قدیم و جدید نظریات کی روشنی میں ایک مطالعاتی جائزہ
علم نجوم، علم الاعداد اور علم جفر باہم ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ انہیں الگ الگ نہیں کیا جا سکتا اور بلکل اسی طرح جواہرات کا علم بھی مندرجہ بالا تینوں علوم سے کسی نہ کسی طرح وابستہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام علوم، شجرِِِ علمِ فلکیات کی مختلف شاخیں ہیں۔ اگر علم نجوم (Astrology)کو شاخ کے بجائے جڑ کہا جائے تو کچھ ایسا غلط نہیں ہو گا کیونکہ علم الاعداد، علم جفر اور پتھروں کے استعمال کا فن کسی نہ کسی طور پر علمِ نجوم (Astrology) کا محتاج ہے۔
علم الاعداد میں اصل عدد ایک سے نو تک ہیں اور سب ہی کسی نہ کسی سیارے سے وابستہ ہیں۔ اعداد کے اثرات و خواص جاننے کے لیے سیارگان سے ان کی نسبت کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے۔ یہی صورت علم جفر میں بھی ہے۔ تمام حروف اور ان سے تشکیل پانے والے نام کسی نہ کسی طرح سیارگان سے جڑے ہوئے ہیں۔ پھر تمام اعمال جفر اوقات سیارگان کے پابند ہیں۔ مختصر یہ کہ وقت جو ہماری دنیا کی اور اس سے بھی آگے بڑھ کر اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے، اسی گردش سیارگان کی بدولت ہے۔ اگر چاند، سورج اور دیگر سیارگان ساکت ہوتے، اپنے اپنے دائروں میں اور اپنے اپنے محور پر گردش نہ کر رہے ہوتے تو پھر یہ صبح شام، بہار و خزاں، سردی اور گرمی وغیرہ کچھ بھی نہ ہوتا۔ سیارگان کی اپنی خصوصیات اور اثرات کے ساتھ ان کی گردش کی خصوصیات و اثرات ہی دراصل علم نجوم (Astrology) کا موضوع ہے۔
علم نجوم قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے جو زندگی کے اونچے نیچے ناہموار راستوں پر انسان کی بہترین رہنمائی کرتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتاتا ہے کہ ہم اپنی مشکلات پر کس طرح قابو پا سکتے ہیں۔ صرف یہ تصور غلط ہے کہ ایسٹرولوجی حال، ماضی اور مستقبل سے آگاہی کا علم ہے یا یہ کہ فلکیاتی صورت حال کی ترجمانی کا علم ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسٹرولوجی ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ہم کس طرح سیارگان کی توانائیوں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ پتھر، حروف، اعداد، دھاتیں اور جڑی بوٹیاں سیارگان کی توانائی کے حصول میں مددگار و معاون ہیں۔
ممکن ہے ہماری یہ بات جدید ذہن رکھنے والے بہت سے لوگوں کو عجیب یا کچھ ماورائی اور پراسرار لگے تو حقیقت یہ ہے کہ آج کے زمانے میں بہت سی سائنسی ایجادات بھی ایک عام آدمی کے لیے خاصی پراسرار اور ماورائی ہو چکی ہیں۔ وہ لوگ جو کسی بھی سائنسی ایجاد کی بنیادی ٹیکنیک سے واقف نہیں ہیں، ان کے لیے تو ایک اعلٰی درجے کا موبائل فون سیٹ بھی نہایت پراسرار ہے۔
