صرف شمسی برج کی بنیاد پر شخصیت و حالات سے مکمل آگاہی ممکن نہیں
عزیزان من! ہم اس سے پہلے علم نجوم (Astrology) کے حوالے سے بعض غلط فہمیوں اور غلط نظریات کے بارے میں نشان دہی کرچکے ہیں جن میں سرفہرست شمسی برج (Sun sign Astrology) کے تحت اپنا برج اور ستارہ معلوم کرنا اور اپنے حالات سے آگاہی حاصل کرنا شامل ہے۔
شمسی برج اور اخبار و رسائل
ہم نے عرض کیا تھا کہ مغرب میں یہ کاروبار عام ہے اور پاکستان میں بھی اس کی تقلید کی جاتی ہے،اخبارات و رسائل میں شمسی برج کے تحت ہفتہ وار ، ماہانہ اور سالانہ پیش گوئیاں کی جاتی ہیں اور ہر شخص نہایت ذوق و شوق کے ساتھ ایسے کالم یا مضامین پڑھتا ہے تاکہ وہ یہ جان سکے کہ اس کا ہفتہ ، مہینہ یا سال کیسا گزرے گا لیکن اکثریت کو اس سلسلے میں کافی مایوسی ہوتی ہے،مغرب کا معاملہ پھر بھی بہتر ہے،وہاں اس کام کے لیے اعلیٰ درجے کے ماہرین نجوم کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں اور انہیں اس کام کا بھرپور معاوضہ دیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں صورت حال اس کے برعکس ہے،ہمارے ہاں تو لکھنے والوں کو معاوضہ دینا تو دور کی بات اکثر تو ان کا نام بھی شائع نہیں کیا جاتا بلکہ اکثر اُردو کے اخبارات و رسائل تو مغرب سے شائع شدہ سن سائن ایسٹرولوجی کی کتابیں منگالیتے ہیں اور کسی ترجمہ کرنے والے سب ایڈیٹر کے حوالے یہ کام کردیا جاتا ہے کہ وہ اُردو میں اس کا ترجمہ کردے۔
حقیقی صورت حال یہ ہے کہ چھاپنے والے اور پڑھنے والے ، سب ہی اس کام کو بھرتی کا کام سمجھ کر صرف ضرورت پوری کرتے ہیں،چھاپنے والے اپنے قارئین کی دلچسپی کے ہاتھوں مجبور ہیں اور پڑھنے والے مستقبل میں جھانکنے کے شوق میں اسے ضرور پڑھتے ہیں ، چاہے اس پر یقین کریں یا نہ کریں۔
اس قدر غیر سنجیدہ صورت حال میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسٹرولوجی کا یہ سلسلہ کوئی مفید نتیجہ دے سکے،البتہ یہ ضرور ہے کہ اپنے شمسی برج سے واقفیت اور پھر اس برج کی خصوصیات کا مطالعہ اپنی کمزوریوں اور خوبیوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
ہم نہایت عرق ریزی کے ساتھ تقریباً 6,7 سال تک ملک کے ایک کثیرالاشاعت ہفت روزہ میں یہی کام کرتے رہے ہیں ، ہم سے بھی یہ کہا گیا تھا کہ آپ کا نام نہیں دیا جائے گا لیکن ہم نے اس شرط کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور بالآخر انہیں ہماری بات ماننا پڑی،یہ دُرست ہے کہ ان 6,7 سالوں میں ہم نے 12 برجوں کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا اُس کے لیے دنیا کے مشہور ماہرِینِ فلکیات کی کتابوں سے مدد لی مگر اُس میں ہمارا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ بھی شامل رہا۔
احوالِ واقعی
