1947 میں قیام پاکستان سے متعلق جو بھی زائچے بنائے گئے ان کے بارے میں ہمارے سابقہ یا حالیہ منجمین کوئی معقول ، ٹھوس بنیادوں پر مبنی تجزیہ کبھی پیش نہیں کرسکے، پاکستان کے حالات و واقعات پر ان زائچوں کی روشنی میں پیش گوئیاں بھی ہوتی رہیں اور تجزیے بھی ہوتے رہے جو تکنیکی اعتبار سے ہر گز معیاری نہیں تھے، مختلف اوقات میں مختلف نظریات پیش کیے جاتے رہے،مثلاً جب ملک دولخت ہوا تو کہا گیا کہ پاکستان کا پیدائشی برج حمل ہے اور یہ ایک منقلب برج ہے اور منقلب بروج کو استحکام نہیں ملتا، بھارت کا برج ثور ہے یہ ثابت (Fixed sign) ہے، اس لیے مستحکم ہے، پاکستان منقلب برج کی وجہ سے دو ٹکڑے ہوگیا، دنیا میں بہت سے ممالک جن میں سرفہرست امریکا ہے ان کا طالع منقلب ہے، وہ تو ابھی تک دولخت نہیں ہوئے، جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ ڈاکٹر ایوب تاجی لاہور کے ریڈیو اعلان کی بنیاد پر طالع ثور کا زائچہ بناتے تھے ، وہ بھی کبھی پاکستان کے دولخت ہونے پر کوئی معقول دلیل پیش نہیں کرسکے، ڈاکٹر اعجاز حسین بٹ جو 14 اگست صبح 09:35 am بمقام کراچی سے طالع سنبلہ کا زائچہ بناتے تھے ان کا موقف یہ تھا کہ سنبلہ ذوجسدین (Doube body) برج ہے، تبدیلیوں کا شکار ہوتا ہے، پاکستان دولخت ہوا اور مزید بھی ہوگا، وہ آخر عمر تک اس موقف پر قائم رہے کہ پاکستان کی مزید تقسیم ہوگی اور ”گریٹر پنجاب“ وجود میں آئے گا، بہر حال اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں، اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔
حضرت کاش البرنیؒ صاحب طالع برج جوزا یونانی حساب سے پاکستان کا طالع پیدائش مقرر کرتے تھے جیسا کہ ہمارے عزیز بھائی رفعت شیخ نے بھی جو پرانے ایسٹرولرجر ہیں کہا کہ میں بھی برج جوزا کو درست سمجھتا ہوں ۔
ہمیں یاد نہیں کہ برنی صاحب مرحوم و مغفور کس بنیاد پر طالع جوزا پاکستان کا طالع سمجھتے تھے، شاید وہ قائد اعظم محمد علی جناح کی کسی تقریر کا حوالہ دیتے تھے جو ریڈیو سے نشر کی گئی تھی اور اس وقت کو اہمیت دیتے تھے لیکن طالع جوزا بھی ذوجسدین برج ہے اور صرف یہ دلیل کافی نہیں ہے کہ برج جوزا کی وجہ سے پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔
جناب پیر پگارا صاحب بھی علم نجوم سے شغف رکھتے تھے اور کراچی کے اکثر منجمین ان کے در دولت پر حاضری دیتے تھے، ایک بار روزنامہ جرا¿ت میں ہمارے کسی کالم کو پڑھنے کے بعد انھوں نے ہم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا لیکن یہ ملاقات کبھی نہ ہوسکی، پیر صاحب بھی اکثریتی رائے کے مطابق پاکستان کا پیدائشی برج حمل ہی تصور کرتے تھے۔
پاکستان کے ایک اور بہت مشہور و معروف اور طویل عمر پانے والے منجم جو راولپنڈی میں ایک ایسٹرولوجیکل انسٹی ٹیوٹ بھی چلارہے تھے بہت عجیب و غریب قسم کی پیش گوئیاں کیا کرتے تھے، لال قلعے پر پاکستان کا جھنڈا لہرانے کی پیش گوئی، اندرا گاندھی کو اکثروبیشتر دھمکیاں اور آنے والے وقت سے ڈرانے کے لیے خطوط نویسی بھی ان کی کارگزاری میں شامل ہے، تمام دیگر منجمین ان کی بزرگی کے سبب ان کا بہت احترام کرتے تھے اسم گرامی غازی منجم تھا۔
عمر کے بالکل آخری حصے میں شاید 2010 ءمیں ہمیں ایک ایسے پروگرام میں شرکت کا موقع ملا جس میں تقریباً تمام ہی پاکستان کے مشہور منجم یکجا تھے، یہ تقریب لاہور میں منعقد ہوئی ، یہ ہمارے برادر عزیز سید انتظار حسین شاہ زنجانی کے بڑے صاحب زادے سید مصور علی زنجانی کا ولیمہ تھا جو لاہور کے پی سی میں ہوا۔