سیاروی توانائی سے کام لینا یا اسی توانائی کے ناقص اثر کو زائل کرنا بھی ایک فن ہے جو یقیناً کسی عام آدمی کو ایک جادوئی یا طلسماتی عمل معلوم ہوتا ہے لیکن درحقیقت یہ بھی ایک سائنس ہے۔ پتھر پہننا یا کچھ دوسرے طریقے جن میں عبادات اور صدقہ و خیرات بھی شامل ہیں، بعض لوگوں کے لیے بے معنی ہو سکتے ہیں لیکن جو لوگ باطنی سائنس سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ان کی اثر پذیری اپنی جگہ اٹل ہے۔ ان طریقوں پر عمل کر کے ہم دائرہ قبولیت کو مزید وسعت دے سکتے ہیں۔ گویا اپنی کارکردگی کا معیار بڑھا سکتے ہیں۔ بعض الواح و طلسم جو مخصوص اعداد، حروف اور دھاتوں یا پتھروں کی مدد سے سیارگان کے مخصوص اوقات میں تیار کیے جاتے ہیں، ایک خاص اثر اپنے اندر رکھتے ہیں اور وہ اثر انہیں استعمال کرنے والے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ وہ اس اثر کو واضح طور پر محسوس بھی کرے۔
علم نجوم میں یا ہم یوں کہیں کہ کسی شخص کے پیدائشی زائچے (Birth Chart) میں سیارگان کی پوزیشن دو طرح کی ہوتی ہے۔ اول ہم کسی سیارے کو مضبوط یا طاقت ور کہتے ہیں یا پھر اسے کمزور اور بے اثر کہتے ہیں۔ دوئم اس کی حیثیت ایک سعد اور خوش بختی لانے والے کی قرار دی جاتی ہے یا پھر منحوس اور تباہ کن اثرات رکھنے والے کی سمجھی جاتی ہے۔ کسی بھی سیارے کی اچھی یا بری پوزیشن کسی شخص کے انفرادی زائچے کو دیکھ کر ہی طے کی جا سکتی ہے لیکن ہمارے ملک میں بلکہ دنیا بھر میں کاروباری ضروریات کو مد نظر رکھ کر ایسے طریقے رائج کر دیے گئے ہیں جو بنیادی علمی اصولوں کے خلاف اور اکثر نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً مغرب میں اور ہمارے ملک میں صرف شمسی برج (Sun Sign) کی بنیاد پر کوئی پتھر تجویز کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً برج حمل والوں کو روبی، مرجان، سرخ عقیق وغیرہ پہننے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ برج ثور والوں کو ڈائمنڈ، امریکن زرقون یا کیٹ آئی تجویز کر دیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ بلکل غلط اور ناقابل اعتبار بلکہ کبھی کبھی سخت نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
انڈیا جو علم نجوم اور ایسے ہی دیگر علوم کا گڑھ سمجھا جاتا ہے وہاں بھی کاروباری مصلحت کے پیش نظر اب یہی طریقہ مشہور ہو رہا ہے۔ ٹی وی چینلز پر ایسے اشتہارات عام ہو گئے ہیں جس میں شمسی برج کی بنیاد پر پتھر تجویز کیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ ہندی جوتش یعنی ویدک ایسٹرولوجیکل سسٹم کے تحت شمسی برج (Sun Sign) کی تو اس حوالے سے کوئی اہمیت ہی نہیں ہے بلکہ ویدک سسٹم میں پیدائشی برج (Birth Sign) جسے ہندی میں لگن راشی کہا جاتا ہے، سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس کے بعد مون سائن جسے ہندی میں چندر لگن یا جنم راشی بھی کہتے ہیں، بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یونانی سسٹم میں بھی پیدائشی برج اور مون سائن دونوں اہم ہیں اور پتھر تجویز کرتے ہوئے اسی کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں تو کسی بات کا کوئی خیال ہی نہیں رکھا جاتا اور آج کل ٹی وی چینلز پر ایسی ہی روایات عام نظر آتی ہیں جن کا علمی بنیاد پر کوئی سر پیر ہی نہیں ہے۔ کوئی علم جفر کے ذریعے پتھر بتا رہا ہے تو کوئی علم الاعداد کے ذریعے،کوئی نام کا پہلا حرف پکڑے بیٹھا ہے۔ بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جو علمی اصولوں پر سمجھوتا کیے بغیر درست پتھر یا علاج تجویز کریں۔ اس کے نتیجے میں لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور با لآخر ان کا اعتبار بھی ختم ہوتا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر ہم نے اس موضوع پر گفتگو کا آغاز کیا ہے۔