اس تمام گزارش کا مقصد یہ ہے کہ صرف شمسی برج (Sun sign) ہماری تمام خصوصیات ، ہماری شخصیت ، فطرت، کردار اور زندگی کے حالات وواقعات کا احاطہ نہیں کرتا،خالص علم نجوم کچھ اور چیز ہے جس میں شمسی برج کا کردار نہایت واجبی سا ہے،اہم ترین کردار پیدائشی برج ادا کرتا ہے جس کے بارے میں ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں،یہ برج اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتا جب تک کسی شخص کا وقتِ پیدائش معلوم نہ ہو،اس کے علاوہ قمری برج ، عطاردی برج ، زہروی برج ، مریخی برج یا زحل اور مشتری کے برج وغیرہ کی اہمیت اپنی جگہ ہے،ایک پیدائشی زائچہ (برتھ چارٹ) اپنی ایک الگ دنیا رکھتا ہے،اس کی مجموعی ساخت و پرداخت کسی شخص کے انفرادی تشخص اور حالات وواقعات پر روشنی ڈال سکتی ہے،اس کے لیے ایک مثال ہم آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔
برج جوزا کو ذہانت اور ہوشیاری بلکہ بعض معاملات میں تیزی و طراری اور چالاکی کا برج تسلیم کیا جاتا ہے،یہ ذوجسدین یعنی ڈبل باڈی سائن ہے ، یہ لوگ دہری شخصیت کے مالک ہوسکتے ہیں،اب جن لوگوں کی پیدائش 22 مئی سے 21 جون کے درمیان ہوئی ہو‘ عام طور پر انہیں برج جوزا کے زیراثر سمجھا جاتا ہے لیکن کیا اس دوران میں پیدا ہونے والے تمام افراد ایسے ہی ہوتے ہیں جیسا کہ برج جوزا کے بارے میں مشہور ہے؟یہ سوال نہایت غور طلب ہے جس کا مثبت جواب نہیں مل سکتا کیوں کہ اول تو 22 مئی سے 21 جون تک اگرچہ شمس برج جوزا میں قیام کرتا ہے مگر اس برج کے مختلف حصوں میں جوزوی اثرات کا انداز کافی مختلف ہوتا ہے ،مثلاً ابتدائی حصے میں پیدا ہونے والے افراد یا درمیانی حصے میں پیدا ہونے والے افراد اور آخری حصے میں پیدا ہونے والے افراد ایک دوسرے سے خاصے مختلف ہوں گے اور بالکل ابتدائی یا آخری تاریخوں میں پیدا ہونے والے افراد کی خصوصیات بالکل ہی مختلف ہوں گی کیوں کہ ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ آگے پیچھے کے دو برجوں کی خصوصیات کا امتزاج ہوتے ہیں لہٰذا کوئی بھی شمسی برج ہو اُس پر مکمل انحصار نہیں کیا جاسکتا،شاید اسی لیے بہت سے لوگ جب شمسی برج کے تحت اپنی خصوصیات یا حالات کا مطالعہ کرتے ہیں تو پوری طرح مطمئن نہیں ہوتے اور علم نجوم پر اُن کا یقین کمزور ہوتا ہے،وہ پورے اعتماد کے ساتھ اس علم سے فائدہ نہیں اُٹھاپاتے،بالکل اسی طرح جیسے کسی بیماری کے علاج میں ایک مجرب دوا یا کسی اچھی لیبارٹری کی ٹیسٹ رپورٹ پر بھروسا کیاجاتا ہے۔
خیال رہے کہ برج جوزا کی مثبت خصوصیات بلاشبہ غیر معمولی ذہانت، سیکھنے سمجھنے کی عمدہ صلاحیت اور ورسٹائل ہونا ہے لیکن اس کی منفی خصوصیات میں ہرجائی پن ، غیر مستقل مزاجی ، اعتماد کی کمی ، ذہنی انتشار وغیرہ بھی شامل ہیں،اس اعتبار سے برج جوزا کا حکمران سیارہ عطارد ہے جسے سیمابی کیفیات کا حامل سمجھا جاتا ہے،یہ لوگ نشرواشاعت، ایجوکیشن، ادب و لٹریچر ، آئی ٹی وغیرہ کے شعبے میں غیر معمولی کارنامے انجام دیتے ہیں،آج ہم انٹرنیٹ کے ذریعے جس طرح ساری دنیا سے رابطے میں ہیں اس کا بانی اور خالق بھی ایک جیمنائی تھا۔
