2023 کے لیے ناسا کی تحقیق کے مطابق عالمی موسمیاتی الرٹ
گزشتہ مہینے جنوری کے کالم میں اس سال کی نئی سیاروی گردش سے متعلق کچھ گزارشات ہم نے اپنے قارئین کے گوش گزار کی تھیں جن کا تعلق زیادہ تر پاکستان سے تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک پاکستان ہی کیا نئی سیاروی گردش پوری دنیا کو ایک بڑے خوف ناک چیلنج کی جانب لے جارہی ہے،اگرہمارے قارئین کو یادہو کہ ہم نے 2020-21 ءمیں ہونے والے عظیم سیاروی اجتماعات کے حوالے سے نشان دہی کی تھی کہ آئندہ بیس سال دنیا کی تاریخ میں نہایت اہم اور پوری دنیا کو یکسر تبدیل کرنے والے ہوں گے،معاشرتی، ارضیاتی، اقتصادی اور سیاسی ڈھانچہ کوئی نیا رنگ و روپ اختیار کرنے جارہا ہے،دنیا ایک نئی کروٹ لے رہی ہے،حد سے زیادہ مادّہ پرستی ، خود غرضی ، سفاکی اور زمینی حقائق کی اہمیت نمایاں ہونے جارہی ہے،روحانی اور مذہبی اقدار کا زور ٹوٹ رہا ہے،آئین و قانون بھی ہمارا منہ دیکھتے نظر آئیں گے،اب وہی آئین و قانون ہوگا جو ہمیں اپنے مفاد میں نظر آئے گا،یہ صورت حال پوری دنیا میں یکساں ہوگی۔
مادہ پرستی ، خود غرضی، سفاکی اور زمینی حقائق پر زور کی ابتدا تو اسی وقت سے شروع ہوچکی تھی جب سیارہ پلوٹو نے برج جدی میں قدم رکھا تھا، پلوٹو ایک ایسا سیارہ ہے جو کایا پلٹ کے لیے مشہور ہے،یہ موت کے بعد نئی زندگی کا پیام بر ہے،ایک برج میں تقریباً 21 سال قیام کرتا ہے،برج جدی خاکی برج ہے اور منقلب ہے،گویا تبدیل ہوتے ہوئے زمینی عوامل اس کے زیر اثر آچکے ہیں۔
دوسرا اہم سیارہ نیپچون ہے جو گزشتہ 14 سال سے برج دلو میں گردش کر رہا ہے لیکن گزشتہ سال 2022 میں 13 اپریل سے 17 ستمبر تک برج حوت کے ابتدائی درجات پر رہا ، پاکستان اور دنیا بھر میں ایک نئے انقلاب نے جنم لیا ، نیپچون کو پراسرار سیارہ کہا جاتا ہے،یہ محیّر العقول حالات و واقعات تخلیق کرتا ہے،دھوکا اور فریب لاتا ہے،برج دلو ایک ہوائی برج ہے، مزید یہ کہ روایت شکنی اور انوکھے رنگ ڈھنگ اس سے منسوب ہیں، برج دلو میں نیپچون کی 14 سالہ موجودگی نے دنیا کو ایک فریب میں مبتلا رکھا، انھیں اندازہ ہی نہیں ہوسکا کہ وہ مستقبل میں کس سمت بڑھ رہے ہیں،ایک بار پھر اس سال فروری سے نیپچون اپنے ذاتی برج حوت میں داخل ہورہا ہے، یہ آبی برج ہے اور نئی تخلیق و عجائبات اس کا وصف ہیں لہٰذا آنے والے 14 سالوں میں ہمیں نئے عجائبات اور دنیا میں نئی غیر معمولی تخلیقات کا سامنا ہوگا، بہت سے فریب نظروں میں آئیں گے اور ہمیں نہایت حقیقت پسندی کے ساتھ ان سے نمٹنا ہوگا،گزشتہ سال نیپچون برج حوت کے ابتدائی درجات پر رہا تو ہم نے دیکھا کہ پیٹرول کے ایک بڑے بحران نے جنم لیا ، نیپچون کا اثر مائع اشیا پر نمایاں ہوتا ہے،دنیا بھر میں پیٹرول کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا،بارشیں ہوئیں، سیلاب آئے، اس سال فروری سے آخر دسمبر تک نیپچون ایک بار پھر اسی پوزیشن پر برج حوت میں