علاج معالجے کے سلسلے میں مریضوں اور ان کے سرپرستوں میں بے شمار غلط تصورات رواج پاگئے ہیں اور اس کی پہلی وجہ تو ہم روحانی علاج کے حوالے سے بیان کرچکے ہیں کہ لوگ کسی کرامت اور معجزہ کی تلاش میں رہتے ہیں لیکن دوسری وجہ ایلو پیتھی اور اس سے وابستہ کمرشل ازم ہے، ساتھ ہی یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ موجودہ مشینی دور کے انسان کے پاس علاج معالجے کے لیے فرصت بھی بہت کم ہے لہٰذا وہ اپنے دکھ ، تکلیف سے فوری نجات پاکر جلد از جلد کاروبار زندگی کی بھاگ دوڑ میں مصروف ہونا چاہتا ہے، ایلو پیتھی طریقہ علاج نے اسے یہ سہولت فراہم کردی ہے اور اس سے وابستہ معالجین اور دواؤں کی کمپنیوں نے ایسی دواؤں کو فروغ دیا جو فوری اثر کرکے مریض کو آرام پہنچادیں، ایسی دوائیں درحقیقت عارضی ضرورت کے تحت ایجاد ہوئی تھیں اور کسی ایمرجنسی کے تحت ناگزیر صورت حال میں ہی ان کا استعمال جائز قرار دیا گیا تھا مگر پیشہ ور افراد نے ان دواؤں کا ناجائز استعمال شروع کردیا، ایسی ادویات کے لیے میڈیکل سائنس میں اسٹریو رائیڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، تمام پین کلر، درد میں فوری افاقہ لانے والی دوائیں اسی ذیل میں آتی ہیں، تمام مسکن ادویات جن کے استعمال سے مریض فوری طور پر نیند کی آغوش میں پہنچ کر اپنی تکالیف کو فراموش کر بیٹھتا ہے، ایسی ہی ہیں اور آج کے دور میں کارٹی زون نے بھی اس حوالے سے بہت شہرت پائی ہے، اس کے بارے میں ہر اچھا ڈاکٹر جانتا ہے کہ اس کا زیادہ استعمال نہایت مضر صحت اور خطرناک ہے لیکن اپنی پریکٹس کو چمکانے اور دواخانے کی آمدن بڑھانے کے لیے بعض غیر مخلص اور ہوس زر میں مبتلا ڈاکٹر اسے بے دریغ استعمال کرتے ہیں، مریض بھی خوش خوش گھر چلا جاتا ہے کہ اسے فوری آرام مل گیا۔
ایسی دواؤں کا ایک اور استعمال نہایت خطرناک صورت میں سامنے آیا ہے اور وہ ہر مرض کی پیٹنٹ ادویات بناکر اشتہارات کے بل بوتے پر دوائیں فروخت کرنے والی کمپنیوں نے متعارف کرایا ہے، یہ کمپنیاں بھی صرف اسی وجہ سے کہ پہلی ہی خوراک مریض پر اثر دکھا دے اور وہ ان کی پیش کردہ پروڈکٹ کے دام میں پھنس جائے اس طرح اصل بیماری قائم رہتی ہے ، صرف کچھ عرصے کے لیے یا کچھ وقفے کے لیے مریض کو تکلیف سے نجات مل جاتی ہے، کارٹی زون کے بارے میں تو یہ بات بھی تجربے میں آئی کہ جو مریض اس کا عادی ہوجائے پھر اس پر کوئی اور دوا اثر نہیں کرتی، اسے صرف کارٹی زون ہی سے آرام آئے گا مگر بالآخر یہ مریض کو قبر تک پہنچا کر ہی دم لیتی ہے، یہی صورت حال اینٹی بایوٹک ادویات کے بے تحاشا اور اندھا دھند استعمال کی ہے،مشہور میڈیسن ڈیلٹا کارٹیئل میں کارٹی زون موجود ہے۔
کچھ عرصہ پہلی کی بات ہے حیدرآباد میں کوئی صاحب چینی کی پڑیا بانٹ رہے تھے اور دعویٰ یہ تھا کہ اس سے شوگر کا مرض ختم ہوجاتا ہے، لوگ جوق در جوق چینی لینے حیدرآباد جارہے تھے،ہمارے بھی چند واقف وہ چینی استعمال کرچکے ہیں، ایک صاحب نے پوچھنے پر بتایا کہ پڑیا کھانے کے فوراً بعد شوگر نارمل ہوجاتی تھی مگر بعد میں پھر شوگر بڑھ گئی، یہ شعبدہ بھی ایسی ہی ادویات کے استعمال کا نتیجہ تھا جو چینی میں ملادی جاتی تھیں۔
