ہماری زندگی کا ایک طویل عرصہ اسی دشت کی سیاہی میں گزرا ہے، اس موضوع پر ہم نے کئی کتابیں بھی تحریر کی ہیں اور ہزاروں مضامین بھی مختلف اخبارات و رسائل میں لکھے ہیں، ہمارے نزدیک علم نجوم نہ غیب کا علم ہے اور نہ قسمت کا حال، اس کی بنیاد علم ریاضی اور سیاروی گردش پر رکھی گئی ہے، ہماری کہکشاں میں مسلسل گردش کرتے ہوئے سیارگان اور باہمی طور پر مختلف جیومیٹریکل اشکال ترتیب دیتے سیارے اپنے ارتعاش سے دنیا پر جو اثرات مرتب کرتے ہیں ان کے مطالعے کا نام ایسٹرولوجی ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ وقت کی تاثیرات کی کیا اہمیت ہے؟ یہ علم ہزاروں سال قدیم ہے اور مسلسل تحقیق و تجربے کی بھٹی سے گزر کر آج دنیا میں جس مقام پر ہے اس کا اندازہ صرف اس حقیقت سے کیا جاسکتا ہے کہ جدید ایسٹرولوجی کے بانی پروفیسر وی کے چوہدری نوبل انعام کے لیے نومنی ہوئے، دنیا بھر میں اس علم کی بنیاد پر ایسٹرولوجیکل سافٹ ویئرز لاکھوں کی تعداد میں دستیاب ہیں جو اس بات کا ثبوت ہےں کہ یہ ایک سائنسی علم ہے۔
دنیا بھر میں اس علم سے دلچسپی رکھنے والے بھی لاکھوں ہیں اور اس کی مخالفت کرنے والے بھی لاکھوں ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں طرح کے افراد خود یہ نہیں جانتے کہ درحقیقت ایسٹرولوجی کیا ہے، ادھر اُدھر کی سنی سنائی باتوں اور بعض مذہبی نظریات کی بنیاد پر جو بے بنیاد ہیں کسی بھی علم کو رد کردینا یا ہدف تنقید بنانا ایک نامناسب رویہ ہے، ایسے افراد سے ہم معذرت خواہ ہیں۔
جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا تھا کہ علم نجوم (Astrology) دنیا بھر میں مقبول بھی ہے اور مطعون بھی ہے،بے شمار لوگ اس سے رہنمائی کے طالب ہوتے ہیں اور بے شمار اس علم پر یقین نہیں رکھتے، ہم اس کی وجوہات پر گفتگو کرنا وقت کا زیاں سمجھتے ہیں لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ دنیا بھر میں اس کی بہت سی اقسام رائج ہےں اور اکثریت کا انداز اور طور طریقے ستارہ شناسی سے زیادہ ستارہ پرستی پر مبنی ہیں، معروف اقسام میں ویسٹرن سسٹم جسے یونانی علم نجوم بھی کہا جاتا ہے، سرفہرست ہے، دوسرے نمبر پر ویدک سسٹم جسے عرف عام میں ہندی جوتش کا نام دیا گیا ہے،برصغیر انڈوپاک اور اب پوری دنیا میں مقبول عام ہے، یہ دونوں اسکول آف تھاٹ یونانی دیومالا اور ہندودیومالا سے بری طرح متاثر اور آلودہ ہیں اور بے شک ایسے نظریات کا پرچار کرتے ہیں جو قدیم یونانی اور بابلی دور کی ستارہ پرستی کا مظہر ہیں، بیسویں صدی عیسوی اس اعتبار سے ایک ممتاز صدی ہے جس میں ایسے باطل نظریات اور عقائد سے اس سائنسی علم کو پاک کیا گیا او اس کی بنیادیں خالص سائنسی اصولوں پر استوار کی گئیں، اس حوالے سے جیسا کہ ہم نے پہلے نشان دہی کی پروفیسر وی کے چوہدری اور ان کے حلقہ ءاثر سے تعلق رکھنے والے ایسٹرولوجرز کا کام نمایاں ہے جو جدید تعلیم یافتہ طبقے میں نہایت تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔
دونوں بڑے اور نمایاں طریق کار کے درمیان ایک بنیادی فرق زمین کے مسلسل جھکاو¿ کے سبب پیدا ہونے والے درجات کا ہے، یہ فرق اب تقریباً 24 ڈگری تک آچکا ہے جسے اصطلاحی طور پر ایانامسا کہتے ہیں، ویسٹرن سسٹم اس فرق کو تسلیم نہیں کرتا، ویدک سسٹم اس فرق کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے، اس فرق کی وجہ سے کسی برج یا سیارے کی درست پوزیشن پر اختلاف واقع ہوتا ہے، مثلاً بے شمار لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ان کی پیدائش اگر 21 جنوری سے 19 فروری کے درمیان ہوئی ہے تو ان کا شمسی برج (Sun sign) دلو (Aquarius) ہے، یہ ویسٹرن سسٹم کے مطابق ہے، جب کہ ویدک سسٹم کے مطابق برج دلو کا عرصہ 24 ڈگری کے فرق سے 15 فروری تا 15 مارچ ہوگا، اسی طرح اگر کوئی سیارہ ویسٹرن سسٹم کے مطابق کسی برج میں حرکت کر رہا ہے تو ویدک سسٹم کے مطابق ممکن ہے وہ کسی دوسرے برج میں حرکت پذیر ہو۔
