معقول علاج کو نظر انداز کرنے کا رجحان

معقول علاج کو نظر انداز کرنے کا رجحان

عارضی آرام دینے والی دواوں کے استعمال کی روایت

مرض، علاج  یا مسئلہ خواہ کسی بھی نوعیت کا ہو اس کے بنیادی اسباب کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ اس حوالے سے ہم اپنی معروضات پیش کرچکے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ضرورت اس بات کی ہے کہ جب بنیادی سبب معلوم ہوجائے تو اس کے خاتمے کے لئے کوشش ضرور کی جائے، مجبوریوں اور معذوریوں کا بہانہ سامنے رکھ کر صورت حال کو جوں کا توں برقرار رکھنے پر اصرار نہ کیا جائے۔

امراض یا مسائل کے حوالے سے مریضوں یا مسائل زدہ افراد کا رویہ کچھ عجیب ہوگیا ہے۔ یعنی انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کوئی بیماری یا تکلیف انہیں کیوں لاحق ہوتی ہے۔ مثلاً نرلہ زکام، معدے کی خرابیاں، بھوک کی کمی یا زیادتی، پیاس کی کمی یا زیادتی، نیند نہ آنا، بلڈپریشر کی کمی بیشی، خون کی کمی، جسمانی کمزوری اور بے شمار تکلیفات ایسی ہیں جس میں لوگوں کی اکثریت مبتلا رہتی ہے اور اکثر ان بیماریوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ کوئی سنگین صورت اختیار کرلیں تب ہی کسی ڈاکٹر یا حکیم سے رجوع کرنے کا خیال آتا ہے۔ ورنہ عام طور سے سلیف میڈیکیشن یعنی اپنا علاج خود کرنے کی روایت اتنی زیادہ بڑھ چکی ہے کہ جہاں کوئی تکلیف زیادہ پریشان کن محسوس ہوئی تو میڈیکل اسٹور سے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق یا اپنے ہی جیسے کسی واقف سے پوچھ کر دوا منگوالی اور کھالی۔

ہمارے معاشرے میں اب ایسے لوگوں کی تعداد بھی بہت بڑھ چکی ہے جو ایلوپیتھک پیٹنٹ دواﺅں کے خواص و اثرات کی ابتدائی شدھ بدھ رکھتے ہیں۔ یہ معلومات کچھ تو دواﺅں کے اشتہارات کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں اور کچھ دیگر ذرائع سے۔ لہٰذا جہاں خاندان یا حلقہ احباب میں کسی نے کوئی تکلیف بیان کی انہوں نے فوراً دوا تجویز کردی۔ دیکھا جائے تو یہ سلسلہ ہمارے معاشرے میں نیا نہیں ہے، قدیم زمانے سے چلاآرہا ہے۔

اب فرق یہ ہوگیا ہے کہ پہلے یعنی آج سے تقریباً 60,70 سال قبل تک چونکہ طب یونانی کا زور تھا اور لوگ جڑی بوٹیوں اور علم الاغذیہ کے بارے میں کچھ نہ کچھ معلومات رکھتے تھے لہٰذا چھوٹے موٹے معاملات میں گھریلو نسخے یا ٹونے ٹوٹکے مروج تھے۔ خاندان یا محلے کے بزرگ افراد اپنے تجربے کی بنیاد پر ایسے نسخے یا علاج تجویز کرتے رہتے تھے لیکن وہ مفید ہونے کے ساتھ ساتھ کسی نقصان یا خطرے سے پاک ہوتے تھے۔

جبکہ ایلوپیتھک دواﺅں کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ان کا اندھا دھند استعمال اپنے سائیڈ افیکٹ یعنی ذیلی اثرات ظاہر کرنے لگتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ ہمارے ہاں یہ روایت بڑھتی جارہی ہے اور شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر لوگ ڈاکٹر اور اسپتالوں کے اخراجات سے بھی بچنا چاہتے ہیں ان کے پاس اس بھاگ دوڑ کے لئے وقت بھی نہیں ہے۔

