر کھڑے ہیں، ایک طرف کچھ لوگوں نے ہاتھ میں ہار پھول لیے ہوئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ چلو، ہم تمہاری شادی کریں گے جب کہ دوسری طرف بہت ہی ڈراؤنی شکلوں والے لوگ ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ اسے ہم لے جائیں گے اور ذبح کریں گے۔
فوری طور پر کسی مولانا صاحب کو بلایا گیا، انہوں نے حسب معمول مختلف سورتیں پڑھ کر دم کیا، لڑکی اپنی ماں سے لپٹ گئی تھی اور اسی حالت میں رات گزر گئی جب کہ دوسرے روز جب ہم دفتر پہنچے تو شکیل صاحب ہمارے انتظار میں بیٹھے تھے۔
ہم نے اندازہ لگایا کہ سارا دن روزہ رکھنے کے بعد اور بعد ازاں معقول خوراک نہ کھانے کی وجہ سے اس کا شوگر لیول انتہائی گرگیا ہے، یقیناً بلڈ پریشر بھی لو ہوگیا ہوگا، ایسی صورت میں انسان اگر زیادہ حساس بھی ہو اور لڑکیاں عموماً زیادہ حساس ہوتی ہیں تو وہ شعور سے لاشعور کی طرف چلا جاتا ہے،بعض اوقات ہذیان بکنے لگتا ہے، بے ہوش ہوجاتا ہے،لاشعور کی دنیا اردگرد کے تمام پردے اٹھادیتی ہے،اس صورت حال کو دوسرے معنوں میں یوں سمجھ لیں کہ مسلسل فاقہ کشی اور عبادات کی زیادتی سے روح کی لطافت بڑھ جاتی ہے اور ہمارے اندر موجود کثافت تقریباً ختم ہوجاتی ہے،یہی شعور سے لاشعور میں جانا ہے،لطافت و کثافت کا توازن بگڑنا بڑے بڑے عجیب و غریب رنگ دکھاتا ہے۔
ہم بارہا ایسے کیسوں کا مشاہدہ کرتے رہے ہیں، واضح رہے کہ لطافتِ روحانی ہمارے جسم میں نمکیات کی مقدار کے اضافے سے پیدا ہوتی ہے اور کثافتِ روحانی گلوکوز کی مقدار بڑھنے سے غالب آتی ہے،دونوں کے درمیان توازن انسان کو نارمل رکھتا ہے،خواتین عموماً نمکیات کی شوقین ہوتی ہیں،مٹھاس سے پرہیز کرتی ہیں کیوں کہ انہیں موٹاپے سے خوف آتا ہے،نتیجے کے طور پر وہ زیادہ حساس اور وجدانی ہوتی ہیں۔
ہم معذرت چاہتے ہیں کہ گفتگو کا رُخ مرض اور مریض سے ہٹ کر کسی اور طرف مُڑ چکا ہے لیکن اس کیس کے معالجے کو سمجھنے کے لیے یہ تفصیل غیر ضروری بھی نہیں ہے۔
ہم نے شکیل صاحب کو ایک ہومیوپیتھک دوا اکونائیٹ نیپلس 1M فوری لانے کا کہا تو وہ حیرت سے ہماری شکل دیکھنے لگے، انہیں توقع تھی کہ ہم کوئی پڑھائی وغیرہ کریں گے یا کوئی نقش و تعویذ لکھ کر دیں گے،وہاں موجود دیگر حضرات بھی کچھ عجیب نظروں سے ہماری طرف دیکھ رہے تھے، اول تو اپنے سادہ سے حلیے کے سبب ہم ہر گز کوئی مولوی یا پیر فقیر معلوم نہیں ہورہے تھے لیکن شاید وہ لوگ شکیل صاحب کی وجہ سے ہمیں برداشت کر رہے تھے بہر حال ان کی تسلی و تشفی بھی ضروری تھی ورنہ شاید کوئی ہماری بات نہ مانتا