اگر زائچے میں یا یوں کہا جائے کہ پیدائش کے وقت عطارد کسی ایسے برج میں ہو جہاں وہ کمزور ہوتا ہے مثلاً حوت میں تو مندرجہ بالا ساری خوبیاں خامیوں میں تبدیل ہوجائیں گی اور پھر ہم حیران ہورہے ہوں گے کہ یہ جیمنائی بچہ یا شخص اس قدر کمعقل اور تعلیم سے بھاگنے والا ، زندگی میں ناکام کیوں ہے ؟
پس ثابت ہوا کہ صرف شمسی برج کی بنیاد پر کسی شخص کی دُرست خوبیوں اور خامیوں کا بھی اندازہ نہیں کیا جاسکتا لیکن ہمارے ہاں ایسٹرولوجی سے دلچسپی رکھنے والے خواتین و حضرات اپنے شمسی برج ہی کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں اور پھر جب نتیجہ دُرست نظر نہیں آتا تو اس علم ہی کی مخالفت شروع کردیتے ہیں۔
دو برجوں کے تعلقات
سن سائن ایسٹرولوجی کی مقبولیت کی وجہ سے ایک اور خرابی عام ہوگئی ہے‘عام لوگ دوافراد کے درمیان تعلقات اور ہم آہنگی بھی ان کے شمسی برج کے تحت جاننے کی کوشش کرتے ہیں مثلاً اکثر ہم سے سوال کرتے ہیں کہ ایک برج حمل کے تحت پیدا ہونے والے لڑکے یا لڑکی کی شادی کسی اوربرج کے تحت پیداہونے والی لڑکی یا لڑکے ساتھ کیسی رہے گی یا برج حمل والوں کے لیے کون سے برج کی لڑکی یا لڑکا مناسب اور موزوں ہوں گے؟
عام طور پراخبارات ورسائل اور بعض سن سائن ایسٹرولوجی کی کتابوں میں بھی دوبرجوں کے درمیان باہمی تعلقات پرروشنی ڈالی جاتی ہے جو حتمی اور یقینی نہیں ہوتی، اس سلسلے میں بعض بنیادی اصول مقرر ہیں مگر وہ زیادہ بااعتماد نتائج نہیں دیتے مثلاً برج حمل والوں کے لیے برج جوزا ‘اسد‘ میزان‘قوس اوردلو والوں کو بہتر سمجھا جاتاہے یا یہ کہ یہ تمام برج آپس میں بہتر تعلقات رکھ سکتے ہیں اور سرطان یا جدی والوں سے اچھے تعلقات قائم کرنے میں دشواری ہوسکتی ہے، اسی طرح دوسرے برجوں کے ساتھ تعلقات مختلف نوعیت کے ہوسکتے ہیں لیکن یہ فارمولا حتمی نہیں ہے اس کی بنیاد پر محبت‘ شادی یا کسی پارٹنر شپ کے لیے قابل بھروسہ فیصلے نہیں کیے جاسکتے کیونکہ ہر شخص عورت یا مرد اپنی ذات میں مخصوص خصوصیات‘ خوبیوں اور خامیوں کامجموعہ ہوتا ہے ‘بیشک ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس قسم کے فارمولے کسی حد تک ایک دوسرے کے لیے کشش کا باعث ہوتے ہیں اور لوگ ایک دوسرے کی طرف کھنچتے ہیں ‘ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں، ان کے درمیان اچھے تعلقات بھی قائم ہوتے ہیں لیکن وہ تعلقات دائمی طور پر کیا حیثیت رکھتے ہیں اس کا اندازہ صرف ان کے انفرادی زائچوں کی روشنی میں ہی لگایاجاسکتاہے، صرف دونوں کے شمسی برج اس مسئلے کا کافی وشافی حل پیش نہیں کرسکتے لیکن عام لوگ اسی غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں۔