ایک مشہور بوٹی ’’گڑمار‘‘ کہلاتی ہے، اس کے پتے چبانے کے بعد اگر آپ کوئی میٹھی چیز کھائیں تو پھیکی معلوم ہوگی، اس کا سفوف یا جو شاندہ وغیرہ فوراً شوگر کو کم کرتا ہے، طب یونانی میں یہ شوگر کے علاج میں بھی استعمال ہوتی ہے مگر یہ شوگر کا مستقبل علاج نہیں ہے، ہومیو پیتھی میں بھی اس بوٹی سے ایک دوا بنائی گئی ہے اور وہ بھی شوگر کو کنٹرول کرنے میں مددگار ہوتی ہے، الغرض ایسی تمام دوائیں جو مرض کی شدت کو عارضی طور پر کم کرکے مریض کو وقتی سکون پہنچاتی ہیں، اصطلاحاً ’’اسٹریو رائیڈز‘‘ کہلاتی ہیں، ان سے یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ وہ مرض کو جڑ سے ختم کردیں لیکن لوگ اب اسی طریقہ علاج کو بہتر سمجھنے لگے ہیں اور اس کے عادی ہوچکے ہیں، اگر کسی معالج کی دوا فوری کوئی فائدہ نہ دکھائے تو وہ فوراً معالج بدلنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں لہٰذا پیشہ ور معالج بھی مجبور ہیں کہ مریض کو روکنے اور اپنے روزگار کو استحکام دینے کے لیے ایسے ہتھکنڈوں کا سہارا لیں۔
بخار ایک عام مرض ہے اور اس کی بہت سی قسمیں ہیں جن میں سے بعض نہایت خطرناک ہیں اور اس کو فوراً اتارنا خطرناک تصور کیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں بہتر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس کا زور فوراً توڑ دیا جائے، ہم نے دیکھ اہے کہ اکثر چھوتے بچے کم عمری میں جب بخار کا شکار ہوتے ہیں تو ماں باپ محبت سے مجبور ہوکر کسی فوری زود اثر علاج کی طرف رجوع کرتے ہیں اور عام ایلوپیتھ ڈاکٹر بھی ان کی بے چینی کو دیکھتے ہوئے فوراً اینٹی بائیوٹک ادویات کا سہارا لیتے ہیں، نتیجتاً بخار تو فوراً اتر جاتا ہے لیکن ایسے بچے بعد میں پولیو یا کسی مہلک بیماری کا شکار ہوکر ساری عمر معذوری میں گزارتے ہیں۔
اس تمام سمع خراشی کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ لوگوں میں علاج معالجے اور امراض کے سلسلے میں شعور اجاگر کیا جائے جو حقیقی شفا بخشی کے عمل کے لیے ضروری ہے، انہیں یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ پیچیدہ امراض کا علاج کسی ایک دوا سے صرف چند روز میں ممکن نہیں، حالاں کہ ایلوپیتھک علاج کے دوران میں اکثر بیماریوں میں مریضوں کو طویل عرصے تک اور بعض صورتوں میں عمر بھر دوائیں استعمال کرنا پڑتی ہیں اور پھر بھی صرف عارضی روک تھام ہی ہوسکتی ہے اور اس سلسلے میں وہ جو دوائیں مستقل استعمال کر رہے ہیں ان کے سائیڈ افیکٹ کچھ دیگر جسمانی اعضا کو نقصان پہنچا رہے ہیں، کچھ نئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں تب بھی وہ اس بات پر راضی نہیں ہوتے کہ کسی دوسرے طریقہ علاج کو مستقل مزاجی سے آزمائیں اور اس راستے میں اگر کچھ تکلیفیں انہیں برداشت کرنا پڑتی ہیں تو تھوڑے دن کے لیے برداشت کرلیں، اس سلسلے میں خصوصاً لوگوں کو ہومیو پیتھی سے یہ شکایت نظر آتی ہے کہ وہ مرض کو بڑھاتی ہے اور یہ بات ناقابل برداشت ہے، اس اعتراض کا جائزہ لینے کے لیے دونوں طریقہ علاج کے بنیادی نظریات کو جاننا اور سمجھنا ضروری ہے۔