اور علاج بھی مشکل ہوجاتا لہٰذا ہم نے ایک بوتل پاک پانی لانے کی فرمائش کی جسے سن کر اکثر لوگوں کے چہرے پر اطمینان نظر آیا، جتنی دیر میں پانی کی بوتل آئی، ہم بیٹھے دل ہی دل میں بسم اللہ ، سورۂ فاتحہ، سورۂ فلق و الناس اور آیت الکرسی کا ورد کرتے رہے،بعد ازاں پانی کی بوتل میں پھونک ماردی، اسی دوران میں ایکونائٹ بھی آگئی تو ہم نے شکیل صاحب سے کہا کہ اس دوا کے دو قطرے لڑکی کی زبان پر ٹپکادیں اور بوتل کا پانی 3,3 گھنٹے کے وقفے سے پلاتے رہیں۔
باہر آکر انہیں مزید سمجھایا کہ ڈائیزاپام کی ایک گولی منگواکر لڑکی کو کھلادیں تاکہ یہ سوجائے اور جب تک خود نہ اٹھے، سونے دیں، چناں چہ شام کو تقریباً 6 بجے کے بعد شکیل صاحب آئے اور انہوں نے بتایا کہ لڑکی خوب سوئی ہے اور ابھی تھوڑی دیر پہلے اٹھی ہے، پہلے سے بہتر ہے یعنی اب شور نہیں مچارہی لیکن کہہ رہی ہے کہ وہ جنات ابھی کمرے میں موجود ہیں، اب ان کی صرف ٹانگیں نظر آرہی ہیں، ہم نے کہا کہ اس دوا کے دو قطرے اور زبان پر ٹپکادیں، اسے کچھ کھلائیں پلائیں، اگر کچھ کھانے سے انکار کرے تو گلوکوز میں ذرا سا نمک ڈال کر پلادیں۔
اس کے علاوہ ایک اور دوا یعنی فائیو فاسز بھی تجویز کی کہ اس کی چار چار ٹکیاں دن میں تین بار دیتے رہیں، دوسرے روز اطلاع ملی کہ لڑکی ماشاء اللہ بھلی چنگی ہوگئی ہے، کھا پی بھی رہی ہے۔
دعویٰء مہدیت
ایک اور دلچسپ کیس لاہور سے تعلق رکھتا ہے،مختلف اخبارات و رسائل میں لکھتے رہنے کے سبب نزدیک و دور سے لوگ ہم سے رابطہ کرتے رہتے ہیں، لاہور کی ایک خاتون نے ہمیں بتایا کہ ان کا بیٹا امام مہدی ہونے کا دعوے دار ہے،ہم نے اسے کمرے میں بند کیا ہوا ہے کیوں کہ گھر سے باہر اس کی باتیں کسی نے سن لیں تو ڈر ہے کہ کوئی اس کی جان نہ لے لے۔
ہم نے کیس ہسٹری معلوم کی تو بتایا گیا کہ لڑکا جس کی عمر تقریباً 18 سال تھی، نہایت ذہین اور پڑھائی میں بہترین پوزیشن رکھتا تھا، کالج میں دوران تعلیم ہی وہ ایک لڑکی کو پسند کرنے لگا، لڑکی کا تعلق کسی بڑے زمیں دار گھرانے سے تھا، وہ بھی اسے پسند کرتی تھی لیکن دونوں کی یہ پسند حدود و قیود میں تھی، البتہ دونوں ساتھ اُٹھتے بیٹھتے اور کبھی کبھار ساتھ گھومتے پھرتے بھی تھے، خدا معلوم کس طرح لڑکی کے والد کو اس معاشقے کا پتا چل گیا، اس نے لڑکے کو اُٹھوالیا اور اپنے کارندوں کے ذریعے بری طرح زدوکوب کیا، نہایت خراب اور زخمی حالت میں وہ لوگ اسے گھر کے دروازے پر ڈال گئے، لڑکے کی والدہ بیوہ تھی لیکن اچھے ، کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق تھا، نہایت شریف لوگ تھے ، انہوں نے اسے اسپتال میں داخل کیا اور تھانے میں رپورٹ وغیرہ بھی درج کرائی جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا کیوں کہ لڑکی کے والد زیادہ دولت مند اور بااثر تھے۔