ہوگا، برج حوت بھی آبی برج ہونے کی وجہ سے مائع اشیا سے متعلق ہے،توقع رکھنا چاہیے کہ اس سال بھی شدید نوعیت کی بارشیں ،سیلاب یا کوئی سونامی دنیا کے لیے خطرے کا باعث ہوسکتے ہیں،ساری دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں (Climate change) کا رونا رو رہی ہے،ایسٹرونومی کے ماہرین ماحول کی اس تبدیلی کو زمین کے جھکاوکا سبب قرار دے رہے ہیں،عالمی فلکیاتی ریسرچ سینٹر ناسا (Nasa) کی تحقیق کے مطابق ہماری زمین قطب شمالی (North pool) سے تقریباً 24 درجہ جھکاو¿ میں آگئی ہے اور یہ زمین پر بسنے والی مخلوق کے لیے موسمیاتی ہائی الرٹ ہے۔
ناسا کی تفصیلی رپورٹ کا اردو ترجمہ اپنے دلچسپ اور دل نشین الفاظ میں ہمارے بڑے عزیز دوست وسعت اللہ خاں نے کیا ہے جو ایک طویل عرصہ بی بی سی سے وابستہ رہے اور آج کل ڈان ٹی وی پر ایک نہایت ہی منفرد اور دلچسپ پروگرام کرتے ہیں جس کا نام ہے”ذرا ہٹ کے“ وسعت اللہ خاں ایک منفرد کالم نگار بھی ہیں،بات کرنے کے نرالے ڈھنگ جانتے ہیں،زیر نظر تحریر میں بھی زبان و بیان پر ان کی گرفت اور الفاظ کے چناو¿ اور برتاو میں ان کا مخصوص اسلوب نمایاں ہے،پڑھیے اور سر دھنیے۔
”کم از کم تین عشرے قبل ماحولیاتی ماہرین نے چیخ چیخ کر گلا بٹھانا شروع کیا کہ ہم موسم کے رتھ پر سوار تیزی سے میدان حشر کی جانب رواں ہیں تو ہم نے کہا” یہ سائنس داں تو ہوتے ہی پاگل ہیں، انھیں دھمکانے کے سوا کوئی کام نہیں آتا“
جب پانچ برس پہلے پہلی خبر آئی کہ انٹارکٹیکا میں درجہ حرارت بیس درجہ سینٹی گریڈ کی سطح پر آنے کے سبب لاکھوں برس پرانی برف سے ڈھکی چٹانیں ننگی ہورہی ہیں تو ہم نے کہا ،ہنوز انٹارکٹیکا دوراست۔
جب گزشتہ برس کینیڈا اور امریکا کے مغربی ساحل پروینکو ور اور سیاٹل کے اضلاع میں درجہ حرارت نے پہلی بار پینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ کا ریکارڈ قائم کیا تو ہم نے فرض کرلیا کہ یہ تو محض حسن اتفاق ہے۔
جب پچھلے سال برمنگھم میں عالمی ماحولیاتی سربراہ کانفرنس کے موقع پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ شاید ہمارے ہاتھ سے وقت نکل چکا ہے، درجہ حرارت میں تیز رفتار تبدیلی بتارہی ہے کہ اب سے آٹھ برس بعد دنیا کے کئی خطوں میں زندگی ناقابل برداشت ہوجائے گی، ہم نے کہا بڈھا سٹھیا گیا ہے، ایسے تھوڑی ہوتا ہے مگر آج کا موسم بتارہا ہے کہ کوئی سائنسداں یاخطرے کا بگل بجانے والا مدبر نہیں بلکہ ہم سٹھیائے ہوئے ہیں، مجھے وہ خدائی فرمان بے طرح یاد آرہا ہے کہ ”ہم کسی قوم پر عذاب اتارنے سے پہلے اس کے حواس(عقل) چھین لیتے ہیں“ ویسے بھی مصیبت کو تنہا آتے ہمیشہ ڈرلگتا ہے لہٰذا جوڑی یا جھنڈ میں آتی ہے، پہلے کوویڈ نے دنیا الٹ کر رکھ دی، پھر روس نے یوکرین پر چڑھائی کردی، یوں عالمی منڈی میں ایندھن اور غذائی اجناس مہنگی ہونے کے سبب ترقی پذیر دنیا کی کمر تہری ہونے لگی، اب ہم جیسے پس ماندگان کو مون سون کا روپ دھار کر آنے