اس تقریب میں جناب غازی منجم ، جناب اعجاز حسین بٹ، لاہور کے مشہور و معروف ”ماموں“ الغرض تقریباً تمام ہی منجم حضرات اس ولیمے میں شریک تھے، بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ پاکستان کے شہرہ آفاق آرٹسٹ جناب شجاعت ہاشمی بھی ایسٹرولوجی کے حوالے سے ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں اور یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ وہ پنجاب کے بہت سے منجمین کی دائی ہیں، ہم سے ان کے برادرانہ اور بے تکلفانہ مراسم ہیں، اس تقریب میں شجاعت صاحب کے ذریعے فرداً فرداً تقریباً تمام ہی منجمین سے کم یا زیادہ گفتگو رہی اور اندازہ ہوا کہ سب اپنی اپنی جگہ ایک ”سنگ میل“ ہیں اور اپنے علاوہ کسی کو کچھ نہیں سمجھتے، علمی موضوع پر گفتگو سے پرہیزکرتے ہیں، صرف اپنی پیش گوئیوں کے حوالے سے اظہار خیال کو ضروری سمجھتے ہیں، کسی نے بھی پاکستان کے زائچے کے حوالے سے اظہار خیال کرنا پسند نہیں کیا، ہمیں بڑی حیرت ہوئی۔
پاکستانی منجمین میں بھی ایک شاعرانہ بیماری ہمیں نظر آئی یعنی جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے۔
اگر علم نجوم ایک سائنسی علم ہے تو اسے جامد نہیں ہونا چاہیے اور مسلسل تحقیق و تجدید کا عمل جاری رہنا چاہیے، یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے جب علمی موضوعات پر کھل کر اظہار خیال کیا جائے، باہمی مکالمہ ہو، مزید یہ کہ اس حوالے سے دنیا بھر میں کیا ہورہا ہے اس پر بھی نظر رہے، اپنے ”سینہ گزٹ“ پر قائم و دائم رہنے والے اپنے علم کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتے۔
نیا زائچہ ءپاکستان
پاکستان کے بارے میں جیسا کہ پہلے ہم بتاچکے ہیں کہ نیا زائچہ ءپاکستان ہماری نظر میں 20 دسمبر 1971ءبمقام اسلام آباد 14:55 pm ہے اور اس کی بنیادی وجوہات پر خاصی گفتگو ہوچکی ہے،بلاشبہ 1971 میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان جو محاذ آرائی ہوئی اور اس وقت کی مغربی پاکستان کی عاقبت نا اندیش فوجی اور سیاسی قیادت نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر جو کچھ کیا اس سے پڑوسی ملک بھارت نے فائدہ اٹھایا، 25 مارچ 1971 کو شیخ مجیب الرحمن نے پاکستان سے علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کردیا، 16 دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکا کے بعد پاکستان کی فوجی قیادت نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کو فوری طور پر اسلام آباد طلب کیا اور 20 دسمبر کو وہ اسلام آباد پہنچے، پاکستان کرونیکل از عقیل عباس جعفری کے مطابق شام 4 بجے جب وہ ایوان صدر سے روانا ہوئے تو ان کی گاڑی پر پاکستانی پرچم لہرا رہا تھا، اس کا مطلب ہے کہ تقریباً ڈھائی اور تین بجے کے درمیان ٹرانسفر آف پاور اور تقریب حلف برداری کے مراحل طے ہوئے، چناں چہ ہم نے 02:55 pm کا وقت اندازاً رکھا ہے،اس وقت کے مطابق اس وقت اسلام آباد کے افق پر برج ثور کے دو درجہ 35 دقیقہ طلوع تھے، یہی نئے پاکستان کا طالع پیدائش یا لگن ہماری نظر میں درست ہے، ممکن ہے اس وقت میں مزید کمی بیشی کی جاسکے، تحقیق و تجربے کا دامن تنگ نہیں ہے، یہ وقت مقرر کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر زائچے میں پہلے گھر یعنی لگن (Ascendent) کے درجات سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیوں کہ ویدک سسٹم میں زائچے کے دیگر گھروں کے درجات بھی وہی تصور کیے جاتے ہیں یعنی ہر گھر کا آغاز پھر اسی درجے سے ہوتا ہے، ہمارا تجربہ اور مشاہدہ یہ بھی ہے کہ ابتدائی درجات یعنی ایک درجے سے تین درجے تک پاکستان کے لیے بہت حساس ثابت ہوتے ہیں، اس کی مثال آگے آئے گی، چناں چہ ہم نئے زائچہ ءپاکستان میں برج ثور کے ابتدائی درجات ہی کو درست سمجھتے ہیں۔
زائچے کے پہلے گھر میں سیارہ زحل بحالت رجعت 7 درجہ 39 دقیقہ اچھی مضبوط پوزیشن میں قابض ہے، سیارہ مشتری ساتویں گھر برج عقرب میں 26 درجہ 17 دقیقہ اور اسی برج اور گھر میں سیارہ عطارد بحالت رجعت اچھی پوزیشن میں قابض ہے، کیتو تیسرے گھر میں 12:15 درجہ ، شمس 04:23 نہایت کمزور اور خراب پوزیشن میں آٹھویں گھر برج قوس میں، زہرہ نویں گھر برج جدی میں 2 درجہ 59 دقیقہ اور اسی نویں گھر میں قمر 5 درجہ 38 دقیقہ ، راہو 12:15 درجہ ، سیارہ مریخ گیارھویں گھر برج حوت میں دو درجہ 28 دقیقہ قابض ہے۔
بہ وقت پیدائش سیارہ شمس کا دور اکبر (Main period) جاری تھا جب کہ اسی دور اکبر میں دور اصغر سب پیریڈ سیارہ عطارد کا جاری تھا۔
واضح رہے کہ جدید ایسٹرولوجیکل سسٹم کے مطابق طالع یا لگن ثور (Taurus) کے لیے سیارہ قمر ، شمس، عطارد اور زحل فعلی اور عملی طور پر سعد یعنی فائدہ بخش (Functional beneficial) سیارے ہیں جب کہ سیارہ زہرہ، مشتری اور مریخ فعلی اور عملی طور پر نقصان دہ (Functional melfic) سیارے ہیں، راہو کیتو تقریباً ہر زائچے میں نقصان دہ ہوتے ہیں اور ان کے فائدے اور نقصان کے حوالے سے ان کی مخصوص پوزیشن کا جائزہ لینا پڑتا ہے، اسی طرح دیگر سیارگان کے قوت و ضعف کا جائزہ لینا بھی ضروری ہوتا ہے،اس کے مطابق ہی زائچے میں جاری ادوار (Periods) کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے مثلاً جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ سیارہ شمس کا دور اکبر جاری تھا جو 6 دسمبر 1973 تک جاری رہا ،سیارہ شمس زائچے کا سعد سیارہ ہے،چوتھے گھر کا حاکم ہے، اس کا تعلق داخلی معاملات اور عوامی صورت حال سے ہے،زائچے میں آٹھویں گھر میں نہایت کمزور حالت میں اور مصیبت میں ہے،چناں چہ عوام کی اچھی حالت کی نشان دہی نہیں کرتا لیکن اس کا دور اگر فائدہ بخش نہیں ہے ، شمس کی یہ کمزوری ہمیشہ کے لیے عام عوام کی بدحالی و زبوں حالی کا مظہر ہے ، اسی دور اکبر میں عطارد کا دور اصغر جاری ہے جو 31 جولائی 1972 تک جاری رہا، عطارد زائچے کے پانچویں گھر کا حاکم ہے، پانچواں گھر شعور اور دانش ورانہ اور فنکارانہ دلچسپیوں سے متعلق ہے،یہ زائچے میں بھی طاقت ور پوزیشن رکھتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں اعلیٰ درجے کے ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے لہٰذا اس دور میں ملک کو سنبھالنے اور نیا آئین بنانے کے سلسلے میں پاکستان کی سیاسی قیادت نے مثبت انداز میں کام کیا اور بالآخر اپریل 1973 تک آئین سازی کا کام مکمل ہوگیا۔