ایلو پیتھی اور طب یونانی یا آیورویدک طریقہ علاج ’’علاج بالضد‘‘ کہلاتے ہیں یعنی جسم کا جو حصہ بیماری سے متاثر ہوتا ہے، اس طریقہ علاج میں دواؤں کے ذریعے اس کو ہدف(ٹارگٹ) بنایا جاتا ہے یعنی جگر، معدہ، گردے یا کوئی بھی جسمانی عضو جو بیماری سے متاثر ہے اور مریض کے لیے وہ بیماری تکلیف و پریشانی کا سبب ہے تو صرف اس حصے کے علاج پر زور دیا جاتا ہے جب کہ ہومیو پیتھی کے نظریات اور طریقہ علاج اس کے بالکل برعکس ہیں۔
ہومیو پیتھی کو ’’علاج بالمثل‘‘ کہا جاتا ہے یعنی کسی مریض کا علاج ایسی دوا سے کیا جائے جس کے مسلسل استعمال سے ایک صحت مند آدمی ویسے ہی عارضے میں مبتلا ہوسکتا ہے جو اس دوا سے منسوب ہے ، مثلاً ’’گڑماربوٹی‘‘ کا خام شکل میں استعمال لبلبے کی خرابی کا سبب بن سکتا ہے اور انسان شوگر (ذیا بطیس) کی بیماری میں مبتلا ہوسکتا ہے تو اس کے علاج کے لیے گڑمار بوٹی ہی نہایت قلیل و لطیف مقدار میں استعمال کرائی جائے گی، اس نظریے کے تحت کسی مخصوص مرض یا جسمانی عضو کا علاج نہیں ہوتا بلکہ مکمل مریض کا علاج ہوتا ہے، یہی وہ نکتہ ہے جو شفا بخشی کے حقیقی اصولوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے، وہ دوا جو صرف کسی ایک مرض کا علاج کرنے کے لیے دی جارہی ہے اور مزید چار نئے امراض پیدا کر رہی ہے، کسی صورت بھی مکمل شفا کے قانون پر پوری نہیں اترسکتی، ہاں وہ دوا جو مریض کے پورے ذہنی، جسمانی اور روحی سسٹم پر اثر انداز ہوکر اصلاح کے عمل کا آغاز کر رہی ہے، اس سے امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ مکمل شفا بخشی دے اور مزید کوئی نئی خرابی پیدا نہ ہونے دے، اپنے اس مشن کی تکمیل کے لیے اگر وہ جسم سے کچھ فاسد مادوں کے اخراج پر زور دیتی ہے اور اس کے نتیجے میں بخار مزید تیز ہوجاتا ہے، نزلہ بڑھ جاتا ہے، جسم پر جلدی امراض ظاہر ہوجاتے ہیں یا مریض کو اسہال شروع ہوجاتے ہیں تو یہ صحت مندی کی طرف جانے کی علامات ہیں، نہ یہ کہ گھبراکر علاج ہی چھوڑ دیا جائے اور ان فاسد مادوں کے اخراج کو روکنے کی کوشش کی جائے، یہاں یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ ایسی کسی صورت میں جب بخار، موشن شدید ہوجائیں تو مریض کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے یا جسم پر پھوڑے پھنسی کی نمو اس کے لیے عذاب بن سکتی ہے یا کسی بھی مرض کے علاج میں مرض کی شدت بہر حال تکلیف دہ ہوتی ہے تو ہم یہ وضاحت کردیں کہ اگر کسی ہومیو پیتھک دوا کے استعمال سے ایسی صورت پیدا ہو تو وہ زیادہ عرصہ نہیں رہتی اور خطرناک ہر گز ثابت نہیں ہوتی، دوسری بات یہ کہ اسے پھر ہومیو پیتھک دوا ہی سے کنٹرول بھی کرلیا جاتا ہے، اس طرح کوئی مہلک مرض بالآخر اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے، یاد رکھیے کہ اصول یہی درست ہے کہ بیماری اندر سے باہر کی طرف آجائے نہ یہ کہ بیماری اندر ہی دب کر رہ جائے۔
جسمانی اعضاء کا علاج یا جسم مثالی کا علاج