پتھروں سے علاج
ایسٹرولوجیکل علاج معالجے میں پتھروں کا استعمال ایک محفوظ اور مفید طریقہ ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ قیمتی پتھر محض کمزور سیارگان کو تقویت پہنچانے کے ہی اہل ہوتے ہیں، ان کے ناقص اثرات کو زائل نہیں کر سکتے،اس کام کے لیے مخصوص الواح و نقوش پر ہی انحصار کرنا پڑے گا لہذا انہیں اس وقت استعمال نہیں کرنا چاہیے جب پیدائشی زائچے میں مطلوبہ پتھر سے متعلق سیارہ عارضی یا دائمی نحس اثرات رکھتا ہو۔ اس کی یہ نحوست زائچے کے گھروں کے لحاظ سے ہو یا برج کے لحاظ سے یا وہ ہبوط یافتہ ہو یا تحت الشعاع ، ہر دو صورتوں میں اس سیارے کا مخصوص پتھر نقصان کا باعث ہوسکتا ہے کیوں کہ جب وہ اس کی طاقت میں اضافہ کرے گا تو پہننے والے کو کسی نہ کسی بڑے نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے۔ مثلاً پیدائشی برج دلو اور قوس والوں کے لیے سیارہ قمر کا پتھر اور خود زحل کا پتھر نقصان دہ ہو سکتا ہے کیونکہ برج دلو سے سرطان چھٹا گھر ہے اور برج قوس سے سرطان آٹھواں گھر ہے۔ لہذا قمر دلو والوں کے زائچے میں نحس گھروں کا مالک ہے۔ وہ زائچے کے خواہ کسی گھر میں بھی ہو۔ اس گھر کی منسوبات کو نقصان پہنچائے گا۔ اگر قمر کا پتھر پہنایا گیا تو اس کی نقصان دہ قوت میں مزید اضافہ ہو گا۔ اسی طرح برج دلو سے آٹھواں گھر سنبلہ ہے لہٰذا سیارہ عطارد کا پتھر سخت نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے،حالاں کہ عطارد پانچویں سعد گھر کا بھی حاکم ہے۔
یہاں ہم چند بنیادی اصول بیان کریں گے جو پتھر استعمال کرتے ہوئے مدِ نظر رکھنا ضروری ہیں تاکہ کسی بڑے نقصان سے بچا جا سکے۔
سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ طالع پیدائش (Birth Sign) کا مالک سیارہ طاقتور ہے یا کمزور اور زائچے کے اچھے گھروں میں ہے یا خراب گھر میں؟ اگر وہ کمزور ہے تو اس کی طاقت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ خراب یعنی نحس گھروں میں نہ ہو، ایسی صورت میں اس کی طاقت میں اضافہ کرنا خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ مثلاً جو سیارہ زائچے کے چھٹے، آٹھویں یا بارہویں گھر میں ہو تو اس کی طاقت میں اضافہ بیماری، دشمنی، کوئی حادثہ یا مالی نقصانات لا سکتا ہے۔
زائچے کے چھ، آٹھ اور بارہ گھر انتہائی منحوس تصور کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد زائچے کے تیسرے، گیارہویں اور دوسرے گھر کے سلسلے میں بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان گھروں کے حاکم مسائل اور رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ لہذا ان کی قوت میں اضافہ بہت دیکھ بھال کر کرنا چاہیے،خاص طور پر اگر ان میں سے کوئی چھ، آٹھ یا بارہ گھروں میں ہو تو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، ایسی صورت میں پتھروں سے کام لینے کے بجائے کچھ دوسرے طریقے استعمال کرنا زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے۔