امید ہے دونوں معروف سسٹم کا بنیادی فرق سمجھ میں آگیا ہوگا، دونوں کے درمیان درستی کا فیصلہ ہمارے نزدیک صرف تجربے سے ہوسکتا ہے اور یہ بات بالکل سائنسی اصول کے مطابق ہے۔
چند موٹی موٹی باتیں علم نجوم کے حوالے سے بیان کرنا ضروری تھا، ایک اور اہم بات کی وضاحت بھی ضروری ہے، علم نجوم جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا وقت کو سمجھنے کا علم ہے ، ایک انگریزی مقولہ ہے (Astrology is a knowlegde of the time) چناں چہ کسی اہم واقع کا ظہور اس وقت کی فلکیاتی پوزیشن کو واضح کرتا ہے،اس حوالے سے تاریخ، مہینہ، سال، وقت، عرض البلد، طول البلد نہایت اہمیت کے حامل ہیں، کسی شخص کی پیدائش یا کسی ملک کی یا کسی شہر کی پیدائش یا کسی واقع کا ظہور پذیر ہونا دائرئہ بروج کی پوزیشن اور ان میں حرکت کرتے ہوئے سیاروں کی پوزیشن اور پھر ان کے درمیان باہمی طور پر قائم ہونے والے جیومیٹریکل زاویوں کی پوزیشن اس وقت کی اہمیت پر روشنی ڈالتی ہے، گویا اس واقعے سے ایک نئے کائناتی سائیکل کا آغاز ہوتا ہے، یہ سائیکل درمیان میں کس نوعیت کے حالات و واقعات کی نشان دہی کرسکتا ہے اور اس کا اختتام کہاں اور کس طرح ہوگا، یہ ایک ماہرانہ مطالعاتی تجزیہ اور جائزہ ہے، چناں چہ تاریخ پیدائش وغیرہ کی اہمیت اپنی جگہ اہم ہے، ہمارے ملک میں لوگ نام سے یا نام کے پہلے حرف سے زائچے بناتے ہیں جو بالکل نامناسب اور غیر معتبر طریقہ ہے، اسی طرح ہمارے ملک میں اکثر ماہرین نجوم ٹی وی پر پیش گوئیاں کرتے نظر آتے ہیں تو ہمیں حیرت ہوتی ہے، وہ اصول و قواعد کے برخلاف بغیر کسی بنیاد کے مجذوبانہ انداز میں دعوے کر رہے ہوتے ہیں، مثلاً پاکستان یا کسی پاکستانی یا غیر ملکی شخصیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ کبھی یہ نہیں بتاتے کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ کیا ہے،ان کے نزدیک پاکستان کا یا کسی شخصیت کا درست زائچہ ءپیدائش (Birth chart) کیا ہے؟ درست تاریخ پیدائش، وقت پیدائش، پیدائش کا شہر وغیرہ کیا ہے؟ اور اس برتھ چارٹ میں ایسی کون سی سیاروی گردش جاری ہے جس کی بنیاد پر وہ کوئی پیش گوئی کر رہے ہیں، پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں ان اصول و قواعد کو اہمیت دی جاتی ہے، تاریخ پیدائش وغیرہ کی بنیاد پر ایسٹرولوجرز نے جو بھی زائچہ تیار کیا ہے وہ اسے سامنے لاتا ہے،اس کے بعد کوئی بات کرتا ہے، اس سے قطع نظر کہ اس کا تیار کردہ زائچہءپیدائش کس حد تک درست ہے یا غلط ہے اور جو سیاروی گردش زیر بحث ہے، اس کے نتائج کس حدتک وہ درست طور پر اخذ کر رہا ہے یا اس میں کوئی غلطی کر رہا ہے، یہی ایک حقیقی علمی طریقہ ہے جو کم از کم پاکستان میں ہمیں نظر نہیں آتا، دنیا بھر میں رائج ہے۔
مذہبی اختلاف
جیسا کہ پہلے بھی نشان دہی کی ہے کہ قدیم علم نجوم ستارہ شناسی سے زیادہ ستارہ پرستی کی طرف دنیا کو لے گیا تھا اور اسی بنیاد پر تقریباً تمام ہی آسمانی مذاہب نے اس کی مخالفت کی ، مشرق ہو یا مغرب دونوں جانب اس کی بنیادیں ایسے ہی خطوط پر کھڑی کی گئیں جو مکمل طور پر شرکیہ ہیں، مغرب میں ان بنیادوں کے بانی مبانی بطلیموس ہیں جن کا عہد غالباً ابتدائی عیسوی صدی ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ علم نجوم بطلیموس سے پہلے مغرب میں نہیں تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دستاویزی یا کتابی شکل میں بطلیموس نے مرتب کیا اور مشرق میں تین ہزار بیس قبل مسیح میں پراسرا اس علم کے ابتدائی لوگوں میں نظر آتا ہے، اس کی کتاب پاراسارا ہوراشاستر دستیاب ہے اور اب سنسکرت سے انگلش میں ترجمہ ہوچکی ہے، یہ فیصلہ آج تک نہیں ہوسکا کہ یہ علم مغرب میں پہلے شروع ہوا یا مشرق میں۔