والی آسمانی بلا بہائے لیے جارہی ہے اور ہرے ہرے کے عادی یورپ و امریکا میں خشک سالی نے پنجے گاڑ دیے ہیں، آخری دمادم مست قلندر شروع ہوچکا ہے، مئی اور جون میں پرتگال سے اٹلی تک جنگلات میں آتشزدگی کی خبریں آتی رہیں، ہلاکتیں کم ہوئی مگر ہزاروں لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانا پڑا، جو بوڑھے کوویڈ سے بچ نکلے تھے وہ غیر معمولی درجہ حرارت کی تاب نہ لاسکے، گرمی اتنی بڑھی کہ جولائی میں پرتگال سینتالیس سینٹی گریڈ، لندن اکتالیس اور نیدر لینڈ چالیس سینٹی گریڈ پر دہک رہا تھا۔
جب سے درجہ حرارت ریکارڈ ہونا شروع ہوا تب سے اب تک مذکورہ مقامات پر معلوم تاریخ میں کبھی اتنی گرمی نہیں پڑی، یورپ کے بیشتر ممالک میں انیس سو تیس کے عشرے کے بعد پہلی بار موسمیاتی ایمرجنسی نافذ کرنا پڑ گئی، درجہ حرارت اوپر نیچے ہونے کے نتیجے میں پہاڑوں پر بھی برف کم پڑی، چناں چہ دریاو¿ں اور جھیلوں میں بھی پانی کم ہونے لگا اور اتنا کم ہوگیا کہ تہوں میں صدیوں سے چھپے آثار نمودار ہونے لگے، مثلاًیہ تو آپ نے خبروں میں سن ہی لیا ہوگا کہ وولگا کے بعد دوسرا بڑا یورپی دریا ڈینیوب جو جرمنی کے بلیک فاریسٹ سے براستہ آسٹریا، سلوواکیہ، ہنگری، سربیا، بلغاریہ سے ہوتا ہوا رومانیہ پہنچ کر بحیرہ اسود میں جاگرتا ہے، اس میں پانی کی سطح بعض مقامات پر پندرہ فٹ تک گر گئی، چناں چہ دو درجن سے زائد ان جرمن جنگی جہازوں کے ڈھانچے بھی فاش ہوگئے جو دوسری عالمی جنگ کے اواخر میں سوویت یونین کے ہاتھ لگنے کے خوف سے بحیرہ اسود کی جانب فرار ہوتے ہوئے ڈینیوب میں جگہ جگہ پھنستے چلے گئے، گزشتہ ماہ کی ریکارڈ گرمی میں ڈینیوب کے پانی کا درجہ حرارت جرمنی کے بویریا صوبے میں پچیس ڈگری سینٹی گریڈ تک تپ گیا، چناں چہ آبی آکسیجن کی قلت کے سبب ڈینیوب کی ٹراو¿ٹ اور دیگر مخلوق بقائی خطرے سے دوچار ہوگئی، جرمنی کی پہچان دریا رائن سوئٹزر لینڈ میں کوہ آلپس سے شروع ہوکر لین چسٹائین کو چھوتا آسٹریا سے جرمنی میں داخل ہوکر براستہ فرانس نیدر لینڈ پہنچ کر بارہ سو تیس کلو میٹر کے سفر میں ڈھویا آبی بوجھ بحیرہ شمالی میں جا پھینکتا ہے، چند ہفتے پہلے یہی رائن اتنا گہرا اور رواں تھا کہ تیل، گیس اور کوئلہ بردار بڑے بحری جہاز بھی آسانی سے گزر جاتے تھے، پچھلے ایک ماہ سے دریا رائن میں قلت آب کے سبب چھوٹے بحری جہازوں کی آمدورفت بھی محال ہوگئی، جب کہ رائن کا وہ حصہ جو نیدر لینڈز میں داخل ہوتا ہے اس میں پانی بطور تلچھٹ ہی باقی ہے اور ہلکی پھلکی ہاو¿س بوٹس بھی کیچڑ میں پھنسی معذور کھڑی ہےں، جرمنی اور سلوواکیہ میں بہنے والے دریا ایلب کے ڈوبے کنارے ابھر آنے سے سینکڑوں برس پرانے وہ پتھر بھی سامنے آگئے جو پرکھوں نے قحط سالی سے خبر دار کرنے کے لیے لگائے تھے۔