صحت مند ہونے کے بعد لڑکا گھر واپس آیا تو اس کی دنیا بدل چکی تھی، اس نے خود کو کمرے میں بند کرلیا، کسی سے زیادہ بات چیت نہ کرتا، ہر وقت غصے میں رہتا اور بہت زیادہ عبادات کی طرف راغب ہوگیا، اس کی ماں کے بقول تہجد بھی نہ چھوڑتا اور فارغ اوقات میں قرآن و احادیث یا دیگر مذہبی لٹریچر کا مطالعہ کرتا رہتا، اس نے کالج چھوڑ دیا تھا۔
پہلے تو ماں کو بیٹے کی صحت کا مسئلہ درپیش تھا پھر اس کی تعلیم کے حوالے سے پریشانی ہوئی اور بعد ازاں اس کا اس طرح دنیا سے کٹ کر گوشہ نشینی اختیار کرنا، کسی سے کوئی بات چیت نہ کرنا بھی پریشانی کا باعث بن گیا،تقریباً ایک سال اسی طرح گزر گیا،ماں کا سمجھانا کوئی کام نہ آیا، چھوٹے بہن بھائی اس سے دور ہوگئے،پھر ایک روز اچانک اس نے مہدیت کا دعویٰ کردیا،گھر میں موجود ٹی وی وغیرہ توڑ دیا، بہنوں کو سخت پردے کی تاکید کی اور ماں کو بھی بغیر برقع گھر سے باہر جانے سے منع کرنے لگا۔
اس صورت حال میں جو پہلی دوا ہمارے ذہن میں آئی وہ نیٹرم میور 1m تھی لہٰذا ہم نے مشورہ دیا کہ اس دوا کی ایک خوراک دی جائے، چناں چہ ایسا ہی کیا گیا لیکن ایک ہفتے تک جب کوئی بہتری محسوس نہ ہوئی تو خاتون نے پھر فون پر رابطہ کیا اور ہم نے انہیں تسلی دی ، دوا کو دوبارہ دینے کا مشورہ دیا، اس طرح تقریباً ایک ماہ تک ایک ایک ہفتے کے وقفے سے 1m میں نیٹرم میور دی گئی،دوسرے مہینے میں خاتون نے بتایا کہ اس کے جارحانہ انداز میں کمی ضرور واقع ہوئی ہے لیکن باقی صورت حال میں کوئی فرق نہیں آیا، ہم نے دوسرے مہینے کے آخر میں نیٹرم میو cm میں دینے کا مشورہ دیا اور فائیو فاسز کا استعمال بھی شروع کرایا۔
اس کے بعد خاتون نے کوئی رابطہ نہیں کیا، تقریباً 6 ماہ بعد دوبارہ رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ کافی بہتر ہوگیا تھا، گھر سے باہر بھی جانے لگا تھا، مہدیت کے دعوے والی باتیں بھی نہیں کرتا تھا لیکن چپ چپ اور اُداس اُداس رہتا تھا، ہم مطمئن ہوگئے تھے کہ اب یہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہوجائے گا،گزشتہ دنوں اسے تبلیغی دورے پر رائیونڈ جانے کا شوق ہوا، ہم نے اس میں کوئی برائی نہ سمجھی اور وہ چلا گیا، ہمیں نہیں معلوم کہ رائیونڈ سے وہ اور کہاں گیا لیکن تقریباً ایک ماہ بعد اس کی واپسی ہوئی تو صورت حال