زائچے کا پہلا گھر جسے طالع کہا جاتا ہے، برج ثور تقریباً تین درجہ ہے،جدید ایسٹرولوجی میں طالع کے درجات کی اہمیت بہت زیادہ ہے،اگر یہ درجہ درست طے ہوجائے تو زائچے کو سمجھنا اور اس کے مطابق سیاروی گردش کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے، عام طور پر درجے کا تعین درست طور پر صحیح وقت پیدائش سے ہوتا ہے، اسی لیے درست وقت پیدائش کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے جب کہ عام طور پر ہمارے ملک میں اس کا خیال نہیں رکھا جاتا، اکثر لوگوں کو تو اپنا وقت پیدائش معلوم ہی نہیں ہوتا، اگر معلوم ہو تو عموماً غلط ہوتا ہے،دس پندرہ منٹ کا فرق عام طور سے ضرور مشاہدے میں آتا ہے، ایک درست زائچے کے لیے اصل وقت وہ ہوتا ہے جب بچہ دنیا میں پہلی سانس لیتا ہے۔
زائچے کے درجات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگالیجیے کہ برج ثور ایک سے زائد ممالک یا اشخاص کا پیدائشی برج ہوسکتا ہے، یہ درجات ہی ہیں جو ان کے حالات میں نمایاں فرق کا سبب بنتے ہیں، مثلاً پاکستان کے زائچے کے درجات تین ہیں، بھارت کا طالع برج بھی ثور ہے اس کے درجات تقریباً سات درجہ ہیں، مصر کا طالع برج بھی ثور ہے اس کے درجات پندرہ ہیں، ملائیشیا کے زائچے کا طالع برج بھی ثور ہے اور طالع کے درجات تقریباً 8 ہیں۔
طالع کے درجات کی اہمیت کیوں ہے؟
درحقیقت ہر زائچہ بارہ گھروں یا خانوں پر مشتمل ہےں، یہ درجات ہی نشان دہی کرتے ہیں کہ کون سا خانہ کہاں سے شروع اور کہاں ختم ہوتا ہے، اسی کی مناسبت سے سیاروں کی گردش سے قائم ہونے والے جیومیٹریکل زاویوں کو سمجھا اور پرکھا جاتا ہے ، انھیں اصطلاحاً ”نظرات“ کہا جاتا ہے اور نظرات ہی نئے واقعات و حالات کی نشان دہی کرتے ہیں، ایک تازہ مثال سامنے ہے، سیارہ مریخ طالع برج ثور کے لیے فعلی ضرر رساں سیارہ ہے، یہ زائچے کے کسی بھی گھر میں حرکت کرے گا تو اس گھر سے متعلق منسوبات کو متاثر کرے گا، اسی طرح سیارہ مشتری اور زہرہ بھی طالع ثور کے لیے فعلی اور عملی طور پر ضرر رساں ہیں، اس سال تقریباً 30 اپریل سے سیارہ مشتری زائچے کے نویں گھر میں داخل ہوا اور ابتدائی درجات یعنی تین درجے پر 30 جون تک رہا، گویا پاکستان کے زائچے کے پہلے ، تیسرے، پانچویں اور نویں گھر سے نظر قائم ہوئی جو نہایت ہی خراب اور ناموافق صورت حال کی نشان دہی کرتی ہے، پہلے گھر کے متاثر ہونے کا مطلب پاکستان کے مکمل حالات کا متاثر ہونا ، تیسرے گھر کے متاثر ہونے کا مطلب ٹرانسپورٹ، ترقیاتی امور، حکومتی فیصلے وغیرہ، پانچویں گھر کے متاثر ہونے کا مطلب بچوں سے متعلق تعلیمی امور وغیرہ جب کہ نویں گھر کا مطلب آئینی و قانونی معاملات ہیں، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ اپریل سے جون تک ان حوالوں سے صورت حال نہایت خراب رہی بلکہ اسی عرصے میں کراچی میں ایک طیارہ بھی تباہ ہوا جس کے نتیجے میں جانی و مالی نقصان بھی ہوا، اپریل سے جون تک کا عرصہ نہایت ہی اہم رہا ہے، اس دوران میں مختلف نوعیت کے اختلافات اور تنازعات بھی عروج پر رہے،خیال رہے کہ زائچے میں چھٹے گھر کا حاکم سیارہ زہرہ نویں گھر میں تین ڈگری پر ہے اور تیسرے گھر کا حاکم قمر تقریباً پانچ ڈگری پر ہے،اس کا مطلب یہ ہوا کہ مشتری کی ٹرانزٹ پوزیشن ان دونوں سیاروں کو بھی بری طرح متاثر کر رہی تھی جس کے نتیجے میں چھٹے گھر کی منسوبات سول و ملٹری سروسز، پڑوسیوں یا اندرون ملک اختلافی مسائل بری طرح متاثر ہوئے، اسی طرح قمر کے حوالے سے تمام کاروبار زندگی معطل ہوکر رہ گیا اور ایک بڑا حادثہ بھی پیش آیا۔