اس سلسلے میں سب سے زیادہ پریشان کن اور افسوس ناک صورت حال ہمارے معاشرے میں خواتین کی ہے۔ تیسرے درجے کے معاشی بدحالیوں کا شکار خاندانوں کا تو کیا ذکر کیا جائے ان کے لئے تو پیٹ بھرنا ہی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ بیماریوں کا کیا علاج کریں گے لیکن متوسط طبقے کی خواتین کا حال بھی بہتر نہیں ہے۔ وہ بھی ضرورت کے وقت عارضی آرام کے لئے کوئی گولی وغیرہ کھاکر گزارہ کرتی رہتی ہیں۔ ڈاکٹر کے پاس پابندی سے جانا اور علاج معالجے کا خرچ برداشت کرنا ان کے لئے زیادہ عرصے تک ممکن نہیں ہوتا۔

 نتیجے کے طور پر چھوٹی چھوٹی موسمی یا غذائی بے احتیاطی سے پیدا ہونے والی تکالیف بھی رفقہ رفتہ کسی مہلک بیماری کی صورت اختیار کرتی چلی جاتی ہیں مثلاً نزلہ، زکام ہمارے معاشرے کی عام بیماری ہے، اس کی وجوہات میں موسمی اثرات یا غذائی بے احتیاطی شامل ہے۔ جب یہ مرض شدت اختیار کرتا ہے یعنی چھینکیں، آنکھوں یا ناک سے پانی یا رطوبات کا بہنا تو اسے فوراً روکنے کے لئے بہت سی ایلوپیتھک گولیاں بازار میں موجود ہیں۔

چنانچہ ان کے فوری استعمال سے نزلہ رک جاتا ہے۔ مریض سمجھتا ہے کہ وہ ٹھیک ہوگیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ بہتے ہوئے نزلے کو روکنا نہایت خطرناک بات ہے۔ چند دن نہیں گزرتے کے کسی بھی تحریک کے سبب پھر نزلہ ہوجاتا ہے۔ پھر کوئی گولی کھاکر اسے روک دیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ اگر تواتر کے ساتھ زیادہ عرصے تک جاری رہے تو جسم میں پیدا ہونے والی فاسد رطوبتیں خارج ہونے کے بجائے اندر ہی اندر جمع ہوتی رہتی ہیں اور ان کا رخ کسی طرف بھی ہوسکتا ہے۔

اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ نزلہ رکنے کے سبب سے بہراپن، حلق کی خرابیاں، بینائی کی خرابیاں، بالوں کا سفید ہونا یا گرنا، ناک کا گوشت یا ہڈی بڑھنا وغیرہ جیسی خطرناک بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

یہی صورت حال معدے، جگر اور تلی کے امراض کی ہے۔ معمولی نوعیت کی تیزابیت پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی بلکہ معدے کی بعض خرابیوں کو دور کرنے کے لئے اکثر کولڈ ڈرنگ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ سینے میں جلن، کھٹی یا کسی اور قسم کی ڈکاریں وقتاً فوقتاً پیٹ میں درد، قبض، گیسٹرک وغیرہ ایسی شکایات ہیں جو تقریباً عام ہیں اور شاید ہر خاندان کے تیسرے چوتھے فرد کو ان سے واسطہ پڑتا رہتا ہے مگر نہ تو ان کے بنیادی اسباب پر غور کرنے کی زحمت کی جاتی ہے اور نہ ہی معقول علاج پر توجہ دی جاتی ہے۔

البتہ جب تکالیف حد سے بڑھ جائیں تو فوری طور پر مروجہ ایلوپیتھک دوائیں لے لی جاتی ہیں۔ کسی ڈاکٹر سے مشورہ بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا۔

آج ہیپاٹائٹس اے، بی،سی، ڈی وغیرہ کا ہر طرف چرچا ہے۔ معدے کا السر ایک عام سی بات ہوکر رہ گیا ہے اور بھی بہت سے خطرناک امراض دیکھنے میں آرہے ہیں اور ان کا بنیادی سبب چھوٹی چھوٹی تکالیف کے بنیادی اسباب سے غفلت برتنا اور ان کی شدت کو عارضی آرام دینے والی دواﺅں سے کنٹرول کرنا ہے۔

اس حوالے سے اگر مزید تفصیلات بیان کی جائیں تو کئی کالم بھی ناکافی ہوں گے۔ اوپر دی گئیں تھوڑی سی مثالوں سے صورت حال کا اندازہ کرلیں اور بہتر ہوگا کہ سنجیدگی سے مرض کے بنیادی اسباب کو جاننے اور پھر ان کا سدباب کرنے کی کوشش کریں۔