اس علم کے ابتدائی ماہرین نے جو بنیادیں مقرر کیں ان میں سیارگان اور بروج کی حیثیت دیوی دیوتاو¿ں جیسی مقر کردی، جس کی بنیاد پر بے شمار عبادت گاہیں وجود میں آگئیں اور سیارگان کی پرستش کا کاروبار شروع ہوگیا، اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
ان قدیم نظریات کے تحت یہ طے کرلیا گیا کہ سیارہ شمس زندگی دینے والا ہے تو سیارہ زحل تباہی و بربادی اور نحوست کا نشان ہے اور سیارہ مریخ جلاد فلک ہے کہ تمام جنگ و جدل ، قتل و غارت اسی کے سبب ہے، سیارہ مشتری سعادت اور دولت کا ذریعہ ہے ، سیارہ زہرہ حسن و خوبصورتی، محبت اور امن کی دیوی ہے وغیرہ وغیرہ۔
چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی قدیم یعنی کلاسیکل علم نجوم میں یہی نظریات عام ہیں، ہمارے پاکستانی اور انڈین ایسٹرولوجر لوگوں کو سیارہ زحل کی ساڑھ ستی سے ڈراتے رہتے ہیں، مریخ کی غضب ناکی سے خوف زدہ کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
مغرب میں بہت پہلے ایسٹرولوجی کو سائنسی اصولوں پر استوار کرنے کا کام شروع ہوا اور اس قسم کے نظریات کو ختم کیا گیا، مشرق میں بھی یہ کام ہوا اور بالآخر اس اہم ترین سائنس کو ایسی تمام خرافات سے پاک کردیا گیا۔
حقیقت یہی ہے کہ ہمارے نظام شمسی میں اپنی اپنی مقررہ رفتار سے حرکت کرتے ہوئے سیارگان قرآنی آیات کے مطابق رب کائنات کے حکم کے پابند ہیں اور اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں، ان میں سے نہ کوئی سعد ہے اور نہ نحس، نہ تباہی کا دیوتا ہے اور نہ جلاد فلک ہے، نہ سعادت افروز ہے اور نہ حسن و خوبصورتی بخشنے والا، جدید تشریحات کے مطابق بے شک سیارہ شمس زندگی کا نمائندہ ہے اور ایسا اللہ کی دی ہوئی صفت کے ذریعے ہے کہ سورج کی روشنی زندگی بخش ہے، سیارہ زحل مسلسل محنت ، کوشش اور جدوجہد کا نمائندہ ہے، سیارہ مریخ انرجی کا نمائندہ ہے، غرض اسی طرح دیگر سیارگان کی جو بھی خصوصیات طویل تحقیق اور تجربے سے مشاہدے میں آئی ہیں وہ یقیناً اللہ ہی کی طرف سے ہےں، بالکل اس طرح جیسے قیمتی جواہرات ، جڑی بوٹیاں اپنے خواص رکھتی ہیں، یہ سیارے بھی اپنے خواص اور اثرات رکھتے ہیں، طویل تجربات اور مشاہدات اس حقیقت کے شاہد ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب کوئی بھی سیارہ سعد و نحس نہیں ہے تو پھر کسی ملک یا شخص کے زائچہ ءپیدائش میں اچھائی یا برائی کا عنصر کہاں سے آگیا؟ اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کسی بھی شخص کے یا ملک کے انفرادی برتھ چارٹ میں ایسٹرولوجیکل اصول و قواعد کے مطابق کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے، وہ اس نظام شمسی میں اپنے مخصوص دن تاریخ ، ماہ و سال اور وقت کے مطابق وجود میںآیا ہے، اس وقت کا مخصوص نقشہ جسے زائچہ یا برتھ چارٹ کہا جاتا ہے اس کے لیے اچھائی اور برائی کے کون سے پیمانے مقرر کرتا ہے، انہی کی بنیاد پر اس کی مثبت یا منفی خصوصیات اور زندگی کے مثبت اور منفی پہلوو¿ں پر تجزیاتی نظر ڈالی جاتی ہے اور نتائج اخذ کیے جاتے ہیں، اس کے مطابق سیارہ شمس اگر کسی کے لیے فائدہ بخش ہوسکتا ہے تو کسی دوسرے کے لیے ضر رساں اور نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے، یہی اصول تمام سیارگان کی زائچہ ءپیدائش میں نشست پر لاگو ہوگا، امید ہے کہ مختصراً ہم اپنی بات سمجھانے میں کامیاب رہے ہوں گے، مکمل تفصیل کے لیے ہماری کتاب ”پیش گوئی کا فن حصہ اول“ دیکھی جاسکتی ہے۔