نام سے تعلق و ہم آہنگی
پاکستان میں تو صرف نام اور والدہ کے نام سے دوافراد کے درمیان تعلقات اور ہم آہنگی اورخوش قسمتی کوپرکھنے کا رواج عام ہے اوریہ رواج علم اعداد کے نام نہاد ماہرین یا علم جفرکے نام نہاد ماہرین کاپھیلایا ہوا ہے ‘ ہماری خواتین اکثر فون پر یا ای میل کے ذریعے صرف دوفریقین کے نام بتاکر پوچھتی ہیں کہ یہ شادی کامیاب رہے گی یا نہیں ؟ یا فلاں نام کا شخص میرے لیے کیسا رہے گا؟وہ مجھ سے محبت کرتاہے یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔
جب ہم انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ طریقہ غلط ہے ‘اس معاملے میں نام کی کوئی اہمیت نہیں ہے تو وہ حیران ہوتی ہیں کہ نام سے حساب کیوں نہیں لگایاجاسکتا‘ فلاں فلاں تو نام سے ہی حساب لگاکر بتاتے ہیں ۔
ہم کئی بار اس حقیقت کا اظہار کرچکے ہیں کہ نام انسان کی پیدائش کے بعد رکھاجاتاہے اور اسے انسان ہی تجویز کرتے ہیں لیکن تاریخ پیدائش اور وقت پیدائش اللہ مقرر کرتا ہے اور وہی زیادہ اہمیت رکھتی ہے، اسے کبھی تبدیل نہیں کیاجاسکتا جبکہ نام بدل جاتے ہیں‘ بعض لوگ زندگی میں کئی نام بدلتے ہیں لیکن نام بدلنے سے وہ خود نہیں بدلتے اور نہ ہی ان کی فطرت یا قسمت بدلتی ہے کیونکہ یہ سب کچھ ان کی تاریخ پیدائش اور وقت پیدائش کے زیراثر ہے ۔
بہت سے لوگ اس حوالے سے مثالیں بھی دیتے ہیں کہ جناب مشہور فاتح نیپولین بونا پارٹ کو کسی نے مشہورہ دیاتھا کہ وہ اپنے نام کے ہجے (Spelling) تبدیل کرلے توبہت ترقی کرے گا چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور پھر بہت ترقی کی ، ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ بعض لوگوں نے اپنی ناکامیوں سے پریشان ہوکر نام تبدیل کیا اورپھر ان کے حالات بدل گئے تواس معاملے میں بنیادی بات یہ ہے کہ نام کا نمبر اگر تاریخ پیدائش کے نمبر سے ہم آہنگ نہ ہویعنی اس سے میچ نہ کرتاہو تو خرابی پیدا ہوتی ہے اور انسان کی زندگی میں بے ترتیبی اورانتشار پیدا ہوتاہے کیونکہ بلاشبہ اعداد کی قوت سے انکار ممکن نہیں ہے اگر ہماری تاریخ پیدائش کے اعداد اور نام کے اعداد متضاد ہوں گے تو ہمارے کردار وعمل میں بھی تضاد پیداہوگا اور پھر ہماری کارکردگی بھی متاثر ہوگی لٰہذا نام اور تاریخ پیدائش کے نمبروں کو ہم آہنگ اور متوازن رکھنا ضروری ہوتاہے ‘اس طرح پیدائش کے بنیادی نمبروں کی قوت میں مزید اضافہ ہوجاتاہے اور ہماری کارکردگی بہترہوجاتی ہے ‘سمجھ بوجھ کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوجاتاہے لیکن نام کی خرابی سے ہماری بنیادی خصوصیات تبدیل نہیں ہوتیں ۔