اب تک کی گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ عام قارئین کو صحیح صورت حال کا اندازہ ہوسکے، یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ عام اور سادہ بیماریوں اور خاص یا پیچیدہ بیماریوں کے علاج میں فرق کو سمجھا جاسکے، جب تک اس فرق کو نہیں سمجھا جائے گا، پیچیدہ بیماریوں پر قابو پانا مشکل ہوگا بلکہ یہ بیماریاں مزید مشکل اور بھیانک شکل اختیار کرتی رہیں گی اور لوگ سحرو جادو یا آسیب و جنات کے چکر میں گرفتار ہوتے رہیں گے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جب کوئی معمولی سے معمولی بیماری بھی طویل عرصے تک انسان کے پیچھے لگی رہے اور ہر قسم کے علاج معالجے کے باوجود اس سے پیچھا نہ چھوٹے تو سادہ مزاج عام لوگ تو کجا، بڑے بڑے تعلیم یافتہ اور جہاں دیدہ افراد بھی الجھن میں پڑجاتے ہیں، ان کا ذہن فوراً کسی نادیدہ ماورائی اثر کی کار فرمائی کے بارے میں سوچنے لگتا ہے، یہی صورت حال اس وقت بھی ہوتی ہے جب انسان گردش وقت کا شکار ہوکر یا اپنی کوتاہیوں، حماقتوں وغیرہ کے سبب زوال پذیر ہوتا ہے اور اس کی بہتری کے لیے کیے گئے تمام اقدام بے کارو بے فیض ہوتے چلے جاتے ہیں لہٰذا وہ یہ سوچنے لگتا ہے کہ اس کی بدقسمتی اور ناکامیوں کا سبب یقیناً کوئی جادوئی یا ماورائی چکر ہے، ایسے موقع پر فوری طور سے وہ لوگ ذہن میں آنے لگتے ہیں جن سے کوئی پرانی چپقلش، محاذ آرائی وغیرہ موجود ہو یا کبھی کسی مسئلے پر ان سے کوئی بدمزگی وغیرہ ہوئی ہو، مزید سونے پر سہاگہ یہ کہ ان مفروضہ حریفوں میں کسی کو شوق عملیات و نقوش بھی ہو، یہ کام خواہ وہ اپنے ہی مسائل کے حل کے لیے کرتے یا کراتے ہوں لیکن شک و شبے کے معاملے میں سرفہرست وہی ہوتے ہیں۔
ہمارے ملک کے نام نہاد روحانی معالجین نے بھی اپنی پیشہ ورانہ مجبوریوں کے تحت مستقل طور پر یہ روش اپنالی ہے کہ ہ رپریشان حال یا ہر قسم کے بیمار پر سحروجادو، بندش و آسیبی اثر کا فتویٰ صادر کردیتے ہیں، ہمارے پاس آنے والے اکثر افراد اور ہمیں موصول ہونے والی بے شمار ڈاک سے ہمیں اس صورت حال کا پتا چلتا رہتا ہے کہ معاملہ خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہو، نام نہاد روحانی معالج اسے بندش آسیب وغیرہ ہی قرار دیتے ہیں، اگر وہ ایسا نہ کریں تو پھر کیا کریں؟ روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر، کیوں کہ میڈیکل سائنس سے وہ ناواقف، نفسیات اور مابعدالنفسیات کا انہیں کوئی علم نہیں، روحانیات کے نام پر ان کا مخصوص حلیہ اور ان کے زبانی دعوے کافی ہیں، ذرا سوچیے آج سے ڈیڑھ دو سو سال قبل اگر موجودہ دور کے سائنسی کمال پیش کیے جاتے تو کیا یہ ماہر روحانیات انہیں سحروجادو اور آسیب و جنات کے سوا کوئی اور نام دے سکتے تھے؟
جہاں علم نہ ہو اور عقل محدود ہوکر رہ جائے وہاں ایسے ہی معاملات سامنے آتے ہیں، بقول مولانا حسرت موہانی۔
خرد کا نام جنون رکھ دیاجنون کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