زائچے کے انتہائی طاقتور اور سعد گھر پانچ اور نو ہیں۔ ایک، چار، سات اور دس نمبر گھر بھی نہایت اہم اور طاقتور ہیں لیکن ان چاروں گھروں کے حاکموں کی زائچے میں پوزیشن کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہوگا۔ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ سعد گھروں کے حاکم نحس گھروں میں تو نہیں ہیں۔ مثلاً پانچ اور نو اگرچہ سعد گھر ہیں مگر ان کے حاکم اگر چھ، آٹھ یا بارہ گھر میں بیٹھے ہوں تو بھی ان کی طاقت میں اضافہ کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ یہاں ہم ایک مثالیہ پیش کر رہے ہیں۔ جس سے زائچے کی بنیادی حیثیت اور کیفیت پر روشنی پڑتی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اس طرح ہمارے پڑھنے والے نہ صرف یہ کہ زائچے کو سمجھ سکیں گے بلکہ قیمتی پتھروں کے درست استعمال سے بھی واقف ہو سکیں گے۔
ہم زمینی ظہور اور کائناتی توانائی کی درست تقرری کے لیے پیدائشی زائچے کو ایک نقشے کی طرح دیکھنا پسند کرتے ہیں گویا کسی شخص کا زائچہ کائناتی توانائیوں کے توازن اور عدم توازن کا بہترین اظہار کرتا ہے اور ہم اس زائچے کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ جان سکتے ہیں کہ صاحب زائچہ کون سی خوبیوں اور کون سی خامیوں کا مالک ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ زائچے کے بارہ گھر انسانی زندگی کے تجربات کی بارہ راہداریاں ہیں جو سات سیاروی مشعلوں سے روشن ہوتی ہیں اور یہ سب روشنیاں کسی بنیادی توانائی کا ظہور ہیں۔ ہم ان روشنیوں کو حسب ضرورت خرچ کرتے رہتے ہیں۔ ہر سیارے کو کوئی مخصوص راہداری الاٹ ہوتی ہے اور وہ اس کی اچھی یا بری، کمزور یا طاقتور روشنی کے مطابق روشن ہوتی ہے۔ اس راہداری میں روشنی کے معیار اور مقدار کا اندازہ سیارے کی اچھی یا بری پوزیشن سے لگایا جاتا ہے۔
زائچے کی یہ بارہ راہداریاں ایک ملا جلا ماحول رکھتی ہیں۔ کسی راہدرای میں موجود سیارہ اپنی بھرپور توانائی کا اظہار کر رہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ راہداری خوب روشن اور خوش نما ہو جاتی ہے۔ جب کہ کسی راہداری میں کوئی دوسرا سیارہ اپنی کم توانائی کے سبب کم روشنی دیتا ہے۔ لہذا اس راہداری میں دھندلاہٹ یا کبھی کبھی مکمل تاریکی ہوتی ہے، اگر سیارہ بلکل کمزور اور بے حیثیت ہو۔ کسی راہداری میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی سیارہ تیز شعلوں کے ساتھ روشنی کرتے ہوئے دھواں دے رہا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہترین روشنی کے ساتھ کچھ آلودگی بھی پیدا کر رہا ہے۔
سیاروں کی یہ کیفیات زائچے کی مختلف راہداریوں میں اس بات کی متقاضی ہوتی ہیں کہ ان میں توازن اور ہم آہنگی پیدا کی جائے تاکہ زندگی کے عملی مظاہر میں بھی توازن اور ہمواری پیدا ہو سکے۔ مخصوص پتھروں سے روشنیوں کا انعکاس کسی سیارے کی کارکردگی کو بہتر بنا سکتا ہے اور عبادات یا صدقہ و خیرات ایک فلٹر کی طرح ہیں۔ جو آلودگی سے فضا کو پاک کر دیتے ہیں۔ کوئی پتھر پیدائشی زائچے میں کسی سعد سیارے کو تقویت پہنچانے کے لیے کسی وقت بھی پہنا جا سکتا ہے یا اس وقت بھی پہنا جا سکتا ہے جب اس سیارے کا دور ہماری زندگی میں چل رہا ہو۔