واپس وہیں آگئی تھی جہاں وہ پہلے تھا اور اب زیادہ شدت کے ساتھ اپنے امام مہدی ہونے کا اعلان کر رہا تھا اور پیش گوئیاں کر رہا تھا جب کہ اس کی بعض باتیں درست بھی ثابت ہورہی تھیں، مثلاً ایک مرتبہ اس کے چھوٹے بھائی کو گھر آنے میں دیر ہوگئی، میں پریشان بیٹھی تھی کہ اچانک اس نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ جائیں دروازہ کھولیں ، ذیشان دروازے پر ہے، میں بڑی حیران ہوئی ، اسی وقت بیل کی آواز سنائی دی ، میں نے جاکر دیکھا تو میرا چھوٹا لڑکا ذیشان تھا، اسی طرح اور بھی باتیں اس کی درست ثابت ہورہی تھیں، اس کی والدہ نے یہ صورت حال دیکھ کر نیٹرم میور cm میں دی لیکن دوا نے کوئی کام نہ کیا، آخر پریشان ہوکر ہم سے رابطہ کیا۔
اس موقع پر جو دوا ہمارے ذہن میں آئی، وہ پاکستان میں دستیاب نہیں ہے،کم از کم ہم اپنی تمام کوششوں کے باوجود یہ دوا بازار سے حاصل نہیں کرسکے اور یہی بات ہم نے اس کی والدہ سے بھی کہی کہ جس دوا کی ضرورت ہے وہ بازار میں دستیاب نہیں ہے، وہ بے چاری مصیبت کی ماری اپنے بڑے بیٹے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار تھی، ہم نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ مسعود لیبارٹریز لاہور جائیں اور کسی طرح بھی انہیں یہ دوا تیار کرنے پر راضی کریں ، دوا کا نام پائرس امریکانا ہے۔
خاتون نے بہر حال کس طرح یہ مرحلہ سر کیا ، ہمیں نہیں معلوم، تقریباً ایک ماہ بعد انہوں نے اطلاع دی کہ وہ 200 اور 1000 طاقت میں یہ دوا مسعود لیبارٹریز سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہیں،ہمیں بڑی خوشی ہوئی، بہر حال پہلے 200 اور تقریبا ایک ماہ بعد 1m طاقت میں یہ دوا استعمال کرائی گئی، اللہ نے بڑا کرم کیا کہ وہ بندہ جو امام مہدی ہونے کا دعویٰ کر رہا تھا، نارمل ہوگیا، خاتون نے کچھ عرصے بعد اس کی شادی کی اطلاع دی اور ہمیں بھی مدعو کیا لیکن ہم اس کی شادی میں شریک نہیں ہوسکے، حالاں کہ وہ ہمیں ریٹرن ٹکٹ ہوائی جہاز کا بھیجنے کے لیے تیار تھیں، شادی کے بعد دونوں میاں بیوی لندن چلے گئے اور وہیں مقیم ہیں۔
ہمارا مشورہ ہے کہ ہمارے بہت سے پیروں فقیروں کو یہ دوا استعمال کرائی جائے جو معاذ اللہ بڑے بڑے روحانی دعوے کرتے ہیں اور بزرگان دین حد یہ کہ صحابہ ء کرام، رسول اکرمؐ اور اللہ سے براہ راست رابطے کے دعوے کرتے ہیں۔
کالی بلائیں
کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی جن بھوت لوگوں کو پریشان کرسکتے ہیں اور لوگ بھی مسلمان،پنج وقتہ نمازی، کثرت سے تلاوتِ قرآن کرنے والے!