قصہ مختصر یہ کہ ننانوے فیصد آسیب و جنات اور سحروجادو کے کیسوں میں کم علمی اور ناقص العقلی کارفرما ہوتی ہے اور یہ کارفرمائی اکثر اوقات عجیب رنگ دکھاتی ہے یعنی ایک عام سی بیماری یا پریشانی کا معاملہ غلط تشخیص اور غلط علاج کے سبب بگڑتے بگڑتے واقعی آسیبی یا سحری ہوجاتا ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ کسی ذہنی یا جسمانی مرض میں مبتلا مریض جو پہلے ہی اپنی ذہنی و جسمانی توانائی میں کمزوری کا شکار ہوتا چلا جارہا ہو، اسے جب روحانی علاج کے نام پر جھاڑ پھونک اور عملیات و تعویذات کے زیر اثر لانے کی کوشش کی جائے گی تو وہ ان کے زیر اثر آجائے گا، اب اگر اس پر سحری اثرات نہیں تھے تو ہوگئے، ہم نے ہومیو پیتھک طریقہ علاج کے حوالے سے ’’علاج بالمثل‘‘ کے اصول کی وضاحت کی تھی، اس اصول کی بنیاد یہی ہے کہ ایک صحت مند شخص جب ذہنی، روحی یا جسمانی طور پر کسی بیرونی مادی یا ماورائی شے کے زیر اثر آتا ہے تو اس کی روح یا جسم متاثر ہوکر ردعمل ظاہر کرتے ہیں، ہومیوپیتھی کے بانی ہنی مین نے اس حقیقت کا تجربہ سب سے پہلے اپنی ذلت پر کیا تھا، اسے معلوم تھا کہ کونین ملیریا کے علاج کے طور پر استعمال ہوتی ہے لہٰذا اس نے کونین کھانا شروع کردی، تھوڑے ہی دن میں اسے ملیریا ہوگیا یعنی اس کے جسم میں وہی علامات ظاہر ہونے لگیں جو ملیریا کے مریض میں ظاہر ہوتی ہے، یہ وہ پہلا تجربہ تھا جس نے علاج بالمثل یعنی ہومیو پیتھی کی بنیاد رکھی، اس کے بعد ہنی مین نے کونین ہی سے اپنا علاج کیا، اس کی ایک نہایت قلیل اور لطیف مقدار استعمال کرنا شروع کی، نتیجتاً وہ علامات ختم ہوگئیں جو کونین کی زیادہ مقدار ایک صحت مند جسم میں داخل ہونے سے پیدا ہوگئی تھیں۔
اس مثال سے قارئین نے سمجھ لیا ہوگا کہ اندھا دھند طریقوں پر علاج کے کیا نتائج سامنے آسکتے ہیں، آج ہمارے معاشرے میں پیچیدہ ترین بیماریوں کی بھرمار کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ مرض کی صحیح تشخیص نہیں ہوپاتی اور اس کا غلط علاج شروع کردیا جاتا ہے اور ایسا خصوصاً عطائی ڈاکٹروں، نیم حکیموں اور نام نہاد روحانی معالجین کی ہوس زر کی وجہ سے ہوتا ہے۔
جہاں تک مادی طریقہ علاج کا تعلق ہے اس سے متعلق مسائل کا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں لیکن روحانی علاج معالجے کا معاملہ نہایت نازک ہے، اس کے لیے معالج کا علم نہایت وسیع ہونا ضروری ہے اور یہ وسعت صرف کسی ایک علم تک محدود ہو ناکافی نہیں، ہمارے ہاں تو رواج ہوگیا ہے کہ روحانی معالج کی قابلیت اور علمیت کے بارے میں کسی چھان پھٹک کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی، صرف ان کے دعوؤں کی بنیاد پر لوگ ان کے ٹھکانوں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں، جیسا کہ ہم نے حیدرآباد میں چینی کی پڑیا والا واقعہ بیان کیا ہے یا پھر صرف اس بات پر اطمینان کرلیا جاتا ہے کہ معالج صاحب نمازی پرہیزگار اور بزرگ صورت ہیں، ہمیں اس سے انکار نہیں کہ اللہ کے نیک بندے روحانی قوتوں سے سرفراز ہوتے ہیں، جن کی زبان میں اثر ہوتا ہے، شیطانی قوتیں ان کے سامنے نہیں ٹک سکتیں مگر جہاں مسئلہ خود انسان کے اپنے اعمال بداور غلط کاریوں سے یا معاشرتی خرابیوں سے، ذہنی اور نفسیاتی پیچیدگیوں سے وجود میں آیا ہو اور اتنا پیچیدہ ہوچکا ہو کہ خود انسان کے شیطان بننے کے آثار پیدا ہوچکے ہوں، وہاں عام قسم کی روحانی قوتیں کیا کریں گی؟ موجودہ دور میں ولی کامل ہونے کے دعوے دار تو بہت ہیں مگر حقیقی ولی کامل کوئی نظر نہیں آتا لہٰذا یہ توقع رکھنا فضول بات ہوگی کہ کوئی ولی کامل مل جائے اور پلک جھپکتے میں سارے مسائل حل کردے، ہر بیماری کا علاج کردے۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی لیکن اس طرح کے موضوعات میں اس طرح تو ہوتا ہے، ہم اپنے اس مؤقف کا اظہار کرچکے ہیں کہ تمام مروجہ طریقہ علاج جو علاج بالضد کے اصول پر کام کرتے ہیں، پیچیدہ بیماریوں کے علاج میں ناکام ہیں۔(پیچیدہ بیماریوں میں سحری اور آسیبی امراض شامل ہیں) لیکن وہ طریقہ علاج جو علاج بالمثل کے اصول پر قائم ہوں صرف ان ہی سے حقیقی شفا بخشی کی امید رکھی جاسکتی ہے، ایسے طریقہء علاج صرف وہی ہوسکتے ہیں جو فطرت کے اصولوں سے ہم آہنگ ہوں اور انسانی تخلیق کے فارمولے کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کیے گئے ہوں، اس سلسلے میں سرفہرست پیراسائیکالوجی کی مختلف شاخیں اور ہومیو پیتھک طریقہ علاج ہے۔
پیرا سائیکالوجی کے حوالے سے ہم گزشتہ سالوں میں وقتاً فوقتاً بہت کچھ لکھتے رہے ہیں اور ہومیو پیتھی کے حوالے سے بھی مختصراً اظہار خیال کیا ہے، ہمارے قارئین کے ذہن میں سوال ضرور ابھرتا ہوگا کہ ہم پیراسائیکالوجی کے بعد ہومیوپیتھی کو کیوں اتنی اہمیت دیتے ہیں لہٰذا اس کی تھوڑی سی وضاحت کردی جائے۔
روحانی سائنس کا ہر طالب علم یہ بات جانتا ہے کہ انسان کا جسم براہ راست مرض کا شکار نہیں ہوتا بلکہ کسی بھی خرابی کی ابتدا سب سے پہلے اس کے ہمزاد یا جسم مثالی سے ہوتی ہے اور اس کا ظہور انسانی جسم پر ہوتا ہے لہٰذا پیراسائیکالوجی بنیادی طور پر انسان کے جسم مثالی کی اصلاح پر توجہ دیتی ہے۔ اگر جسم مثالی کی خرابیوں کو دور کردیا جائے تو ہر قسم کے جسمانی عارضے خود بخود ختم ہوجاتے ہیں، اس سلسلے میں پیراسائیکولوجی کے اپنے اصول و قواعد ہیں جن کے تحت علاج معالجے کے بے شمار طریقے موجود ہیں، ہومیو پیتھی کے بنیادی اصول اور ہومیو پیتھک دوا کی لطافت ہمارے نزدیک وہ اہم حقیقت ہے جس پر غوروفکر ضروری ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انسان کا جسم مثالی کوئی مادی شے نہیں ہے اور غیر مادی شے پر مادی شے مؤثر نہیں ہوسکتی ، جسم مثالی کی لطافت کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ لطیف ترین طریقہ علاج اپنایا جائے جو پیراسائیکولوجی کے بعد ہومیو پیتھی ہی ہے، خیال رہے کہ ہم کلر تھراپی کو بھی پیراسائیکولوجی کی ایک شاخ تصور کرتے ہیں۔
ہومیو پیتھک دوا اونچی طاقت میں اپنا مادی وجود کھودیتی ہے، صرف اس کا روحی اثر باقی رہتا ہے،ا س کی یہی لطیف ترین شکل ہمارے جسم مثالی یا ہمزاد پر مؤثر ہوسکتی ہے اور اس میں پیدا شدہ خرابی کو دور کرسکتی ہے۔