ٹرانزٹ میں اگر کوئی سعد سیارہ کسی اعتبار سے کمزور ہو تو اسے تقویت پہنچانے کے لیے بھی کوئی پتھر پہنا جا سکتا ہے لیکن بہرحال اوّلیت اسی نظریے کو ہے کہ جس سیارے کے اثر کو ہم طاقت ور بنانا چاہتے ہیں وہ ہمارے زائچے میں سعد اثرات کا حامل ہو۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر پتھر کا استعمال ہر گز نہ کیا جائے بلکہ اس منحوس سیارے کے اثر کو کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس سلسلے میں پتھر سے زیادہ صدقات، دعا اور ایسے نقوش و الواح استعمال کیے جا سکتے ہیں جو اس کی نحوست کے سامنے بند باندھ سکیں ، ہمارا ایک ذاتی طریقہء کار یہ بھی ہے کہ سیارے سے متعلق مخصوص دن میں نفلی روزہ رکھا جائے۔ اگر پتھر پہنانا یا پہننا ضروری سمجھا جائے تو کم از کم اس سیارے کا پتھر نہ پہنایا جائے جو فطری یا عارضی نحس ہے یعنی زائچے میں نحس گھروں کا حاکم یا قابض ہے بلکہ اس سیارے کا پتھر پہنایا جائے جو زائچے میں سعد گھروں کا حاکم یا قابض ہے، فطری یا عارضی طور پر سعد ہے کیونکہ اس کی قوت میں اضافہ منحوس سیارے کی نحوست کا زور توڑ دے گا ، صاحبِ زائچہ کو اضافی توانائی مہیا کرے گا۔
شمس و قمر تمام سیارگان میں سب سے زیادہ مؤثر اور باقوت سیارے ہیں۔ اگر یہ زائچے میں نحس گھروں کے حاکم یا قابض نہ ہوں بلکہ سعد گھروں کے حاکم یا قابض ہوں تو ان کا منسوبی پتھر بہت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی نحس سیارے کی نحوست کا اثر کم کر سکتے ہیں۔ خواہ وہ زحل اور مریخ ہی کیوں نہ ہوں۔ اسی طرح زحل کی ساڑھ ستی کا اثر بھی زائل کیا جا سکتا ہے۔
قیمتی پتھروں کا درست انتخاب
پتھروں کا مناسب ترین انتخاب اتنا آسان نہیں ہے کہ ایک نظر میں پتھر منتخب کردیا جائے، اصولی طور پر مکمل زائچہ بنوانے کے بعد ہی دُرست پتھر منتخب کیا جاسکتا ہے مثلاً ایک شخص اپنی ذاتی صلاحیتوں میں اضافہ چاہتا ہے تو اسے اپنا برتھ اسٹون یعنی طالع برج کا پتھر پہننا چاہیے۔بشرط یہ کہ وہ کسی منحوس گھر میں مقیم نہ ہو، اگر ایک شخص تعلیمی سلسلے میں کمزور ہے تو اس کا پتھر دوسرا ہو گا یا کوئی شخص صحت کے حوالے سے کمزور ہے تو اس کا پتھر کچھ اور ہو سکتا ہے۔ اسی طرح گھریلو معاملات، جائیداد، رہائش، اولاد، زائد آمدن یا انعامی چانس، صحت، ملازمت، شادی، محبت، دوسروں سے تعلقات، بیرون ملک سفر، ذاتی کاروبار الغرض تمام معاملات کے لیے پتھر علیحدہ علیحدہ ہوسکتے ہیں۔ گویا یہ بھی ایک ایسا علاج معالجہ ہے جس میں ہر مرض کی دوا الگ ہے۔
ہمارے یہاں اسی اہم نکتے کو نظر انداز کر کے پتھر استعمال کیے جاتے ہیں بلکہ عام تصور تو یہ ہے کہ کوئی ایک پتھر سارے مسائل کا حل ثابت ہو سکتا ہے، ایسا ہر گز نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی پتھر ایسا ضرور ہو سکتا ہے جو آپ کی زندگی میں ایک بڑا انقلاب لے آئے لیکن ضروری نہیں ہے کہ وہ پتھر بھی زندگی کے ہر مسئلے کا حل ثابت ہو۔