اکثر خواتین بچوں کی مستقل بیماری یا غصہ وبدمزاجی ‘تعلیم سے بے رغبتی اور بعض بری عادات کا باعث ان کے نام کوسمجھتی ہیںیا بعض لوگ جو خود کوماہر علم الاعداد‘جفر یا نجوم کہتے ہیں وہ بھی ایسے مشورے دیتے ہیں کہ بچے کا نام بدل دیں‘ یہ نام بھاری ہے حالانکہ کوئی نام ہلکا ہوتا ہے نہ بھاری‘بات صرف اتنی ہوتی ہے کہ وہ نام اس کی تاریخ پیدائش سے میچ نہیں کررہاہوتا یا یوں کہہ لیں کہ اس نام کا نمبر ‘ تاریخ پیدائش کے نمبر سے میچ نہیں ہوتا لٰہذا متضاد نمبروں کی کشمکش شروع ہوجاتی ہے اور بچہ ڈسٹرب رہنے لگتاہے، ایسی صورت میں صرف اندازوں کی بنیاد پرنام تبدیل کرنا ٹھیک نہیں ہوتا‘بچے کی تاریخ پیدائش کے نمبر کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی تبدیلی عمل میں لانی چاہیے۔
جہاں تک نام کے ذریعے دوافراد کے تعلقات اورخاص طور پر ازدواجی تعلقات یا پارٹنرشپ کے بارے میں معلومات کاتعلق ہے تو وہ کبھی قابل اعتماد نہیں ہوسکتااس کے لیے صرف اورصرف علم نجوم کے بنیادی طریقوں سے ہی مدد لی جاسکتی ہے اور دونوں کے زائچوں کی ہم آہنگی کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے جو بہر حال ایک تحقیقی کام ہے، صرف ایک ٹیلی فون کال یا ای میل کے ذریعے عمدہ طریقے سے انجام نہیں پاسکتا البتہ کچھ بنیادی باتوں کا جائزہ ضروری لیا جاسکتا ہے مگر اُس میں بھی شک و شبہے کی گنجائش باقی رہتی ہے ، اس موضوع پر انشاء اللہ آئندہ تفصیل سے روشنی ڈالی جائے گی۔
شمسی برج اور زحل کی ساڑھ ستی
یونانی علم نجوم میں زحل کی ساڑھ ستی کا کوئی تصور موجود نہیں ہے‘درحقیقت یہ اصطلاح ہی ہندی جوتش کی ہے اور ویدک سسٹم میں زحل کی ساڑھ ستی ‘ڈھیّا یا آٹھویں گھر کی نحوست کو قمری برج (Moon Sign) سے دیکھاجاتاہے لیکن ویدک سسٹم کی تقلید میں پاکستانی منجمین نے شمسی برج سے زحل کی ساڑھ ستی کو رائج کردیاجو بالکل غلط ہے‘ پوری دنیا میں اس کا کوئی وجود نہیں ملتا کیونکہ حقیقی یونانی سسٹم میں کسی زائچے کو پڑھنے کے اصول ویدک سسٹم سے مختلف ہیں اور ان اصولوں میں نظراتِ سیار گان کی اہمیت بہت زیادہ ہے لہٰذا پیدائشی شمس سے زحل کاقران ضرور نحس اثرات کاحامل سمجھاجاتاہے اور وہ بھی شمس کے درجات کومدنظر رکھتے ہوئے لیکن شمس سے پہلے اور بعد کے برجوں میں زحل کی موجودگی ہرگز ویدک نظریہ کے مطابق ساڑھ ستی کاروایتی اثر نہیں دیتی لیکن ہم لکیر کے فقیر ہیں ‘تحقیق وجستجو نہیں کرتے حالانکہ جدید ویدک ایسٹرولوجی میں بھی جونئے انقلابات آئے ہیں اس کے مطابق صرف مخصوص حالاتوں میں اور مخصوص طالعات کے لیے زحل کا نحس اثر تسلیم کیاجاتاہے‘ اکثر قدیم نظریات کورد کردیا گیاہے،صرف طالع یا لگن ثور ، سرطان ، سنبلہ اور حوت کے لیے سیارہ زحل چوں کہ انتہائی منحوس تصور کیا جاتا ہے لہٰذا ساڑھ ستی کا اثر بھی ان ہی طالعات پر تسلیم کیا جاتا ہے،باقی طالعات کے لیے چوں کہ زحل سعد ہے لہٰذا ان پر ساڑھ ستی نہیں لگتی لیکن ہمارے ہاں دستور نرالہ ہے اور ساڑھ ستی کے حوالے سے بھی عجیب و غریب نظریات عام ہیں جن میں شمسی برج سے ساڑھ ستی کا تصور بھی موجود ہے۔