یہ زیادہ پرانہ واقعہ نہیں ہے، غالباً 2014 ء کی بات ہے، لاس اینجلس امریکا سے ایک صاحب نے رابطہ کیا جن کے کچھ عزیز پاکستان میں ہمارے زیر علاج رہ چکے تھے، انہوں نے بتایا کہ بے شمار گندی قوتیں انہیں پریشان کر رہی ہیں اور ان کی زندگی عذاب بناکر رکھ دی ہے،اس ساری صورت حال کا سبب یہ ہے کہ بیٹے نے ایک انڈین ہندو لڑکی سے شادی کرلی، وہ اگرچہ مسلمان ہوچکی ہے مگر جادو ٹونا، گندے عملیات وغیرہ کے لیے بھارتی جادوگروں سے اس کا رابطہ ہے، اس نے پہلے جادو کے ذریعے ہمارے لڑکے کو اپنے قابو میں کیا اور اس کے بعد ہمارے پورے گھرانے کو گندے عملیات کے ذریعے تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔
اس قسم کے بیانات ہم اکثر لوگوں سے سنتے رہتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں بہت سے بہت پڑھے لکھے ، سمجھ دار ، دینی شعور رکھنے والے لوگ بھی ہوتے ہیں، ان کا ایمان اس قدر کمزور ہوتا ہے کہ وہ اپنے نماز روزے، تلاوت کلام پاک وغیرہ کی اہمیت کو نظرانداز کرکے صرف اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان پر کسی نے جو گندے عملیات کرائے ہیں وہ بڑے زبردست اور طاقت ور ہیں، ان کا توڑ آسان نہیں ہے،ایسی باتیں آج کل کے جعلی عامل بھی انہیں باور کراتے ہیں۔
ہم نے ان سے تفصیلات معلوم کرنے کی کوشش کی کہ آخر کس طرح یہ سب کچھ ہورہا ہے اور آپ دیکھ رہے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ بے شمار کوّے ہمارے پیچھے لگے ہوئے ہیں ، ہمارا گھر کوؤں سے بھرا رہتا ہے، ہم کہیں بھی جائیں ، کوّے ہمارے ساتھ جاتے ہیں اور خاص طور پر ہماری بیگم ان کوؤں کا ہدف ہیں،انہوں نے بتایا کہ وہ کار میں سفر کر رہے ہوں تو کوّے کار کے اوپر پرواز کر رہے ہوتے ہیں، وہ ان کو نماز بھی نہیں پڑھنے دیتے،سورۂ فلق و سورۂ الناس اور آیت الکرسی وغیرہ پڑھنے سے کسی حد تک ہم محفوظ رہتے ہیں،وغیرہ وغیرہ۔
اب یہ بھی ایک عجیب چکرا دینے والا بیان ہے، لاس اینجلس جیسی جگہ پر کسی مکان پر اس طرح کوؤں کی یلغار! ایک نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے،ہم نے پوچھا کیا یہ کوّے آپ کے بچوں کو بھی پریشان کرتے ہیں اور انہیں نظر آتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ بچوں کو پریشان نہیں کرتے اور نہ انہیں نظر آتے ہیں لہٰذا بیٹا بیٹی ہمیں نفسیاتی مریض قرار دیتے ہیں، بڑا بیٹا بقول ان کے اس انڈین چڑیل کے ساتھ گھر چھوڑ کر جاچکا ہے۔
بچوں کا یہ بیان سامنے آنے کے بعد کم از کم ہمیں یہ یقین ہوگیا کہ معاملہ بیان کردہ حالات کے مطابق نہیں ہے،ایسے معاملات میں ہم مریض کے برتھ چارٹ کا مطالعہ کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کیوں کہ اکثر مریض اور خاص طور پر نفسیاتی مریض کبھی بھی صحیح بات اور درست صورت حال بیان نہیں کرتے بلکہ اکثر ڈاکٹر کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر اپنی پسند کے اور اپنی مرضی کے علاج پر زور دیتے ہیں، انہیں سمجھانے کی تمام کوششیں بے سود ہوتی ہیں، سچی بات یہ ہے کہ ایسے مریضوں کو سمجھانا نہیں چاہیے، بس خاموشی سے ان