علاج معالجے میں عارضی نوعیت کا آرام دینے والی دواﺅں کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے مگر یہ سلسلہ مستقل اور مسلسل جاری نہیں رہنا چاہئے۔ اگر کوئی بیماری یا تکلیف باربار پریشان کررہی ہے تو پھر سب سے پہلے ان اسباب کی چھان بین کریں جن کی وجہ سے آپ اس تکلیف میں باربار مبتلا ہورہے ہیں۔ سب سے پہلے ان کے خاتمے کی فکر کریں اور پھر معقول طریقے سے اپنا علاج کروائیں۔

آیئے اپنے خطوط کی جانب تاکہ آپ کو یہ شکایت نہ ہوکہ انہیں نظر انداز کردیا گیا ہے۔

كچھ نہ سمجھے خدا كرے كوءی

خ ر، ضلع سانگھڑ سے رقم طراز ہیں۔ ”بھائی جان، میں کافی عرصے سے بہت پریشان ہوں۔ براہ مہربانی مجھے کچھ بتائیں، میں کیا کروں؟ ایک تو میں کاروبار کی وجہ سے بہت پریشان ہوں۔ کوئی کام نہیں لگتا۔ مزدوری کرتا ہوں۔ اگر کوئی کام کرنے کا ارادہ کرتا ہوں تو سستی آجاتی ہے۔ کام کرنے کو دل نہیں کرتا۔

دوسری بات یہ ہے کہ ایک شادی کی، اس کو 3 سال بعد طلاق دے دی۔ دوسری شادی کی، 15 سال وہ بیمار رہی۔ جو کچھ میرے پاس تھا وہ اس کی بیماری پر لگادیا۔ 15 سال کے بعد وہ مرگئی۔ اب ایک اور شادی کی ہے، وہ بھی شادی ہوتے ہی بیمار رہتی ہے۔ دو سال ہوگئے ہیں۔ کسی بیوی سے بھی اولاد نہیں ہوئی، آخر کیا وجہ ہے؟ ٹیسٹ کرائے کوئی خرابی نہیں ہے۔ میری داستان تو بہت بڑی ہے۔ مختصر خط لکھ رہا ہوں امید ہے کہ آپ اسی میں سمجھ گئے ہوں گے۔“

جواب: بہتر ہوتا کہ آپ پوری داستان ہی لکھ دیتے کیونکہ آپ نے اپنی تاریخ پیدائش، نہ بیوی کی تاریخ پیدائش، نہ نکاح کی تاریخ و وقت الغرض کچھ نہیں لکھا، اپنے نام کے سوا…. اس صورت میں کون سا حساب ایسا ہے جس سے ہم آپ کی پریشانیوں اور مسائل کے اسباب کا جائزہ لیں۔ کچھ لوگ نام سے حساب لگانے کی بات کرتے ہیں اور بڑی بڑی باتیں بتانے لگتے ہیں مگر وہ بڑی بڑی باتیں بس یہی ہوتی ہیں کہ تم پر اثرات ہیں۔

کسی نے تعویذ کردیئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس سے زیادہ بڑی اور کوئی بات نہیں بتاتے تو یہ بات بتانے کے لئے تو ویسے بھی کسی حساب کی ضرورت نہیں ہے جس پر چاہے یہ فتویٰ لگادیں۔ ساتھ میں پڑھنے کے لئے وظےفہ دے دیں یا کوئی نقش تعویذ، لوح وغیرہ دے دیں۔ قصہ مختصر یہ کہ نام سے ایسے حسابات نہیں لگائے جاسکتے جن سے کسی شخص کے مسائل کے اصل اسباب پر روشنی پڑسکے۔

آپ نے اپنے خط میں جو ”مختصر داستان“ لکھی ہے۔ وہ کچھ زیادہ ہی مختصر ہے۔ بے شمار سوالات جواب طلب ہیں، سب سے پہلے تو یہی بات جواب طلب ہے کہ آپ کی کام دھندے سے متعلق صلاحیت کیا ہے؟ اگر تعلیم نہیں ہے تو کوئی ہنر بھی آتا ہے یا نہیں؟ پھریہ کہ خود آپ کی ذہنی اور جسمانی صحت کا کیا حال ہے؟ آخر آپ کو سستی کیوں آتی ہے؟ کام کرنے کو دل کیوں نہیں چاہتا؟ پہلی بیوی کو طلاق دینے کی وجہ کیا تھی؟ دوسری بیوی کی بیماریاں کیا تھیں؟ اور اس کا علاج معالجہ کیا ہو؟ تیسری بیوی شادی ہوتے ہی کیوں بیمار رہنے لگی؟