پتھروں کے انتخاب میں اس وقت اور بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے جب ہم کسی فطری نحس سیارے کے پتھر کا انتخاب کر رہے ہوں۔ اس سے پہلے ہمیں یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ اس منحوس سیارے کی ہمارے پیدائشی زائچے میں کیا پوزیشن ہے؟ واضح رہے کہ شمس ، قمر ،زہرہ ، مشتری، مریخ اور زحل بعض صورتوں میں سخت قسم کا نحس اثر ڈال سکتے ہیں، عطارد کسی نحس سیارے کے ساتھ بیٹھا ہو تو نحس اثرات قبول کر لیتا ہے اور اگر سعد سیارے کے ساتھ بیٹھا ہو تو سعد اثرات قبول کرلیتا ہے، اگر مون ترکون کے مالکان نحس گھروں کے مالک نہ ہوں تو کسی سیارے کی قوت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے اور اس کی کمزوری کو دور کرنا فائدہ بخش ثابت ہوسکتا ہے لیکن دوسری صورت خطرناک بھی ہوسکتی ہے۔
مشتری، زہرہ اور قمر اگرچہ سعد سیارے ہیں مگر بعض صورتوں میں یہ بھی نحس اثر دیتے ہیں مثلاً مشتری اور زہرہ اگر زائچے میں نحس گھروں کے حاکم ہوں تو وہ عارضی نحس کہلائیں گے اور اپنے دور میں نحس اثر دیں گے۔ لہذا ان کی طاقت میں اضافہ نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ چاند اگر روشن یعنی پہلی سے چودہ تک کا نہ ہو تو نحس ہو جاتا ہے یا شمس کے ساتھ تحت الشعاع ہو یا پھر نحس گھروں کا حاکم یا قابض ہو۔ ایسی صورت میں چاند کا پتھر پہننا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
ایک مریضہ جو سخت بیمار تھیں۔ ہمارے پاس علاج کے لیے آئیں۔ انہوں نے سچا موتی پہنا ہوا تھا۔ چونکہ ان کا شمسی برج سرطان تھا۔ ہم نے جب ان کا زائچہ بنایا تو طالع پیدائش جدی تھا اور ساتویں گھر کا حاکم قمر چھٹے گھر میں موجود تھا۔ ان کو کسی نے ازداوجی زندگی کی خوش بختی کے لیے سچا موتی تجویز کیا تھا۔
واضح رہے کہ ساتویں گھر کا حاکم ہو کر قمر زائچے میں نحس ہو جائے گا۔ پھر یہ کہ چاند بھی زوال ماہ کا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ ان کی بیماریاں بڑھتی چلی گئیں اور صورت حال روز بروز خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ ہم نے وہ پتھر اتروایا اور اسے صدقہ کرنے کو کہا ۔اس کے بعد معقول علاج معالجے سے ان کی طبیعت سنبھل گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طالع پیدائش برج جدی تھا اور سیارہ زحل دسویں گھر برج میزان میں شرف یافتہ تھا۔ لہذا انہیں پورے اعتماد کے ساتھ زحل کا پتھر نیلم پہنا دیا گیا۔ نہ صرف یہ کہ اُن کے جسم میں توانائی بڑھ گئی بلکہ کرئیر کے معاملات میں بھی غیر معمولی ترقی ہوئی۔ وہ ایک بنک میں ملازم تھیں اور بہت عرصے سے ترقی رکی ہوئی تھی۔ نیلم پہننے کے بعد نہ صرف یہ کہ پروموشن ہوئی بلکہ مالی معاملات بھی بہتر ہوتے چلے گئے کیونکہ زحل زائچے کے دوسرے گھر دلو کا بھی حاکم تھا۔ جس کا تعلق مالی امور سے ہے۔ زائچے میں پہلے سے طاقتور تھا۔ نیلم پہننے سے اس کی طاقت میں مزید اضافہ ہوا۔
عزیزان من! امید ہے اس مثال سے بھی بات واضح ہو کر سمجھ میں آگئی ہو گی کہ پتھر پہنانے کے بنیادی اصول کیا ہیں؟