کا علاج کرنا چاہیے لیکن علاج کے لیے مرض کا بنیادی سبب اور مریض کی نمایاں علامات سے واقف ہونا ضروری ہے،مریض اس سلسلے میں اکثر تعاون نہیں کرتا، ڈاکٹر کی اپنی مہارت اور فنکاری کسی حد تک مددگار ثابت ہوتی ہے،مریض کے لواحقین کا بھی عجیب حال ہوتا ہے، اول تو ایسے مریض کے ساتھ رہنے والے خود آدھے مریض ہوچکے ہوتے ہیں، دوم یہ کہ وہ نہیں جانتے کہ کون سی علامات اہم ہیں جن کی نشان دہی کی جائے،ان سے مریض کی غیر موجودگی میں خود ہی تفتیش کرنا چاہیے اور مریض کا بیان خاموشی سے سننا چاہیے،ضرورت کے مطابق کہیں کہیں لقمہ دے کر اسے ضرورت کے مطابق ٹریک پر لانا چاہیے،اس کی بات کی تردید نہیں کرنی چاہیے تاکہ آپ پر وہ اعتماد کرسکے۔
معتبر ترین طریق تشخیص
ایسٹرولوجی اس سلسلے میں سب سے زیادہ معتبر اور مؤثر طریقہ ء تشخیص ہے،بابائے نفسیات سگمنڈ فرائڈ کے نہایت لائق شاگرد ڈاکٹر کارل یونگ کہتے ہیں ’’میں نے انسانی نفسیات کو سمجھنے میں ایسٹرولوجی سے مدد لی‘‘ حالاں کہ ان کے بعض شاگرد جو جدید سائنس کے زیر اثر ایسٹرولوجی کے مخالف ہیں، یونگ کے اس بیان سے منحرف ہوجاتے ہیں۔
دونوں میاں بیوی کے زائچے دیکھنے کے بعد ساری صورت حال ہم پر واضح ہوگئی،شوہر کم اور بیوی زیادہ ہی حساس ، جذباتی، شدت پسند خاتون تھیں، وہ کسی قیمت پر بھی اپنے بیٹے کی پسند کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں،حالاں کہ وہ لڑکی مسلمان ہونے کو تیار تھی اور بالآخر شادی سے پہلے مسلمان ہوگئی مگر وہ اسے اپنی بہو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوئیں،آخر لڑکا لڑکی نے کورٹ میں جاکر شادی کرلی،اس شادی کو رکوانے کے لیے مریضہ نے بڑے بڑے زبردست وظیفے اور عملیات کیے، حد یہ کہ ایک عمل کے سلسلے میں وہ قبرستان جاکر ایک ٹوٹی ہوئی قبر میں بھی تین راتیں گزار چکی تھیں،اس طرح انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنی سائیکی بگاڑ لی بلکہ شوہر پر بھی اثرانداز ہوئیں، یہ تمام تفصیلات ہمیں ان کے پاکستانی قریبی عزیزوں سے حاصل ہوئیں۔
شادی کے بعد انہیں یہ بھی گوارا نہ ہوا کہ لڑکا ان کے ہاتھ سے نکل جائے، مزید یہ کہ منفی سوچ نے یہ راستہ دکھایا کہ اب اپنے گھر میں بہو کی زندگی عذاب کرکے اسے طلاق لینے پر مجبور کیا جائے، اس پریکٹس کا نتیجہ بھی الٹا نکلا یعنی بہو بیٹا گھر چھوڑ کر چلے گئے، یہ شکست فاش ناقابل برداشت تھی، انا کو شدید ٹھیس پہنچی جس کا نتیجہ ہسٹیریائی دورے کی صورت میں برآمد ہوا، موصوفہ اسپتال پہنچ گئیں، صحت یاب ہوکر واپس آئیں تو بھی دماغ کی سوئی ریکارڈ کی ٹوٹی ہوئی لکیر میں ہی پھنسی ہوئی تھی، بہت سے عاملوں، پیروں اور مولیوں سے ، حد یہ کہ سفلی گری کے دعوے داروں سے بھی رابطہ کیا اور بہت دولت لٹائی، آخر کار اپنے پاکستانی عزیز کے اصرار پر ہم سے رابطہ کیا گیا۔