ان میں سے ایک پتھر پر سولہ سو سولہ میں کندہ کی گئی یہ تحریر صاف صاف پڑھی جاسکتی ہے کہ ” جب تم مجھے دیکھو تو اپنے نصیب پر ضرور رونا“ شمالی اٹلی میں پچھلے ستر سال کی بدترین خشک سالی کے سبب شمالاً جنوباً بہنے والا سب سے بڑا دریا پو معاون ندی نالے خشک ہونے کی وجہ سے جانکنی کے عالمی میں ہے، سطح آب بہ ایں جارسید کہ دوسری عالمی جنگ میں نہ پھٹنے والا ہزار پونڈ کا ایک سالم بم بھی اب دریا کی تہہ سے نکال لیا گیا ہے، فرانس کی ستر فیصد بجلی جوہری ری ایکٹرز سے پیدا ہوتی ہے، اکثر ری ایکٹرز آبی کناروں پر ہیں تاکہ ری ایکٹر کے مرکزی حصے کو مسلسل ٹھنڈا رکھا جاسکے لیکن دریائے غون اور گرونے کے پانی کا درجہ حرارت پچیس ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کرنے کے سبب ایک ایٹمی ری ایکٹر کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے بھی یہ دریائی پانی استعمال نہ ہوسکا جب کہ دریا لو غوو میں پانی اتنا گھٹ گیا کہ لوگ باگ پل استعمال کرنے کے بجائے پیدل ہی دریا عبور کر رہے ہیں، فرانس کے ہمسائے اسپین کا حال اور برا ہے، دریائی پانی کی مقدار چالیس فیڈ رہ گئی ہے اور شمالی صوبوں میں اتنی خشک سالی ہے کہ بہت سے دیہاتوں کے لیے پینے کے پانی کی راشننگ کرنا پڑ گئی۔
ہمارے سابق آقا برطانیہ کا حال بھی اچھا نہیں، گلوسٹر شائر کاونٹی سے شروع ہوکر لندن سے گزرتا رود بار انگلستان میں گرنے والا ٹیمز پچھلے ڈیڑھ ماہ سے اپنی ہی پیاس نہیں بجھا پارہا جب کہ سمندر کے دوسری جانب امریکا میںبھی حال بے حال ہے، وسطی اور جنوبی ریاستوں پر خشک سالی کا آسیب چھایا ہوا ہے، سب سے بڑی قومی مصنوعی جھیل میڈ کی رگ حیات دریا کو لوریڈو ہے، یہ جھیل ریاست نیوادا، کیلی فورنیا، ایریزونا اور نیو میکسیکو کے دو کروڑ شہریوں کو میٹھا پانی فراہم کرتی ہے، اب یہ جھیل میڈ سکڑ رہی ہے، آبی گنجائش کا صرف ستائیس فیصد پانی جھیل میں باقی ہے، چناں چہ اس کی تہہ سے شراب کے بیرلز میں بند وہ لاشیں بھی نکل رہی ہیں جنھیں پچاس کلو میٹر پرے عظیم ترین عالمی جوا خانے لاس ویگاس کی چکا چوند کے پیچھے متحرک مافیاو¿ں نے مخبری یا بے ایمانی کے جرم میں ہلاک کرکے تیس چالیس برس پہلے اس جھیل میں پھینک دیا تھا، ایک لاش کی کنپٹی میں تو گولی کا سوراخ بھی واضح ہے، حجم کے اعتبار سے سب سے بڑی امریکی ریاست ٹیکساس کا ستاسی فیصد رقبہ معتدل یا انتہائی خشک سالی کی زد میں ہے، ریاست کے وسط میں بہنے والے ایک دریا کے سوکھنے کے بعد اس کی تہہ پر ایک سو تیرہ ملین برس پرانے ڈائینو سار کے قدموں کے نشانات دوبارہ دکھائی دینے لگے ہیں، پہلے ہم نے کرہ ارض کے ساتھ جی بھر کے بدمعاشی کی، اب کرہ ارض ہمیں ڈبو کر یا پیاسا مار کے انتقام لے رہا ہے، یہ محض گزشتہ یا موجودہ برس کی کوئی اتفاقیہ حقیقت نہیں ہے مگر اب بھی ہم ماننے کو تیار نہیں کہ حیاتیاتی بقا کا جہاز اب آخر تک ہچکولے دینے والے طوفان مسلسل میں گھر چکا ہے۔
یہی مستقبل کا نیا معمول ہے، بھلے اچھا لگے یا برا، فطرت کے ٹھینگے سے“۔
کیوں ڈھونڈ رہے ہو کسی دیوار کا سایہ
یہ دھوپ تو ہر رخ سے پریشان کرے ہے