عزیزم، ان سب سوالوں کے جواب تلاش کرنے ضروری ہیں، اور ظاہر ہے یہ کام آپ کے بس کا نہیں ہے اور ہوتا تو آپ کرچکے ہوتے مگر ہم بھی اسی وقت درست رہنمائی کرسکتے ہیں جب آپ اپنے بارے میں مکمل تفصیل سے آگاہ کریں۔

پتھر کون سا موافق رہے گا؟

نادیہ کراچی۔ پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ اس سال کے آخر تک منگنی یا شادی کا امکان ہے۔ اور آپ کے لئے موافق پتھر نیلم، اگر نیلم میسر نہ آئے تو ترملین یا گارنٹ پہن لیں۔

ا پنا کاروبار شروع کرنا بہتر ہے یا نہیں؟

محمد شکیل حیدرآباد۔ آپ کے لئے فی الحال اپنا ذاتی کاروبار شروع کرنا مناسب نہیں ہے۔ ورنہ ناکامی ہوگی۔ البتہ سیلز مین شپ یا کوئی ایسا کام جس میں آپ کو کچھ سیکھنے سمجھنے کا موقع ملے کرنا بہتر ہوگا۔ ویسے بھی آپ کے اندر مستقل مزاجی کی کمی ہے۔ بنیادی طور پر آپ اصول پسند اور سچائی پسند انسان ہیں۔ موجودہ دور کی کاروباری پیچیدگیاں ابھی آپ کی سمجھ میں نہیں آئیں گی اگر آپ کو ایلو پیتھک شعبے میں کمپاﺅنڈر کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا ہے تو آپ میڈیسن کا کام آسانی سے کرسکتے ہیں دواﺅں کی سیلز مین شپ کا کام کریں یا میڈیکل اسٹور کھولنے کیلئے مالی سہولت موجود ہے تو چھوٹے پیمانے پر کام شروع کریں۔

اچھی جگہ رشتہ

مسز ن ۔م کراچی۔ رشتے کے معاملے میں جلدبازی نہ کریں۔ ورنہ امکان ہے کہ کوئی غلط انتخاب کر بیٹھیں گی۔ سیارہ زحل لڑکی کے زائچے میں شادی کے خانے سے گزررہا ہے۔ اس دوران میں نامناسب رشتے آجاتے ہیں۔ اور جلد بازی کا شکار لوگ غلط جگہ پھنس جاتے ہیں۔ ابھی اس کی عمر اتنی زیادہ نہیں ہوئی کہ آپ بہت زیادہ پریشان ہونے لگیں۔ انشاءاللہ اس کا رشتہ اچھی جگہ ہوگا۔ برج حمل، جوزا، اسد، قوس یا دلو والے لڑکے بہتر شریک حیات ثابت ہوسکتے ہیں۔ فی الحال اس کی تعلیم جاری رہنے دیں۔ اچھی تعلیم کے ساتھ، اچھے رشتوں کی توقع رکھنی چاہیے اور آخر اس میں کیا برائی ہے کہ مناسب تعلیم کے بعد اس میں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت بھی پیدا ہوجائے۔

رو زگا ر نہیں ملتا؟

ح۔ا۔م ہالا۔ پہلے بھی آپ کو سمجھایا تھا کہ جگہ تبدیل کرو۔ مگر آپ نے ہماری بات پر شاید دھیان نہیں دیا۔ باقی جو کار خیر آپ کررہے ہیں اسے یہ سوچ کر بند کرنا کہ جب اپنا کام نہیں ہورہا تو دوسروں کے کام کیوں کریں؟ ایک بالکل غلط سوچ ہے۔ آپ جو دوسروں کے کام کررہے ہیں اس کے اجر وثواب کی اللہ سے توقع رکھیں اپنی مادی ناکامیوں کا حساب اس تناظر میں نہ کریں۔ ہمارا پھر یہی مشورہ ہے کہ کسی دوسرے شہر میں جاکر قسمت آزمائی کریں۔