کیس کے تمام پہلوؤں پر غوروفکر کے بعد ہم نے ہرگز ان سے یہ نہیں کہا کہ آپ اور آپ کی بیگم نفسیاتی مریض ہیں اور جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں یا جو آپ جو کچھ آپ کے ساتھ ہورہا ہے، وہ محض ایک فریب ہے،ایسا فریب جو خود آپ کا پیدا کردہ ہے بلکہ انہیں تسلی دی کہ میں کچھ زعفرانی نقوش کلام الٰہی سے مرتب کرکے روانہ کروں گا ، ایک نقش روزانہ پانی میں گھول کر پینا ہوگا مگر اس کے ساتھ ہی میری دیگر ہدایات پر بھی سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہوگی،آپ کی خاطر ایک زبردست عمل پڑھ کر پانی تیار کیا جائے گا، یہ پانی آپ دونوں صبح و شام استعمال کریں گے ، مزید یہ کہ کھانے میں نمک بالکل بند کردیں اور روزانہ نہار منہ ایک کپ عرق گلاب میں دو بڑے چمچ شہد کے ملاکر پی لیا کریں، یہی کام شام کو خالی پیٹ بھی کریں، آپ اور آپ کی وائف سوائے پنج وقتہ نماز کے اور کوئی عبادت یا پڑھائی نہ کریں (وہ خاتون تہجد بھی نہیں چھوڑتی تھیں اور مختلف اوقات میں مختلف قرآنی سورتیں بھی پابندی سے پڑھتی تھیں) ایسے مریض اس پریکٹس سے اور بھی ٹیون ہوجاتے ہیں، گویا ان کی ذاتی اسپریچوئل پاور بڑھ جاتی ہے، اس طرح شعور کی گرفت کمزور ہوتی ہے اور وہ بالآخر لاشعور کی دنیا کے باسی بن کر زندگی گزارتے ہیں، لاشعور کی دنیا بڑی توانا اور طاقت ور ہے ، اس دنیا میں زندگی گزارنے والا جو سوچتا ہے وہ ہوجاتا ہے،جو دیکھنا چاہتا ہے ، وہی دیکھتا ہے، اکثر اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ پورے ہوتے ہیں، اس کے خواب سچے نکلتے ہیں،آخر کار وہ شیزوفرینیا کا مریض بنتا ہے،اس کی شخصیت دو حصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
سب سے پہلے دو بوتل پانی تیار کرکے بھیجا گیا اور اس میں فی بوتل دس قطرے اناکارڈیم 1m شامل کی گئی،ایک ماہ بعد ہی شوہر نے اطلاع دی کہ کوؤں نے میرا پیچھا چھوڑ دیا ہے،مجھے اب کوئی کوّا نظر نہیں آتا، وائف بھی پہلے سے بہتر ہیں،اب انہیں صرف اُس وقت کوّے پریشان کرتے ہیں جب وہ نماز کے لیے کھڑی ہوتی ہیں یا نماز پڑھ رہی ہوتی ہیں تو کوّے کمرے میں کسی کونے میں بیٹھے ہوتے ہیں، وہ ان کے قریب نہیں آتے، جب کہ پہلے حملہ آور بھی ہوا کرتے تھے،یہی علاج مزید دو ماہ تک جاری رکھا گیا، اس کے بعد وہ لوگ پاکستان آئے اور ہم سے ملاقات کی، شوہر بالکل ٹھیک ہوچکے تھے لیکن ان کی بیگم اب بھی بہکی بہکی باتیں کر رہی تھیں اور مزید یہ کہ اب ان کے انداز اور گفتگو میں اشراقیت نمایاں تھیں یعنی نہایت اعتماد کے ساتھ دعوے کر رہی تھیں ، ان کا خیال تھا کہ اپنی بہو کے خلاف یا کالی بلاؤں کے خلاف یہ جنگ انہوں نے تنہا لڑی ہے اور گندی قوتوں کو شکست فاش دی ہے، مزید یہ کہ وہ عنقریب اپنی بہو کا بھیانک انجام دیکھیں گی وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے پاس پائرس امریکانہ 1m میں موجود تھی جو ہم نے لاہور والی خاتون سے ایک بوتل منگوالی تھی لہٰذا چند خوراکیں اس دوا کی دی گئیں کہ 15 , 15 دن کے وقفے سے دی جائیں، شہد اور عرق گلاب کا استعمال مزید جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی اور نمک کی مقدار بھی کم رکھنے کے لیے کہا گیا،الحمداللہ یہ فیملی اب بھی لاس اینجلس میں موجود ہے اور مطمئن زندگی گزار رہی ہے لیکن خاتون اب بھی اپنی بہو کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